کنّی سامی شمالی تمل ناڈو میں تروولّور ضلع کے ساحلی علاقوں میں واقع گاؤوں کی سرحدوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ ماہی گیر برادریوں کے یہ محافظ دیوتا اسی برادری کے کسی عام آدمی جیسے دکھائی دیتے ہیں، جو چمکدار رنگوں والی قمیضیں پہنتے ہیں اور ویٹی (سفید دھوتی) کے ساتھ سر پر ایک ٹوپی بھی رکھتے ہیں۔ ماہی گیر سمندر میں جانے سے پہلے ان کی پوجا کرتے ہیں اور اپنی بحفاظت واپسی کے لیے دعا مانگتے ہیں۔
ماہی گیر برادری کنّی سامی کے مختلف اوتاروں کی پوجا کرتی ہے اور یہ پوجا شمالی چنئی سے لے کر پَلویر کاڈو (پُلیکَٹ کے نام سے مشہور) کے علاقے کی ایک مقبول روایت رہی ہے۔
اینّور کُپّم کے ماہی گیر تقریباً سات کلومیٹر کا سفر کرکے کنّی سامی کی مورتیاں خریدنے اتی پٹّو آتے ہیں۔ ایک سالانہ تقریب کے طور پر یہ تہوار ہر سال جون میں منایا جاتا ہے اور پورے ایک ہفتہ تک چلتا رہتا ہے۔ سال ۲۰۱۹ میں اپنے ایک سفر کے دوران مجھے اس گاؤں کے ماہی گیروں کے ایک گروپ میں شامل ہونے کا موقع ملا تھا۔ ہم شمالی چنئی کے ایک تھرمل پاور پلانٹ کے قریب کوسس تلیّار ندی کے ساحل پر اُترے، اور اس کے بعد اتی پٹّو گاؤں کی طرف پیدل چل پڑے۔
گاؤں میں ہم ایک دو منزلہ گھر میں پہنچے، جس میں کنّی سامی کی کئی مورتیاں فرش پر قطاروں میں رکھی ہوئی تھیں۔ ان مورتیوں کو سفید کپڑوں میں لپیٹ کر رکھا گیا تھا۔ تقریباً ۴۵-۴۰ سال کی عمر کا ایک آدمی مورتیوں کے آگے کھڑا ہو کر کافور جلا رہا تھا اور اس نے سفید دھاریوں والی ایک قمیض کے ساتھ ایک ویٹی پہن رکھی ہے۔ اس کی پیشانی پر تیرونیر [مقدس راکھ] کا ٹیکہ لگا ہوا ہے۔ ان مورتیوں کو ماہی گیروں کے کندھے پر رکھنے سے پہلے وہ اسی طرح سبھی مورتیوں کی پوجا کرتے ہیں۔
دلّی انّا کے ساتھ یہ میری پہلی ملاقات ہے اور حالات کچھ ایسے ہیں کہ میں ان سے بات چیت نہیں کر پا رہا ہوں۔ میں انھیں ماہی گیروں کے ساتھ واپس لوٹ جاتا ہوں جن کے ساتھ میں وہاں آیا تھا۔ ان کے کندھوں پر مورتیاں رکھی ہیں۔ وہاں سے کوسس تلیّار ندی کا ساحل چار کلومیٹر دور ہے، اور پھر تین کلومیٹر کشتی کی سواری کرنے کے بعد ہم واپس اینّور کُپّم گاؤں پہنچ جاتے ہیں۔
گاؤں لوٹنے کے بعد، ماہی گیر ان مورتیوں کو ایک مندر کے پاس ایک قطار میں رکھتے ہیں۔ وہاں ان مورتیوں کی باقاعدہ پوجا کی جاتی ہے۔ دن ڈھلنے پر دلّی انّا کُپّم پہنچتے ہیں۔ آہستہ آہستہ گاؤں کے باقی لوگ بھی مورتیوں کے آس پاس اکٹھا ہونے لگتے ہیں۔ دلّی انّا مورتیوں کے اوپر سے سفید کپڑا ہٹاتے ہیں اور مائی [کاجل] کی مدد سے کنّی سامی کی آنکھوں کی پتلیاں بناتے ہیں۔ یہ ان مورتیوں کی آنکھوں کے کھولے جانے کا ایک علامتی اشارہ ہے۔ اس کے بعد، وہ ایک مرغ کی بلی (قربانی) چڑھاتے ہیں۔ یہ مانا جاتا ہے کہ ایسا کرنے سے بری آتمائیں (روحیں) دور رہتی ہیں۔
ان تمام رسومات کے مکمل ہو جانے کے بعد، کنّی سامی کی مورتیوں کو گاؤں کے کنارے لے جایا جاتا ہے۔
اینّور کے اس ساحلی اور مینگرو والے علاقے نے میرا تعارف کئی لوگوں سے کرایا ہے، اور ان لوگوں میں دلّی انّا ایک خاص آدمی ہیں۔ انہوں نے اپنی پوری زندگی کنّی سامی کی مورتیاں بنانے کے لیے وقف کر دی ہے۔ جب میں مئی [۲۰۲۳] میں دلّی انّا سے ملنے واپس اتی پٹّو گیا، مجھے ان کی الماری میں کوئی دوسری چیز یا آرائش کا کوئی دیگر سامان دکھائی نہیں دیا۔ اس میں صرف مٹی، بھوسی اور مورتیاں رکھی ہوئی تھیں۔ ان کے پورے گھر میں مٹی کی سوندھی خوشبو پھیلی ہوئی تھی۔
کنّی سامی کی مورتی بنانے کے لیے، سب سے پہلے گاؤں کی سرحد سے لائی گئی گیلی مٹی کو چکنی مٹی کے ساتھ ملایا جاتا ہے۔ ’’لوگوں کا عقیدہ ہے کہ ایسا کرنے سے دیوتا کی طاقت پورے گاؤں کو اپنے حصار میں لے لیتی ہے،‘‘ ۴۴ سال کے دلّی انّا کہتے ہیں۔ ’’کئی نسلوں سے میری فیملی کنّی سامی کی مورتیاں بنانے کا ہی کام کر رہی ہے۔ جب میرے والد یہ کام کرتے تھے تب میری اس میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ سال ۲۰۱۱ میں جب وہ چل بسے، تب میرے تمام جاننے والوں نے مجھ سے کہا کہ میرے والد کے بعد مجھے ہی اس کام کو آگے بڑھانا ہے…یہی وجہ ہے کہ میں یہ کام کرنے لگا۔ یہاں میرے علاوہ کوئی دوسرا آدمی اس کام کو نہیں کرتا ہے۔‘‘
دلّی انّا ۱۰ دنوں میں ۱۰ مورتیاں تیار کر سکتے ہیں۔ وہ اوسطاً آٹھ گھنٹے تک اُن مورتیوں پر روزانہ ایک ساتھ کام کرتے ہیں۔ سال میں وہ تقریباً ۹۰ مورتیاں بناتے ہیں۔ ’’ایک مورتی بنانے کے لیے مجھے ۱۰ دن کام کرنا پڑتا ہے۔ پہلے ہم مٹی کاٹتے ہیں، پھر اس سے کنکڑ پتھر نکال کر مٹی کی صفائی کرتے ہیں۔ اس کے بعد مٹی میں ریت اور بھوسی ملاتے ہیں،‘‘ دلّی انّا تفصیل سے بتاتے ہیں۔ مورتی کے ڈھانچہ کو مضبوطی دینے کے لیے بھوسی کا استعمال کیا جاتا ہے، اور اس کے بعد اس پر مٹی کی آخری پرت چڑھائی جاتی ہے۔
’’مورتی بنانے کی شروعات سے لے کر اسے مکمل کرنے تک میں اکیلے کام کرتا ہوں۔ میرے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں کہ میں کوئی مددگار رکھ سکوں،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’یہ پورا کام ایک سایہ دار جگہ پر ہوتا ہے، کیوں کہ سیدھی دھوپ پڑنے سے مٹی ٹھیک سے چپک نہیں پاتی اور سوکھنے کے بعد ٹوٹ جاتی ہے۔ جب مورتی سوکھ جاتی ہے، تب میں اسے آگ میں پکا کر تیار کر لیتا ہوں۔ اس پورے کام میں عموماً ۱۸ دن لگ جاتے ہیں۔‘‘
دلّی انّا اتی پٹّو کے آس پاس کے گاؤوں، خاص کر اینّور کُپّم، مُگتیوار کُپّم، تالن کُپّم، کاٹّو کُپّم، میٹّو کُپّم، پلتوٹّی کُپّم، چنّ کُپّم اور پیریہ کولم وغیرہ میں مورتیاں سپلائی کرتے ہیں۔
تہواروں کے دوران ان گاؤوں کے لوگ کنّی سامی کی مورتیاں اپنے گاؤں کی سرحدوں پر نصب کرتے ہیں۔ کچھ لوگ کنّی سامی کی مرد شکل والی مورتیوں کی پوجا کرتے ہیں، تو کچھ لوگ خاتون شکل والی مورتیوں کی۔ دیوی کی شکل میں کنّی سامی پاپاتی امّن، بومّتی امّن، پیچئی امّن جیسے الگ الگ ناموں سے جانی جاتی ہیں۔ گاؤں کے لوگ یہ بھی چاہتے ہیں کہ ان کی دیوی گھوڑے یا ہاتھی پر سوار ہوں اور بغل میں ایک کتے کی مورتی ہو۔ ایسا مانا جاتا ہے کہ رات کے اندھیرے میں دیوی دیوتا آتے ہیں اور اپنا کھیل کھیلتے ہیں۔ اگلی صبح ثبوت کے طور پر گاؤں کی دیوی کے پیروں میں پڑی دراڑ دیکھی جا سکتی ہے۔
’’کئی جگہوں پر ماہی گیر ہر سال کنّی سامی کی نئی مورتیاں نصب کرتے ہیں، تو کچھ جگہوں پر ان مورتیوں کو دو، تین یا پھر چار سالوں کے بعد بدلا جاتا ہے،‘‘ دلّی انّا کہتے ہیں۔
حالانکہ، ان گاؤوں کے ماہی گیروں کے درمیان مورتیوں کی مانگ نہ تو بند ہوئی ہے اور نہ ہی اس میں کوئی کمی آئی ہے، لیکن دلّی انّا اس بات سے پریشان ہیں کہ جس روایتی پیشہ کو وہ گزشتہ تین دہائیوں سے کرتے آ رہے ہیں، اسے آگے کون بڑھائے گا۔ ان کے لیے اب یہ ایک مہنگا کام بن چکا ہے: ’’سبھی چیزیں مہنگی ہو گئی ہیں…اگر میں گاہکوں سے مورتی بنانے میں آئے خرچوں کے حساب سے پیسے مانگتا ہوں، تو وہ مجھ سے سوال کرتے ہیں کہ میں زیادہ قیمت کیوں مانگ رہا ہوں۔ لیکن یہ بات صرف ہمیں ہی معلوم ہے کہ اس کام میں ہمیں کتنی مشکلیں آتی ہیں۔‘‘
شمالی چنئی کے سمندری ساحلوں پر تھرمل پاور پلانٹوں کی مسلسل بڑھتی ہوئی تعداد سے زمینی پانی کھارا ہوتا جا رہا ہے، جس کی وجہ سے اس علاقے میں زراعت سے متعلق سرگرمیوں میں بہت کمی آئی ہے اور مٹی کے معیار پر اس کا برا اثر پڑ رہا ہے۔ خام مال کی کمی کے سبب دلّی انّا شکایتی لہجے میں کہتے ہیں، ’’ان دنوں مجھے کہیں بھی چکنی مٹی ملنے میں پریشانی آ رہی ہے۔‘‘
وہ بتاتے ہیں کہ چکنی مٹی کی خریداری بہت مہنگا سودا ہے۔ ’’میں اپنے گھر کے پاس کا کھیت کھود کر مٹی نکالتا ہوں اور گڑھے کو ریت سے بھر دیتا ہوں۔‘‘ ان کے مطابق چکنی مٹی کے مقابلے ریت سستی پڑتی ہے۔
چونکہ وہ اتی پٹّو کے واحد بت ساز ہیں، اس لیے عوامی مقامات کی کھدائی کر کے چکنی مٹی حاصل کرنے کے لیے پنچایت کے ساتھ اکیلے مول تول کرنا ان کے لیے آسان کام نہیں ہے۔ ’’اگر مورتی بنانے والے خاندانوں کی تعداد ۲۰-۱۰ ہوتی، تو ہم آس پاس کے تالابوں یا جھیل کے قریب مٹی کھود سکتے تھے اور تب شاید پنچایت ہمیں مفت میں اس کی اجازت دے دیتی۔ لیکن چونکہ میں اب اکیلا بت ساز بچا ہوں، اس لیے میں ان پر دباؤ نہیں ڈال سکتا، اور مجبور ہو کر مجھے اپنے گھر کے آس پاس سے ہی چکنی مٹی کا انتظام کرنا پڑتا ہے۔‘‘
مورتیوں کو بنانے کے لیے دلّی انّا کو جس بھوسی کی ضرورت پڑتی تھی وہ بھی اب آسانی سے دستیاب نہیں ہے، کیوں کہ اب دنوں دن ہاتھ سے دھان کاٹنا کم ہوتا جا رہا ہے۔ ’’مشینوں سے ہونے والی کٹائی سے ہمیں وافر مقدار میں بھوسی نہیں ملتی ہے۔ بھوسی ہے تو ہمارا کام ہے، نہیں تو ہمارا کام ٹھپ ہو جاتا ہے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’میں ان کسانوں کی تلاش کرتا رہتا ہوں جو ہاتھوں سے فصل کاٹتے ہیں۔ میں نے تو گلدستے اور چولہے بنانا بھی بند کر دیے ہیں۔ ان چیزوں کی ابھی بھی بہت مانگ ہے، لیکن میں انہیں بنانے کے قابل نہیں ہوں۔‘‘
اپنی آمدنی کے بارے میں وہ بتاتے ہیں: ’’ایک گاؤں سے ایک مورتی کے عوض مجھے ۲۰ ہزار روپے ملتے ہیں، لیکن خرچ کاٹنے کے بعد میرے حصے میں صرف ۴۰۰۰ روپے ہی آتے ہیں۔ اگر میں چار گاؤوں کے لیے مورتیاں بناتا ہوں، تو میں ۱۶ ہزار روپے کماتا ہوں۔‘‘
انّا صرف گرمی کے موسم – فروری سے جولائی کے مہینوں – میں ہی مورتیاں بناتے ہیں۔ آڈی [جولائی] میں جب تہوار شروع ہوتا ہے، تب لوگ مورتیاں خریدنے پہنچنے لگتے ہیں۔ ’’چھ یا سات مہینوں میں کڑی محنت کرکے میں جتنی مورتیاں بناتا ہوں، وہ سب کی سب ایک مہینہ میں فروخت ہو جاتی ہیں۔ اگلے پانچ مہینے تک میرے پاس کوئی پیسہ نہیں آتا ہے۔ جب میں مورتی بیچوں گا، تبھی مجھے پیسے ملیں گے۔‘‘ دلّی انّا یہ بتانا نہیں بھولتے کہ وہ اس کے سوا اور کوئی کام نہیں کرتے ہیں۔
وہ صبح ۷ بجے اپنے کام میں لگ جاتے ہیں اور ۸ گھنٹے تک کام کرتے ہیں۔ انہیں سوکھتی ہوئی مورتیوں پر لگاتار نظر رکھنی ہوتی ہے، ورنہ وہ ٹوٹ بھی سکتی ہیں۔ اپنے ہنر کے تئیں وہ کتنے ایماندار ہیں، یہ بتانے کے لیے وہ مجھے ایک چھوٹا سا واقعہ سناتے ہیں، ’’ایک بار رات میں سانس نہ لے پانے کی وجہ سے مجھے بہت تیز درد اٹھا۔ رات ایک بجے میں سائیکل چلاتا ہوا ایک اسپتال جا پہنچا۔ ڈاکٹروں نے مجھے گلوکوز [نسوں کے ذریعے دیا جانے والا سیال] چڑھایا۔ میرا بھائی مجھے اسی صبح جانچ پڑتال کے لیے دوسرے اسپتال لے گیا، لیکن طبی ملازمین نے کہا کہ رات ۱۱ بجے سے پہلے یہ ممکن نہیں ہے۔‘‘ دلّی اناّ کو جانچ کرائے بغیر لوٹنے کا فیصلہ لینا پڑا، کیوں کہ ’’مجھے مورتیوں پر نظر رکھنی تھی۔‘‘
تقریباً ۳۰ سال پہلے دلّی انّا کی فیملی کے پاس کاٹّو پلّی گاؤں کی چھوٹی سی بستی چیپاکّم میں چار ایکڑ زمین تھی۔ وہ بتاتے ہیں، ’’اس وقت میرا گھر ایک گنیش مندر سے ملحق چیپاکّم سیمنٹ فیکٹری کے قریب تھا۔ ہم نے اپنی زمین کے پاس گھر اس لیے بنایا تھا کہ ہم کھیتی کر سکیں۔‘‘ جب زمین کا پانی کھارا (نمکین) ہو گیا، تب انہیں کھیتی کا کام بند کرنا پڑا۔ اس کے بعد انہوں نے اپنا گھر بیچ دیا اور اتی پٹّو آ گئے۔
’’ہم چار بھائی بہن ہیں، لیکن اس روایت کو جاری رکھنے والا میں اکیلا ہوں۔ میں نے شادی نہیں کی ہے۔ اتنی کم آمدنی میں، میں اپنی فیملی یا بچے کا خیال کیسے رکھ سکتا ہوں؟‘‘ وہ سوال کرتے ہیں۔ دلّی انّا کو اس بات کا ڈر ہے کہ اگر وہ کوئی دوسرا کام کرنے لگیں گے، تو ماہی گیر برادریوں کے لیے ان مورتیوں کو بنانے والا کوئی نہیں ہوگا۔ ’’میں نے یہ ہنر اپنے آباء و اجداد سے وراثت کے طور پر سیکھا ہے، میں اسے چھوڑ نہیں سکتا ہوں۔ اگر ماہی گیروں کے پاس یہ مورتیاں نہیں ہوں گی، تو ان کو مشکلوں سے گزرنا ہوگا۔‘‘
دلّی انّا کے لیے بت سازی صرف ایک پیشہ نہیں ہے، بلکہ ایک جشن ہے۔ ان کو یاد ہے کہ ان کے والد کے زمانے میں وہ ایک مورتی ۸۰۰ یا ۹۰۰ روپے میں بیچتے تھے۔ مورتی خریدنے آئے ہر ایک شخص کو ہم پوری عزت کے ساتھ کھانا کھلاتے تھے۔ وہ یادوں کے گلیاروں میں بھٹکتے ہوئے کہتے ہیں، ’’ہمارے گھر میں اتنی رونق ہوا کرتی تھی، گویا یہ کوئی شادی کا گھر ہو۔‘‘
آگ میں پکنے کے وقت مورتیاں نہ ٹوٹیں، دلّی انّا کے لیے اس سے زیادہ خوشی کی کوئی دوسری بات نہیں ہوتی ہے۔ مٹی کی بنی یہ مورتیاں ان کی سب سے عزیز ساتھی ہیں۔ ’’مجھے محسوس ہوتا ہے کہ جب میں ان مورتیوں کو بناتا ہوں، تو میرے ساتھ کوئی انسان رہتا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ مورتیاں مجھ سے بات چیت کرتی ہیں۔ میرے مشکل وقت میں مجھے ان کا ہی سہارا ہوتا ہے۔ لیکن مجھے اس بات کی فکر ہے کہ میرے بعد ان مورتیوں کو کون بنائے گا؟‘‘
مترجم: محمد قمر تبریز