پاری کے قارئین کی خدمت میں پیش ہے ’گرائنڈ مِل سانگس پروجیکٹ‘ (یعنی، چکّی کے گانے کا پروجیکٹ)۔ اس انوکھے پروجیکٹ کے تحت آپ سن سکتے ہیں ایک لاکھ سے زیادہ لوک گیت۔ ان لوک گیتوں کو ان محنت کش عورتوں نے گایا ہے جو مہاراشٹر کے دور دراز کے گاؤوں میں رہتی ہیں۔ بنیادی طور پر مراٹھی میں دستیاب ان لوک گیتوں میں سے تقریباً ۳۰ ہزار گیتوں کو ڈیجیٹل طور پر ریکارڈ کیا جا چکا ہے، وہیں ۴۰ ہزار گیتوں کا انگریزی میں ترجمہ کیا جا چکا ہے۔ اس بہترین دستاویز میں آپ کو شاعری و موسیقی کی مشترکہ روایت نظر آتی ہے، اور اسے ریکارڈ کرنے میں ۱۰۰۰ سے زیادہ گاؤوں کی تقریباً ۳۳۰۲ مقامی شاعرات/فوک گلوکاروں نے اپنا خوبصورت رول نبھایا ہے۔ آپ پاری کی ویب سائٹ پر جا کر کبھی بھی ان گیتوں کو سن سکتے ہیں۔
اس اسٹوری میں ہم بات کریں گے ’گرائنڈ مل سانگس پروجیکٹ‘ (یعنی، چکّی کے گانے کے پروجیکٹ) کے بارے میں۔ اس پروجیکٹ کے تحت آپ ایک لاکھ سے زیادہ لوک گیت سن پائیں گے، جنہیں مہاراشٹر کی عورتیں کئی نسلوں سے گھر پر ’ جاتے‘ (انگریزی میں ’گرائنڈ مِل‘) یعنی چکی پیستے وقت اور دیگر کام کرتے وقت گاتی رہی ہیں۔ ان لوک گیتوں کو سنتے ہوئے آپ سکون محسوس کرتے ہیں، لیکن اس کے پیچھے محنت کش عورتوں کا پسینہ شامل ہے، جو ان گیتوں کو میٹھا بناتا ہے۔
یہ ڈیٹا بیس متعدد ماہرین بشریات اور دیگر قوموں کی موسیقی کا پتہ لگانے والے ماہرین کی صدیوں پر محیط کڑی محنت سے تیار ہوا ہے، جس کے لیے انہوں نے کئی دہائیوں تک فیلڈ ریسرچ کیا ہے اور گاؤں گاؤں بھٹکے ہیں۔ اس پروجیکٹ کا مقصد ایسے لوک گیتوں کو محفوظ کرنا، ان کا ترجمہ کرنا، دستاویز تیار کرنا، اور انہیں دوبارہ زندہ کرنا ہے جنہیں عورتیں چکّی (گرائنڈ مل) میں اناج پیستے وقت گاتی تھیں۔ پچھلی دہائیوں سے یہ روایت تقریباً غائب ہوتی دکھائی دے رہی ہے، کیوں کہ زیادہ تر جگہوں پر ہاتھ سے چلائی جانے والی چکیوں کی جگہ اب موٹر سے چلنے والی چکیوں نے لے لی ہے۔
یہ ایک ایسا شاندار مجموعہ ہے، جس کے گیت آپ کو گاؤں کی زندگی اور ثقافت کی سیر کرائیں گے؛ صنف، طبقہ اور ذات سے متعلق مسائل؛ مذہب؛ عورتوں اور ان کے بچوں، شوہروں، بھائی بہنوں، اور پوری برادریوں کے درمیان رشتوں؛ اور متعدد ہم عصر سماجی و سیاسی پہلوؤں سے آپ کو روبرو کرائیں گے۔
’پیپلز آرکائیو آف رورل انڈیا‘ (پاری) کو دیہی مہاراشٹر کی عورتوں کی قوتِ یادداشت اور فنکارانہ صلاحیت کو اپنی ویب سائٹ پر پیش کرنے میں فخر محسوس ہو رہا ہے۔ یہ ۸ مارچ، ۲۰۱۷ کو بین الاقوامی یومِ خواتین کے موقع پر دنیا بھر کی عورتوں کو ہماری طرف سے ایک تحفہ ہے۔
چکّی کے گانوں کا ڈیٹا بیس تیار کرنے کا خیال سماجی کارکن اور مشہور اسکالرز آنجہانی ہیما رائیرکر اور گی پائیٹواں کی دین ہے، جنہوں نے ساتھ مل کر پونہ میں سنٹر فار کوآپریٹو ریسرچ اِن سوشل سائنسز کی بنیاد ڈالی تھی۔ تقریباً ۲۰ سال میں، دونوں نے مل کر مہاراشٹر کے ایک لاکھ ۱۰ ہزار سے زیادہ لوک گیتوں کو ٹرانس کرائب کیا تھا۔ بدقسمتی سے ہیما رائیرکر اب ہمارے درمیان نہیں ہیں۔
فرینچ نیشنل سنٹر فار سائنٹیفک ریسرچ کے سابق انجینئر اور کمپویٹیشنل (کمپیوٹر پر مبنی) موسیقی کے ماہر برنارڈ بیل بھی اس پروجیکٹ میں ۱۹۹۰ کی دہائی کے آخر میں شامل ہوئے۔ اس کے بعد بیل نے متن اور تبصروں کا ایک ڈیٹا بیس بنایا، اور ان سے جڑے ۱۲۰ گھنٹے سے زیادہ کے آڈیو ریکارڈ کیے۔ اس پورے مواد کو ہریانہ کے گروگرام (گڑگاؤں) میں واقع آرکائیوز اینڈ ریسرچ سنٹر فار ایتھنو میوزکولوجی نے محفوظ کیا تھا۔ اسے بعد میں پروفیسر بیل کی طرف سے، فرانس کے ایکس این پرووینس میں موجود اسپیچ اینڈ لینگویج ڈیٹا رِپوزیٹری میں بھیج دیا گیا تھا۔ آگے چل کر یہ ڈیٹا بیس ایسے اطلاعاتی نظام کے لیے ایک نمونہ بن گیا جو عوامی طور پر آرکائیو کا کام کر رہے تھے۔ ساتھ ہی، بشریات سے جڑے موضوعات پر کام کرنے والی ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کی ترقی کی راہ میں بھی یہ ڈیٹا بیس سنگ میل ثابت ہوا۔
سال ۱۹۹۳ سے ۱۹۹۸ کے درمیان، چکّی کے گانوں کے پروجیکٹ کو یونیسکو، نیدرلینڈس منسٹری فار ڈیولپمنٹ کوآپریشن ، اور سوئزرلینڈ کے چارلس لیوپولڈ میئر فاؤنڈیشن فار دی پروگریس آف ہیومن کائنڈ سے مالی مدد ملتی رہی۔
پروفیسر بیل کہتے ہیں، ’’میں نے ہیما رائیرکر اور گی پائیٹواں سے ذاتی طور پر وعدہ کیا تھا کہ میں گرائنڈ مل سانگس (چکی کے گیتوں) کی اشاعت/دستاویز کاری/ترجمہ کو مکمل کروں گا اور ان گیتوں کو عوامی طور پر مہیا کرواؤں گا۔ جنوری ۲۰۱۵ میں، میں نے پونہ میں ’گرائنڈ مل سانگس‘ پر کام کر رہی ماہرین کی ٹیم کو ضروری آلات مہیا کروائے تھے، جس سے اس پروجیکٹ کو نئی طاقت ملی۔ ہم نے گیتوں کو شائع کرنے کے ایک ابتدائی فارمیٹ پر بھی کام کیا تھا۔ ڈیٹا بیس میں تبدیلی کرکے پھر سے تیار کرنے اور دیوناگری کی کئی اِن کوڈنگ سے متن کو ٹرانس کوڈ کرنے کے لیے، بڑے پیمانے پر سرمایہ کا انتظام کرنے کی ضرورت پڑی۔‘‘
اس مہم میں پاری کے شامل ہونے سے، پروجیکٹ میں لگاتار نئے لوگ جڑ ہیں۔ اس سے پروجیکٹ میں نئی جان آئی ہے۔ پونہ کے گوکھلے انسٹی ٹیوٹ آف پولیٹکس اینڈ اکنامکس میں ڈاکیومینٹیشن آفیسر رہ چکیں آشا اوگالے نے اپنے معاونین، رجنی کھلدکر اور جتیندر میڈ کے ساتھ مل کر تقریباً ۷۰ ہزار گیتوں کے ترجمہ کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ مراٹھی زبان کے علم اور دیہی زندگی کی ان کی سمجھ نے، ترجمہ کی ہماری کوششوں میں بیش قیمتی مدد کی ہے اور نئے حوالے جوڑے ہیں۔
سال ۲۰۱۶ میں، ہریانہ کے سونی پت میں واقع اشوک یونیورسٹی کے ساتھ ہماری شراکت داری قائم ہوئی۔ یونیورسٹی کے پولیٹیکل سائنس (سیاسیات) کے اسسٹنٹ پروفیسر، جل ویرنیئرس نے اس شراکت داری کی قیادت کی تھی۔ ینگ انڈیا فیلوشپ ، ۱۷-۲۰۱۶ کے تین فیلو – میہیریش دیوکی، سنیہا مادھوری، اور پورن پرگیہ کلکرنی – ترجمے کا جائزہ لیتے ہیں اور آرکائیو کرنے کے لیے ضروری اضافی مدد بھی کرتے ہیں۔ پاری کی منیجنگ ایڈیٹر، نمیتا وائیکر، پیپلز آرکائیو آف رورل انڈیا (پاری) میں ’گرائنڈ مل سانگس پروجیکٹ‘ کی قیادت کر رہی ہیں۔ وہیں دوسری طرف، امیریکن انڈیا فاؤنڈیشن کلنٹن فیلو، اولیویا ویئرنگ، ڈیٹا بیس کی دیکھ ریکھ (کیوریشن) کر رہی ہیں۔
اس پروجیکٹ میں مزید کئی لوگوں کا تعاون شامل رہا ہے، جن کے نام ہیں: بھیم سین نانیکر (انٹرویو لینے والے/ملاقاتی)، دَتّا شندے (ریسرچ میں معاون)، مالویکا تالودکر (فوٹوگرافر)، لتا بھورے (ڈیٹا اِن پُٹ) اور گجرابائی دریکر (ٹرانس کرائب)۔
پروجیکٹ کی مرکزی فنکار (پرفارمر) اور شریک کار، گنگو بائی امبورے کی سبھی تصویریں اور ویڈیو، اینڈرئین بیل کی محنت کا نتیجہ ہیں۔
ہم چاہتے ہیں کہ آپ ’پیپلز آرکائیو آف رورل انڈیا‘ (پاری) کے اس نئے باب کا لطف اٹھائیں۔ ہمارا وعدہ ہے کہ لوک گیتوں کا یہ مجموعہ آنے والے مہینوں اور سالوں میں اور بڑا ہوتا جائے گا۔ ’پاری‘ چکّی کے گانوں (گرائنڈ مل سانگس) کے سبھی ساتھیوں کا تہِ دل سے شکریہ ادا کرتا ہے۔ ساتھ ہی، ہم اس موقع پر مہاراشٹر کی لاکھوں محنت کش دیہی عورتوں کو یاد کرنا چاہتے ہیں جن کے لیے نہ کوئی ڈیٹا بیس تیار ہوتا ہے، نہ ان کے لیے گیت لکھے جاتے ہیں، ان کے حصے کچھ آتا ہے تو صرف جدوجہد۔ ہم ان بے نام عورتوں کے سب سے بڑے قرض دار ہیں۔
پرفارمر/گلوکارہ: گنگو بائی امبورے
گاؤں: تاڑکلس
تعلقہ: پورنا
ضلع: پربھنی
صنف: عورت
ذات: مراٹھا
عمر: ۵۶
تعلیم: کبھی اسکول نہیں گئی
بچے: ۱ بیٹی
پیشہ: اُس فیملی سے ہیں جو کاشتکار تھی اور ان کے پاس ۱۴ ایکڑ زمین تھی؛ گنگو بائی کو گھر سے بے دخل کر دیا گیا تھا، جس کے بعد وہ گاؤں کے مندر میں رہیں۔
تاریخ: گنگو بائی کا انٹرویو اور ان کے گائے گیت ۷ اپریل، ۱۹۹۶ اور ۵ فروری، ۱۹۹۷ کو ریکارڈ کیے گئے۔
’’بیابانوں میں گونجتی اور جنگلوں میں بھٹکتی، رونے کی آواز یہ کس
کی؟ سنو ذرا!
بیر یا ببول نہیں ہیں عورتیں یہ، دیتی ہیں
دلاسہ، سیتا کی سنتی ہیں سسکی، سنو ذرا!!‘‘
نوٹ: اس گیت میں رامائن کا وہ منظر پیش کیا گیا ہے، جب رام نے سزا کے طور پر سیتا کو جنگل میں بھیج دیا ہے، اور سیتا رو رہی ہیں۔ سیتا اکیلی ہیں اور دکھ بانٹنے والا وہاں کوئی اور موجود نہیں ہے، اس لیے سیتا اپنے سارے دکھ بیر اور ببول کے درختوں سے کہتی ہیں۔ بیر اور ببول کے درخت کانٹے دار ہوتے ہیں اور ان کی چھالیں دراڑوں سے بھری ہوتی ہیں۔ کانٹوں سے گھرا ہونا بیر اور ببول کی قسمت ہوتی ہے، ٹھیک اسی طرح ہمارے سماج میں عورتوں کو غیر برابری جھیلنی پڑتی ہے۔ اس لیے، اس گیت میں بیر اور ببول کو عورتوں کی شبیہ دی گئی ہے اور وہ سیتا کے ساتھ دکھ شیئر کرتے ہیں، دلاسہ دیتے ہیں، اور سیتا کو بتاتے ہیں کہ ان کی حالت بھی سیتا جیسی ہی ہے – تنہائی اور اندیکھی سے بھری ہوئی۔ اس گیت کو گانے والی، گنگو بائی امبورے، روتی ہوئی سیتا میں خود کو دیکھتی ہیں۔
پربھنی ضلع کے تاڑکلس تعلقہ کی گنگو بائی امبورے نے دکھ درد سے پیدا ہونے والے گیت گائے ہیں۔ ان کی آواز سے سالوں کا اکیلاپن سنائی دیتا ہے جو سننے والے کی روح کو چھو جاتا ہے۔
پڑھیں – گنگو بائی: گاؤں کی آواز، مراٹھی روح (اسٹوری: جتیندر میڈٌ)
پوسٹر: آدتیہ دیپاکر، شریہ کتیائنی، سنچیتا ماجی
مترجم: محمد قمر تبریز