پونہ کے کوتھروڈ پولیس اسٹیشن کے پاس واقع لکشمی نگر کی رہنے والی ابولی کامبلے کہتی ہیں، ’’ہم جو بھی کماتے ہیں وہ ہماری ضرورتوں کو پورا کرنے میں لگ جاتا ہے، اور ہم دوسروں کے گھروں میں کام کرکے اپنا پیٹ بھرتے ہیں۔ لیکن اب کوئی کام ہی نہیں بچا ہے، تو ہمیں پیسے کہاں سے ملیں گے؟ راشن بھی نہیں ہے۔ اگر کھانا ہی نہیں ہوگا، تو بچے کیسے زندہ رہ پائیں گے؟‘‘
ابولی کی ناراضگی اور مایوسی ان کی باتوں سے جھلک رہی تھی، جب کووڈ۔۱۹ کی وجہ سے لاک ڈاؤن کا اعلان ہونے کے پانچ دن بعد، ۳۰ مارچ کو میں اُس جھگی بستی میں ان سے ملا جہاں وہ رہتی ہیں۔ ابولی (۲۳ سال) کہتی ہیں، ’’کم از کم ایسے وقت میں ہمیں راشن کی دکان پر اناج ملنا چاہیے۔ تمام عورتیں گھر پر ہیں۔ پولیس ہمیں باہر نہیں جانے دیتی۔ اگر ہم باہر جا کر کام نہیں کرتے، تو اپنے لیے راشن بھی نہیں خرید پائیں گے۔ گھر کیسے چلے گا، ہمیں اس بات کی بہت فکر ہے۔ اگر ایسے مشکل وقت میں ہمیں اناج نہ ملے، تو کیا مطلب ہے؟ اگر ہمیں راشن نہ ملے، تو کیا ہم پھانسی لگا لیں؟‘‘ ابولی کی فیملی سولاپور ضلع کے اکولے کاٹی گاؤں سے سال ۱۹۹۵ میں پونہ آئی تھی۔ ابولی کی شادی ۱۶ اپریل کو ہونی تھی، لیکن اب ان کی شادی کی تاریخ آگے بڑھا دی گئی ہے۔
جب میں کالونی میں گیا، جہاں سات چالوں میں تقریباً ۸۵۰ لوگ (این جی او کے سروے میں تخمینی تعداد) رہتے ہیں، وہاں کی عورتوں نے – جن میں سے کئی دوسروں کے گھروں میں جا کر کام کرتی ہیں – کھانے اور پیسے کی کمی کے مسئلہ کا حل نکالنے کے لیے میٹنگ بلائی تھی۔ لکشمی نگر کے ۱۹۰ کنبوں میں سے زیادہ تر مہاراشٹر کے احمد نگر، بیڈ، سولاپور، اور لاتور ضلعوں سے اور پڑوسی ریاست کرناٹک سے مہاجرت کرکے آئے ہیں۔ ان میں سے کئی متنگ برادری سے ہیں، جو دلت کے طور پر درج فہرست ہے۔
جب وزیر اعظم مودی نے مراٹھی نیا سال، گُڑی پڑوا سے ایک دن پہلے کی رات کو ۲۱ دن کے لاک ڈاؤن کا اعلان کیا تھا، تب یہ صاف نہیں تھا کہ اگلے دن ضرورت کا سامان ملے گا بھی یا نہیں۔ جو دکانیں بند نہیں ہوئی تھیں، لوگ وہاں سے سامان خریدنے کی جلدی کرنے لگے، لیکن قیمتیں پہلے ہی بڑھ چکی تھیں۔
حکومت نے بعد میں اعلان کیا کہ کھانے کا سامان اور دیگر ضروری سامان مہیا کرایا جائے گا، اور خط افلاس سے نیچے زندگی بسر کرنے والے (بی پی ایل کارڈ ہولڈر) کنبوں کو عوامی تقسیم کے نظام (پی ڈی ایس) کے تحت تین مہینے کا راشن مفت میں دیا جائے گا۔
لکشمی نگر کے کنبوں کو سرکار کے وعدے کے مطابق مفت راشن ملنے کی امید نہیں ہے، کیوں کہ ماضی میں انہیں باقاعدگی سے راشن نہیں ملا ہے
لکشمی نگر کے کئی کنبوں کو مفت راشن ملنے کی امید نہیں ہے، کیوں کہ پہلے بھی انہیں باقاعدگی سے راشن نہیں ملا ہے۔ ایک خاتون حکومت کے ذریعے خط افلاس سے نیچے زندگی بسر کرنے والے کنبوں کو دیے گئے راشن کارڈ کا ذکر کرتے ہوئے کہتی ہیں، ’’جن کنبوں کے پاس پیلا (زرد) کارڈ ہے انہیں بھی نہیں ملتا۔‘‘
راشن کارڈ ہونے کے باوجود، کئی شرائط کے سبب کافی لوگوں کو عوامی تقسیم کے نظام (پی ڈی ایس) کی دکانوں سے سبسڈی والا راشن نہیں ملتا۔ سنیتا شندے، جو اپنے شوہر کے انتقال کے بعد ممبئی سے پونہ آ گئی تھیں، بتاتی ہیں، ’’میرے پاس کارڈ ہے، لیکن دکاندار کہتے ہیں کہ میرا نام اس کارڈ پر نہیں ہے۔ مجھے آج تک راشن نہیں ملا ہے۔‘‘
ایک خاتون نے مجھے اپنا راشن کارڈ دکھایا، جس پر ایک مہر لگی ہوئی تھی، جس سے یہ ثابت ہو سکے کہ انہیں سبسڈی کے تحت کم قیمت پر چاول اور گیہوں ملنا چاہیے۔ وہ بتاتی ہیں، ’’لیکن دکاندار کہتے ہیں کہ میرے کارڈ پر ملنے والا راشن روک دیا گیا ہے۔ دو سال سے ہمیں راشن نہیں ملا ہے۔‘‘ ایک دوسری بزرگ خاتون بتاتی ہیں کہ ’’مجھے راشن نہیں ملتا، کیوں کہ میرے انگوٹھے کا نشان ان کے سسٹم (آدھار بایومیٹرکس) میں موجود نشان سے میل نہیں کھاتا۔‘‘
راشن، کام، اور محنتانہ کے بغیر لکشمی نگر کی خواتین اور کنبوں کو کافی مشکلوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ نندا شندے، جو بیوہ ہیں، بتاتی ہیں کہ ’’میں پہلے کام کرتی تھی، مگر اب کورونا کے سبب کام نہیں رہ گیا ہے۔ تو اب کھانے کا انتظام کرنا ایک بڑا مسئلہ بن گیا ہے۔ میں جب وہاں جاتی ہوں، تو دکاندار میرا راشن کارڈ پھینک دیتا ہے۔‘‘ نندا واگھمارے، جو ایک ریستوراں میں برتن صاف کرتی ہیں، بتاتی ہیں، ’’اس وقت میں کچھ نہیں کر پا رہی۔ میں اپنا راشن کارڈ لے کر دکان پر جاتی ہوں، لیکن وہ لوگ مجھے چلے جانے کو کہتے ہیں۔‘‘
اور جب کسی فیملی کے پاس راشن کارڈ بھی نہیں ہوتا – کالونی میں تقریباً ۱۲ ایسے کنبے ہیں – تو ان کے لیے کھانے کی تلاش مزید مشکل ہو جاتی ہے۔ ان کے پاس راشن پانے کا کوئی طریقہ نہیں ہے – یہاں تک کہ حکومت کے ذریعے راحت کے لیے اناج کا وعدہ کیا گیا تھا، وہ بھی نہیں ملا۔ رادھا کامبلے پوچھتی ہیں، ’’مودی نے کہا تھاکہ سب کو راشن ملے گا، لیکن ہمارے پاس تو راشن کارڈ ہی نہیں ہے، ہمیں کیسے ملے گا؟‘‘
جو لوگ پی ڈی ایس کی دکانوں سے غذائی اشیاء خرید سکتے ہیں، انہیں بھی ضرورت سے کم سامان ملتا ہے۔ لکشمی بھنڈارے بتاتی ہیں، ’’ہماری فیملی میں چار لوگ ہیں اور ہمیں پانچ کلو گیہوں اور چار کلو چاول ملتا ہے۔ یہ ہمارے لیے کافی نہیں ہے۔ ہمیں ہر مہینے دس کلو گیہوں اور دس کلو چاول ملنا چاہیے۔ راشن کم ہونے کی وجہ سے ہم بازار سے زیادہ قیمت پر راشن خریدتے ہیں۔‘‘
یوگیش پٹولے، جو پڑوس کے شاستری نگر میں ایک راشن کی دکان کے مالک ہیں، نے مجھے بتایا کہ ’’میں اب راشن کارڈ والوں کو فی کس تین کلو گیہوں اور دو کلو چاول دیتا ہوں۔ مفت میں جو راشن بانٹا جانا تھا وہ ہمیں تین مہینے سے نہیں ملا ہے۔‘‘ وارڈ کے میونسپل کارپوریٹر نے ایک ٹیکسٹ میسیج بھی بھیجا ہے جس میں وعدہ کیا گیا ہے کہ ۱۰ اپریل تک اناج تقسیم کر دیا جائے گا، لیکن اس سے لکشمی نگر کے لوگوں کی تشویش کم نہیں ہوئی ہے۔ ایک آدمی نے میسیج دکھاتے ہوئے پوچھا، ’’لوگ اُس تاریخ تک کیسے جئیں گے؟ تب تک ان کے موبائل فون میں بیلنس ٹاک ٹائم تک بچا ہوگا؟‘‘
ان کے گھر چھوٹے ہیں اور رہنے والے بہت ہیں، اور اناج جمع کرکے رکھنے کے لیے جگہ نہیں ہے۔ ان میں سے کچھ گھروں کا چولہا ٹھنڈا پڑا ہوا ہے
لکشمی نگر کے پاس واقع لوک مانیہ کالونی کے ۸۱۰ کنبوں میں سے ۲۰۰ سے زیادہ کنبوں کا کہنا ہے کہ ان کے پاس راشن کارڈ ہے، مگر انہیں راشن نہیں ملتا۔ کالونی کی ۳۰۰۰ کی آبادی میں سے زیادہ تر لوگ صفائی ملازم، ردّی بیننے والے، دہاڑی مزدور، تعمیراتی جگہوں پر کام کرنے والے مزدور، گھریلو ملازمین، اور چوکیدار ہیں۔
ان کے گھر چھوٹے ہیں اور رہنے والے کئی لوگ ہیں۔ اس وجہ سے اناج کو جمع کرکے رکھنے کی جگہ نہیں ہے۔ ان میں سے کچھ گھروں کا چولہا ٹھنڈا پڑا ہوا ہے، اس لیے انہیں ہوٹلوں، ریستورانوں کے بچے کھچے کھانے اور آس پاس کے کنبوں کے ذریعے دیے گئے کھانوں پر منحصر رہنا پڑتا ہے۔ جو لوگ روز کام کے لیے باہر جاتے ہیں، وہ گھر آنے پر باہر کی کھلی جگہ پر بیٹھتے ہیں۔ وہ ماسک خریدنے کا خرچ نہیں اٹھا سکتے۔ ان میں سے کچھ کو، جو ٹھیکہ پر پونہ میونسپل کارپوریشن (پی ایم سی) کے لیے کام کر رہے ہیں، ایک این جی او کے ذریعے ماسک مہیا کرائے گئے ہیں، جنہیں وہ دھو کر پھر سے استعمال کرتے ہیں۔
ویج ناتھ گائکواڑ بتاتے ہیں کہ وارجے، تلک روڈ، اور ہڑپسر علاقوں میں پونہ میونسپل کارپوریشن کے لیے ٹھیکہ پر کام کر رہے ۱۰۰۰ سے زیادہ مزدوروں کو تین مہینے سے تنخواہ نہیں دی گئی ہے۔ ویج ناتھ گائکواڑ میونسپل کارپوریشن میں ایک مُکادم (سپروائزر) ہیں اور مہاپالیکا کامگار یونین کے رکن بھی ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ اب ان مزدوروں کو بقایا تنخواہ ملنے کے آثار کم ہی ہیں۔
پونہ میونسپل کارپوریشن کے محکمہ صحت اور صفائی میں کام کرنے والے ایک کارکن، جو اپنا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتے تھے، نے مجھے اپنے باورچی خانہ میں اناج کے خالی ڈبے اور برتن دکھائے (ویڈیو دیکھیں)۔ انہوں نے کہا، ’’ہم نے اپنی ساری جمع پونجی خرچ کر دی ہے اور اگر میونسپل کارپوریشن ہمیں تنخواہ نہیں دے گی، تو ہم جی نہیں پائیں گے۔ گھر پر خالی بیٹھنے کو مجبور کیے جانے کی وجہ سے ہم بھوک سے مر جائیں گے۔‘‘
مترجم: محمد قمر تبریز