نصرت بانو نے عورتوں کو نوعمری میں بچے پیدا نہ کرنے کے لیے راضی کیا ہے؛ انہوں نے ان عورتوں کے سسرال والوں سے اس بات کو لے کر لڑائی لڑی ہے کہ وہ انہیں مانع حمل کا استعمال کرنے کی اجازت دیں؛ اور وہ ان عورتوں کو زچگی کے لیے اسپتال بھی لے گئی ہیں۔ لیکن بہار کے ارریہ ضلع کے رامپور گاؤں کی رہنے والی ۳۵ سالہ منظور شدہ سماجی صحت کارکن (آشا)، نصرت کا ماننا ہے کہ ان کی اس نوکری کا سب سے مشکل حصہ ہے مردوں کو نس بندی کرانے کے لیے راضی کرنا۔
’’پچھلے سال [۲۰۱۸]، صرف ایک آدمی راضی ہوا،‘‘ انہوں نے ہمیں فاربس گنج بلاک کے تقریباً ۳۴۰۰ کی آبادی والے اس گاؤں میں بتایا۔ ’’اور جب نس بندی پوری ہوگئی، تو اس کی بیوی نے مجھے چپل سے مارنے کی کوشش کی،‘‘ چار بچوں کی اس ماں نے ہنستے ہوئے کہا۔
رامپور کی یہ ناخواہش بہار کے دیگر گاؤوں میں بھی دکھائی دیتی ہے۔ ’’ان کا سب سے بڑا ڈر یہ ہوتا ہے کہ ان کا مذاق اڑایا جائے گا اور دوسرے مرد ان کے اوپر ہنسیں گے،‘‘ ونے کمار نے پچھلے سال مجھے بتایا تھا، ٹھیک اس وقت جب وہ بہار حکومت کے ذریعے ہر سال نومبر میں پوری ریاست میں منعقد کیے جانے والے آئندہ مرد نس بندی ہفتہ کے لیے دوسرے مرحلہ کی مہم شروع کرنے والے تھے۔ ’’وہ یہ بھی سوچتے ہیں کہ وہ کمزور ہو جائیں گے، اور دوبارہ مباشرت نہیں کر پائیں گے، جو کہ ایک غلط فہمی ہے۔‘‘
کمار (۳۸) نے پچھلا سال جہان آباد کے مخدوم پور بلاک کی تقریباً ۳۴۰۰ کی آبادی والے گاؤں، برّہ میں ایک سرکاری نوکری والے وکاس متر کے طور پر گزارا ہے۔ ان کی ذمہ داریوں میں ریاست کے ذریعے چلائی جا رہی مختلف اسکیموں کے بارے میں بیداری پیدا کرنا اور انہیں نافذ کرنا شامل ہے۔ ان کے کاموں میں مردوں کو نس بندی کے لیے راضی کرنے کا ناممکن کام بھی شامل ہے – ایک چھوٹی سی سرجری ہے، جس کے دوران مردوں کی مادّہ منویہ لے جانے والی چھوٹی نلی کو باندھ دیا جاتا یا سیل کر دیا جاتا ہے۔
یہ اس ریاست میں خاص طور سے اہم ہے، جہاں مردوں کی نس بندی پہلے سے ہی معمولی ۰ء۶ فیصد سے صفر فیصد تک گر چکی ہے، این ایف ایچ ایس- ۳ (۲۰۰۵-۰۶) سے این ایف ایچ ایس- ۴ (۲۰۱۵-۱۶) تک۔ بہار میں اسی مدت کے دوران عورتوں کی نس بندی میں بھی گراوٹ درج کی گئی ہے – حالیہ شادی شدہ ۱۵ سے ۴۹ سال کی عورتوں کے ۲۳ء۸ فیصد سے ۲۰ء۷ فیصد تک – لیکن یہ مردوں کی نس بندی کے مقابلے بہت زیادہ ہے۔
بہار کی تعداد مردوں کے درمیان نس بندی کی ملک گیر نا رضامندی کو ظاہر کرتی ہے۔ این ایف ایچ ایس- ۴ میں درج اعداد و شمار کے مطابق، حالیہ شادی شدہ ۳۶ فیصد عورتوں (۱۵-۴۹ سال کی عمر) نے اپنی نس بندی کرائی ہے، جب کہ صرف ۰ء۳ فیصد مرد ہی اس عمل سے گزرے ہیں۔
ملک میں کنڈوم کا استعمال بھی بہت کم ہے – ۱۵ سے ۴۹ سال کی حالیہ شادی شدہ صرف ۵ء۶ فیصد عورتیں ہی کنڈوم کا استعمال مانع حمل کے طور پر کرتی ہیں۔
اس عدم توازن کو دور کرنے کے لیے، بہار میں سال ۲۰۱۸ سے وکاس متروں کو (جن کی کم از کم تعلیمی صلاحیت ۱۲ویں کلاس تک ہے) بھرتی کیا گیا ہے، تاکہ وہ مانع حمل میں مردوں کی نس بندی اور مردوں کی شرکت کی تعداد بڑھانے میں مدد کر سکیں - پاپولیشن فاؤنڈیشن آف انڈیا کے پاس دستیاب اعداد و شمار کے مطابق، ریاست بھر میں ان کی تعداد ۹۱۴۹ ہے، جن میں سے جہان آباد ضلع میں ۱۲۳ اور ارریہ ضلع میں یہ تعداد ۲۲۷ ہے۔
یہ وکاس متر کی شکل میں ونے کمار کے دیگر کاموں کے علاوہ ہے، جس میں بیت الخلا کی تعمیر، قرض کی تصدیق اور تقسیم، اور پانی کی دستیابی جیسی چیزوں کو یقینی بنانا بھی شامل ہے۔ ایک ایسی ریاست میں جہاں سوکھا اور باڑھ جیسی آفت لگاتار آتی ہے، انہیں سوکھا راحت کے لیے معاوضہ کو یقینی بنانا اور باڑھ راحت کے لیے اہل لوگوں کے ناموں کی تصدیق بھی کرنی پڑتی ہے۔
وکاس متروں کو بہار مہادلت وکاس مشن کی طرف سے ہر ماہ ۱۰ ہزار روپے ملتے ہیں، اور ان سے امید کی جاتی ہے کہ وہ ریاست میں مہا دلت یا سب سے پس ماندہ برادریوں کے طور پر فہرست بند ۲۱ درج فہرست ذاتوں پر توجہ مرکوز کریں۔ وہ ضلع انتظامیہ کے ماتحت ہوتے ہیں اور بلاک ویلفیئر آفیسر کو رپورٹ کرتے ہیں۔ مردوں کو نس بندی کرانے کے لیے راضی کرنے پر، وکاس متر کو ایسے ہر ایک مرد کے ۴۰۰ روپے اضافی ملتے ہیں۔
مردوں کی نس بندی پر مرکوز بہار کا سالانہ ہفتہ، جس میں ونے کمار مصروف تھے جب میں ان سے ملی تھی، ’مردوں کی شمولیت‘ – فیملی پلاننگ کے سلسلے میں ایک معروف لفظ – ایک ایسی ہی کوشش ہے۔ بہار ہندوستان میں فیملی پلاننگ کے لیے اعلیٰ مرکوز ریاستوں میں سے ایک ہے – یہاں کی ۱۵ سے ۴۹ سال کی عمر کی عورتوں میں ۳ء۴۱ کی بچے پیدا کرنے کی مجموعی صلاحیت ہندوستان میں سب سے زیادہ ہے (اور ریاست کے چند دیگر ضلعوں کی طرح ارریہ ضلع میں بھی بچے پیدا کرنے کی مجموعی صلاحیت ۳ء۹۳ فیصد ہے، کو کہ اعلیٰ شرح ہے)۔ قومی سطح پر اوسط مجموعی شرح ۲ء۱۸ ہے (این ایف ایچ ایس- ۴)۔
حالانکہ، ۱۹۸۱ میں وکاس متروں (دیگر شعبہ ہائے عوامی صحت کے کارکنوں کے درمیان) کے ذریعے یہ کام شروع کیے جانے سے پہلے دسیوں سال تک ’مردوں کی شمولیت‘ کی کوشش کی گئی ہے، مرکزی حکومت نے نس بندی کے لیے نقد پیسے دیے ہیں، اور اب، نس بندی کرانے والے ہر ایک مرد کو ۳ ہزار روپے دیے جاتے ہیں۔
پھر بھی، جنسی برابری پر مبنی مانع حمل کی رفتار دھیمی ہے۔ ہندوستان بھر میں عورتیں اس ذمہ داری کو نبھا رہی ہیں اور بچوں کے درمیان فرق کو یقینی بنانے اور انچاہے حمل سے بچنے کی کوشش کو جاری رکھے ہوئی ہیں۔ نس بندی کے علاوہ، حالیہ شادی شدہ ۴۸ فیصد عورتیں (۱۵ سے ۴۹ سال کی عمر) آئی یو ڈی، گولیوں اور انجکشن والے طریقے استعمال کرتی ہیں (جن کی این ایف ایچ ایس- ۴ میں ’مانع حمل کے جدید طریقوں‘ کے تحت درجہ بندی کی گئی ہے)۔
ان میں سے عورتوں کی نس بندی، ملک میں مانع حمل کا سب سے مقبول طریقہ ہے۔ مانع حمل گولیوں، کنڈوم اور آئی یو ڈی جیسے طریقوں کے مقابلے اس مستقل طریقے پر ہندوستان کا سب سے زیادہ زور کی بڑے پیمانے پر تنقید کی گئی ہے۔ ’’عورتوں کی نس بندی ہندوستان میں اہم ہے، کیوں کہ یہ [فیملی پلاننگ کے حصول کے لیے] ایک آسان شارٹ کٹ ہے،‘‘ آبزروَر ریسرچ فاؤنڈیشن کے ہلیتھ انیشیٹو کے سینئر فیلو اور سربراہ، اومن سی کورین نے کہا۔
ریاست کا فیملی پلاننگ نظام، عورتوں کو اپنے افزائشی حقوق کے تئیں بیدار ہونے اور ان کا استعمال کرنے کے لیے انہیں اہل بنانے کی کوشش کرتا ہے، جس میں ان کا بچے کی پیدائش کو کنٹرول کرنے کا حق، اسقاط حمل کے لیے قانونی مدد حاصل کرنا اور افزائشی صحت خدمات تک رسائی بھی شامل ہے۔ ان میں سے کئی کوششیں نصرت بانو جیسی آشا کارکنوں کے توسط سے کی جاتی ہیں، جو کہ پہلی قطار کی عوامی صحت کارکن ہیں جو افزائشی صحت کے لیے مشورے دیتی اور پھر آگے کی حالت کے بارے میں ان عورتوں کو باخبر کراتی رہتی ہیں۔ آشا کارکنوں کو نس بندی کے لیے عورتوں کو بھرتی کرانے پر ۵۰۰ روپے ملتے ہیں، جب کہ نس بندی کرانے والی عورتوں کو ۳۰۰۰ روپے دیے جاتے ہیں۔
مردوں کو جہاں نس بندی کے زخم سے باہر نکلنے میں تقریباً ایک ہفتہ کا وقت لگ سکتا ہے، وہیں عورتوں کو پوری طرح سے ٹھیک ہونے میں کبھی کبھی دو سے تین مہینے لگ جاتے ہیں۔ نس بندی کے عمل کے بعد، مردوں کو فوراً چھٹی دے دی جاتی ہے، جب کہ عورتوں کو کم از کم ایک رات کے لیے طبی مرکز میں قیام کرنا پڑتا ہے۔
باوجود اس کے، کئی عورتوں کو ڈر لگا رہتا ہے کہ اگر وہ نس بندی نہیں کرائیں گی تو انہیں اور بچے پیدا کرنے کے لیے مجبور کیا جائے گا۔ اور اکثر، وہ اپنے شوہر یا سسرال والوں کو بتائے بنا ہی اس عمل کا انتخاب کرتی ہیں - جیسا کہ ونے کمار کی بیوی نے کیا تھا۔
نس بندی کرانے کے لیے جن عورتوں کو کمار صلاح دیتے ہیں، انہی کی طرح وہ خود بھی نس بندی سے ڈرتے ہیں اور اس سے جڑی غلط فہمی پر یقین کرتے ہیں – اور کہتے ہیں کہ وہ اس عمل کے بعد ’بہت کمزور‘ ہو جانے سے ڈر گئے تھے۔ ’’مجھے نہیں معلوم تھا کہ کس سے بات کرنی ہے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ان کے دو بچوں کی پیدائش کے بعد، ان کی بیوی نے نس بندی کرانے کا فیصلہ خود ہی لیا تھا، اس کے لیے انہوں نے نہ تو اپنے شوہر سے کوئی صلاح و مشورہ کیا اور نہ ہی انہیں اس کی خبر دی تھی۔
کمار اور دیگر وکاس متر عام طور ر دلتوں اور مہا دلتوں کی اپنی برادریوں کے اندر ہی کام کرتے ہیں، لیکن مردوں کی نس بندی کے لیے وہ کبھی کبھی اونچی ذات کے مردوں سے بھی رابطہ کرتے ہیں، جس کی اپنی الگ چنوتیاں ہیں۔
’’ہمیں ڈر لگا رہتا ہے کہ اونچی ذات کے مرد نس بندی کے عمل کے بارے میں ہم سے کچھ ایسے سوال کریں گے جن کا ہم جواب نہیں دے پائیں گے،‘‘ ۴۲ سالہ اجیت کمار مانجھی کہتے ہیں، جو کہ جہان آباد ضلع کے مخدوم پور بلاک میں کالانور گاؤں کے وکاس متر ہیں۔ مانجھی کے تین بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔
کبھی کبھی، اس کا ایک مزاحیہ پہلو بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔ سال ۲۰۱۸ میں، مانجھی نے دو لوگوں کا نام فہرست میں ڈالا تھا۔ ’’میں ایک آدمی سے بات کر رہا تھا، اور اس نے کہا کہ میں اکیلا نہیں جاؤں گا۔ سب لوگ مجھ پر ہنسیں گے۔ اس لیے میں نے اس کے پڑوسی کو بھی راضی کر لیا۔ اس طرح، انہوں نے خود اعتمادی محسوس کی۔‘‘
لیکن نس بندی کرانے کے ۱۳ مہینے بعد بھی ان مردوں میں سے ہر ایک کو ۳ ہزار روپے نہیں ملے ہیں۔ ایسا اکثر ہوتا ہے، جس سے لوگوں کو سمجھانا مشکل ہو جاتا ہے، مانجھی کہتے ہیں۔ پیسہ بینک کھاتوں میں منتقل کیا جاتا ہے، لیکن گاؤوں کے سبھی مردوں کے پاس بینک کھاتے نہیں ہیں۔ یہ وکاس متروں کے کاموں کی لمبی فہرست کو مزید بڑھاتا ہے۔ ’’اگر کسی کے پاس بینک کھاتہ نہیں ہے، تو میں ان کے لیے کھاتہ کھلواتا ہوں،‘‘ ونے کمار کہتے ہیں۔ میں نے جتنے بھی وکاس متروں سے بات کی، ان میں سے کوئی بھی ۲۰۱۹ میں پورے سال تین چار سے زیادہ مردوں کو نس بندی کے لیے راضی نہیں کر پائے تھے۔
نس بندی کرانے کے لیے کسی مرد کو راضی کرنے میں اس کی بیوی کی صلاح بھی شامل ہوتی ہے۔ مالتی کمار مخدوم پور بلاک کے کوہارا گاؤں کی ایک وکاس متر ہیں، لیکن مردوں سے بات کرنے کے لیے وہ اپنے شوہر نند کشور مانجھی پر منحصر ہیں۔ ’’ہم ایک ٹیم کے طور پر کام کرتے ہیں۔ میں عورتوں سے بات کرتی ہوں، یہ ان کے شوہروں سے بات کرتے ہیں،‘‘ وہ کہتی ہیں۔
’’میں ان سے پوچھتا ہوں – اگر آپ کے پاس پہلے سے بچے ہیں، تو مزید بچے پیدا کرکے آپ ان کی دیکھ بھال کیسے کریں گے،‘‘ نندکشور مانجھی کہتی ہیں۔ اکثر ان کی صلاح کو نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔
آشا کارکن بھی اپنے شوہروں کو مدد کرنے کے لیے کہتی ہیں۔ ’’عورتوں کی شکل میں، ہم مردوں سے نس بندی کے بارے میں بات کرتے نہیں دیکھے جا سکتے۔ وہ کہتے ہیں، ’آپ ہمیں یہ کیوں بتا رہی ہیں؟ میری بیوی سے بات کیجئے۔‘ اس لیے، میں اپنے شوہر سے کہتی ہوں کہ وہ مردوں کو اس کے لیے راضی کریں،‘‘ نصرت بانو کہتی ہیں۔
عورتوں کی باتوں سے یہ واضح ہے کہ فیملی پلاننگ میں ’مردوں کی شمولیت‘ نس بندی کے لیے مردوں کو فہرست بند کرنے تک محدود نہیں ہے۔ اس میں بات چیت شروع کرنا شامل ہے، انہیں یہ بتانے کے بارے میں ہے کہ کتنے بچے پیدا کرنے ہیں اور انہیں کس طرح کا مانع حمل اختیار کرنا چاہیے، ان سب میں ان کی بیوی کی رائے بھی یکساں طور پر شامل ہے۔ ’’اس میں وقت لگتا ہے، اور دونوں کو ہر طریقہ کے نفع و نقصان کے بارے میں مطمئن ہونے کی ضرورت پڑتی ہے،‘‘ ارریہ ضلع کے رامپور گاؤں میں رہنے والی تین بچوں کی ماں اور ایک آشا کارکن، نکہت ناز کہتی ہیں۔
عورتوں کا کہنا ہے کہ انہیں ان سماجی اثرات کے بارے میں بھی سوچنا پڑتا ہے، جو مردوں کی نس بندی کے بعد ان کی شادی شدہ زندگی پر ہو سکتے ہیں۔ اس واقعہ کو یاد کرتے ہوئے جس میں ایک مرد کی بیوی نے انہیں چپل سے مارنے کی کوشش کی تھی، نصرت کہتی ہیں، ’’وہ بھی ڈر گئی تھیں کہ یہ عمل ان کے شوہر کو نامرد بنا دے گا اور گاؤں میں مذاق کا سبب بنے گا۔ اور وہ ان کے ساتھ تشدد کرنے لگیں گے۔‘‘
اور پھر، وہ پوچھتی ہیں، ’’عورتوں کو تو اپنی زندگی کا ڈر رہتا ہے، لیکن مردوں کو اپنی ہنسی اڑائے جانے کا؟‘‘
کور کا خاکہ: پرینکابورار نئے میڈیا کی ایک آرٹسٹ ہیں جو معنی اور اظہار کی نئی شکلوں کو تلاش کرنے کے لیے تکنیک کا تجربہ کر رہی ہیں۔ وہ سیکھنے اور کھیلنے کے لیے تجربات کو ڈیزائن کرتی ہیں، باہم مربوط میڈیا کے ساتھ ہاتھ آزماتی ہیں، اور روایتی قلم اور کاغذ کے ساتھ بھی آسانی محسوس کرتی ہیں۔
پاری اور کاؤنٹر میڈیا ٹرسٹ کی جانب سے دیہی ہندوستان کی بلوغت حاصل کر چکی لڑکیوں اور نوجوان عورتوں پر ملگ گیر رپورٹنگ کا پروجیکٹ پاپولیشن فاؤنڈیشن آف انڈیا کے مالی تعاون سے ایک پہل کا حصہ ہے، تاکہ عام لوگوں کی آوازوں اور ان کی زندگی کے تجربات کے توسط سے ان اہم لیکن حاشیہ پر پڑے گرہوں کی حالت کا پتہ لگایا جا سکے۔
اس مضمون کو شائع کرنا چاہتے ہیں؟ براہِ کرم [email protected] کو لکھیں اور اس کی ایک کاپی [email protected] کو بھیج دیں۔
(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)