’راجا سُپڑکنّو‘ (گجراتی میں) – جس کا مطلب ہے ہاتھی جیسے کانوں والا راجا – میری بچپن کی سب سے پسندیدہ کہانیوں میں سے ایک تھی۔ میں نے اسے پہلی بار اپنی ماں سے سنا تھا۔ بعد میں، میں نے اسے دوسری طرح سے بھی سنا، یہاں تک کہ میں نے گیجو بھائی بدھیکا کی بچوں کے لیے لکھی گئی مختصر کہانیوں میں شامل ورژن بھی پڑھا ہے۔ بدھیکا کی کتاب میں دنیا بھر کی لوک کتھاؤں کے اثرات ہیں، جیسے کہ ’راجا میڈاس کے گدھے کے کان‘، جو شاید ’راجا سپڑکنو‘ کہانی کا اصل ماخذ تھا۔
یہ ایک ایسے راجا کی کہانی تھی جو ایک بار جنگل میں گم ہو گیا تھا اور بھوکا بھٹک رہا تھا، اور ایک گوریا کی گردن کاٹ کر کھا گیا تھا۔ اس کی وجہ سے اسے ایک بد دعا لگی اور راجا کے کان ہاتھی کے کان جیسے بڑے ہو گئے۔ اپنے محل میں واپس لوٹنے کے بعد، اس نے اپنی زندگی کے بقیہ دن ان کانوں کو چھپانے کے لیے، الگ الگ قسم کی ٹوپی اور اسکارف استعمال کیا اور اپنی رعایا کی نظروں سے بچنے کی کوشش کی۔ لیکن، وہ وقت آ ہی گیا، جب اسے اپنے کنٹرول سے باہر جاتے بالوں اور بے ترتیب داڑھی کو کاٹنے کے لیے ایک حجام کو بلانا پڑا۔
راجا کے کان دیکھ کر حجام چونک گیا۔ ساتھ ہی اتنے بڑے کانوں کا شرمناک راز باہر آنے کا خطرہ بھی پیدا ہو گیا۔ طاقتور حکمراں نے حجام کو دھمکایا اور اسے اس بارے میں کسی سے بھی بات کرنے سے منع کیا۔ لیکن، حجام اپنے پیشہ ورانہ برتاؤ کی وجہ سے باتونی ہوتے ہیں اور راز چھپا کر رکھنے کے معاملے میں اتنے اچھے نہیں ہوتے ہیں۔ راجا کے حجام نے، راجا کے راز کو پوشیدہ رکھنے کی جدوجہد میں، جنگل کے ایک درخت کے پاس جا کر اسے پھسپھسا دیا۔
ایک لکڑہارے نے جب اس پیڑ کو کاٹا، تو اس سے راجا کے ہاتھی جیسے کانوں کے راز کے بارے میں ایک گیت میں پھوٹ پڑا۔ لکڑہارے نے اس جادوئی لکڑی کو ایک ڈرم بنانے والے کو بیچ دیا، جس نے اس لکڑی سے ایک ڈرم بنایا۔ یہ ڈرم جب بھی بجایا جاتا تھا، اس سے وہی گانا پھوٹ پڑتا تھا۔ جس آدمی کو گلیوں میں ڈھول بجاتے ہوئے دیکھا گیا تھا اسے سیدھے راجا کے سامنے لایا گیا… مجھے یاد ہے کہ کہانی اس کے بعد تھوڑی دیر اور چلتی رہی تھی، جب تک کہ راجا کو یہ پتہ نہیں چل گیا کہ اسے اپنے گناہوں سے نجات پانے کے لیے سلطنت میں ایک برڈ سینکچوری (پرندوں کے رہنے کا جنگل) بنوانا ہوگا۔
کہ راجا کے ہاتھی جیسے کان ہیں
اپنی زبان بند کرو،
ایک بھی لفظ نہ بولو۔
مت کہو
کہ راجا کے ہاتھی
جیسے کان ہیں۔
کہانیوں کے ہواؤں میں
اڑنے پر
پابندی ہونی چاہیے –
کہ راجا کے ہاتھی
جیسے کان ہیں۔
ساری مینا کہاں گئیں؛
میں نے انہیں دیکھا
تو تھا ایک بار
اور زیادہ دن بھی تو
نہیں ہوئے اس بات کو؟
کس نے بچھایا تھا جال
چپکے سے؟
پھانسنے کو بیج کس نے
بکھیرے؟
سازش کی بو سونگھنا
بند کرو،
سازش کی بات مت
ڈھونڈو –
کہ راجا کے ہاتھی
جیسے کان ہیں۔
اگر تم میناؤں کے حصے
جلا وطنی لکھتے
ان کے گھونسلوں،
پیڑوں، جنگلوں، کھیتوں، اور باقی جگہوں سے
انہیں ہانک دیتے،
تو کیا ان کی زندگی،
ان کے گیت، ان کے سُر
اور اپنی مرضی سے
پنکھ پھڑپھڑانے پر
اب بھی ان کا اختیار
بچا ہوتا؟
ایسے سوال پوچھنا بند
کرو جن سے بے وجہ مشکلیں بڑھ جائیں۔
ایک راجا کے سامنے
میناؤں کی اوقات ہی کیا؟
چڑیا بچاؤ، راجا ہٹاؤ
–
ایسے کھوکھلے نعرے مت
اچھالو –
کہ راجا کے ہاتھی
جیسے کان ہیں۔
پتے نے کہا، ’میں
گواہ ہوں،
میری بات مانو یا
آسمان سے پوچھ لو۔
راجا نے ہی میناؤں کا
قتل کیا ہے۔‘
ہوا کہتی ہے، میرا
بھروسہ کرو،
میں نے ان کی آواز
سنی ہے
راجا کے پیٹ میں مینا
گاتی ہیں۔
لیکن، تم وہ سب مت
سنو جو لوگ کہتے ہیں،
تمہاری آنکھیں جو
دیکھتی ہیں اسے نہ مانو
اور اگر تم کو بھروسہ
کرنا ہی ہے، تو کرو
لیکن، دوبارہ یہ
سوچنے کی بھی ہمت نہ کرنا –
کہ راجا کے ہاتھی
جیسے کان ہیں۔
کیا راجا ہے اور کتنا
عظیم ملک ہے!
بھگوان کی طرح کپڑے
پہنتا ہے،
اور بھوکے کو کھا
جاتا ہے؟
ایسی فالتو کی باتیں
نہ کرو، التجا ہے۔
دن بھر اپنی انا سے
نہ الجھے رہو۔
تم کو دیوار نظر آتی
ہے
تو بیشک دراڑیں بھی
نظر آئیں گی۔
لیکن، ہر دراڑ، ہر
سوراخ کی
گہرائی میں مت جاؤ۔
ہر دوسرے گاؤں کے نکڑ
پر
تم کو سچ سنائی دے گا
ہزار الگ زبانوں میں
بولتا۔
پاگلوں کی طرح اس کا
پیچھا مت شروع کر دینا۔
کسی بیوقوف پودے سے
بھی بات نہ کرنا۔
اس کا گیت گانے کی کوئی
ضرورت نہیں ہے،
نہ ہی ڈھول پیٹنے کی
–
کہ راجا کے ہاتھی
جیسے کان ہیں۔
میری بات سن لو،
میناؤں اور پیڑوں کو بھول جاؤ،
جنگل کی طرف دیکھنا
ہی بند کر دو۔
اور اگر دیکھنا ہی ہے
تو دیکھو، مگر اچھی طرح جان لو
اور رحم کرو، مائی
باپ۔
نظم میں ایسا لکھنے
کی غلطی
کبھی نہ کرنا –
کہ راجا کے ہاتھی
جیسے کان ہیں۔
اوہ ہو، راجا کے
ہاتھی جیسے کان ہیں۔
مترجم: محمد قمر تبریز