’’ایک لاکھ ۳۰ ہزار ۷۲۱ درختوں کو کاٹنے کا کوئی منفی اثر نہیں ہوگا۔‘‘
یہ بات محکمہ جنگلات کے ایک سینئر افسر، سمبل پور ڈویژن کے علاقائی سربراہ برائے تحفظِ جنگلات نے فروری ۲۰۱۴ میں لکھی تھی۔ وہ سفارش کر رہے تھے کہ اوڈیشہ کے سمبل پور اور جھارسو گُڈا ضلعوں کی سرحد پر واقع تالا بیرا اور پاتر پالی گاؤوں کی ۲۵۰۰ ایکڑ جنگلاتی زمین کو کوئلہ کی کان کے لیے سونپ دیا جائے۔
دونوں گاؤوں کے باشندوں نے جنگلاتی اہلکاروں کے ذریعے انگریزی میں تیار کی گئی ان دستاویزوں کو نہیں دیکھا ہے، جسے مارچ ۲۰۱۹ میں تالا بیرا دوئم اور سوئم کوئلہ کان کے لیے فاریسٹ کلیئرنس مل چکا ہے۔ لیکن یہاں کے لوگ اہلکاروں کی رائے سے بالکل بھی متفق نہیں ہو سکتے تھے – جنہیں بدقسمتی سے یہاں کا ’محافظ‘ مقرر کیا گیا ہے۔
کانکنی کی راہ ہموار کرنے کے لیے، گزشتہ دو ہفتوں میں ہزاروں درخت (ان کی واضح تعداد معلوم نہیں ہے) گرائے جا چکے ہیں۔ گاؤوں والوں کا کہنا ہے کہ انہیں اس کے بارے بتایا نہیں گیا تھا۔ اور ۲۱۵۰ لوگوں کے اس گاؤں (مردم شماری ۲۰۱۱) کے کئی لوگ حیران، برہم اور خوفزدہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جس جنگل کی حفاظت انہوں نے دسیوں سال سے کی ہے، اسے آج ان کی آنکھوں کے سامنے اجاڑا جا رہا ہے، وہ بھی پولس اور ریاست کے مسلح دستہ کی مدد سے۔
فی الحال زمین پر سب سے فوری اثر درختوں کی کٹائی ہے۔ گاؤں والوں کا کہنا ہے کہ یہ تباہی ۵ دسمبر کو علی الصبح شروع ہو گئی تھی۔ تالا بیرا میں مُنڈا آدیواسیوں کی بستی، مُنڈا پاڑہ کے ایک نوجوان، مانس سلیما کہتے ہیں، ’’ہم سوکر ٹھیک سے اٹھے بھی نہیں تھے کہ وہ اچانک آئے اور درختوں کو کاٹنے لگے۔ یہ خبر آگ کی طرح پھیل گئی، گاؤں کے لوگ اسے روکنے کے لیے اُدھر دوڑے، لیکن وہاں بھاری پولس دستہ تعینات تھا۔‘‘
’’ہم میں سے تقریباً ۱۵۰-200 لوگ جمع ہوئے اور کلکٹر سے مل کر ہمارے اِن درختوں کے قتل عام کو روکنے کی درخواست کرنے کے بارے میں سوچا،‘‘ مُنڈا پاڑہ کے ایک دوسرے ساکن، فقیرا بدھیا کہتے ہیں۔ ’’لیکن ہمیں بتایا گیا کہ جو بھی کمپنی کے خَلاف جائے گا، یا ان کے کام کو روکنے کی کوشش کرے گا، اسے مقدمے کا سامنا کرنا پڑے گا۔‘‘
تالا بیرا اور پاتر پالی وسیع و عریض گاؤوں ہیں، جو گھنے ملے جلے برگ ریز جنگلات کے درمیان واقع ہیں – اور سرسبز درخت دسمبر کی دوپہری میں راحت دیتے ہیں، میں نے تبھی وہاں کا دورہ کیا تھا۔ کوئلے کی مختلف کانوں، اسپنج آئرن کی تنصیبات اور دیگر صنعتوں والا جھارسو گُڈا علاقہ اوڈیشہ کے کچھ ایسے علاقوں میں شامل ہے، جہاں ہر سال سب سے زیادہ درجہ حرارت درج کیا جاتا ہے۔
یہاں کے گاؤوں میں، جہاں مُنڈا اور گونڈ آدیواسیوں کا غلبہ ہے، لوگ عام طور سے دھان اور سبزیاں اُگانے اور جنگلی پیداوار جمع کرکے گزر بسر کرتے ہیں۔ ان کی زمینوں کے نیچے وافر مقدار میں کوئلہ موجود ہے۔
’’جنگل میں ماہُل [مہوا]، سال کا رس، جلانے والی لکڑی، مش روم، جڑیں، قند اور پتّے اور جھاڑو بنانے و بیچنے کے لیے گھاس دیتا ہے،‘‘ بِملا مُنڈا کہتی ہیں۔ ’’محکمہ جنگلات یہ کیسے کہہ سکتا ہے کہ ۱ لاکھ درختوں کو کاٹنے سے کوئی اثر نہیں پڑے گا؟‘‘
تالا بیرا دوئم اور سوئم کوئلہ کان پبلک سیکٹر کی کمپنی، نیویلی لِگنائٹ کارپوریشن لمیٹڈ کے سپرد کی گئی تھی، جس نے کان کی تعمیر و ترقی اور اسے چلانے کا ٹھیکہ ۲۰۱۸ میں ادانی انٹرپرائزز لمیٹڈ (اے ای ایل) کو دے دیا۔ پریس ٹرسٹ آف انڈیا کو دیے گئے ایک بیان میں (جسے اس وقت میڈیا میں رپورٹ کیا گیا تھا)، اے ای ایل نے کہا تھا کہ اس کان سے ۱۲ ہزار کروڑ روپے کی مالیت آئے گا۔
اسی کوئلہ کو حاصل کرنے کے لیے تالا بیرا گاؤں کے جنگلوں میں سال اور مہوا کے لحیم شحیم درخت کاٹ کر زمین پر گرا دیے گئے ہیں۔ کچھ دور آگے ایک کھلی جگہ پر، تازہ کاٹی گئی لکڑیوں کے انبار ہیں۔ اس جگہ پر تعینات ادانی کمپنی کے ایک ملازم، جس نے اپنا نام بتانے سے انکار کر دیا، نے بتایا کہ ’’اب تک ۷۰۰۰ درخت کاٹے جا چکے ہیں۔‘‘ اس کے بعد اس نے اگلے کسی بھی سوال کا جواب دینے سے منع کر دیا، اور صرف اتنا کہا کہ میڈیا سے بات کرنے کے لیے کمپنی کے کسی بھی شخص کا نام اور رابطہ کی تفصیلات دینا ’’مناسب نہیں ہوگا۔‘‘
گاؤوں کی طرف جانے والی سڑک پر، ہم نے اوڈیشہ ریاست کے مسلح دستہ کے جوانوں کا ایک گروپ دیکھا، اور ان سے پوچھا کہ وہ وہاں کیا کر رہے ہیں۔ ان میں سے ایک نے کہا، ’’اس لیے کہ یہاں درخت کاٹے جا رہے ہیں۔‘‘ اس نے بتایا کہ سیکورٹی دستوں کو جنگل کے ان حصوں میں تعینات کیا گیا ہے جہاں درخت کاٹنے کا کام چل رہا ہے۔ ہم جب سیکورٹی دستوں سے بات کر رہے تھے، تبھی ان کے ایک ساتھی نے گاؤں میں ہماری موجودگی کی اطلاع دینے کے لیے اپنے موبائل سے کسی کو فون کیا۔
اوڈیشہ کے محکمہ جنگلات و ماحولیات کے ذریعے مرکزی حکومت کو سونپی گئی اپنی منظوری کی دستاویزوں کے مطابق، یہ کان ( دوئم اور سوئم ) ۴۷۰۰ ایکڑ رقبہ میں ہوگی، اور اس کے سبب درج فہرست ذات کے ۴۴۳ اور درج فہرست قبائل کے ۵۷۵ کنبوں سمیت کل ۱۸۹۴ کنبوں کو نقل مکانی کرنی ہوگی۔
’’ہمیں لگتا ہے کہ ۱۴-۱۵ ہزار درخت پہلے ہی کاٹے جا چکے ہیں،‘‘ بھکت رام بھوئی کہتے ہیں، ’’اور یہ یہ ابھی بھی جاری ہے۔‘‘ وہ تالا بیرا کی حقوق جنگلات کمیٹی کے رکن ہیں۔ (یہ جنگلات کے تحفظ اور اس کے حقوق کا دعویٰ کرنے سمیت ایف آر اے سے متعلق سرگرمیوں کا منصوبہ بنانے اور نگرانی کرنے کے لیے ۲۰۰۶ کے حقوق جنگلات قانون (ایف آر اے) کے تحت تشکیل کردہ گاؤں کی سطح کی کمیٹیاں ہیں۔) ’’خود میں بھی آپ کو یہ نہیں بتا سکتا کہ انہوں نے کتنے درخت کاٹے ہیں،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’انتظامیہ اور کمپنی یہ سب کر رہی ہیں، ہم گاؤں والوں کو پوری طرح اندھیرے میں رکھتے ہوئے، کیوں کہ ہم پہلے دن سے ہی اس کی مخالفت کر رہے ہیں۔‘‘ یعنی ۲۰۱۲ سے، جب گاؤوں والوں نے پہلی بار ضلع انتظامیہ کو اپنے ایف آر اے حقوق کے بارے میں لکھا تھا۔
مُنڈا پاڑہ کی ساکن، رینا مُنڈا کہتی ہیں، ’’ہمارے اجداد بنیادی طور سے انہی جنگلوں میں رہتے تھے اور ان کی حفاظت کرتے تھے۔ ہم نے بھی وہی کرنا سیکھا۔ تھینگا پلّی [اوڈیشہ میں جنگلوں کی حفاظت کرنے کی ایک روایت، جس کے تحت برادری کے لوگ لکڑی کاٹنے اور اس کی اسمگلنگ کو روکنے کے لیے جنگلوں میں گشت لگاتے ہیں] کے لیے ہر فیملی تین کلو چاول یا پیسے سے تعاون کرتی ہے]۔‘‘
’’اور اب ہمیں اُن جنگلوں میں جانے کی اجازت بھی نہیں ہے، جن کی ہم نے حفاظت و پرورش کی ہے،‘‘ سدھیر مُنڈا غمزدہ لہجے میں کہتی ہیں، اس مقامی اسکول کے آس پاس جہاں گاؤں والے اس تباہی کی مخالفت کرنے کے طریقوں پر غوروفکر کرنے کے لیے جمع ہوئے ہیں۔ وہ آگے کہتی ہیں، ’’ہمیں یہ دیکھ کر بہت تکلیف ہو رہی ہے کہ وہ ہمارے درختوں کو کیسے کاٹ رہے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ ہمارے عزیز مر رہے ہیں۔‘‘
گاؤں کے لوگ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ وہ دسیوں سال سے جنگلات کی حفاظت کر رہے ہیں۔ ’’تب سرکار کہاں تھی؟‘‘ سورو مُنڈا نام کے ایک بزرگ کہتے ہیں۔ ’’اب جب کہ کمپنی اسے چاہتی ہے، تو سرکار کہہ رہی ہے کہ جنگل اس کا ہے، اور ہمیں پیچھے ہٹ جانا چاہیے۔‘‘ ایک دوسرے بزرگ اچیوت بدھیا، جن کے بارے میں گاؤں والوں کا کہنا ہے کہ وہ ان لوگوں میں سے ہیں، جنہوں نے برسوں تک جنگلات کے تحفظ کے لیے گشتی ڈیوٹی کرنے کا کام کیا ہے، کہتے ہیں، ’’گرتے درختوں کو دیکھ کر میری آنکھوں میں آنسو آ گئے تھے۔ ہم نے اپنے بچوں کی طرح ان کی حفاظت کی ہے۔‘‘
’’جب سے درختوں کی کٹائی کا کام شروع ہوا ہے، ہم میں سے کئی لوگ رات کو سو نہیں پائے ہیں،‘‘ تالا بیرا گاؤں کی حقوق جنگلات کمیٹی کے ایک رکن، ہیمنت راؤت کہتے ہیں۔
ماحولیاتی تبدیلی اور پانی کے موضوعات پر کام کرنے والے سمبل پور کے ماہر ماحولیات رنجن پانڈا کا کہنا ہے کہ دیہی باشندوں کے ذریعے جنگلات کو بچانے کی کوشش خاص طور سے اہم ہے کیوں کہ جھارسو گُڈا اور ایب وادی ملک میں آلودگی کے بڑے مراکز میں شامل ہیں۔ ’’کانکنی، بجلی اور صنعتی سرگرمیوں کے سبب پہلے سے ہی شدید آبی بحران، گرمی اور آلودگی میں غرق اس علاقے میں نئی کوئلہ کانوں اور بجلی تنصیبات کی تعمیر کا کوئی مطلب نہیں ہے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’اس علاقے میں پوری طرح سے تیار قدرتی درختوں کی ۱۳۰۷۲۱ انواع کو کاٹنے سے یہاں کے لوگوں اور حیاتیات کا تناؤ بھی بڑھے گا، جس سے یہاں رہنا مشکل ہو جائے گا۔‘‘
گاؤں کے کئی لوگ اس نظریہ سے بھی بات کرتے ہیں، اور اس علاقے میں بڑھتے درجہ حرارت کا ذکر کرتے ہیں۔ ونود مُنڈا کہتے ہیں، ’’اگر جنگلات کو اجاڑا گیا، تو یہاں رہنا ناممکن ہو جائے گا۔ اگر گاؤں کا کوئی آدمی درخت کاٹے، تو ہمیں جیل میں ڈال دیا جائے گا۔ پھر کمپنی پولس کے تعاون سے اتنے درخت کیسے کاٹ رہی ہے؟‘‘
پڑوس کے پاتر پالی گاؤں کے لیے راستہ سال کے گھنے جنگل سے ہوکر گزرتا ہے۔ یہاں پر آرا کی مشینیں ابھی تک نہیں پہنچی ہیں، اور مقامی باشندوں کا کہنا ہے کہ وہ ایک بھی درخت کو کاٹنے نہیں دیں گے۔ ’’اگر انتظامیہ ہمارے خلاف طاقت کا استعمال کرتی ہے، تو آپ ایک اور کلنگ نگر دیکھ سکتے ہیں،‘‘ دلیپ ساہو نے کہا، ’’کیوں کہ یہ پوری کارروائی غیر قانونی ہے۔‘‘ وہ ۲۰۰۶ میں ریاستی حکومت کے ذریعے یہاں کے ساحلی ضلع، جاج پور میں ٹاٹا اسٹیل لمیٹڈ کے ایک اسٹیل پلانٹ کے لیے تحویل اراضی کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کے دوران پولس فائرنگ میں ۱۳ آدیواسیوں کے مارے جانے کی بات کر رہے ہیں۔
حقوق جنگلات قانون میں کہا گیا ہے کہ محکمہ جنگلات کی منظوری – یعنی جنگل کی زمین کو کانکنی جیسے غیر جنگلاتی استعمال کے لیے ’منتقل‘ کرنا - صرف کچھ ضابطوں پر عمل کرنے کے بعد ہی فراہم کی جا سکتی ہے، جن میں شامل ہیں: پہلا، جن گاؤوں کی جنگلاتی زمینوں کو منتقل کیا جانا ہے وہاں گرام سبھائیں منعقد کی جائیں گی، جو اپنے سامنے پیش کی گئی تمام متعلقہ تفصیلات پر غور کرنے کے لیے، مجوزہ منتقلی کے لیے پہلے سے مطلع کیے جانے کے بعد منظوری دیں گی یا اسے خارج کر دیں گی۔ دوسرا، جس زمین کو منتقل کیا جانا ہے اس پر کسی بھی آدمی یا برادری کے حقوق جنگلات کے دعوے زیر التوا نہیں ہونے چاہئیں۔
پاتر پالی کی سرپنچ اور گاؤں کی حقوق جنگلات کمیٹی کی صدر، سنجُکتا ساہو کہتی ہیں کہ گرام سبھا کی منظوری، جس کی بنیاد پر مرکزی وزارتِ ماحولیات، جنگلات اور ماحولیاتی تبدیلی نے کان کے لیے کلیئرنس دیا تھا ’’جعل سازی ہے‘‘۔ ہمیں گرام سبھا کا رجسٹر دکھاتے ہوئے وہ کہتی ہیں، ’’ہمارے گاؤں نے کوئلہ کی کانکنی کے لیے ۷۰۰ ہیکٹیئر زمین سونپنے کی منظوری کبھی نہیں دی ہے۔ سوال ہی نہیں اٹھتا۔ اس کے برعکس، سال ۲۰۱۲ میں، ہم نے ۷۱۵ ایکڑ زمین کے لیے حقوق جنگلات قانون کے تحت مشترکہ حقوق جنگلات کا دعویٰ کیا تھا۔ انتظامیہ نے سات سال گزر جانے کے بعد بھی ہمارے دعوے پر کوئی کارروائی نہیں کی ہے، اور اب ہمیں پتہ چل رہا ہے کہ کمپنی کو جنگل مل گیا ہے۔ ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟‘‘
پاتر پالی کے دلیپ ساہو کا کہنا ہے کہ گاؤں میں ۲۰۰ سے زیادہ ایسے کنبے ہیں، جو ۱۹۵۰ کی دہائی کے وسط میں پاتر پالی سے تقریباً ۵۰ کلومیٹر دور، سمبل پور ضلع کے ہیرا کُد باندھ سے بے گھر ہوئے تھے۔ ’’اگر یہ جنگل کوئلے کی کانکنی کے لیے دے دیا جاتا ہے، تو ہم پھر سے بے گھر ہو جائیں گے۔ کیا ہم زندگی بھر بے گھر ہوتے رہیں گے، باندھوں اور کانوں کے درمیان؟‘‘
تالا بیرا کے باشندوں نے بھی الزام لگایا ہے کہ فاریسٹ کلیئرنس کے لیے ان کے گاؤں کی گرام سبھا کی منظوری لینے میں جعل سازی کی گئی ہے۔ وہ اس بارے میں اپنی تحریری شکایتیں دکھاتے ہیں، جنہیں اکتوبر میں ان کے ذریعے ریاستی حکومت کے کئی افسروں کو بھیجا گیا تھا۔ ’’یہ سب جعل سازی سے کیا گیا ہے۔ ہم نے جنگل کی اس کٹائی کے لیے اپنی منظوری کبھی نہیں دی ہے،‘‘ وارڈ کی رکن سشما پاترا کہتی ہیں۔ راؤت نے کہا، ’’اس کے برعکس، ہماری تالا بیرا گرامیہ جنگل کمیٹی نے ۲۸ مئی ۲۰۱۲ کو کلکٹر کو لکھا کہ ایف آر اے کے تحت ہمارے جنگلاتی حقوق کو تسلیم کیا جائے، اور ہم نے منظوری کے لیے جعل سازی کرنے کے بارے میں افسروں کو سونپی گئی اپنی تحریری شکایت میں اس کی ایک کاپی جمع کی ہے۔‘‘
سینٹر فار پالیسی ریسرچ ، نئی دہلی کے سینئر محقق، کانچی کوہلی، جنہوں نے تالا بیرا فاریسٹ کلیئرنس کی دستاویزوں کا مطالعہ کیا ہے، کہتے ہیں، ’’عام طور پر، جنگل کو منتقل کرنے کی کارروائیاں بے حد غیر شفاف رہی ہیں۔ متاثر لوگ جانچ رپورٹ اور منظوری کی سفارشوں کو شاید ہی دیکھ پاتے ہوں۔ تالا بیرا کا معاملہ اس مسئلہ کی علامت ہے۔ جب درخت کاٹنے کا عمل شروع ہوتا ہے صرف تبھی گاؤوں والوں کو جنگلاتی علاقوں پر کان کی توسیع کا پتہ چل پاتا ہے کہ کیا تاریخی حقوق برقرار ہیں۔‘‘
کوہلی آگے کہتے ہیں کہ دستاویزوں کو پڑھنے سے ’’اس مقام کے اچانک معائنہ اور الگ الگ تخمینہ کا صاف پتہ چلتا ہے۔ ۱ء۳ لاکھ درختوں کی کٹائی کے بارے میں درج کیا گیا کہ اس کا کوئی اثر نہیں پڑے گا اور اس پر کبھی سوال بھی نہیں اٹھا۔ گرام سبھا کی قراردادوں کی تصدیق وزارتِ ماحولیات کی جنگلاتی صلاح کار کمیٹی کے ذریعے نہیں کی گئی ہے۔ مجموعی طور پر، جنگل کو منتقل کرنے کی کارروائی میں سنگین قانونی کوتاہیاں دکھائی دیتی ہیں۔‘‘
افسروں کو گاؤوں والوں کی مخالفت کو سننا چاہیے، رنجن پانڈا کہتے ہیں۔ ’’کوئلہ ماحولیات کا سب سے بڑا مجرم ہے اور پوری دنیا ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کرنے کے لیے کوئلہ سے چلنے والی بجلی تنصیبات سے باہر نکلنے کی کوشش کر رہی ہے۔‘‘
’’سرکار گاؤوں کے لوگوں کے درمیان حقوق جنگلات قانون کی تشہیر کرنے کے لیے کوئی کوشش نہیں کر رہی ہے۔ ہم نے خود اپنی کوشش سے دعویٰ کیا۔ اور ہم اس جنگل کی حفاظت تب سے کر رہے ہیں جب کوئی قانون بھی نہیں تھا،‘‘ دلیپ ساہو کہتے ہیں۔ ’’آج سرکار کہہ رہی ہے کہ ہم گاؤوں والوں نے کمپنی کو اپنے جنگل دینے کے لیے منظوری دی ہے۔ میں ان سے پوچھنا چاہتا ہوں، اگر آپ کے پاس منظوری ہے، تو کمپنی کے ذریعے ہمارے درختوں کو کاٹنے کے لیے آپ کو ہمارے گاؤوں میں اتنی پولس فورس کیوں تعینات کرنی پڑ رہی ہے؟‘‘
ضمیمہ: ادانی انٹرپرائزز نے صفائی دی ہے کہ اس نے تالا بیرا کوئلہ کان علاقے میں درختوں کی کٹائی نہیں کی ہے۔ اس لیے درج بالا مضمون ۹ جنوری، ۲۰۲۰ کو اپڈیٹ کیا گیا ہے، تاکہ اس موقف کی ترجمانی کی جا سکے۔
(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)