’’پولس نے ہمیں گھر کے اندر رہنے کے لیے کہا تھا۔ ہم جب بھی کھانے پینے کا یا دیگر ضروری سامان لینے باہر جاتے، تو پولس والے ڈنڈا مارتے ہوئے ہمیں ہمارے کمرے تک لے آتے تھے۔ رات کو اگر ہم پیشاب کرنے کے لیے بھی باہر نکلتے، تو وہ وہاں موجود ہوتے تھے، ہمارے اوپر ڈنڈا برسانے کا انتظار کر رہے ہوتے،‘‘ ڈولا رام، ملک گیر کووڈ- ۱۹ لاک ڈاؤن کے اعلان کے ابتدائی دنوں میں ممبئی میں اپنے قیام کو یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں۔
۲۵ مارچ کی صبح کو ڈولا رام اور ان کے ہمراہ کام کرنے والے دیگر ساتھیوں نے جب لاک ڈاؤن کے بارے میں سنا، تو وہ ملاڈ میں اپنے تعمیراتی مقام سے، بوری وَلی میں واقع اپنے کمرے پر چلے آئے۔ چھ دنوں تک وہ اپنے اسی تنگ کمرے میں بند رہے – جس میں ان کے ساتھ کل ۱۵ لوگ رہتے ہیں اور ان میں سے ہر ایک ۱۰۰۰ روپے ماہانہ کرایہ دیتا ہے – اس امید میں کہ صورتحال بدلے گی۔ جلد ہی، ان کے کھانے کا سامان ختم ہونے لگا۔ لہٰذا، ۳۷ سالہ ڈولا رام اور ان کے دیگر ساتھیوں نے راجستھان کے اپنے اپنے گاؤوں واپس جانے کا فیصلہ کیا۔
’’ممبئی میں کوئی کام نہیں تھا۔ ہم لوگ چونکہ ہولی کے بعد [اپنے گاؤں سے] ابھی ابھی لوٹے تھے، اس لیے ہمارے پاس بچت کا کوئی پیسہ بھی نہیں تھا۔ اس لیے شہر میں قیام کرنے کا کوئی مطلب ہی نہیں تھا،‘‘ ڈولا رام ہم سے فون پر بات کرتے ہوئے بتاتے ہیں۔ شہر چھوڑنے سے پہلے انہیں خبر ملی تھی کہ ان کا پانچ سال کا بیٹا بیمار ہے۔ ان کی بیوی، سندر، اور دیگر رشتہ دار اس بچے کو پہلے اسپتال لے گئے، پھر بھوپا ، یا مقامی حکیم، کے پاس لے گئے لیکن وہ ٹھیک نہیں ہو پا رہا تھا۔
ڈولا رام، راجستھان کے اُدے پور ضلع کے بیرولیا میں (۹-۱۰ مارچ کو) ہولی منانے کے کچھ دنوں بعد ممبئی لوٹے تھے۔ وہ روزی روٹی کمانے کے لیے، ہر سال ۸-۹ مہینے سلومبر بلاک کے اپنے گاؤں سے دور گزارتے ہیں۔ گزشتہ ۱۵ برسوں سے وہ تعمیراتی مقامات پر راج مستری کا کام کرتے آ رہے ہیں، جس کے لیے وہ یا تو راجستھان کے اندر ہی مختلف شہروں کی طرف کوچ کر جاتے ہیں یا پھر گوا، پونہ اور گجرات جیسے دور دراز مقامات کا سفر کرتے ہیں۔ وہ پچھلے دو سال سے ممبئی آ رہے ہیں۔ ڈولا رام کی موجودہ نوکری سنگ مرمر کو تراشنے سے جڑی ہوئی تھی، جس کے لیے انہیں ماہانہ ۱۲ ہزار روپے ملتے تھے، جس میں سے وہ ۷-۸ ہزار روپے اپنے گھر بھیج دیتے تھے۔ وہ سال میں دو بار اپنے گھر جاتے ہیں – ایک بار ہولی میں اور دوسری بار اکتوبر-نومبر میں – اور ہر بار وہاں ۱۵ سے ۳۰ دن تک رکتے ہیں۔
ڈولا رام کے لیے ممبئی سے بیرولیا کا حالیہ سفر نہ صرف معمول کے مخالف تھا، بلکہ مشکل بھرا بھی تھا۔ وہ اور ان کے دیگر ساتھی لاک ڈاؤن کے چھ دن بعد، ۳۱ مارچ کو شہر سے روانہ ہوئے۔ ’’ہم ۱۹ لوگوں نے راجستھان کے اپنے گاؤں تک کے لیے ۲۰ ہزار روپے میں ایک ٹیکسی کرایے پر لی۔ لیکن، پولس نے مہاراشٹر کی سرحد سے ہمیں واپس لوٹا دیا اور ممبئی میں لاکر قید کر دیا،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔
اپنے ارادے کے پختہ، وہ لوگ ۱ اپریل کو صبح ۵ بجے ایک بار پھر ممبئی سے روانہ ہوئے۔ اس بار وہ جوڑی بناکر نکلے، اور مہاراشٹر-گجرات سرحد کی طرف بڑھنے لگے۔ راستے میں کھانے کے لیے انہوں نے خشک چپاتیاں رکھ لیں، جو ایک دن سے بھی کم وقت میں ختم ہو گئیں۔ اگلے دن جب وہ سورت پہنچے، تو وہاں کا ماحول گرم ہونے لگا تھا، مہاجر مزدور احتجاج کر رہے تھے کہ انہیں واپس اپنے گھر جانے کی اجازت دی جائے۔ سورت میں پولس ان لوگوں کی مدد کر رہی تھی، وہ بتاتے ہیں، انہیں چائے اور بسکٹ دے رہی تھی۔ انہوں نے ان لوگوں کو ایک ٹرک میں بیٹھا کر وہاں سے تقریباً ۳۸۰ کلومیٹر دور، راجستھان کی سرحد کے پاس، بانسواڑہ تک بھیجنے کا بھی انتظام کیا۔
بانسواڑہ کی سرحد پر، مقامی حکام نے بخار کی جانچ کرنے کے لیے ان کی اسکریننگ کی اور انہیں جانے کی اجازت دے دی۔ ’’وہاں پر ہمیں گلوکوز کے بسکٹ دیے گئے۔ ہم نے کچھ وہیں پر کھائے اور کچھ آگے کے راستے کے لیے رکھ لیے،‘‘ ڈولا رام بتاتے ہیں۔ وہاں سے وہ، تقریباً ۶۳ کلومیٹر دور، آس پور تک پیدل پہنچے اور رات ایک دھرم شالہ میں گزاری۔ اس کے بعد وہ سبزیاں پہنچانے والے ایک پِک اپ ٹرک میں بیٹھ کر سلومبر پہنچے، اس ۲۴ کلومیٹر لمبی دوری کا ٹرک والے نے ان سے ایک بھی پیسہ نہیں لیا۔ آخرکار، وہ ۵ اپریل کو شام ۷ بجے سلومبر سے ۱۴ کلومیٹر دور، اپنے گاؤں بیرولیا پہنچ گئے۔
وہ یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ بانسواڑہ میں کچھ پولس والوں نے انہیں اور ان کے ساتھیوں کو (کورونا وائرس کی) ’بیماری پھیلانے والا‘ کہا۔ ’’ہماری [بخار کے لیے] جانچ ہوئی تھی۔ مجھے سمجھ میں نہیں آتا کہ ہمارے ساتھ اس طرح کا بھید بھاؤ کیوں کیا جاتا ہے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔
ڈولا رام کی پریشانیاں گھر پہنچنے کے بعد بھی ختم نہیں ہوئیں۔ وہ اپنے بیمار بیٹے کو لیکر مالپور کے پرائمری ہیلتھ کیئر سینٹر پہنچے، جو کہ بیرولیا سے تقریباً ۵-۶ کلومیٹر دور ہے۔ ہم نے جب ۶ اپریل کو ان سے بات کی، تو انہوں نے ہمیں بتایا، ’’میرے بیٹے کو تیز بخار ہے۔ کل جب میری بیوی اور میں اسے اسپتال لے گئے تھے، تو پولس نے ہمارے اوپر حملہ کرنا شروع کر دیا اور ہم سے گھر واپس چلے جانے کو کہا۔ ہم نے جب انہیں بتایا کہ ہم اسپتال جا رہے ہیں، تب جاکر انہوں نے ہمیں آگے جانے کی اجازت دی۔‘‘ اسپتال میں، ان کے بیٹے پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ ’’اسپتالوں میں اس وقت کافی لوگ ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر نے ہمارے بیٹے کو ٹھیک سے دیکھا تک نہیں اور ہم سے واپس چلے جانے کو کہا۔‘‘
تین دن بعد اس بچے کی موت ہو گئی، اس کی بیماری کا علاج تک نہیں ہوا۔ والد، جو گہرے صدمے میں تھے اور چند دنوں تک بات کرنے کی حالت میں نہیں تھے، اب ہم سے کہتے ہیں، ’’اس کے بارے میں کوئی بھی کچھ نہیں کر سکتا۔ بھوپا اور ڈاکٹر بھی کچھ نہیں کر سکتے۔ ہم نے اسے بچانے کی ہر ممکن کوشش کی، لیکن اسے بچا نہیں سکے۔‘‘ اس کے گھر والوں کا ماننا ہے کہ بچے کے اوپر کوئی بری آتما تھی۔
بیرولیا گاؤں کی کل آبادی ۱۱۴۹ ہے، جس میں سے تقریباً ہر کوئی مینا برادری سے تعلق رکھتا ہے، جو کہ ایک درج فہرست قبیلہ ہے جس کی آبادی یہاں ۹۹ء۵۶ فیصد ہے۔ گاؤں کی آمدنی کی ایک بڑا حصہ اُن مردوں کے ذریعے آتا ہے جو کام کرنے کے لیے ہجرت کرتے ہیں – جیسا کہ ڈولا رام کرتے ہیں۔ راجستھان کے مہاجر مزدوروں کے ساتھ کام کرنے والی ایک تنظیم، آجیویکا بیورو کے ذریعے حال ہی میں سلومبر بلاک میں کیا گیا ایک تجزیہ بتاتا ہے کہ تقریباً ۷۰ فیصد گھروں میں سے کم از کم ایک مرد کام کے لیے ہجرت کرتا ہے۔ یہ لوگ اپنے گھر پر جو پیسہ بھیجتے ہیں وہ ان گھروں کی کل آمدنی کا تقریباً ۶۰ فیصد حصہ ہوتا ہے۔ عورتیں اور نوجوان لڑکیاں عام طور سے سلومبر میں ہی مقامی تعمیراتی جگہوں پر کام کرتی ہیں۔
ملک بھر کی ریاستوں نے لاک ڈاؤن کے بعد جب اپنی سرحدوں کو سیل کر دیا تھا اور بین ریاستی آمد و رفت پر روک لگا دی گئی تھی، تب راجستھان کے ہزاروں مہاجر مزدور پھنس گئے تھے۔ اِکنامک ٹائمز کی ۲۵ مارچ کی ایک رپورٹ نے بتایا کہ راجستھان کے ۵۰ ہزار مزدور، جو احمد آباد میں رہتے ہیں، انہوں نے پیدل ہی اپنے گھروں کی طرف چلنا شروع کر دیا ہے۔
انہیں میں سے ایک ۱۴ سالہ مکیش (بدلا ہوا نام) ہیں، جو لاک ڈاؤن کی وجہ سے بیرولیا اپنے گھر لوٹے تھے۔ وہ احمد آباد میں ایک ڈھابے پر کام کرتے تھے، وہاں چپاتی بناتے تھے، اور ۸ ہزار روپے ماہانہ پاتے تھے۔ مکیش اپنی فیملی میں واحد کمانے والے رکن ہیں۔ ان کی بیوہ ماں، رام لی (بدلا ہوا نام) کو تپ دق کی بیماری ہے۔ وہ مقامی تعمیراتی جگہ پر بطور یومیہ مزدور کام کرتی ہیں، لیکن وہ بہت دیر تک محنت بھرا کام نہیں کر سکتیں۔ ’’میں جانتا ہوں کہ میں ابھی چھوٹا [کم عمر] ہوں لیکن مجھے کام کرنا ہی پڑے گا۔ کوئی دوسرا متبادل نہیں ہے،‘‘ مکیش کہتے ہیں، جن کے مزید چار چھوٹے بھائی بہن ہیں۔
’’نہ تو کوئی پیسہ اور نہ ہی کوئی کام بچا ہے۔ آخر ہم کیا کریں؟‘‘ ۴۰ سالہ رام لی پوچھتی ہیں، جن کا تعلق مینا قبیلہ سے ہے۔ ’’ہمیں ابھی بھی کام کرنا ہوگا، تاکہ کچھ پیسے کما سکیں اور اپنے بچوں کو کھلا سکیں اور قرض چکا سکیں۔ سرکار ہمیں کچھ بھی نہیں دینے جا رہی ہے،‘‘ وہ ایک فون کال کے دوران کہتی ہیں۔
لاک ڈاؤن میں تعمیراتی مقامات پر چونکہ کوئی کام نہیں ہے، اس لیے رام لی کو پاس کی ایک بستی میں کھیت پر کام کرنے کو مجبور ہونا پڑا۔ لیکن ۲-۳ دنوں کے بعد انہوں نے وہاں جانا چھوڑ دیا، کیوں کہ ان کی دوا ختم ہو گئی تھی اور وہ بیمار پڑ گئیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ ریاستی حکومت کے ریلیف پیکیج کے طور پر ’سب سے کمزور کنبوں‘ کو جو راشن کٹس تقسیم کیے جا رہے تھے، اسے حاصل کرنے کے لیے انہیں گاؤں کی پنچایت سے جھگڑا کرنا پڑا۔ ان کا نام اُس لسٹ میں نہیں آ پایا تھا، کیوں کہ پنچایت آفس کے سرپنچ اور سچیو نے کبھی ان کے گھر کا دورہ ہی نہیں کیا، جو کہ سڑک کے اُس پار اور جنگل کے قریب ہے۔
رام لی اور مکیش کو آخرکار جب راشن ملا، تو وہ پیکیج بھی پورا نہیں تھا۔ ’’ہمیں گیہوں یا چاول نہیں ملا، جیسا کہ دوسری راشن کٹس میں ہوتا ہے۔ لیکن مجھے نہیں معلوم کہ اس کے لیے کس سے بات کی جائے،‘‘ مکیش ہمیں بتاتے ہیں۔ ان کے حصہ میں صرف ۵۰۰ گرام چینی اور تیل، ۱۰۰ گرام مرچ پاؤڈر اور کچھ دوسرے مسالے آئے۔ حالانکہ، ریلیف پیکیٹ میں ایک ایک کلو چینی اور تیل، پانچ پانچ کلو گیہوں اور چاول، اور کچھ مسالے ہونے چاہیے تھے۔
’’سرکاری اعلان کے مطابق اس مہینے ہمیں راشن پیشگی میں دے دیا گیا ہے۔ یہ فی کس کے حساب سے صرف پانچ کلو گیہوں ہے، کوئی اور اضافی اشیاء نہیں۔ پانچ کلو کا یہ راشن اگلے پانچ دنوں میں ختم ہو جائے گا،‘‘ ۴۳ سالہ شنکر لال مینا کہتے ہیں، جو بیرولیا سے تقریباً ۶۰ کلومیٹر دور، ڈونگرپور ضلع کے سگوارا بلاک کے تمتیا گاؤں کے ایک کارکن ہیں۔
بدعنوان راشن ڈیلرز حالات کو مزید بدتر بنا رہے ہیں، شنکر کا کہنا ہے۔ ’’جو راشن ڈیلر ہماری بستی میں یہ اشیاء پہنچانے آتا ہے، وہ آج بھی وزن کرتے وقت ایک یا دو کلو چوری کر لیتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ وہ چوری کر رہا ہے، لیکن کیا کہہ سکتے ہیں؟ گاؤوں میں کیرانہ کی دیگر دکانوں پر وہی سامان دو گنی قیمت پر ملتے ہیں۔‘‘
واپس بیرولیا میں، لوگ اپنے ذریعہ معاش کو لیکر تیزی سے فکرمند ہوتے جا رہے ہیں۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے چونکہ ہر جگہ پر تعمیراتی کام ملتوی ہوتا جا رہا ہے، اس لیے ڈولا رام، جن کے پاس کوئی زمین نہیں ہے، کو اپنے ۳۵ ہزار روپے کا قرض چکانے کو لیکر مزید تشویش ہونے لگی ہے – جو انہوں نے اپنے بچے کے علاج کے لیے متعدد رشتہ داروں سے اُدھار لیے تھے، اور ممبئی سے اپنے گھر واپس آنے کے لیے اپنے کچھ دوستوں اور وہاں کے ایک چھوٹے دکاندار سے بھی قرض لیے تھے۔ اوپر سے ایک مصیبت اور آ گئی، ۱۲ اپریل کو ایک حادثہ میں ان کی ایک ٹانگ ٹوٹ گئی تھی، اور انہیں نہیں معلوم کہ وہ دوبارہ کب کام کرنے کے لائق ہو پائیں گے۔
رام لی کو ڈر ہے کہ آمدنی ختم ہو جانے سے ان کی گھریلو پریشانیوں میں اضافہ ہوگا۔ ان کو اپنے چار قرضے اتارنے ہیں، جو ۱۰ ہزار روپے کے ہیں، جو انہوں نے نجی ساہوکار سے لیے تھے۔ اس پیسے کا استعمال ان کے علاج، ان کے گھر کی مرمت، اور ملیریا کے مرض میں مبتلا ان کے ایک بچے کا علاج کرنے میں ہوا تھا۔ آخری قرض انہوں نے پہلے کے دیگر قرضوں کو اتارنے کے لیے لیا تھا۔
ڈولا رام، مکیش اور رام لی کو نہیں معلوم کہ انہیں جو وقت اور اجرتوں کا نقصان ہوا ہے اس کی بھرپائی وہ کیسے کریں گے، اس لیے وہ آنے والے سال کو لیکر غیر یقینیت کے شکار ہیں۔ ’’میں نے اپنی بچت کے زیادہ تر پیسے ہولی کے دوران ہی خرچ کر دیے تھے،‘‘ ڈولا رام بتاتے ہیں۔ ’’ہم نے گھر واپس آنے کے لیے کسی طرح سے پیسے کا انتظام کیا۔ ٹھیکہ دار نے بھی پیشگی میں ادائیگی کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ اب دیکھتے ہیں کہ آگے کیا ہوتا ہے۔‘‘
مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز