آزاد میدان میں اتنے بڑے مجمع کو دیکھ کر کیلاش کھنڈاگلے کی آنکھیں پھٹی رہ گئیں۔ ’’یہاں پر اتنے سارے کسان ہیں،‘‘ ۳۸ سالہ بے زمین مزدور نے میدان کے چاروں طرف نظریں دوڑاتے ہوئے کہا۔
کیلاش، دہلی کی سرحدوں پر احتجاج کر رہے کسانوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے لیے، مہاراشٹر کے ہزاروں کسانوں کے ساتھ شامل ہونے کے لیے ۲۴ جنوری کو جنوبی ممبئی کے آزاد میدان پہنچے تھے۔ ’’میں تین [نئے زرعی] قوانین کی مخالفت کرنے کے لیے یہاں ہوں۔ میں نے سنا ہے کہ یہ میری فیملی کو ملنے والے راشن کو متاثر کر سکتے ہیں،‘‘ کیلاش نے کہا، جن کی برادری کے ممبران ایک سے پانچ ایکڑ زمین پر خاص طور سے ٹماٹر، پیاز، باجرا اور دھان اُگاتے ہیں۔
وہ احمد نگر ضلع کے تقریباً ۵۰۰ (ان کے اندازہ کے مطابق) کولی مہادیو آدیواسیوں میں سے تھے، جنہوں نے سمیُکت شیتکری کامگار مورچہ کے ذریعہ ۲۴ سے ۲۶ جنوری تک منعقد دھرنے میں حصہ لیا تھا۔ اکولا، پارنیر اور سنگم نیر تعلقہ کے آدیواسی کسانوں نے ممبئی تک کے تقریباً ۳۰۰ کلومیٹر کے سفر کے لیے ۳۵ گاڑیاں کرایے پر لیں، جس کے ان میں سے ہر ایک نے ۲۰۰ روپے ادا کیے تھے۔
سنگم نیر تعلقہ کے اپنے گاؤں، کھمبے میں کیلاش اپنی سات رکنی فیملی – ان کی بیوی بھاونا، بزرگ والدین اور تین بچے – میں کمانے والے واحد رکن ہیں۔ ’’میں دوسروں کے کھیت پر کام کرتا ہوں اور روزانہ ۲۵۰ روپے کماتا ہوں۔ لیکن میرے پیر کی وجہ سے سال میں ۲۰۰ سے زیادہ دن کام کرنا مشکل ہے،‘‘ انہوں نے کہا۔ کیلاش کا بایاں پیر ۱۳ سال کی عمر میں زخمی ہو گیا تھا، اور وقت کے ساتھ مناسب علاج نہ ہونے کے سبب یہ لنگڑا بن گیا۔ بھاونا بھی دائیں ہاتھ میں خرابی کی وجہ سے کڑی محنت کرنے سے معذور ہیں۔
کم اور غیر مستحکم آمدنی کے سبب، عوامی تقسیم کے نظام (پی ڈی ایس) سے ملنے والا راشن کھنڈاگلے فیملی کے لیے ضروری ہے – غذائی تحفظ قانون، ۲۰۱۳ کے تحت ۸۰ کروڑ لوگ راشن کے مستحق ہیں، جن میں سے ایک کھنڈاگلے فیملی بھی ہے۔ یہ قانون اہل کنبوں کو رعایتی قیمت پر فی کس ماہانہ کل پانچ کلوگرام اناج خریدنے کی اجازت دیتا ہے – چاول ۳ روپے کلو، گیہوں ۲ روپے کلو اور موٹا اناج ۱ روپیہ کلو۔
لیکن کیلاش کی سات رکنی فیملی کو ہر مہینے صرف ۱۵ کلو گیہوں اور ۱۰ کلو چاول ملتا ہے – جو اُن کے کوٹہ سے ۱۰ کلو کم ہے – کیوں کہ ان کے دو چھوٹے بچوں کے نام ان کے بی پی ایل (خط افلاس سے نیچے) راشن کارڈ سے غائب ہیں۔
’’یہ ۲۵ کلو ۱۵ دنوں میں ختم ہو جاتے ہیں۔ پھر ہمیں اپنی بھوک کو دبانا پڑتا ہے،‘‘ کیلاش نے کہا، جو ہرمہینے مقامی پی ڈی ایس کی دکان سے فیملی کا راشن لانے کے لیے چار کلومیٹر کی دوری پیدل طے کرتے ہیں۔ ’’ہمیں تیل، نمک اور بچوں کی تعلیم کے لیے بھی پیسے ادا کرنے پڑتے ہیں۔ کس کے پاس اتنا پیسہ ہے کہ کیرانہ کی دکان سے مہنگا اناج خریدے؟‘‘
اس سے اور زرعی قوانین کے دیگر ممکنہ نتائج سے کیلاش کھنڈاگلے فکرمند ہیں: ’’بل [قوانین] کا بڑے پیمانے پر اثر پڑے گا۔ یہ صرف کسانوں کے بارے میں نہیں ہے۔ یہ لڑائی ہم سبھی کے لیے ہے،‘‘ انہوں نے کہا۔
’’میں سرکار سے پوچھنا چاہتا ہوں – اگر ہمارے پاس کوئی متعینہ نوکری نہیں ہوگی اور آپ ہمیں راشن دینا بھی بند کر دیں گے، تو ہم کھائیں گے کیا؟‘‘ ممبئی کے احتجاج میں انہوں نے انتہائی غصے سے کہا۔ کیلاش کو یہ خوف نئے زرعی قوانین میں سے ایک، ضروری اشیاء (ترمیمی) قانون، ۲۰۲۰ کے التزامات سے پیدا ہوا ہے، جو ’غیر معمولی حالات‘ کو چھوڑ کر ’غذائی اشیاء‘ (موٹے اناج، دال، آلو، پیاز، تلہن اور تیل) کے ذخیرہ کی حد کو ہٹا دے گا۔
’’اس ترمیم میں یہ بات پوری طرح واضح ہے کہ کوئی کمپنی اپنے گوداموں میں کتنا ذخیرہ کر سکتی ہے، اس کی کوئی حد نہیں ہوگی۔ نتیجتاً، چاول اور گیہوں – ہمارے ملک کے لاکھوں غریب لوگوں کی یومیہ غذا – جیسی ضروری غذائی اشیاء کی جمع خوری اور کالا بازاری میں اضافہ ہوگا،‘‘ اکولا تعلقہ کے بُدرُک گاؤں کے نام دیو بھانگرے نے کہا۔ وہ بھی کولی مہادیو برادری سے ہیں، اور وہ اور ان کی بیوی سُدھا اپنی چھ رکنی فیملی کے لیے دو ایکڑ زمین پر خاص طور سے باجرا اُگاتے ہیں۔
’’لاک ڈاؤن کے دوران، سرکار ضرورت مندوں اور بنا کام والے لوگوں کو مفت راشن اس لیے تقسیم کر سکی کیوں کہ ان کے پاس اناجوں کا ذخیرہ تھا۔ جمع خوری بحران کے دوران اس غذائی تحفظ کو متاثر کر سکتی ہے،‘‘ ۳۵ سالہ نام دیو نے کہا۔ ان کو یہ بھی لگتا ہے کہ ایسے حالات میں سرکار کو بازار سے اناج خریدنے کے لیے جدوجہد کرنی پڑے گی۔
نام دیو نئے قوانین سے اچھی طرح واقف ہیں، جس کی مخالفت پورے ہندوستان کے کسان کر رہے ہیں۔ وہ زرعی پیداوار کی تجارت و کاروبار (فروغ اور سہل آمیزی) کا قانون، ۲۰۲۰ جو زراعت میں کھلے بازار کی تجارت کو فروغ دیتا ہے، اور کم از کم امدادی قیمت (ایم ایس پی)، زرعی پیداوار مارکیٹنگ کمیٹیوں (اے پی ایم سی)، ریاست کے ذریعہ خرید وغیرہ سمیت کاشتکاروں کی مدد کرنے والی بنیادی شکلوں کو بھی کمزور کرتا ہے۔
’’اگر کسان مہامنڈل [فوڈ کارپوریشن آف انڈیا] کی بجائے کھلے بازار میں زیادہ قیمت پر اناج فروخت کرتے ہیں، تو غریب کسان، مزدور، بزرگ یا معذور افراد اناج خریدنے کہاں جائیں گے؟‘‘ نام دیو نے پوچھا۔ (فوڈ کارپوریشن آف انڈیا آئینی ادارہ ہے، جو پی ڈی ایس کے لیے راشن خریدتا اور تقسیم کرتا ہے۔) ’’کیا کارپوریٹ والے انہیں مفت میں کھلائیں گے؟‘‘
اکولا ضلع کے دگمبر گاؤں کی بھاگوبائی مینگل کے لیے، مناسب کم از کم امدادی قیمت (ایم ایس پی) سب سے فوری تشویش ہے – ملک بھر کے بے شمار کسانوں کے ذریعہ کیا جا رہا مطالبہ، جس کی سفارش قومی کسان کمیشن (سوامی ناتھن کمیشن) نے بھی کی تھی۔ ’’ہمیں ٹماٹر یا پیاز کی اپنی فصل کو [اے پی ایم سی] بازار میں لے جانا پڑتا ہے۔ تاجر ہمیں ۲۵ کلو ٹماٹر کے صرف ۶۰ روپے دیتا ہے،‘‘ ۶۷ سالہ بھاگوبائی نے کہا، جو چاہتی ہیں کہ اس کے لیے انہیں کم از کم ۵۰۰ روپے دیے جائیں۔ ’’نقل و حمل کی لاگت گھٹانے کے بعد، ہمارے لیے کچھ بھی نہیں بچتا ہے۔‘‘
بھاگو بائی چار ایکڑ زمین پر ٹماٹر، باجرا اور دھان کی کھیتی کرتی ہیں۔ ’’یہ جنگل کی زمین ہے، لیکن ہم کافی طویل عرصے سے اس پر کھیتی کر رہے ہیں،‘‘ انہوں نے بتایا۔ ’’سرکار ہمیں اپنی زمین کا مالکانہ حق بھی نہیں دے رہی ہے۔ اور اوپر سے وہ ایسے زراعت مخالف قوانین لا رہے ہیں – کیوں؟‘‘ بھاگوبائی کافی ناراض ہیں۔
احمد نگر کے کسان زراعت- تجارت اور ٹھیکہ پر کھیتی کے برے اثرات کے بارے میں بھی جانتے ہیں، جو کاشت کاروں (کو با اختیار بنانے اور تحفظ فراہم کرنے) کے لیے قیمت کی یقین دہانی اور زرعی خدمات پر قرار کا قانون، ۲۰۲۰ نافذ ہونے پر بڑے پیمانے پر پھیلیں گے۔ دہلی کی سرحدوں پر احتجاج کر رہے کسانوں کی طرح، مہاراشٹر کے کسان بھی ان حالیہ قوانین کو اپنے معاش کے لیے تباہ کن کے طور پر دیکھ رہے ہیں کیوں کہ وہ بڑے کارپوریٹوں کو کسانوں اور زراعت پر زیادہ اختیار فراہم کریں گے۔
حالانکہ ایکناتھ پینگل کو ایسے زرعی انتظامات کا سامنا نہیں کرنا پڑا ہے، لیکن انہوں نے اپنے تعلقہ، اکولا اور پڑوسی علاقوں سے پریشان کرنے والے واقعات کے بارے میں سنا ہے۔ کارپوریٹ کمپنیاں پہلے ہی ہمارے گاؤوں میں داخل ہو چکی ہیں۔ اونچی قیمتوں کے لیے انہیں [کسانوں کو] لبھانا، اور پھر آخری وقت میں پیداوار کو یہ کہتے ہوئے لینے سے منع کر دینا کہ معیار خراب ہے۔‘‘
شمشیر پور گاؤں کے ۴۵ سالہ کسان، ایکناتھ خریف موسم کے دوران پانچ ایکڑ جنگلاتی زمین پر باجرا اور دھان اُگاتے ہیں، اور نومبر سے مئی تک دیگر کھیتوں میں کام کرتے ہیں۔ ’’لاک ڈاؤن کے دوران ایک کمپنی نے ہمارے گاؤں میں سبزی کے بیج اور پھولوں کے پودے تقسیم کیے،‘‘ انہوں نے بتایا۔ ’’کمپنی نے کسانوں کو زمین کے بڑے ٹکڑوں پر پودے لگانے کے لیے کہا۔ جب فصل تیار ہوگئی، تو کمپنی نے یہ کہتے ہوئے [ادائیگی کرنے سے] کھلے طور پر انکار کر دیا، ’ہم آپ کی مرچ اور گوبھی اور پھول گوبھی نہیں لیں گے‘۔ کسانوں کو اپنی فصل پھینکنی پڑی۔‘‘
مترجم: محمد قمر تبریز