محمد اصغر کے ہاتھ مشین جیسی درستگی کے ساتھ حرکت کرتے ہیں اور بات کرنے کے دوران بھی نہیں رکتے۔
’’کچھ پل کے لیے بھی ہاتھ رک گئے تو کام خراب ہو جائے گا،‘‘ تین صدی پرانے بتائے جانے والے اس ہنر کے ماہر ۴۰ سالہ اصغر کہتے ہیں۔
اصغر ایک چھاپہ کاریگر (بلاک پرنٹنگ کے دستکار) ہیں اور ایک دہائی سے یہ کام کر رہے ہیں۔ رنگ میں ڈوبے ہوئے لکڑی کے بلاکس کا استعمال کرتے ہوئے کپڑے پر ڈیزائن پرنٹ کرنے والے دیگر بلاک پرنٹنگ کاریگروں کے برعکس، وہ دھات کے پھولوں اور دیگر ڈیزائنوں کو کپڑے پر اتارنے کے لیے ایلومینیم کے نہایت باریک ورق کا استعمال کرتے ہیں۔
ایلومینیم کے باریک ورق، جسے طبق بھی کہتے ہیں، کو جب کپڑے پر پرنٹ کیا جاتا ہے تو خواتین کی ساڑیوں، شراروں، لہنگوں اور دیگر کپڑوں سے تقریب کا رنگ جھلکنے لگتا ہے۔ اصغر کے پیچھے ایک شیلف میں رکھے پیچیدہ ڈیزائنوں کے لکڑی کے درجنوں سانچے معمولی کپڑوں کو تقریبات کی اشیاء میں تبدیل کر دیتے ہیں۔
بہار کے نالندہ ضلع کے بہار شریف قصبہ میں چھاپے کی نصف درجن دکانیں ہیں۔ اپنے گاہکوں کی طرح، چھاپہ کاریگر بھی بنیادی طور پر مسلمان ہوتے ہیں اور ان کا تعلق رنگریز ذات سے ہوتا ہے، جو بہار میں اقتصادی طور پر پس ماندہ طبقہ (ای بی سی) کے تحت درج ہیں۔ بہار حکومت کے ذریعہ کرائے گئے ذات کے تازہ ترین سروے میں ان کی آبادی ۴۳ ہزار ۳۴۷ بتائی گئی ہے۔
’’تیس سال پہلے میرے پاس [دوسرا کوئی] کام نہیں تھا، لہٰذا میں نے یہ کام کر لیا،‘‘ پپو کہتے ہیں۔ ’’میرے نانا چھاپہ کا کام کرتے تھے۔ یہ کام مجھے ان سے ورثہ میں ملا ہے۔ انہوں نے اسے اپنے وقت میں کیا اور اب میں کر رہا ہوں۔‘‘ ۵۵ سالہ پپو بہار کی راجدھانی پٹنہ کے مصروف اور گنجان آبادی والے علاقہ سبزی باغ میں ۳۰ سال سے چھاپہ کپڑوں کی دکان چلا رہے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ اس ہنر کی مانگ کم ہوتی جا رہی ہے: ’’پہلے پٹنہ میں ۳۰۰ دکانیں تھیں، لیکن اب صرف ۱۰۰ باقی رہ گئی ہیں،‘‘ اور اب چاندی اور سونے کی پرنٹنگ بالکل نہیں ہوتی۔ ان کی جگہ ایلومینیم نے لے لی ہے۔
سبزی بازار میں ایک چھوٹی سی ورکشاپ میں کام کرنے والے اصغر کا کہنا ہے کہ ۲ سال پہلے بہار شریف قصبہ میں ہی طبق بنتے تھے۔ ’’پہلے شہر میں طبق بنتے تھے، لیکن مزدوروں کی کمی کی وجہ سے اب یہاں نہیں بنتے۔ اب، یہ پٹنہ سے آتے ہیں،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔
چھاپے کے کام کا اہم حصہ ہے طبق یا ورق، جو اتنا باریک ہوتا ہے کہ ہلکی سی ہوا میں بھی اڑنے لگتا ہے۔ اس کا کچھ حصہ اصغر کے چہرے اور کپڑوں سے چپک جاتا ہے۔ دن کے اختتام پر انہیں جھاڑنا پڑتا ہے اور ہتھیلی پر جمی گوند کی موٹی تہہ کو بھی صاف کرنا پڑتا ہے۔ وہ بتاتے ہیں، ’’مجھے اپنے ہاتھ سے گوند صاف کرنے میں دو گھنٹے لگتے ہیں۔ میں اس کے لیے گرم پانی استعمال کرتا ہوں۔‘‘
چھاپے کے مرحلوں کا مظاہرہ کرتے ہوئے اصغر کہتے ہیں، ’’گوند جلدی سوکھ جاتا ہے، اس لیے اس پورے عمل کو بہت تیزی سے مکمل کرنا پڑتا ہے۔‘‘ ٹن کے برتن میں رکھے گوند کو وہ اپنی بائیں ہتھیلی پر لگا کر دکھاتے ہیں۔ ایک بار جب ان کی ہتھیلی پر گوند لگ جاتی ہے، تو وہ ہتھیلی پر لکڑی کے پھولوں کے سانچے کو گھماتے ہیں تاکہ ان میں گوند لگ جائے اور پھر چپچپے سانچے کو کپڑے پر چسپاں کر دیتے ہیں۔
تیزی سے کام کرتے ہوئے وہ بڑی احتیاط سے پیپر ویٹ کے نیچے دبے باریک اوراق میں سے ایک ورق نکالتے ہیں، اسے کپڑوں پر سانچوں کے ذریعہ لگائے گئے گوند والے حصے پر رکھ دیتے ہیں، اور اس طرح گوند سے ورق چپک جاتا ہے۔
ایک بار جب ورق کپڑے پر آجائے تو اسے کپڑے کے ایک گدّے سے مزید دبایا جاتا ہے تاکہ وہ مکمل طور پر چپک جائے۔ ’’یہ اس لیے کرنا پڑتا ہے تاکہ طبق اچھی طرح سے گوند سے چپک جائے،‘‘ وہ مزید بتاتے ہیں۔
یہ ایک نازک کام ہے اور اسے بہت تیزی سے کیا جاتا ہے، اور سیکنڈوں میں کپڑے پر ایک چمکتی ہوئی گول شکل ابھر آتی ہے۔ نئے بنے ہوئے چھاپے کے کپڑے کو کم از کم ایک گھنٹہ تک دھوپ میں سکھایا جاتا ہے تاکہ گوند اچھی طرح خشک ہو جائے اور ورق مستقل طور پر چپک جائے۔
کاریگر بغیر کسی وقفے کے مسلسل کام کرتے ہوئے اس عمل کو دہراتا ہے۔ وہ فی الحال جو سرخ کپڑا چھاپ رہا ہے وہ ایک دَل ڈھکّن ہے۔ یہ کپڑا بانس کی ٹوکریوں کو ڈھانپنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
دس سے ۱۲ مربع سنٹی میٹر والے ۴۰۰ عدد ایلومینیم کے اوراق کی قیمت ۴۰۰ روپے ہوتی ہے۔ ایک کلو گوند ۱۰۰ سے ۱۵۰ روپے میں آتی ہے۔ ’’چھا پہ کی وجہ سے ساڑیوں کی قیمت میں ۷۰۰ سے ۸۰۰ روپے تک کا اضافہ ہو جاتا ہے،‘‘ چھاپہ کپڑوں کی دکان کے مالک پپو (وہ اسی نام سے اپنی پہچان کوترجیح دیتے ہیں) کہتے ہیں۔ ’’صارفین اتنی رقم ادا نہیں کرتے۔‘‘
چھاپے کے کپڑے روایتی طور پر بہار کی (خاص طور پر جنوبی بہار کے مگدھ علاقے سے تعلق رکھنے والی) مسلم برادری کی شادیوں میں استعمال ہوتے ہیں۔ یہ شادی کی کچھ رسموں کے لیے لازمی ہے۔ مثلاً دلہن اور اس کے گھر کی عورتوں کو چھاپہ ساڑی یا چھاپے والا شادی کا لباس پہننا ضروری ہوتا ہے، خواہ ان کی سماجی حیثیت کچھ بھی ہو۔
ثقافتی اہمیت کے باوجود چھاپے کے کپڑے زیادہ وقت تک نہیں پہنے جاتے ہیں۔ ’’اس پرنٹنگ میں جو گوند استعمال کی جاتی ہے اس سے بہت بدبو آتی ہے۔ اور پھر پرنٹنگ اتنی کمزور ہوتی ہے کہ ایک یا دو دھلائی کے بعد ایلومینیم کا پورا ورق نکل جاتا ہے،‘‘ پپو کہتے ہیں۔
شادی کے موسم کے تین چار مہینوں کے بعد چھاپہ کا کام رک جاتا ہے، اور کاریگروں کو دوسرے کام کی تلاش کرنی پڑتی ہے۔
اصغر کہتے ہیں، ’’میں دکان پر آٹھ سے دس گھنٹے تک کام کرتا ہوں اور تین ساڑیوں پر چھاپے کا کام مکمل کرتا ہوں۔ اس کام سے مجھے روزانہ تقریباً ۵۰۰ روپے کی آمدنی ہوتی ہے، لیکن یہ کام صرف تین سے چار ماہ تک دستیاب رہتا ہے۔ جب چھاپے کا کوئی کام نہیں ہوتا، تو میں تعمیراتی مقامات پر کام کرتا ہوں۔‘‘
اصغر ورکشاپ سے تقریباً ایک کلومیٹر دور بہار شریف قصبہ میں رہتے ہیں۔ اس ورکشاپ میں وہ صبح ۱۰ بجے سے رات ۸ بجے تک کام کرتے ہیں۔ ’’پیسے بچانے کے لیے، میرا بیٹا دوپہر کے کھانے کے دوران گھر کا پکا ہوا کھانا لاتا ہے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔
پانچ سال کی مختصر مدت کے لیے وہ دہلی گئے تھے اور تعمیراتی مقامات پر کام کرتے تھے۔ اب وہ یہیں اپنی بیوی اور ۱۴ اور ۱۶سال کی دو بیٹوں کے ساتھ رہتے ہیں۔ وہ دونوں اسکول میں پڑھائی کر رہی ہیں۔ اصغر کا کہنا ہے کہ وہ بہار شریف میں اپنی آمدنی سے مطمئن ہیں اور کنبے کے ساتھ رہنا ان کے لیے ایک بونس ہے۔ ’’یہاں بھی کام ہو رہا ہے تو کاہے لا [کس لیے] باہر جائیں گے؟‘‘ وہ اس رپورٹر کو بتاتے ہیں۔
محمد ریاض (۶۵) پپو کی دکان پر بطور چھاپہ کاریگر کام کرتے ہیں، اور پورے سال کے دوران روزی روٹی کو یقینی بنانے کے لیے انہوں نے دیگر مہارتیں بھی حاصل کی ہیں: ’’جب چھاپہ کا کوئی کام نہیں ہوتا ہے، تو میں ایک [میوزک] بینڈ کے ساتھ کام کرتا ہوں۔ اس کے علاوہ میں پلمبنگ بھی جانتا ہوں۔ یہ کام مجھے سال بھر مصروف رکھتے ہیں۔‘‘
پپو کا کہنا ہے کہ چھاپے کے کام سے بہت معمولی آمدنی ہوتی ہے، اور اس سے گھر چلانا مشکل ہوتا ہے۔ ان کے کنبے میں ان کی بیوی اور سات سے سولہ سال کی عمر کے ان کے تین بچے ہیں۔ ’’اس کام سے نہ کے برابر آمدنی ہوتی ہے۔ آج تک میں یہ اندازہ نہیں لگا سکا کہ مجھے چھاپے کے کپڑے پر کتنا منافع ملتا ہے۔ کسی نہ کسی طرح میں صرف اپنے کنبے کے لیے کھانے کا انتظام کر پاتا ہوں،‘‘ وہ کہتے ہیں۔
وہ اس غیر پائیدار ہنر کو اپنے بیٹوں کو منتقل کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ’’ہم پاگل نہیں ہیں جو چاہیں گے کہ میرے بیٹے اس لائن [کاروبار] میں آئیں۔‘‘
چھاپہ کا سب سے اہم حصہ طبق (ایلومینیم کا ورق) ہوتا ہے۔ یہ اتنا باریک ہوتا ہے کہ ہوا کے ہلکے جھونکے میں اڑنے لگتا ہے، اس کا کچھ حصہ کاریگروں کے چہروں اور کپڑوں پر چپک جاتا ہے
*****
چھاپہ کی ابتدا کیسے ہوئی اور بہاری مسلمانوں کی ثقافت میں ان کا اتنا اہم کردار کیسے آیا اس کے بارے میں زیادہ معلومات دستیاب نہیں ہیں۔ برٹش انڈیا کے ایک سرجن اور سرویئر فرانسس بُکانَن نے بہار میں دستی بلاک پرنٹنگ کرنے والے کاریگروں کے لیے ’چھاپہ گر‘ کا لفظ استعمال کیا ہے۔
پٹنہ میں مقیم تاریخ کے شوقین عمر اشرف کہتے ہیں، ’’یہ معلوم کرنا مشکل ہے کہ مسلم شادیوں میں پرنٹ شدہ کپڑے پہننے کا کلچر بہار میں کیسے آیا۔ لیکن یہ کلچر بہار کے مگدھ علاقے کے مسلمانوں میں عام ہے، اس لیے یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اس کی ابتدا اسی علاقے سے ہوئی ہوگی۔‘‘
اشرف ہیریٹیج ٹائمز کے نام سے ایک ویب پورٹل اور ایک فیس بک پیج چلاتے ہیں جہاں وہ بہار کے مسلمانوں کی گمشدہ ثقافت اور ورثے کو دستاویزی شکل دیتے ہیں۔
خطے میں اس دستکاری کے ارتقاء کی وجہ ۱۲ویں صدی میں مگدھ کے علاقے میں مسلمانوں کی اندرونی نقل مکانی ہے۔ ’’شاید وہ شادیوں کے دوران چھاپہ کپڑے پہننے کی رسم کو اپنے ساتھ لے کر آئے تھے، اور وہ مگدھ میں بھی جاری رہی،‘‘ اشرف کہتے ہیں۔
چھاپہ کپڑے باقی دنیا میں بھی پہنچتے ہیں: ’’ہمارے پاس ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں جو ظاہر کرتی ہیں کہ یورپ، امریکہ، کناڈا اور دیگر ممالک میں آباد بہاری مسلمان وہاں کی شادیوں میں پہننے کے لیے ہندوستان سے چھاپے کے کپڑے لے کر جاتے ہیں،‘‘ اشرف بتاتے ہیں۔
یہ اسٹوری بہار کے ایک ٹریڈ یونینسٹ کی یاد میں دی گئی فیلوشپ کے تحت لکھی گئی ہے، جن کی زندگی ریاست میں حاشیہ پر سمٹی برادریوں کے لیے جدوجہد کرتے ہوئے گزری تھی۔
مترجم: شفیق عالم