مٹی سے بنے اپنے گھر کے باہر بیٹھے نند رام جامُنکر کہتے ہیں، ’’آپ روشنی کے ساتھ پیدا ہوئے ہیں اور ہم اندھیرے کے ساتھ۔‘‘ ہم امراوتی ضلع کے کھڈیمل گاؤں میں ہیں، جہاں ۲۶ اپریل، ۲۰۲۴ کو لوک سبھا انتخابات کے تحت ووٹنگ ہونی ہے۔ نند رام جس اندھیرے کی بات کر رہے ہیں، وہ واقعی میں یہاں صاف نظر آ رہا ہے؛ مہاراشٹر کے اس آدیواسی گاؤں میں ابھی تک بجلی نہیں پہنچی ہے۔
’’ہر پانچ سال میں کوئی آتا ہے اور بجلی دینے کا وعدہ کرتا ہے۔ لیکن بجلی تو دور کی بات ہے، وہ خود بھی کبھی مڑ کر واپس نہیں آتے،‘‘ ۴۸ سالہ نند رام کہتے ہیں۔ موجودہ رکن پارلیمنٹ نونیت کور رانا، آزاد امیدوارکے طور پر سال ۲۰۱۹ میں شیو سینا امیدوار اور سابق مرکزی وزیر آنند راؤ اڈسُل کو ہرا کر اقتدار میں آئی تھیں۔ اس بار وہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے امیدوار کے طور پر اس سیٹ سے انتخاب لڑ رہی ہیں۔
چکھلدار تعلقہ میں واقع اس گاؤں میں رہنے والے ۱۹۸ کنبے (مردم شماری ۲۰۱۱) معاش کے لیے بنیادی طور پر مہاتما گاندھی قومی دیہی روزگار گارنٹی (منریگا) پر منحصر رہتے ہیں۔ جن لوگوں کے پاس تھوڑی بہت زمین ہے، وہ بارش پر مبنی کھیتی کرتے ہیں اور زیادہ تر مکئی اُگاتے ہیں۔ کھڈیمل کے زیادہ تر رہائشی درج فہرست قبائل (ایس ٹی) سے تعلق رکھتے ہیں، جنہیں ہمیشہ سے ہی پانی اور بجلی کے کنکشن کے بغیر گزارہ کرنا پڑا ہے۔ نند رام کا تعلق کورکو قبیلہ سے ہے، جو کورکو زبان بولتا ہے۔ سال ۲۰۱۹ میں قبائلی امور کی وزارت نے کورکو کی نشاندہی ختم ہونے کے دہانے پر پہنچ چکی زبان کے طور پر کی تھی۔
’ہم اپنے گاؤں میں کسی بھی سیاست داں کو گھُسنے نہیں دیں گے۔ برسوں سے وہ ہمیں بیوقوف بناتے آ رہے ہیں، لیکن اب اور نہیں‘
نند رام کے بغل میں بیٹھ کر ان کے دکھ درد شیئر کرتے دنیش بیلکر کہتے ہیں، ’’ہم نے تبدیلی کی امید میں ۵۰ سال تک ووٹ دیا، لیکن ہمیں بیوقوف بنایا جاتا رہا۔‘‘ انہیں اپنے آٹھ سال کے بیٹے کو پڑھائی کے لیے ۱۰۰ کلومیٹر دور واقع ایک رہائشی اسکول میں بھیجنا پڑا۔ گاؤں میں ایک پرائمری اسکول ہے، لیکن خراب سڑکوں اور نقل و حمل کے وسائل کی کمی کے سبب اساتذہ باقاعدگی سے اسکول نہیں آتے ہیں۔ دنیش (۳۵) کہتے ہیں، ’’وہ ہفتے میں دو دن ہی اسکول آتے ہیں۔‘‘
راہل کہتے ہیں، ’’کئی لیڈر یہاں آ کر وعدے کرتے ہیں کہ ریاستی ٹرانسپورٹ کی بسیں شروع کروائیں گے، لیکن انتخاب کے بعد غائب ہو جاتے ہیں۔‘‘ نقل و حمل کے وسائل نہ ہونے کے سبب راہل وقت پر اپنی دستاویز جمع نہیں کر پائے تھے، جس کی وجہ سے اس ۲۴ سالہ منریگا مزدور کو کالج چھوڑنا پڑا۔ وہ مزید کہتے ہیں، ’’ہم نے تعلیم حاصل کرنے کی امید ہی چھوڑ دی ہے۔‘‘
نند رام اپنے جذبات پر قابو پاتے ہوئے اونچی آواز میں کہتے ہیں، ’’تعلیم تو بعد میں آتی ہے، پہلے ہمیں پانی کی ضرورت ہے۔‘‘ میلگھاٹ کے اوپری علاقے میں طویل عرصے سے پانی کی سخت قلت ہے۔
گاؤں کے لوگوں کو پانی بھرنے کے لیے روزانہ ۱۵-۱۰ کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے اور یہ کام زیادہ تر عورتیں ہی کرتی ہیں۔ گاؤں کے کسی بھی گھر میں نل نہیں ہے۔ ریاستی حکومت نے تین کلومیٹر دور واقع نولگاؤں سے پانی سپلائی کرنے کے لیے علاقہ میں پائپیں بچھوائیں تھیں۔ لیکن گرمی کے مہینوں میں پائپ سوکھے پڑے رہتے ہیں۔ انہیں کنوؤں سے جو پانی ملتا ہے وہ پینے لائق نہیں ہوتا۔ دنیش کہتے ہیں، ’’زیادہ تر وقت ہم بھورا پانی پیتے ہیں۔‘‘ اس کی وجہ سے ماضی میں ڈائریا اور ٹائیفائڈ جیسی بیماریوں کو پھیلتے ہوئے دیکھا جا چکا ہے، خاص کر حاملہ عورتوں اور بچوں میں۔
کھڈیمل کی عورتوں کے دن کی شروعات صبح تین یا چار بجے پانی بھرنے کی لمبی سیر سے ہوتی ہے۔ نمیا راما دھیکار (۳۴) کہتی ہیں، ’’ہم کب وہاں پہنچتے ہیں، اس کے حساب سے ہمیں تین سے چار گھنٹے تک قطار میں کھڑے رہنا پڑتا ہے۔‘‘ سب سے قریبی ہینڈ پمپ چھ کلومیٹر دور ہے۔ ندیوں کے خشک ہونے کے ساتھ، یہ جگہ بھالو جیسے پیاسے جنگلی جانوروں کا اڈّہ بن چکی ہے اور کبھی کبھی اوپری میلگھاٹ کے سیمڈوہ ٹائیگر ریزرو سے شیر بھی یہاں چلے آتے ہیں۔
پانی بھرنا ان کے دن کا سب سے پہلا کام ہوتا ہے۔ نمیا جیسی عورتوں کو صبح تقریباً ۸ بجے منریگا کے کام پر جانے سے پہلے گھر کے سبھی کام نمٹانے پڑتے ہیں۔ دن بھر زمین کی جُتائی کرنے اور تعمیراتی کام سے متعلق وزنی سامان ڈھونے کے بعد، انہیں شام کو ۷ بجے پھر سے پانی بھرنے جانا پڑتا ہے۔ نمیا کہتی ہیں، ’’ہمیں کوئی آرام نہیں ملتا۔ بیمار ہونے پر بھی ہم پانی بھرنے جاتے ہیں، یہاں تک کہ حاملہ ہونے پر بھی۔ بچے کو جنم دینے کے بعد بھی ہمیں صرف دو یا تین دن کا ہی آرام ملتا ہے۔‘‘
انتخاب کا موسم ہے اور نمیا کی رائے بالکل واضح ہے۔ ’’جب تک گاؤں میں نل [پانی کا پائپ] نہیں آئے گا، میں ووٹ نہیں ڈالوں گی۔‘‘
ان کی رائے میں گاؤں کے باقی لوگوں کا غصہ بھی جھلکتا ہے۔
کھڈیمل کے سابق سرپنچ ببنو جامُنکر (۷۰) کہتے ہیں، ’’جب تک ہمیں سڑک، بجلی اور پانی نہیں مل جاتا، ہم ووٹ نہیں دیں گے۔ ہم اپنے گاؤں میں کسی بھی سیاست داں کو داخل نہیں ہونے دیں گے۔ برسوں سے وہ ہمیں بیوقوف بناتے آ رہے ہیں، لیکن اب اور نہیں۔‘‘
مترجم: قمر صدیقی