غنی سماء (۳۷) ایک فطرت پسند ہیں، جو گجرات کی ایک بڑی جھیل اور پرندوں کی مشہور پناہ گاہ ’نل سروور‘ جھیل میں کشتی چلاتے ہیں۔ احمد آباد ضلع کی ویرم گام تحصیل میں ۱۲۰ مربع کلومیٹر میں پھیلی یہ جھیل بحر منجمد شمالی سے وسط ایشیا کے ہوائی راستوں سے ہوتے ہوئے بحر ہند تک ہجرت کرکے آنے والے پرندوں کی ایک پسندیدہ جگہ ہے۔
غنی سماء کہتے ہیں، ’’میں پرندوں کی ۳۵۰ سے زیادہ اقسام کی شناخت کر سکتا ہوں۔‘‘ اس میں نل سروور میں آنے والے کئی پرندے بھی شامل ہیں۔ ’’پہلے، یہاں پرندوں کی تقریباً ۲۴۰ انواع دیکھنے کو مل جاتی تھیں، اب یہ تعداد بڑھ کر ۳۱۵ سے زیادہ ہو چکی ہے۔‘‘
غنی کا بچپن اسی جھیل کے ارد گرد گزرا ہے۔ ’’میرے والد اور دادا ان پرندوں کی حفاظت کرنے میں محکمہ جنگلات کی مدد کرتے تھے۔ وہ دونوں محکمہ جنگلات کے لیے بطور ملاح کام کرتے تھے اور اب میں بھی وہی کر رہا ہوں،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔ ’’[جب] میں نے ۱۹۹۷ میں اس کی شروعات کی تھی، تب کئی بار مجھے کام مل جاتا تھا اور کئی بار نہیں ملتا تھا،‘‘ وہ یاد کرتے ہیں۔
سال ۲۰۰۴ میں چیزیں بدل گئیں جب محکمہ جنگلات نے انہیں گشت لگانے اور پرندوں کی حفاظت کرنے کے لیے بطور ملاح کام پر رکھ لیا اور، ’’اب میں ہر مہینے تقریباً ۱۹ ہزار روپے کماتا ہوں۔‘‘
تیسری نسل کے ملاح اور پرندوں پر گہری نظر رکھنے والے غنی، نل سروور سے تین کلومیٹر دور واقع ویکاریا گاؤں میں پلے بڑھے۔ گاؤں کے لوگ اس جھیل میں سیاحت سے متعلق ہونے والے کام سے ہی اپنی روزی روٹی کماتے ہیں، اس کے علاوہ ان کے پاس آمدنی کا کوئی اور ذریعہ نہیں ہے۔
غنی اپنے گاؤں کے ہی سرکاری پرائمری اسکول میں پڑھتے تھے، لیکن ۷ویں جماعت کے بعد انہیں اسکول چھوڑنا پڑا کیوں کہ فیملی کو ان کی کمائی کی ضرورت تھی۔ ان کے دو بھائی اور دو بہنیں ہیں۔ غنی جب ۱۴ سال کے تھے، تو نل سروور میں ایک پرائیویٹ ملاح کے طور پر کام کرنے لگے تھے۔
غنی نے بھلے ہی اپنی باقاعدہ تعلیم مکمل نہ کی ہو، لیکن وہ کسی پرندے کو دیکھتے ہی اس کا نام بتا دیتے ہیں۔ شروع میں ان کے پاس پروفیشنل کیمرہ نہیں تھا، لیکن یہ ان کو جنگلی حیات کی فوٹوگرافی کرنے سے روک نہیں پایا۔ ’’جب میرے پاس کیمرہ نہیں تھا، تب میں دیکھنے والے دوربین (ٹیلی اسکوپ) پر اپنے فون کو رکھ کر پرندوں کی تصویریں کھینچا کرتا تھا۔‘‘ آخرکار، ۲۰۲۳ میں انہیں نیکون COOLPIX P950 کیمرہ اور دوربین (بائنوکیولرز) مل ہی گئے۔ ’’آر جے پرجاپتی [جنگلات کے ڈپٹی کنزرویٹر] اور ڈی ایم سولنکی [رینج فاریسٹ آفیسر] نے کیمرہ اور دوربین خریدنے میں میری مدد کی۔‘‘
غنی نے پرندوں پر تحقیق کرنے والوں کی بھی مدد کی ہے، جس نے انہیں نل سروور میں ہجرت کرنے والے پرندوں کی تصویریں کھینچنے پر بین لاقوامی سطح پر پہچان دلائی۔ ’’میں نے ایسے دو پرندوں کی تصویریں کھینچی تھیں، جن پر روس کے ایک گھونسلے میں U3 اور U4 کا ٹیگ دیا لگایا گیا تھا۔ میں نے U3 کو سال ۲۰۲۲ میں یہاں دیکھا تھا؛ اس سال [۲۰۲۳] میں نے U4 کو بھی دیکھا ہے۔ وائلڈ لائف فیڈرریشن آف انڈیا کے ذریعے جب یہ تصویریں روسی سائنس دانوں کو بھیجی گئیں، تو انہوں نے ہمیں بتایا کہ یہ پرندے اُسی گھونسلے سے یہاں آئے تھے۔ دونوں پرندے نل سروور پہنچے تھے،‘‘ غنی انتہائی خوشی سے کہتے ہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ روسی سائنس دانوں نے ان کی اس مہارت کو نوٹ کیا ہے۔ ’’میں نے تقریباً آٹھ رِنگڈ پرندے (جن کی گردن پر انگوٹھی جیسا نشان ہوتا ہے) دیکھے ہیں جنہیں ڈیموئسیل کرین یا کرجان ( گروس ورگو ) کہا جاتا ہے۔ میں نے ان کی تصویریں کھینچیں، جنہیں بعد میں وہاں بھیجا گیا اور نوٹ کیا گیا۔‘‘
غنی نے دیکھا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے نل سروور میں بھی چیزیں بدلنے لگی ہیں۔ ’’بپر جوائے سمندری طوفان جون میں گجرات کے ساحل سے ٹکرایا تھا، جس کے بعد سمندری پرندوں کی کچھ نئی اقسام پہلی بار یہاں دیکھنے کو ملیں، جیسے کہ براؤن نوڈی (اینس اسٹولیڈس)، سوٹی ٹرن (اونیکوپریون فسکیٹس)، آرکٹک اسکوا (اسٹرکوریریئس پیراسئٹیکس)، اور بریڈلڈ ٹرن (اونیکوپریون اینیتھیٹس)۔‘‘
مہاجر پرندوں کی پرواز والے وسط ایشیائی راستے سے سرخ چھاتی والے ہنس یعنی ریڈ بریسٹیڈ گوز (برینٹا روفیکولس) بھی یہاں آتے ہیں – جو سردیوں کے موسم میں نل سروور میں سب کی توجہ کا مرکز بن جاتے ہیں۔ یہ پرندے پچھلے تین سالوں سے یہاں آ رہے ہیں۔ وہ منگولیا اور قزاقستان جیسی جگہوں سے یہاں آتے ہیں۔ غنی بتاتے ہیں، ’’یہ پرندہ پچھلے تین سالوں سے یہاں آ رہا ہے۔ اس کے یہاں آنے کا سلسلہ لگاتار جاری ہے۔‘‘ وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ ملنسار مرغ باراں یا لیپ وِنگ (وینیلس گریگیریئس) بھی اس برڈ سینکچری میں آتے ہیں۔
ایک سارس (کرین) کے بارے میں غنی بتاتے ہیں، ’’ایک [پرندہ] کا نام میرے اوپر رکھا گیا ہے۔ وہ سارس اس وقت روس میں ہے؛ وہ روس گیا اور پھر وہاں سے گجرات آیا اور دوبارہ روس چلا گیا۔‘‘
غنی کہتے ہیں، ’’میں اکثر یہ تصویریں اخباروں کو دے دیتا ہوں۔ وہ میرا نام نہیں چھاپتے ہیں۔ لیکن ان تصویروں کو وہاں دیکھ کر مجھے خوشی ہوتی ہے۔‘‘
مترجم: محمد قمر تبریز