’’اے کومل! کائے مال آہے!‘‘ ’’اے لال، چھان دِستے!‘‘ مرد چھیڑتے ہیں۔ اسٹیج پر رقص کر رہیں پندرہ سالہ کومل کو اپنے لباس کے رنگ یا اپنے نام کے ساتھ اس طرح کے فقرے سننے کی عادت پڑ گئی ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’’تماشائیوں میں سے کچھ مرد مجھے متوجہ کرنے کے لیے ایک دوسرے سے مسابقت کرتے ہیں۔ اگر میں کسی شخص کی جانب دیکھ لیتی ہوں، تو اس کا دوست چیخ کر کہتا ہے، ’اس کی طرف مت دیکھو، اس کی ایک گرل فرینڈ ہے! مجھے دیکھو‘۔‘‘

منگلا بنسوڈے اور نتن کمار تماشہ منڈل کی رقاصائیں بھی یہ دیکھنے کے لیے ایک دوسرے سے مقابلہ کرتی ہیں کہ کس کی پذیرائی سب سے زیادہ ہو رہی ہے۔ ۱۸ برس کی کاجل شندے کہتی ہیں کہ وہ سیٹی بجانے اور زور زور سے آوازیں کسنے کے لیے مردوں کو اکساتی ہیں۔ تماشائیوں کو چھیڑتے ہوئے کہتی ہیں، ’’کیا آپ نے کھانا نہیں کھایا… طبیعت تو ٹھیک ہے؟‘‘ وہ اپنے کانوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتی ہیں، ’’ہمیں آپ کی آواز سنائی نہیں دی!‘‘

کاجل اور کومل لیڈ رقاصہ ہیں۔ یہ دونوں تقریباً ۱۵۰ دیگر فنکاروں اور مزدوروں کی طرح سینئر تماشہ فنکار منگلا بنسوڈے کی سربراہی والے پھڈ (منڈلی) میں کام کرتی ہیں۔ مہاراشٹر کے دیہاتوں میں تماشہ اب بھی ایک مقبول عام لوک آرٹ ہے۔ یہاں ستمبر سے مئی کے دوران تماشہ (شو) دکھانے کا موسم رہتا ہے۔ اس موسم میں یہ تقریباً ہر روز مختلف گاؤوں کا سفر کرتے ہیں۔ ان کے شو تقریباً ۱۱ بجے رات سے شروع ہوتے ہیں، اور کبھی کبھی طلوع آفتاب تک جاری رہتے ہیں۔ شو سے قبل ایک آؤٹ ڈور اسٹیج تیار کیا جاتا ہے جس پر یہ اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہیں، اور شو کے اختتام پر اسٹیج کو اٹھا لیا جاتا ہے۔ منگلا تائی کی منڈلی کامیاب ترین تماشہ منڈلیوں میں سے ایک ہے۔ لیکن بہت سی دوسری منڈلیاں ٹکٹوں کی فروخت اور منافع میں آئی کمی سے جوجھ رہی ہیں۔ (دیکھیں ’تماشہ ایک جیل ہے، جس میں میں رہنا چاہتا ہوں‘ ، اور تماشہ کا سفر تبدیلی کے ساتھ جاری ہے )

Audience appreciation determines a tamasha's success  – to generate it, the female dancers must perform vigorously, listen to lewd comments, pretend to like the catcalls
PHOTO • Shatakshi Gawade
Audience appreciation determines a tamasha's success  – to generate it, the female dancers must perform vigorously, listen to lewd comments, pretend to like the catcalls
PHOTO • Shatakshi Gawade

تماش بین کی طرف سے ملنے والی پذیرائی تماشہ کی کامیابی کی دلیل ہوتی ہے۔ اس کے لیے رَقّاصاؤں کو پورے جوش کے ساتھ  پرفارم کرنا پڑتا ہے، فحش فقرے سننے پڑتے ہیں، اور یہ ظاہر کرنا پڑتا ہے کہ اپنے اوپر کسے گئے فقروں کو وہ پسند کرتی ہیں

ان کے پَھڈ کے تماشوں میں اسٹیج رنگ برنگی روشنیوں میں ڈوبا رہتا ہے۔ اس کے چاروں طرف بڑے بڑے اسپیکر لگے ہوتے ہیں۔ سامنے ایک قطار میں لگی مشینیں ڈرامائی لمحات کے دوران آگ اگلتی ہیں۔ رقاصائیں بعض گانوں کے دوران اسٹیج کے کونوں پر نصب دھات کے کھمبوں پر چڑھ جاتی ہیں۔ احمد نگر ضلع کے شیوگاؤں تعلقہ کے شیوگاؤں کی رہنے والی کومل کہتی ہیں، ’’بعض اوقات کھمبوں سے بجلی کے جھٹکے لگتے ہیں۔ لہذا ہمیں محتاط رہنا پڑتا ہے۔‘‘

تماشہ منڈلی کی کامیابی کا دار و مدار ٹکٹوں کی فروخت پر بھی ہوتا ہے۔ ٹکٹوں کی فروخت کا انحصار شو کے دوران پیدا ہونے والی تماش بین کی تعریفی شور سے ہوتا ہے۔ کاجل کہتی ہیں، ’’ہم ان سے زور سے سیٹی بجانے کو کہتے ہیں، کیونکہ اگر عوام لطف اندوز ہوں گے، تو یہ ہمارے تماشہ کو مزید تقویت بخشے گا۔‘‘

تماش بین مقبول گانوں کے لیے ’’ایک بار پھر‘‘ کا شور بلند کرتے ہیں، تو منڈلی کو اس کی تعمیل کرنی پڑتی ہے۔ ۶۶ سالہ منگلا تائی کہتی ہیں، ’’ہم عوام کی خدمت کرتے ہیں، انہیں ہنساتے ہیں اور ان کی تفریح کرتے ہیں۔ ہم انہیں ان کے مسائل بھولنے میں مدد کرتے ہیں۔‘‘

اس کے لیے خاص طور پر رَقّاصاؤں کو چاہیے کہ وہ پر جوش طریقے سے پرفارم کریں، کثرت سے فحش تبصرے سنیں، خواہ انہیں لوگوں کےفقرے پسند ہوں یا نہ ہوں لیکن ان پر اپنی پسندیدگی کا اظہار کریں۔

A tent backstage is usually the 'green room' to get ready. Right: At 66, troupe owner and veteran artist Magalatai Bansode still performs and draws crowds
PHOTO • Shatakshi Gawade
A tent backstage is usually the 'green room' to get ready. Right: At 66, troupe owner and veteran artist Magalatai Bansode still performs and draws crowds
PHOTO • Shatakshi Gawade

تیار ہونے کے لیے عام طور پر اسٹیج کے پیچھے ’گرین روم‘ کی شکل میں ایک خیمہ نصب ہوتا ہے۔ دائیں: منڈلی کی مالکن اور تجربہ کار فنکار، ۶۶ سالہ منگلا تائی بنسوڈے اب بھی پرفارم کر رہی ہیں اور ہجوم کو اپنی طرف متوجہ کر رہی ہیں

تماش بینوں کے ساتھ معنی خیز تعامل پریشانی کا باعث بن سکتا ہے۔ جب کوئی مرد شو سے پہلے یا بعد میں ناپسندیدہ پیش رفت کرتا ہے، تو کومل اس سے کہتی ہیں کہ وہ شادی شدہ ہیں۔ وہ ہنستے ہوئے کہتی ہیں، ’’کبھی کبھی میں جھوٹ بولتی ہوں کہ میرے پانچ بچے ہیں۔‘‘ کومل کے والد پھڈ کے منیجر ہیں اور ان کی والدہ پچھلے سال کام سے ریٹائر ہونے تک اس منڈلی کے ساتھ بطور فنکار کام کرتی تھیں۔ کومل نے سات سال کی عمر میں ہی اسٹیج پر کرشن بھگوان کا رول ادا کیا تھا اور منڈلی میں کل وقتی طور پر کام کرنے کے لیے ۱۲ برس کی عمر میں اسکول چھوڑ دیا تھا۔ ان کی بہن ۲۸ سالہ رما بھی اسی منڈلی میں رقاصہ ہیں۔

کومل، رما اور دوسری رقاصائیں یہ جانتی ہیں کہ جب کوئی تماش بین  ان کے تماشے کے شیڈول کی خبر رکھتا ہے اور کئی شو میں موجود ہوتا ہے، تو یہ ان کے لیے مصیبت کی علامت ہے۔ بعض اوقات لوگ لڑکیوں کے پاس آکر سیلفی کی فرمائش کرتے ہیں۔ عام طور پر ہمیں جسمانی قرب کو روکنا ہوتا ہے۔ کومل کہتی ہیں، ’’ہم ایسے حالات سے دامن بچانے کی کوشش کرتے ہیں اور سیلفی کی درخواستوں کو قبول نہیں کرتے۔ اگر کوئی شخص ہمارے آس پاس آتا ہے تو ہمیں مینیجر سے مداخلت کرنے کو کہنا پڑتا ہے۔‘‘

کوئی ’بے حیائی‘ کا پیشہ نہیں ہے

لیکن، تماشہ نے جو مالی آزادی اور پہچان خواتین فنکاروں کو دی ہے اس کے بارے میں بھی وہ بات کرتی ہیں۔ کاجل کہتی ہیں، ’’مجھے رقص کرنا پسند تھا اور ایک بار اسکول میں ڈانس کے لیے مجھے پہلا انعام دیا گیا تھا۔‘‘ کاجل یہ بھی کہتی ہیں کہ تماشہ انڈسٹری نے ان کے فن کے مظاہرے کے لیے جو موقع اور اسٹیج فراہم کیا اور جو وقت انہوں نے یہاں گزارا ہے ان سے وہ لطف اندوز ہوئی ہیں۔

۱۵۰ افراد کے گروپ میں سے تقریباً ۲۵ خواتین یا لڑکیاں ہیں۔ تماشے کی شروعات مردوں کی پرارتھنا (دعا) سے ہوتی ہے، پھر گولن کی باری آتی ہے۔ گولن ، رقص کی ایک قسم ہے جس میں کرشن اور گوپیوں کی لیلا (تعامل) کا اظہار کیا جاتا ہے۔ گولن کے لیے پہلے سے سلی ہوئی نو گز کی ساڑیوں میں ملبوس خواتین اگلی اداکاری کے لیے تیار ہونے کی غرض سے واپس خیمے (اپنے ’گرین روم‘) میں بھاگتی ہیں۔ ہر فنکار بطور لیڈ رقاصہ یا بیک اپ رقاصہ کے سات سے آٹھ گانے پیش کرتی ہے۔ یہ عام طور پر بالی ووڈ کے گانے ہوتے ہیں، جن میں چند مراٹھی فلمی گانے اور ایک دو مقبول ہریانوی/بھوجپوری گیت بھی شامل ہوتے ہیں۔

In Nayarangaon village: tents and a stage put up a few hours before the show become work spaces, but offer the women little privacy
PHOTO • Shatakshi Gawade

نارائن گاؤں میں: شو شروع ہونے سے چند گھنٹے پہلے خیمہ اور اسٹیج لگائے گئے ہیں، لیکن خواتین کے لیے یہ معمولی رازداری مہیا کرتے ہیں

گاؤوں میں بہت سے لوگ تماشہ کی طرز زندگی کو ’بے حیائی‘ تصور کرتے ہیں اور پھڈوں میں کام کرنے والی خواتین کو گری ہوئی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ۴۳ سالہ رقاصہ اور اداکارہ شاردا کھنڈے کہتی ہیں، ’’تماش بین جب اسٹیج پر ہمیں مخاطب کرنے کے لیے ’رنڈی‘ اور ’چھینال‘ جیسے ناگوار الفاظ [سیکس ورکرز کے لیے نازیبا الفاظ] استعمال کرتے ہیں، تو ہمیں اپنا غصہ ظاہر کیے بغیر انہیں خاموش کرانا پڑتا ہے۔‘‘ شاردا کا تعلق سانگلی ضلع کے تاسگاؤں تعلقہ کے دھلگاؤں سے ہے۔ ’’ہم ان سے پوچھتے ہیں، ’کیا آپ کی اپنی مائیں بہنیں نہیں ہیں، آپ ہم سے اس طرح کیسے بات کر سکتے ہیں؟‘ وہ کہتے ہیں، ’ہماری عورتیں تم جیسی نہیں ہیں۔ تم تماشہ میں کام کرنے کی بجائے کوئی دوسری مستحکم نوکری کیوں نہیں کرتی؟‘ پھر ہم ان سے کہتے ہیں کہ یہ بھی نوکری ہے۔‘‘

سخت شیڈول اور آٹھ ماہ کی لازمی وابستگی بھی خواتین ملازمین پر بھاری پڑتی ہے، خاص طور پر ان کے لیے جن کے چھوٹے بچے ہوں۔ منگلا تائی کے بیٹے اور ان کی منڈلی کے مینیجر، انل بنسوڈے کہتے ہیں، ’’ہمیں ان خواتین کو زیادہ تنخواہوں کی پیشکش کرنی چاہیے جو ان رکاوٹوں کے باوجود ہمارے ساتھ شامل ہوتی ہیں۔‘‘ منگلا تائی کی منڈلی میں شامل خواتین فنکاروں کو ۲۰۱۷۔۱۸ تماشہ سال میں ۱۰ ہزار روپے ماہانہ کی شروعاتی تنخواہ دی جاتی تھی۔ پرفارمنس کی تعداد، تجربے اور مہارتوں کی بنیاد پر غیر لیڈ فنکاروں کے لیے سب سے زیادہ تنخواہ اس سال ۱۶ ہزار روپے ہے۔

Jyotsna
PHOTO • Shatakshi Gawade
Jyotsna (left) and Kajal Shinde (right, in blue) at a stop in Karavadi village of Satara district: the sisters support their family of eight with their earnings
PHOTO • Shatakshi Gawade

جیوتسنا (بائیں) اور کاجل شندے (دائیں، نیلے لباس میں) ستارا ضلع کے کروَڈی گاؤں میں تماشہ کے ایک مقام پر: یہ بہنیں اپنی کمائی سے اپنے آٹھ افراد پر مشتمل فیملی کی کفالت کر رہی ہیں

عمومی طور پر یہ واحد مستحکم آمدنی ہوتی ہے جس پر ایک فیملی انحصار کر سکتی ہے۔ لیڈ رقاصہ کاجل شندے اور ان کی بہن ۲۸ سالہ جیوتسنا تماشہ کی اپنی کمائی سے ضلع سانگلی کے شیرالا تعلقہ کے (بتیس) شیرالا گاؤں میں اپنے آٹھ افراد پر مشتمل کنبہ کی کفالت کر رہی ہیں۔ کاجل نے تقریباً چھ سال قبل ایک تماشہ منڈلی میں شمولیت اختیار کی تھی، اس وقت ان کی عمر ۱۲ سال تھی، جبکہ جیوتسنا اپنے شوہر سے علاحدگی کے بعد چند برس قبل اس منڈلی میں شامل ہوئی ہیں۔ اپنی آمدنی سے وہ اپنے ۱۰ سالہ بیٹے اور ۷ سالہ بیٹی کی کفالت کرتی ہیں۔ یہ بچے اپنی نانی کے ساتھ گاؤں میں رہتے ہیں۔

جیوتسنا کہتی ہیں، ’’میری بیٹی بہت چھوٹی تھی، ابھی تک میں اس کی ریکھ ریکھ کر رہی تھی، لیکن تماشہ منڈلی میں شمولیت اختیار کرنے کے لیے مجھے اسے اپنی ماں کے پاس چھوڑنا پڑا۔‘‘  کاجل نے اس وقت تک شادی نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے جب تک کہ ان کی فیملی کا ہر فرد اپنے پیروں پر کھڑا نہ ہو جائے۔ جب انہوں اپنی ماں سے پہلی بار پھڈ میں شامل ہونے کی بات کی تو ان کی ماں اس خیال کے خلاف تھیں۔ لیکن کاجل انہیں یقین دلانے میں کامیاب ہو گئیں کہ تماشے میں ناچنا کوئی غیر مہذب پیشہ نہیں ہے۔

رازداری میں جھانکنا، درد کو نظر انداز کرنا

تماشہ فنکار ستمبر اور مئی کے درمیان سال میں تقریباً ۲۱۰ دن سفر میں رہتے ہیں۔ اس دوران وہ کم سے کم چیزوں پر گزارہ کرتے ہوئے باہر قیام کرتے ہیں اور ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں تک کے سفر کے دوران بسوں میں ہی سو لیتے ہیں۔ پبلک باتھ روم دستیاب نہ ہونے  کی صورت میں خواتین مجبوراً باہر غسل کرتی ہیں۔ شاردا کہتی ہیں کہ منڈلی ایک فیملی کی طرح ہے، اور ’’جب ہم کپڑے بدلتے ہیں تو مرد خواتین کے خیمے سے نکل جاتے ہیں۔ یا اگر ہمیں کھلے میں بدلنے کی نوبت آئے تو وہ دوسری جانب دیکھنے لگتے ہیں۔ لیکن بعض مرد ہماری طرف بھی دیکھتے رہتے ہیں…‘‘

کومل کہتی ہیں، ’’جب ہم خیموں میں کپڑے بدلتے ہیں تو گاؤں والے اکثر اندر جھانکنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہم انہیں گالی دے کر بھگاتے ہیں۔ اگر وہ نہ سنیں تو میں اپنی چپل نکال کر ان پر پھینکتی ہوں۔‘‘ اگر معاملہ ہاتھ سے نکل جائے، تو خواتین اپنے مرد ساتھیوں یا مینیجر یا عام طور پر شو کے دوران موجود پولیس اہلکاروں سے مداخلت کرنے کو کہتی ہیں۔

سفر کے دوران جب خواتین حیض کی مدت میں ہوتی ہیں تو، شاردا کہتی ہیں، ’’ہم عوامی بیت الخلا تلاش کرنے اور کپڑے بدلنے کی کوشش کرتے ہیں۔‘‘ کومل مزید کہتی ہیں کہ جب بھی انہیں حیض آتا ہے تو وہ گھر پر ہی رہنا چاہتی ہیں۔ وہ رازداری سے محروم ہوتی ہیں، لیکن تکلیف کے باوجود آگے کا سفر جاری رکھتی ہیں۔ ان کی بڑی بہین رما کہتی ہیں کہ اگر تماشے میں ان کا کوئی اہم کردار ہوتا تو انہیں حیض کے درد کے ساتھ کام کرنا پڑتا ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’’اگر کئی گانوں میں ہمارا کوئی عام یا لیڈ رول ہو، تو ہم ماہواری کے درد کے دوران بھی آرام نہیں کر سکتے۔ ہم خواہ کتنے ہی بیمار کیوں نہ ہوں، ہمیں اسٹیج پر جانا ہی پڑتا ہے۔‘‘

The troupe travels for 210 days a year between September and May. During this time they live out of suitcases and sleep on the bus rides from one village to another
PHOTO • Shatakshi Gawade
The troupe travels for 210 days a year between September and May. During this time they live out of suitcases and sleep on the bus rides from one village to another
PHOTO • Shatakshi Gawade

یہ منڈلی ستمبر اور مئی کے درمیان سال میں ۲۱۰ دن سفر کرتی ہے۔ اس دوران وہ کم سے کم چیزوں پر گزارہ کرتے ہوئے باہر قیام کرتے ہیں اور ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں تک کے سفر کے دوران بسوں میں ہی سو لیتے ہیں

رما بھی ایک لیڈ رقاصہ ہیں۔ ان کی دو سال کی ایک بیٹی ہے جس کا نام بھکتی ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’’جب میں حاملہ تھی تب میں نے سیزن کے اختتام تک کام کیا تھا۔ بھکتی سیزن کے درمیان سالانہ وقفے میں پیدا ہوئی تھی۔ صرف ڈیڑھ ماہ بعد میں کام کے لیے واپس سڑک پر آگئی تھی۔‘‘ پچھلے سال تک رما کی ماں ومل، جو اسی گروپ میں ایک گلوکارہ تھیں، بچے کی دیکھ بھال میں مدد کرتی تھیں۔ رما کہتی ہیں، ’’اس سال بھکتی کی دیکھ بھال کرنا زیادہ مشکل ہو گیا ہے، کیونکہ میری ماں اب گھر پر رہتی ہیں۔ اگر میرے اسٹیج پر جانے کے وقت بھکتی رونے لگتی ہے، تو اسے چھوڑ کر جانا واقعی مشکل ہو جاتا ہے۔ جب تک وہ مجھے نہیں دیکھ لیتی رونا بند نہیں کرتی ہے۔‘‘

اگر بچے کا باپ بھی اسی گروپ میں کام کرتا ہے، تو بچوں کی دیکھ بھال قدرے آسان ہو جاتی ہے، کیونکہ جب ماں اسٹیج پر ہو تو باپ بچے کو سنبھال سکتا ہے۔

اسٹیج پر ہی گانا اور بچے پیدا کرنا

یہ کہانی ہے تماشہ کی حکایتوں میں شامل فنکار وٹھا بائی نارائن گاؤنکر کی اسٹیج پر ڈیلیوری کی۔ درد زہ میں مبتلا ہوتے ہوئے انہوں نے اپنی بیٹی سے کہا کہ وہ اپنے منظر کے درمیان گانوں کی تعداد بڑھا لے۔ اور پھر، کہانی آگے بڑھتی ہے: اسٹیج کے پیچھے ایک خیمے میں بغیر کسی مدد کے انہوں نے اپنے بچے (منگلا تائی کے بھائی کیلاس ساونت) کو جنم دیا۔ بچے کو کمبل میں لپیٹنے کے بعد وہ بقیہ تماشہ مکمل کرنے اسٹیج پر واپس چلی گئی تھیں۔

وٹھا بائی کی سب سے بڑی بیٹی منگلا تائی کو بھی ۱۹۷۶ میں اپنے سب سے چھوٹے بیٹے نتن کی پیدائش کے دوران ایسا ہی تجربہ ہوا تھا۔ وہ کہتی ہیں، ’’ہم ایک تاریخی وگ ناٹیہ [لوک ڈرامہ] پیش کر رہے تھے۔ ہم ایک لڑائی کے منظر کے درمیان تھے جب میرے شوہر نے اشارہ کیا کہ مجھے کیا ہو رہا ہے۔‘‘ منگلا تائی درد زہ میں تھیں۔

dancer Rama Dalvi's mother Vimal
PHOTO • Shatakshi Gawade
Makeshift cradles are made from sarees for babies to sleep in backstage during tour stops
PHOTO • Shatakshi Gawade

حیض، بچوں کی نگہداشت، بیماریاں سب کچھ چلتے پھرتے سنبھالے جاتے ہیں۔ بائیں: لیڈ رقاصہ رما دلوی کی والدہ ومل (پچھلے سال تک پھڈ میں ایک گلوکارہ) نے رما کے بچے کی دیکھ بھال میں مدد کی ہے۔ دائیں: سفر کے ٹھہراؤ کے دوران اسٹیج کے پیچھے بچوں کے سونے کے لیے ساڑیوں سے عارضی جھولے بنائے جاتے ہیں

وہ کہتی ہیں ’’میں نے محسوس ہی نہیں کیا کہ میرے ساتھ کیا ہو رہا ہے، کیونکہ میں تماشے کے منظر میں پوری طرح ڈوب چکی تھی۔ جب مجھے یہ معلوم ہوا تو مجھے چکر آنے لگے۔ میں اسٹیج کے پیچھے گئی اور گاؤں کی کچھ خواتین نے بچے کی پیدائش میں میری مدد کی۔ بچے کی پیدائش کے بعد، میں نے اپنا لباس پہنا اور اسٹیج پر واپس چلی گئی تھی۔ لیکن میرے احترام میں لوگ جا چکے تھے۔‘‘

منگلا تائی کی چھوٹی بہن اور منڈلی کی ایک گلوکارہ ۵۳ سالہ بھارتی سوناونے مزید کہتی ہیں، ’’اپنے تین بچوں میں سے ہر ایک کو جنم دینے کے بعد دو ہفتوں کے اندر میں دوبارہ اسٹیج پر آ گئی تھی۔ جب میرے بچے پیدا ہوئے تو بالکل میری ماں کی طرح میں نے کوئی چھٹی نہیں لی۔‘‘

روزانہ کا سفر اور بے ترتیب شیڈول اور کھانے کے اوقات، گروپ کے اراکین کی مجموعی صحت پر اثر انداز ہوسکتے ہیں۔ رما کہتی ہیں، ’’اگر کوئی بیمار ہے، تو آپ صرف دن کے وقت ہسپتال جا سکتے ہیں۔ رات کو ہمیں اسٹیج پر آنا ہی پڑتا ہے۔‘‘ پچھلے سال جب ننھی بھکتی بیمار تھی، تو تماشہ منڈلی ایک ہی گاؤں میں دو دن تک اپنے فن کا مظاہرہ کر رہی تھی۔ رما ان دنوں کو یاد کرتے ہوئے بتاتی ہیں، ’’وہ ہسپتال میں تھی اور اسے سیلائن لگانا پڑا تھا۔ میں نے اس کے ساتھ دن گزارا اور رات کو اسٹیج پر پرفارم کرنے چلی گئی تھی۔‘‘

اب جب کہ بھکتی کچھ بڑی ہو گئی ہے، تو رما نے اسے گھر پر چھوڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ’’میں نہیں چاہتی کہ وہ تماشہ میں کام کرے، کیونکہ پچھلے کچھ برسوں سے تماش بین بے قابو ہوتے جا رہے ہیں۔ کون جانتا ہے کہ آئندہ چند برسوں میں یہ اور کتنا خراب ہو جائے گا؟‘‘

مترجم: شفیق عالم

Vinaya Kurtkoti

বিনয় কুর্তকোটি পেশায় একজন কপি এডিটর এবং পুণে শহর নিবাসী, স্বাধীনভাবে কর্মরত একজন সাংবাদিক। তিনি শিল্প এবং সংস্কৃতি বিষয়ে লেখালিখি করেন।

Other stories by Vinaya Kurtkoti
Translator : Shafique Alam

Shafique Alam is a Patna based freelance journalist, translator and editor of books and journals. Before becoming a full-time freelancer, he has worked as a copy-editor of books and journals for top-notched international publishers, and also worked as a journalist for various Delhi-based news magazines and media platforms. He translates stuff interchangeably in English, Hindi and Urdu.

Other stories by Shafique Alam