چاروبالا کالندی کے ہاتھ میں رنگین نیپکِن، ایک پل کے لیے بجلی کی طرح چمکتا ہے۔ لال اور نیلے رنگ کا گھاگھرا جھومور گانے پر زور سے جھومتا ہے۔ اپنے فن کے مظاہرہ کے لیے جمع ہوئے موسیقار ایک سُر میں بجانا شروع کرتے ہیں۔
۸۰-۹۰ کی تعداد میں ناظرین – بوڑھے اور نوجوان، مرد، عورتیں اور بچے – مغربی بنگال کے ارشا تعلقہ کے سینابانا گاؤں میں اس پیشکش کو دیکھ رہے ہیں۔ حالانکہ ۶۵ سال کی ہو چکیں چاروبالا تیزی سے ناچ رہی ہیں۔
ایسا کہا جاتا ہے کہ ’جھومور‘ لفظ رقاصاؤں کے ذریعے پہنے جانے والی پائل سے نکلنے والی آواز سے آیا ہے۔ رقص کی یہ قسم عام طور سے مغربی بنگال کے جنوب مغرب علاقوں اور جھارکھنڈ کے آس پاس کے علاقوں میں مقبول ہے (جب کہ اس کی دوسری قسم آسام میں پیش کی جاتی ہے)۔ زیادہ تر شاعر جنہوں نے روایتی طور پر جھومور گانوں کی تخلیق کی ہے، وہ استحصال زدہ ذاتوں سے ہیں، اور ان کے کچھ گانوں میں سماجی ایشوز اور قحط، سیلاب، سیاست اور دیگر خرابیوں کا ذکر ہے۔ کرشن اور رادھا کے درمیان عشق و محبت بھی جھومور گانوں کا دائمی موضوع ہے۔
خود چاروبالا کی اپنی زندگی، ان موضوعات میں سے بعض کا مظاہرہ کرتی ہے۔ وہ کسی زمانے میں مغربی بنگال کے پرولیا ضلع کے پرولیا دوئم تعلقہ کے بیلما گاؤں میں رہتی تھیں۔ وہ جب ۱۶-۱۷ سال کے آس پاس تھیں، تو ان کے والد موہن کالندی – جو ایک زرعی مزدور اور تعمیراتی جگہوں پر کام کرتے تھے – نے ان کی شادی قریب کے ڈمڈمی گاؤں کے شنکر کالندی سے کر دی۔ اس فیملی کا تعلق کالندی برادری سے ہے، جو چند ریاستوں میں درج فہرست ذات کے طور پر رجسٹرڈ ہیں۔
شنکر اُس وقت ۲۰ سال کے تھے، اور جو کچھ کام دستیاب ہوا کرتا تھا اسے کر لیتے تھے۔ وہ جسمانی سزا دینے والے نکلے۔ پٹائی اتنی زیادہ ہونے لگی کہ چاروبالا انھیں چھوڑ کر اپنے والد کے پاس لوٹ آئیں۔ لیکن موہن نے انھیں یہ کہتے ہوئے واپس لوٹا دیا کہ غریب ہونے کی وجہ سے وہ ان کی دیکھ بھال نہیں کر سکتے۔ اس طرح چاروبالا بے گھر ہو گئیں اور کچھ دنوں تک سڑکوں پر زندگی بسر کی۔
یہیں پر ان کی ملاقات شروَن کالندی سے ہوئی (دونوں میں سے کسی کو بھی وہ سال یاد نہیں ہے)۔ ایک جھومور فنکار، شروَن نے انھیں اپنی منڈلی میں شامل کر لیا۔ انھوں نے پڑوس کے گاؤں میں رہنے والی ایک نچنی، بملا سردار کی مدد سے چاروبالا کو نچنی بننے کے لیے ٹریننگ دی۔ وقت کے ساتھ، اب ۷۵ سال کے ہو چکے شروَن، چاروبالا کے رسِک – ان کے منیجر، ایجنٹ اور ان کے فنی مظاہرہ کے کورآڈی نیٹر بن گئے۔ وہ باؤل، بھادو، چاؤ، کرم کیرتن، توسو، کیرتن اور دیگر فنی مظاہروں سے وابستہ گروہوں کے ساتھ بھی تعاون کرتے ہیں۔ اور وہ ایک وقتی زرعی مزدور بھی ہیں۔
رسِک کو شاعری اور موسیقی کا پارکھی مانا جاتا ہے۔ نچنی اور وہ عام طور پر ازدواجی رشتوں میں بنے رہتے ہیں، جس میں اکثر عورت کا استحصال ہو سکتا ہے۔ دیگر رسِکوں کی طرح ہی شروَن بھی شادی شدہ ہیں، اور ان کی بڑی فیملی میں ان کی بیوی سرلا، بیٹے، بیٹیاں، بہوئیں اور پوتے پوتیاں شامل ہیں۔ چاروبالا اور ان کی ایک بیٹی بھی ہے، ۲۴ سالہ کملا، جو شادی شدہ ہے اور اترپردیش چلی گئی ہے۔
ایک بڑی فیملی کے لیے کمانے کا دباؤ چاروبالا کو اس عمر میں بھی کام کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ حالانکہ، اس کی وجہ سے وہ شروَن کی بیوی، سرلا سے عزت حاصل کرنے میں ناکام رہی ہیں، جو ابھی بھی انھیں قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں۔
ریاستی حکومت کے ذریعے منعقد ہر شو سے چاروبالا ۱۰۰۰ روپے کماتی ہیں؛ یہ شو تقریباً ایک سے ڈیڑھ گھنٹے لمبے ہوتے ہیں، اور چاروبالا، اپنی اس عمر میں، مہینے میں صرف ایک یا دو شو ہی کر پاتی ہیں۔ انھیں ریاست کے محکمہ ثقافتی امور سے، مقامی فنکاروں کے لیے طے کیا گیا ماہانہ ۱۰۰۰ روپے کا وظیفہ بھی ملتا ہے۔
جھومور سیزن کے دوران، اکتوبر سے مئی تک، کلبوں یا پوجا کمیٹیوں کے ذریعے منعقد نجی شو پوری رات چل سکتے ہیں، اس دوران ایک نچنی کو کم از کم پانچ گھنٹے گانا اور رقص کرنا ہوتا ہے۔ اس کے لیے، پانچ سے سات لوگوں کی منڈلی کو ۶۰۰۰-۸۰۰۰ روپے ملتے ہیں، جو ان کے درمیان تقسیم کیے جاتے ہیں۔ معاون موسیقار ڈھول (دو سائڈ والے ڈرم)، مادول (اندر سے کھوکھلے درخت کے تنے سے بنائی گئی دو سائڈ والی ڈھولکی)، ڈھامسا (کیتلی جیسا ایک بڑا ڈرم)، مارکاس (ایک کھوکھلی لوکی یا سوکھی پھلیوں سے بھرا لوکی کے سائز کا ڈبہ) اور شہنائی بجاتے ہیں۔
چاروبالا نے اس کام کو اپنی قسمت مان لیا ہے۔ ’’اور کیا کیا جا سکتا ہے؟ اگر بھگوان نے میری قسمت میں نچنی ہونا لکھا تھا، تو اسے بدلنے والی میں کون ہوتی ہوں؟ اگر میں اس پیشہ کو چھوڑ دوں، تو کھاؤں گی کیا؟‘‘ وہ مسکراتے ہوئے کہتی ہیں۔
اس فوٹو اسٹوری کا ایک الگ ورژن ۲۵ اکتوبر، ۲۰۱۸ کو Sahapedia پر شائع ہوا تھا۔
(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)