آسام کے درنگ ضلع کے نماٹی گاؤں کی بانس کی ٹوکری بنانے والی ماجدہ بیگم کہتی ہیں، ’’اگر یہ کاروبار ختم ہوا، تو میرے پاس دوسری ریاستوں میں جانے کے علاوہ کوئی اور متبادل نہیں بچے گا۔‘‘
پچیس سال کی دستکار ماجدہ یومیہ اجرت پر کام کرنے والی مزدور اور اکیلی ماں ہیں، جنہیں اپنے ۱۰ سال کے بیٹے اور بیمار ماں کی کفالت کرنی پڑتی ہے۔ وہ مقامی میا بولی میں کہتی ہیں، ’’میں ایک دن میں ۴۰ کھاسا [ٹوکریاں] بنا سکتی ہوں، لیکن اب صرف ۲۰ ہی بُنتی ہوں۔‘‘ مانگ میں کمی کے سبب ماجدہ ۲۰ ٹوکریاں بُننے کے عوض ۱۶۰ روپے کماتی ہیں، جو ریاست میں طے شدہ روزگار کے لیے کم از کم مزدوری ۹۲ء۲۴۱ روپے سے کافی کم ہے (سال ۲۰۱۶ کے لیے کم از کم اجرتوں سے متعلق قانون، ۱۹۴۸ پر رپورٹ)۔
بانس کی ٹوکریاں بیچنے سے ملنے والے منافع پر بانس کی بڑھتی قیمتوں اور سبزی منڈیوں میں ٹوکریوں کی گرتی مانگ دونوں کا اثر پڑا ہے۔ درنگ میں آسام کی دو سب سے بڑی منڈیاں ہیں – بیچیماری اور بالو گاؤں، جہاں سے پورے شمال مشرقی ہندوستان اور دہلی تک زرعی پیداوار کی سپلائی ہوتی ہے۔
جبراً مہاجرت پر جانے کی ماجدہ کی تشویشیں اصلی ہیں۔ حنیف علی (۳۹) کہتے ہیں کہ تقریباً ۸۰ سے ۱۰۰ کنبے ’’بہتر کام‘‘ کی تلاش میں پہلے ہی جا چکے ہیں۔ وہ ہمیں مقامی مدرسہ کے پاس وارڈ اے گھما رہے ہیں۔ کسی زمانے میں تقریباً ڈیڑھ سو خاندان بانس کا کام کرتے تھے۔ اب یہاں کئی گھر خالی پڑے ہیں کیوں کہ دستکار کافی کے باغات میں کام کرنے کے لیے کیرالہ اور کرناٹک چلے گئے ہیں۔
کووڈ۔۱۹ لاک ڈاؤن کے بعد سے فروخت کافی کم ہو گئی ہے۔ سراج علی کہتے ہیں، ’’پہلے ہم ہر ہفتے ۴۰۰ سے ۵۰۰ کھاسا بیچتے تھے، اب صرف ۱۰۰ سے ۱۵۰ ہی فروخت کر پاتے ہیں۔‘‘ سراج (۲۸) اپنا گھریلو بانس کی ٹوکری کا کاروبار چلاتے ہیں۔ وہ مزید کہتے ہیں، ’’سبزی کاروباریوں نے وبائی مرض کے دوران اپنی پیداوار پیک کرنے اور اکٹھا کرنے کے لیے پلاسٹک ٹرے اور بوریوں کا استعمال شروع کر دیا تھا۔ تب ہم اپنی ٹُکری [بانس کی چھوٹی ٹوکریاں] نہیں فروخت کر پاتے تھے۔‘‘
سراج اپنی پانچ رکنی فیملی کے ساتھ وارڈ اے میں رہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے، ’’ہم سبھی کام کرنے کے باوجود ایک ہفتہ میں صرف ۳۰۰۰ سے ۴۰۰۰ روپے ہی کما پاتے ہیں۔ مزدوروں کو ان کی اجرت دینے اور بانس کی خرید میں خرچ کرنے کے بعد میری فیملی کی کمائی گھٹ کر ۲۵۰ سے ۳۰۰ روپے یومیہ ہی رہ جاتی ہے۔‘‘ نتیجہ یہ کہ ان کی فیملی کے کئی رکن کافی کے باغات میں کام کرنے کرناٹک چلے گئے۔ وہ کہتے ہیں، ’’اگر یوں ہی چلتا رہا، تو مجھے بھی جانا پڑے گا۔‘‘
مگر ہر کوئی جا بھی نہیں سکتا۔ گھر میں بیٹھی ایک اور ٹوکری بُنکر جمیلہ خاتون (۳۵ٌ) کہتی ہیں، ’’میں [مہاجرین کی طرح] کیرالہ نہیں جا سکتی، کیوں کہ میرے دو بچے یہاں اسکول جاتے ہیں۔‘‘ گاؤں کے زیادہ تر دوسرے گھروں کی طرح ان کے گھر میں بھی بیت الخلاء یا گیس سیلنڈر کا کنکشن نہیں ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’’ہم پرائیویٹ اسکولوں کا خرچ نہیں اٹھا سکتے۔ اگر ہم باہر جائیں گے، تو بچوں کی پڑھائی برباد ہو جائے گی۔‘‘
بانس کی ٹوکریاں بننے والے گاؤں کے زیادہ تر لوگ بنگلہ دیش کے میمن سنگھ کے مہاجرین کی اولاد ہیں، جو برطانوی حکومت کے دوران اپنے گھر چھوڑ کر آئے تھے۔ تب یہ غیر منقسم بنگال ہوتا تھا۔ ’میا‘ کا لغوی معنی ’محترم‘ ہے، لیکن اکثر آسامی قوم پرست ان بنگلہ رہائشیوں کو ’’غیر قانونی باشندے‘‘ بتانے کے لیے اس لفظ کا ہتک آمیز طریقے سے استعمال کرتے ہیں۔
گوہاٹی سے تقریباً ۱۱۰ کلومیٹر دور نماٹی گاؤں درنگ ضلع میں بانس کی دستکاری کا مرکز ہے، جہاں روایتی طور پر بانس کی ٹوکریاں بُنی جاتی ہیں۔ مقامی طور پر انہیں کھاسا کہتے ہیں۔ یہاں کے کیچڑ بھرے راستے اور گلیاں ہمیں تقریباً ۵۰ خاندانوں کے دو گروہوں کی طرف لے جاتے ہیں، جہاں یہ بنگلہ بولنے والے مسلمان ٹانی ندی کے سیلاب کے میدانوں میں آباد ہیں۔ وہ یا تو گھنے بانس پھوس کے یا ٹین کی دیواروں والے گھروں میں یا کچھ کنکریٹ کے گھروں میں رہتے ہیں۔
علاقہ کا نام کھاسا پٹی ہے، یعنی ’بانس کی ٹوکری کا علاقہ‘ اور یہاں کے زیادہ تر گھر بانس کی ٹوکریوں کے ڈھیر سے گھرے رہتے ہیں۔ چاپوری گروپ میں گھر کے باہر بُنائی کر رہیں ۳۰ سالہ مرشدہ بیگم کہتی ہیں، ’’میری پیدائش سے پہلے سے ہمارے علاقے کے لوگ لال پول، بیچیماری اور بالو گاؤں منڈیوں میں یومیہ اور ہفتہ واری سبزی منڈیوں میں بانس کی ٹوکریاں بیچتے آ رہے ہیں۔‘‘
حنیف کی فیملی کی تین نسلیں اسی کاروبار میں رہی ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’کھاسا پٹی کی بات کرتے ہی لوگوں کو پتہ چل جاتا ہے کہ آپ اسی گاؤں کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔ حالانکہ، ہر کوئی اس پیشہ سے نہیں جڑا ہے، پھر بھی یہیں کھاسا بُنکروں کی پہلی نسل نے اپنا کام شروع کیا تھا۔‘‘
حنیف اس ہنر کو زندہ رکھنے کے لیے سرکاری مدد پانے کی کوشش میں ہیں اور گاؤں میں بانس کے دستکاروں کا رجسٹرڈ سیلف ہیلپ گروپ (ایس ایچ جی) بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہیں امید ہے، ’’اگر سرکار ہمیں ورکشاپ لگانے کے لیے تکنیکی اور مالی مدد دے دے گی، تو یہ ہنر زندہ رہے گا۔‘‘
مسلم برادری نے اس کام کو اس لیے اپنایا تھا، کیوں کہ ان کے پاس زمینیں نہیں تھیں اور وہ کھیتی نہیں کر سکتے تھے۔ وراڈ اے کے ٹوکری بُنکر اور سماجی کارکن ۶۱ سال کے عبدالجلیل کہتے ہیں، ’’بانس کی ٹوکریاں سبزی کے کاروبار کے سلسلے کا اٹوٹ حصہ ہیں، کیوں کہ یہ علاقہ کھیتی پر منحصر ہے۔‘‘
وہ بتاتے ہیں، ’’یہاں کے لوگوں کو اپنی پیداوار بازاروں تک لے جانے کے لیے ٹوکریوں کی ضرورت تھی اور فروش کنندگان کو سبزیاں لانے لے جانے کے لیے انہیں پیک کرنا ہوتا تھا۔ اس لیے ہم نسلوں سے یہ ٹوکریاں بنا رہے ہیں۔‘‘
بانس کی ٹوکریوں کی اونچی قیمتوں کی وجہ خام مال کی خرید میں ہونے والے زیادہ خرچ کو بھی مانتے ہیں۔ چاپوری گروپ کے ۴۳ سالہ بانس دستکار افازالدین کے مطابق، ہر ۵۰ روپے کی ٹوکری کے لیے انہیں تقریباً ۴۰ روپے خرچ کرنے ہوتے ہیں، جس میں بانس، دھاگہ، بنکروں کا پیسہ اور ڈُھلائی کی لاگت شامل ہوتی ہے۔
منسیر علی دو دہائیوں سے زیادہ وقت سے جگہ جگہ سے بانس جمع کر کے بیچیماری بازار میں فروخت کر رہے ہیں۔ منسیر (۴۳) کے مطابق، نقل و حمل اس میں بڑی رکاوٹ ہوتی ہے۔ موٹر گاڑی (ترمیمی) قانون، ۲۰۱۹ کے تحت، اوورلوڈنگ کرنے پر ۲۰ ہزار روپے کا جرمانہ لگتا ہے اور ہر اضافی ٹن وزن پر ۲۰۰۰ روپے دینے پڑتے ہیں۔
حالانکہ، آسام کی دستکاری پالیسی ( ۲۰۲۲ ) میں یہ طے کیا گیا ہے کہ بانس کو مہیا کرانے کی ذمہ داری ریاست کے بانس مشن اور محکمہ جنگلات کی دوسری ایجنسیوں اور پنچایتوں کی ہے۔
قیمتیں بڑھنے کے ساتھ ہی مُنسیر علی کے بڑے گاہک یعنی بانس کی ٹوکری بنانے والے کم ہو گئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’انہیں ہر بانس کی چھڑی ۱۳۰ سے ۱۵۰ روپے میں خریدنی پڑتی ہے۔ اگر انہیں اسے ۱۰۰ روپے میں بیچنا پڑے، تو پھر کیا مطلب ہے؟‘‘
*****
عبدالجلیل کہتے ہیں، کھاسا بنانے کا لمبا چوڑا عمل بانس حاصل کرنے سے شروع ہوتا ہے۔ انہوں نے بتایا، ’’تقریباً ۳۰-۲۰ سال پہلے ہم بانس اکٹھا کرنے درنگ کے گاؤوں میں جاتے تھے۔ مگر جیسے ہی بانس کے باغوں میں کمی کے ساتھ اس کا ملنا دشوار ہوا، کاروباریوں نے اسے کاربی آنگلونگ اور لکھیم پور ضلعوں جیسی دوسری جگہوں یا اروناچل پردیش اور دوسرے پہاڑی علاقوں سے لانا شروع کر دیا۔‘‘
نماٹی کے بہت سے خاندان بانس سے جڑی دستکاری کرتے تھے۔ اب گھر خالی پڑے نظر آتے ہیں، کیوں کہ یہ دستکار کافی کے باغات میں کام کرنے کے لیے کیرالہ اور کرناٹک چلے گئے ہیں
بانس کے پیڑ کو گھر لانے کے بعد، بُنکر خاندان کے مرد ٹوکری کی بنیاد بنانے کے لیے نیچے سے ساڑھے تین فٹ سے ساڑھے چار فٹ تک کے الگ الگ سائز کی بیٹی (پٹیاں) کاٹتے ہیں۔ جوڑنے والی پٹیاں بنانے کے لیے ۱۸، ۱۲ یا ۱۶ فٹ کی پٹیاں درمیان سے کاٹی جاتی ہیں اور پھر اوپری سرے کا استعمال ٹوکری کے اوپری حصہ کو پورا کرنے کے لیے پٹیاں بنانے میں ہوتا ہے۔
نسبتاً موٹی پٹیوں کا استعمال ٹوکری کی ٹولی (بنیاد یا فریم) بنانے میں ہوتا ہے۔ جلیل بتاتے ہیں، ’’ ٹولی سے ٹوکری کا سائز طے ہوتا ہے۔ ایک بار بنیاد بننے کے بعد عورتیں اور بچے انہیں درمیان سے گھما کر پتلی پٹیاں بُنتے ہیں۔ ان پٹیوں کو پیچنی بیٹی کہا جاتا ہے۔‘‘
انہوں نے مزید بتایا، ’’سب سے اوپر بُنائی مکمل کرنے کے لیے مضبوط پٹیوں کو دو تین بار دہرا کر باندھا جاتا ہے، جسے ہم پیچنی کہتے ہیں۔ ٹوکری مکمل کرنے کے لیے بنیاد کے بچے ہوئے سرے کو توڑ کر بُنے ہوئے بانس کے دھاگوں میں ڈال دیا جاتا ہے۔ ہم اس عمل کو مُڑی بھانگا کہتے ہیں۔
مرشدہ کہتی ہیں کہ پورا کام ہاتھ سے ہوتا ہے۔ ان کے مطابق، ’’بانس کو ضروری سائز میں کاٹنے کے لیے ہم آری کا استعمال کرتے ہیں۔ بانس کا تنا کاٹنے کے لیے ہم کُرہائیل [کلہاڑی] یا داؤ [چاقو] استعمال کرتے ہیں۔ بانس کے دھاگے بنانے کے لیے بہت تیز چھری ہوتی ہے۔ ٹوکریوں کے اوپری سرے باندھنے کے لیے ہم تولر بیٹی کے بچے ہوئے سروں کو پیچنی بیٹی میں ڈالنے کے لیے بٹالی [چھینی] جیسا اوزار استعمال کرتے ہیں۔‘‘
مُڑی بھانگا اور ٹولی بھانگا کا عمل چھوڑ دیں، تو ایک ٹوکری بُننے میں تقریباً ۲۵-۲۰ منٹ لگتے ہیں۔ ہفتہ واری بازار سے ایک دن پہلے، عورتیں کبھی کبھی رات میں جتنا ہو سکے زیادہ سے زیادہ ٹوکریاں بنا لیتی ہیں۔ اس کام سے ان کی جسمانی صحت پر خراب اثر پڑتا ہے۔
مرشدہ کہتی ہیں، ’’ہمیں پیٹھ میں درد ہوتا ہے اور ہمارے ہاتھوں میں گھٹّے پڑ جاتے ہیں۔ ہمیں بانس کے نُکیلے حصے چبھ جاتے ہیں۔ کبھی کبھی بانس کے سوئی جیسے ٹکڑے ہماری کھال میں چبھ جاتے ہیں، جس سے بہت درد ہوتا ہے۔ ہفتہ واری بازار سے پہلے، ہم دیر رات تک کام کرتے ہیں اور اگلے دن درد کی وجہ سے سو نہیں پاتے۔‘‘
یہ اسٹوری مرنالنی مکھرجی فاؤنڈیشن (ایم ایم ایف) سے ملی فیلوشپ کے تحت لکھی گئی ہے۔
مترجم: محمد قمر تبریز