’’مجھے اپنی بائیں آنکھ سے کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ تیز روشنی تکلیف دیتی ہے۔ اس سے درد ہوتا ہے۔ بہت زیادہ درد ہوتا ہے۔ اس کی وجہ سے میں بہت پریشانی میں ہوں،‘‘ مغربی بنگال کے جنوبی ۲۴ پرگنہ ضلع کے بنگاؤں قصبہ کی ایک گھریلو خاتون پرمیلا نسکر کہتی ہیں۔ پرمیلا، جن کی عمر چالیس کی دہائی کی اوائل میں ہے، ہم سے ریجنل انسٹی ٹیوٹ آف اوپتھلمولوجی، کولکاتا کے ایک ہفتہ وار قرنیہ کلینک میں بات کر رہی ہیں۔ وہ یہاں علاج کی غرض سے آئی ہیں۔
میں پرمیلا نسکر کا درد سمجھ سکتا ہوں۔ ایک آنکھ کی بینائی سے محرومی کا احساس ایک فوٹوگرافر کے لیے کافی خوفناک احساس ہے۔ سال ۲۰۰۷ میں میری بائیں آنکھ میں قرنیہ کے السر کی تشخیص ہوئی تھی اور میں نابینا ہونے کے دہانے پر پہنچ گیا تھا۔ میں اس وقت بیرون ملک مقیم تھا اور علاج کی غرض سے مجھے واپس ہندوستان آنا پڑا تھا۔ مکمل بینائی حاصل کرنے سے پہلے مجھے ڈیڑھ ماہ تک بینائی کی بحالی کے ایک اذیت ناک عمل سے گزرنا پڑا۔ اس کے باوجود صحت یابی کی ڈیڑھ دہائی بعد آج بھی میرے اندر اندھے ہونے کا خوف عود کر آتا ہے۔ میں یہ سوچتا رہتا ہوں کہ ایک فوٹوگرافر کے لیے اپنی بینائی کھو دینا کس قدر تکلیف دہ ہوگا۔
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق عالمی سطح پر ’’ کم از کم ۲ء۲ ارب لوگ قریب یا دور کی بینائی کی خرابی کا شکار ہیں۔ ان میں سے کم از کم ایک ارب – یا تقریباً نصف – طبی سہولیات سے محروم ہیں یا ان کے مرض کا علاج اب تک نہیں ہو پایا ہے…‘‘
موتیا بند کے بعد دنیا بھر میں اندھے پن کی دوسری سب سے عام وجہ قرنیہ کی بیماریاں ہیں۔ قرنیہ کی بیماریوں سے ہونے والے اندھے پن کی ایپی ڈیمیالوجی (وجوہات) پیچیدہ ہیں۔ ان میں آنکھوں کے ورم اور وائرل انفیکشن شامل ہیں، جن کے نتیجہ میں قرنیہ پر داغ پڑ جاتا ہے، جو بالآخر اندھے پن کا سبب بنتا ہے۔ مزید برآں قرنیہ کی بیماری کا تعدد (فریکیونسی) مختلف ممالک میں مختلف ہوتا ہے۔
انٹرنیشنل جرنل آف میڈیکل سائنس اینڈ کلینیکل انوینشن میں ۲۰۱۸ میں شائع ایک تحقیقی مقالہ میں تخمینہ لگایا گیا ہے کہ ہندوستان میں قرنیہ کی بیماریوں کی وجہ سے تقریباً ۸ء۶ ملین لوگوں میں کم از کم ایک آنکھ میں ۶/۶۰ سے کم بینائی تھی۔ ان میں سے تقریباً دس لاکھ لوگوں کی دونوں آنکھوں کی بینائی کم تھی۔ عام طور پر، ۶/۶۰ بینائی کا مطلب ہوتا بینائی کی خرابی والا شخص جس چیز کو ۶ میٹر کی دوری سے دیکھتا ہے، اسے صحیح بینائی والا شخص ۶۰ میٹر کی دوری سے دیکھ سکتا ہے۔ اس مقالہ میں یہ بھی اندیشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ یہ تعداد ۲۰۲۰ تک ۶ء۱۰ ملین تک پہنچ سکتی ہے، لیکن اس ضمن میں کوئی واضح اپ ڈیٹ دستیاب نہیں ہے۔
انڈین جرنل آف اوپتھلمولوجی کے ایک تجزیاتی مضمون میں کہا گیا ہے کہ ’’ہندوستان میں قرنیہ کے اندھے پن (سی بی) کی تعداد ۱۲ لاکھ ہے، جو یہاں کے کل اندھے پن کا ۳۶ء۰ فیصد ہے۔ اس میں ہر سال تقریباً ۲۵۰۰۰ سے ۳۰ ہزار لوگ شامل ہوتے ہیں۔ ریجنل انسٹی ٹیوٹ آف اوپتھلمولوجی (آر آئی او) کی بنیاد ۱۹۷۸ میں کولکاتا میڈیکل کالج میں رکھی گئی تھی۔ آر آئی او نے انسٹی ٹیوٹ کے موجودہ ڈائریکٹر پروفیسر اسیم کمار گھوش کی سرپرستی میں کافی ترقی کی ہے۔ انسٹی ٹیوٹ کا قرنیہ کلینک جو ہفتہ میں صرف ایک بار کھلتا ہے، اور صرف ایک دن میں ۱۵۰ سے زیادہ مریضوں کو دیکھا جاتا ہے۔
اس کلینک کو ڈاکٹر آشیش مجمدار اور ان کے ساتھی چلاتے ہیں۔ یہ کلینک ان لوگوں کی مدد کرتا ہے جو سب سے زیادہ ضرورت مند ہیں۔ ڈاکٹر آشیش نے میرے اپنے معاملے کا حوالہ دیتے ہوئے مجھے بتایا، ’’اگرچہ آپ کو قرنیہ کا السر نقلی کانٹیکٹ لینس کے محلول کی وجہ سے ہوا تھا، لیکن ’قرنیہ کے اندھے پن‘ کی اصطلاح آنکھوں کی مختلف حالتوں کو بیان کرتی ہے جو قرنیہ کی شفافیت کو تبدیل کرتی ہے، جس سے اس پر داغ پڑجاتے ہیں اور متاثرہ شخص اندھے پن کا شکار ہو جاتا ہے۔ قرنیہ کے اندھے پن کی اہم وجوہات میں بیکٹیریا، وائرس، فنگس اور پروٹوزوا شامل ہیں۔ سب سے عام وجوہات میں چوٹ لگنا، کانٹیکٹ لینس کا استعمال، یا اسٹیرائیڈ ادویات کا استعمال شامل ہے۔ اس زمرے کی دیگر بیماریوں میں ٹریکوما اور خشک آنکھوں کی بیماریاں شامل ہیں۔
چالیس کی دہائی کے وسط میں پہنچ چکے نرنجن منڈل آر آئی او کے قرنیہ کلینک کے ایک کونے میں خاموشی سے کھڑے تھے۔ انہوں نے سیاہ چشمہ پہن رکھا تھا۔ ’’میری بائیں آنکھ کا قرنیہ خراب ہو گیا تھا،‘‘ انہوں نے مجھے بتایا۔ ’’درد ختم ہوگیا ہے۔ لیکن بینائی اب بھی دھندلی ہے۔ ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ یہ مکمل طور پر واپس نہیں ہوسکتی۔ میں ایک تعمیراتی کمپنی میں بطور مزدور کام کرتا ہوں اور اگر میں دونوں آنکھوں سے ٹھیک سے نہیں دیکھ پا رہا ہوں، تو میرے لیے اس پیشہ سے منسلک رہنا مشکل ہوگا۔‘‘
نرنجن سے بات کرتے ہوئے، میں نے ایک اور ڈاکٹر کو ایک دوسرے مریض، شیخ جہانگیر کو، جن کی عمر تیس کی دہائی کے اواخر میں تھی، آہستہ سے ڈانٹتے ہوئے سنا: ’’میرے کہنے کے باوجود تم نے علاج کیوں بند کر دیا۔ اب تم ۲ ماہ بعد یہاں آئے ہو۔ مجھے افسوس ہے کہ تمہاری دائیں آنکھ کی بینائی کبھی مکمل طور پر واپس نہیں آئے گی۔‘‘
ڈاکٹر آشیش کی آواز میں بھی یہی تشویش نمایاں تھی۔ وہ کہتے ہیں ’’بہت سے مواقع پر ہم نے دیکھا ہے کہ اگر مریض کو وقت پر کلنیک لایا جاتا تو ان کی آنکھ کی روشنی بچائی جاسکتی تھی۔ قرنیہ کے نقصان سے صحت یاب ہونا ایک طویل اور تکلیف دہ عمل ہوتا ہے اور علاج بند کرنا اندھے پن کا باعث بن سکتا ہے۔‘‘
لیکن مریضوں کے آر آئی او کے دورے میں بے قاعدگی کے پس پشت ناقابل فہم عوامل شامل ہیں۔ نارائن، جن کی عمر پچاس کی دہائی کے اواخر میں پہنچ چکی ہے، کے ہی معاملہ کو لیں۔ انہوں نے ہمیں بتایا، ’’میں ہگلی ضلع میں ایک دور افتادہ مقام – کھاناکُل میں رہتا ہوں۔ اپنی جانچ کے لیے مجھے مقامی ڈاکٹر (نیم حکیم) کے پاس جانا بہتر لگتا ہے۔ میں جانتا ہوں کہ وہ ڈاکٹر اس قابل نہیں ہے، لیکن کر ہی کیا سکتا ہوں؟ میں درد کو نظر انداز کرکے کام کرتا رہتا ہوں۔ اگر میں یہاں آتا ہوں تو مجھے ہر بار تقریباً ۴۰۰ روپے کا خرچہ آتا ہے۔ میں اس کا متحمل نہیں ہو سکتا۔‘‘
جنوبی ۲۴ پرگنہ کے پاتھور پروتیما بلاک سے تعلق رکھنے والی پشپا رانی دیوی کو بھی اسی نوع کی مشکلات کا سامنا ہے۔ وہ گزشتہ ۱۰ سالوں سے اپنے دو بچوں کے ساتھ ایک کچی بستی میں مقیم ہیں اور گھریلو ملازمہ کے طور پر کام کرتی ہیں۔ انہوں نے بتایا، ’’میں نے اپنی بائیں آنکھ کی سرخی کو نظر انداز کرنے کی غلطی کی، اور ایک مقامی ڈاکٹر کے پاس جانچ کے لیے گئی۔ پھر یہ معاملہ خطرناک ہوگیا۔ مجھے کام بند کرنا پڑا۔ اس کے بعد میں یہاں [آر آئی او] آئی۔ یہاں کے ڈاکٹروں کے ذریعہ ۳ ماہ کے باقاعدہ علاج کے بعد میری بینائی واپس آ گئی ہے۔ اب مجھے مکمل بینائی کو یقینی بنانے کے لیے سرجری کی ضرورت ہے۔ لہذا، میں اپنی تاریخ کا انتظار کر رہی ہوں۔‘‘
قرنیہ ٹرانسپلانٹ (پیوندکاری) کے آپریشن میں خراب ہوچکے قرنیہ کے تمام یا کچھ حصے کو ہٹانا اور اسے عطیہ شدہ صحت مند ٹشو سے تبدیل کرنا شامل ہوتا ہے۔ کیراٹوپلاسٹی اور قرنیائی گرافٹ کی اصطلاحات قرنیائی ٹرانسپلانٹ کی وضاحت کے لیے اکثر استعمال ہوتی ہیں۔ اس آپریشن کا استعمال شدید انفیکشن یا نقصان کے علاج، بینائی کو بہتر بنانے، اور تکلیف کو دور کرنے کے لیے کیا جاسکتا ہے۔ ڈاکٹر آشیش، ایک مہینہ میں قرنیہ کے ۴ سے ۱۶ ٹرانسپلانٹ آپریشن کرتے ہیں۔ یہ ایک اہم طریقہ عمل (پروسیجر) ہے جس میں ۴۵ منٹ سے ۳ گھنٹے تک کا وقت لگتا ہے۔ ڈاکٹر آشیش کہتے ہیں ’’ٹرانسپلانٹ کے بعد کامیابی کی شرح بہت زیادہ ہے۔ اور مریض آسانی سے اپنے کام پر واپس چلے جاتے ہیں۔ مسئلہ کچھ اور ہے۔ یہاں طلب اور رسد کا فرق ہمیں متاثر کرتا ہے۔ اہل خانہ کو آنکھوں کے عطیات کے لیے آگے آنا چاہیے۔‘‘ بنگال کے ساتھ ساتھ ہندوستان میں بھی طلب اور رسد میں بہت بڑا فرق ہے۔
آر آئی او کے ڈائریکٹر ڈاکٹر اسیم گھوش یہ پیغام دینا چاہتے ہیں: ’’براہ کرم نوٹ کریں کہ زیادہ تر لوگوں کو قرنیہ ٹرانسپلانٹ کی ضرورت نہیں پڑتی ہے۔ براہ کرم ابتدائی علامات کو نظر انداز نہ کریں۔ براہ کرم پہلے اپنے مقامی ماہر امراض چشم کے پاس جائیں۔ بہت سے مریض ہمارے پاس آتے ہیں اور ہمیں برا لگتا ہے، جب وہ آخری مرحلے میں آتے ہیں اور بینائی بحال کرنے کو کہتے ہیں۔ بحیثیت ڈاکٹر ہمیں یہ دیکھ کر تکلیف ہوتی ہے۔‘‘
اس کے علاوہ، ڈاکٹر گھوش کہتے ہیں، ’’اس بات کو یقینی بنائیں کہ آپ کا طرز زندگی صحت مند رہے۔ شوگر کی سطح پر نظر رکھیں۔ ذیابیطس قرینہ اور آنکھوں سے متعلق دیگر امراض کے علاج کو مزید پیچیدہ بناتا ہے۔‘‘
ہسپتال کی راہ داری میں میری ملاقات اورانی چٹرجی سے ہوئی تھی۔ ان کی عمر ساٹھ کی دہائی کے اوائل میں تھی۔ وہ بظاہر خوش نظر آ رہی تھیں: ’’ہیلو، مجھے دوبارہ یہاں نہیں آنا پڑے گا۔ ڈاکٹر نے کہا ہے کہ میری آنکھیں ٹھیک ہیں۔ اب میں اپنی پوتی کے ساتھ وقت گزار سکتی ہوں اور ٹی وی پر اپنا پسندیدہ سیریل دیکھ سکتی ہوں۔‘‘
مترجم: شفیق عالم