پرکاش بھگت المونیم کے ایک بڑے برتن کی طرف جھکتے ہیں اور آلو مٹر کی سبزی کو کفگیر (یا کرچھی) سے چلاتے ہیں۔ وہ اپنا وزن بائیں پیر پر ڈالتے ہیں، اور ان کا دایاں پیر ہوا میں لٹکتا رہتا ہے۔ خود کو متوازن کرنے کے لیے پرکاش لاٹھی کا استعمال کرتے ہیں۔
بھگت (۵۲ سال) کہتے ہیں، ’’میں ۱۰ سال کی عمر سے ہی لاٹھی کے سہارے چل رہا ہوں۔ میں بچپن سے ہی اپنا پیر پکڑ کر چلتا تھا۔ میرے والدین نے مجھے بتایا تھا کہ میری ایک رگ کھنچ گئی تھی۔‘‘
پیر کے مسئلہ نے بھگت کے عزم پر اثر نہیں ڈالا۔ جب مہاراشٹر کے رائے گڑھ ضلع کے پنویل تعلقہ میں واقع ان کے گاؤں، پرگاؤں کے لوگوں نے دہلی جانے والے گاڑیوں کے مورچے میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا، تو پرکاش کو اس میں شامل ہونے کے لیے دو بار سوچنے کی ضرورت نہیں پڑی۔ سبزی کا ذائقہ لیتے ہوئے، پرکاش کہتےہیں، ’’میں یہاں ایک مقصد کے ساتھ آیا ہوں۔‘‘
راجدھانی دہلی کی تین الگ الگ سرحدوں پر ستمبر سے ہی ہزاروں کسان، مرکزی حکومت کے ذریعے تھوپے گئے تین زرعی قوانین کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کر رہے ہیں۔ احتجاج کر رہے کسانوں کو اپنی حمایت دینے اور ان کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرنے کے لیے، ۲۱ دسمبر کو مہاراشٹر کے تقریباً ۲۰۰۰ کسان ناسک میں جمع ہوئے۔ یہ تمام کسان تقریباً ۱۴۰۰ کلومیٹر دور واقع، دہلی جانے والے جتھے (قافلہ) میں شامل ہونے کے لیے جمع ہوئے تھے۔
پرگاؤں سے بھی ۳۹ لوگوں نے اس مورچے میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا۔ بھگت کہتے ہیں، ’’اس ملک کے کسانوں کے ساتھ دھوکہ ہوا ہے۔ زیادہ سے زیادہ کسانوں کو ان کی پیداوار کے لیے ایک طے قیمت ملنی چاہیے۔ یہ زرعی قوانین انہیں قرض کے جال میں مزید پھنسا دیں گے۔ کسانوں کو بڑی بڑی کمپنیوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے گا، جو ان کا استحصال کریں گی۔ ان زرعی قوانین سے پنجاب اور ہریانہ کے کسانوں کو فوری نقصان پہنچ رہا ہے، اسی لیے اس تحریک میں ان کی حصہ داری زیادہ ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ملک کے دوسرے کسان اس سے متاثر نہیں ہوں گے۔‘‘
بھگت خود ایک ماہی گیر ہیں۔ وہ پوچھتے ہیں، ’’کسانوں کی حمایت کرنے کے لیے میرا کسان ہونا کیوں ضروری ہے؟ زیادہ تر لوگوں کو یہ احساس نہیں ہے کہ زراعت سے ہی دیہی معیشت چلتی ہے۔ اگر کسان مشکل میں رہیں گے، تو میری مچھلیاں کون خریدے گا؟‘‘
بھگت کیکڑے اور جھینگا پکڑتے ہیں، اور انہیں پنویل کے بازار میں فروخت کر دیتے ہیں، جس سے ایک مہینہ میں تقریباً ۵۰۰۰ روپے کی کمائی ہو جاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’میرے پاس کوئی بڑی یا موٹر والی کشتی نہیں ہے۔ جب میں مچھلی پکڑنے جاتا ہوں، تو میں اسے ہاتھ سے ہی چلاتا ہوں۔ دوسرے ماہی گیر کھڑے ہو کر چارہ پھینکتے ہیں۔ میں پیر کے مسئلہ کی وجہ سے کشتی میں خود کو متوازن نہیں رکھ سکتا۔ اس لیے، مجھے بیٹھ کر مچھلیاں پکڑنی پڑتی ہیں۔‘‘
حالانکہ، بھگت ماہی گیر ہیں، لیکن انہیں مٹن (بکرے کا گوشت) پکانا بہت پسند ہے۔ وہ بتاتے ہیں، ’’مجھے خاص طور پر گاوٹھی (جیسا گاؤں میں بنتا ہے) طریقے سے مٹن پکانا پسند ہے۔ مجھے ہمیشہ سے ہی کھانا پکانا پسند رہا ہے۔ میں اپنے گاؤں کی شادیوں میں مختلف قسم کے پکوان بناتا ہوں۔ میں اس کے پیسے نہیں لیتا۔ میں یہ کام صرف پیار محبت کی وجہ سے کرتا ہوں۔ اگر کسی پروگرام یا تقریب میں کھانا پکانے کے لیے گاؤں کے باہر سے کوئی مدعو کرتا ہے، تو میں ان سے صرف سفر کا خرچ اٹھانے کے لیے کہتا ہوں۔ اس لیے، جب میرے گاؤں کے لوگوں نے اس مورچے میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا، تو میں نے اس سفر کے دوران ان کے لیے کھانا بنانے کی پیشکش کی۔‘‘ اس احتجاجی مارچ میں وہ تقریباً ۴۰ لوگوں کے لیے کھانا بنا رہے ہیں۔
پرگاؤں کے لوگوں نے جتھے میں شامل ہونے کے لیے ایک بس کرایے پر لی ہے، جس کا انتظام کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکس وادی) سے وابستہ ’آل انڈیا کسان سبھا‘ نے کیا ہے۔ بنیادی طور پر ٹیمپو اور چار پہیہ گاڑیوں کے اس کارواں کے بیچ، نارنجی رنگ کی یہ لمبی چوڑی بس دور سے ہی نظر آ جاتی ہے۔ بس میں ۶ کلو پیاز، ۱۰ کلو آلو، ۵ کلو ٹماٹر اور ۵۰ کلو چاول کے بورے کے ساتھ دیگر سامان رکھے ہوئے ہیں۔ اس مارچ کی قیادت کرنے والے کارکن جیسے ہی ریلی کے لیے رکتے ہیں، بھگت اور ان کے دو ساتھی کھانا پکانے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔
بھگت اپنی لاٹھی کے سہارے بس میں رکھے سامان کی طرف بڑھتے ہیں۔ ان کا ایک ساتھی کھانا پکانے کے لیے ضروری سامان نکالتا ہے، جس میں ایک کافی وزنی گیس سیلنڈر بھی ہے۔ ۲۲ دسمبر کی دوپہر کو مورچہ مالیگاؤں قصبہ میں رکا ہوا ہے، اور لنچ میں آلو مٹر کی سبزی کے ساتھ چاول بنایا جا رہا ہے۔ بس کے بغل میں زمین پر رکھی بیڈ شیٹ پر ٹھیک سے بیٹھنے کی کوشش کرتے ہوئے، اور پیاز کاٹتے وقت، بھگت ہم سے بات کر رہے ہیں اور کہتے ہیں، ’’ہمارے پاس تین دنوں کے لیے پورا سامان موجود ہے۔ ہم میں سے زیادہ تر لوگ مدھیہ پردیش کی سرحد سے ہی واپس گھر لوٹ جائیں گے۔ کچھ لوگ دہلی جائیں گے۔ ہم لمبے عرصے تک کام کاج سے دور نہیں رہ سکتے ہیں۔‘‘
ان کے گاؤں، پرگاؤں کے زیادہ تر لوگوں کا تعلق کولی برادری سے ہے اور یہ لوگ معاش کے لیے مچھلیاں پکڑنے پر منحصر ہیں۔ بھگت کہتے ہیں، ’’ہم مہینہ میں ۱۵ دن سمندر میں جاتے ہیں۔ ہم چھوٹی لہروں میں مچھلی نہیں پکڑ سکتے۔‘‘ وہ اس ہفتے جمعہ یا ہفتہ کو ہائی ٹائڈ (اونچی لہر) کے وقت پرگاؤں لوٹنا چاہتے ہیں۔ وہ آگے کہتے ہیں، ’’ہم اس موقع کو کسی بھی قیمت پر کھو نہیں سکتے۔ لاک ڈاؤن کے بعد سے ہم نے بہت کچھ برداشت کیا ہے۔ ہم نے اپنی سلامتی کے لیے مچھلیاں پکڑنا بند کر دیا تھا۔ ہم نہیں چاہتے تھے کہ کورونا وائرس کی چپیٹ میں آ جائیں۔ پولیس بھی ہمیں بازار میں مچھلیاں نہیں بیچنے دے رہی تھی۔ اب ہم آہستہ آہستہ خود کو کھڑا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہم ایک اور رکاوٹ برداشت نہیں کر سکتے۔‘‘
لاک ڈاؤن کے شروعاتی دور میں پرگاؤں کے لوگوں نے اپنے گاؤں کو پوری طرح سیل کر دیا تھا۔ بھگت کہتے ہیں، ’’ریاست نے جب کچھ پابندیوں میں چھوٹ دے دی تھی، تب بھی ہم نے اپنے گاؤں کو نہیں کھولا تھا۔ وائرس سے بچے رہنے کے لیے، کسی نے اپنے رشتہ داروں کو بھی گاؤں میں داخل نہیں ہونے دیا۔‘‘
ایک ایسا گاؤں جس نے لاک ڈاؤن کے دوران کسی کو بھی اپنی سرحدوں کی خلاف ورزی نہیں کرنے دی، اس کے ۳۹ باشندے ریاست کے الگ الگ حصوں میں آئے ہزاروں کسانوں کے ساتھ احتجاجی مارچ میں شامل ہوئے۔ بھگت کہتے ہیں، ’’کسانوں کا ساتھ دینے سے پہلے آپ کو سوچنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔‘‘
مترجم: محمد قمر تبریز