چتم پلّی پرمیشوری کو اکثر ایسا لگتا ہے کہ وہ کہیں بھاگ جائیں۔ ’’لیکن، میں اپنے بچوں کو نہیں چھوڑ سکتی۔ میرے علاوہ ان کا کوئی اور نہیں ہے،‘‘ ۳۰ سالہ ماں کہتی ہیں۔
عمر کی ۲۰ویں دہائی میں چل رہے پرمیشوری کے شوہر، چتم پلّی کمل چندر نے جب نومبر ۲۰۱۰ میں خودکشی کی تھی تب وہ ایک کسان تھے۔ ’’انہوں نے کوئی لیٹر نہیں چھوڑا تھا۔ شاید اس لیے کہ وہ اچھی طرح لکھنا نہیں جانتے تھے،‘‘ وہ ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہتی ہیں۔
اور اس طرح وہ اپنے دو بچوں، شیشادری اور انّ پورنا کی واحد سرپرست بچی تھیں۔ ان کے دونوں بچے ایک سرکاری اسکول میں پڑھتے ہیں اور گھر سے ۳۰ کلومیٹر دور ایک ہاسٹل میں رہتے ہیں۔ ’’مجھے ان کی بہت یاد آتی ہے،‘‘ ماں کہتی ہیں اور پھر خود کو دلاسہ دیتے ہوئے آگے کہتی ہیں، ’’مجھے معلوم ہے کہ انہیں وقت پر کھانا مل رہا ہوگا۔‘‘
وہ مہینہ میں ایک بار ان سے ملنے کا انتظار کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’اگر میرے پاس پیسے ہوتے ہیں، تو انہیں [بچوں کو] ۵۰۰ [روپے] دیتی ہوں اور اگر پیسے کم ہوتے ہیں، تو ۲۰۰ [روپے] پکڑا دیتی ہوں۔‘‘
اس فیملی کا تعلق مڈیگا کمیونٹی سے ہے، جو تلنگانہ میں درج فہرست ذات کے طور پر درج ہے اور پرمیشوری، چلتم پلّے گاؤں میں اپنے ایک کمرہ کے گھر میں رہتی ہیں۔ ان کے گھر کی چھت اکھڑنے لگی ہے، اور باہر ایک کھلا چھپر ہے۔ تلنگانہ کے وکارآباد ضلع کا یہ گھر ان کے آنجہانی شوہر، کمل چندر کے گھر والوں کا ہے جہاں وہ شادی کے بعد آئی تھیں۔
شوہر کی خودکشی کے بعد، پرمیشوری کی آمدنی کا بنیادی ذریعہ آسرا پنشن اسکیم کے تحت بیواؤں کو ملنے والی پنشن رہا ہے۔ ’’مجھے ۲۰۱۹ تک ۱۰۰۰ [روپے] ملتے تھے، لیکن اب ہر مہینے ۲۰۱۶ [روپے] ملتے ہیں۔‘‘
پنشن کے علاوہ، وہ اسی گاؤں میں اپنے سسرال والوں کے مکئی کے کھیتوں میں کام کر کے ہر مہینے ۲۵۰۰ روپے کما لیتی ہیں۔ پرمیشوری دوسروں کے کھیتوں پر دہاڑی مزدور کے طور پر بھی کام کرتی ہیں، جہاں سے انہیں ایک دن کے ۲۰۰-۱۵۰ روپے ملتے ہیں، لیکن یہ کام انہیں کبھی کبھار ہی ملتا ہے۔
ان کی تقریباً پوری کمائی، فیملی کی مہینہ بھر کی ضرورتوں میں خرچ ہو جاتی ہے۔ وہ بتاتی ہیں، ’’ایسے بھی مہینے گزرتے ہیں، جب ہاتھ میں ضرورت کے حساب سے پیسے نہیں ہوتے۔‘‘ بات کرتے ہوئے وہ اپنی ساڑی کے کونے کو گھماتی ہیں۔
یہ کمائی ان کے لیے کافی نہیں ہے، کیوں کہ شوہر کی موت کے ۱۳ سال بعد بھی وہ ان کے قرضوں کو چُکانے کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں۔ وہ اکیلے کماتی ہیں اور نجی ساہوکاروں (اپّولورو) کو ہر مہینے قرض کے پیسے چُکانا ان کے لیے لگاتار سر درد بنا رہتا ہے۔ وہ فکرمندی سے کہتی ہیں، ’’پتہ نہیں مجھے اور کتنا قرض چکانا ہے۔‘‘
ان کے آنجہانی شوہر، کمل چندر نے کچھ ایکڑ زمین لیز (پٹّہ) پر لی تھی اور اخراجات کو پورا کرنے کے لیے بار بار قرض لیتے رہتے تھے۔ مرنے سے پہلے ان کے اوپر ۶ لاکھ روپے کا قرض ہو چکا تھا، جسے انہوں نے وکارآباد ضلع کے پانچ الگ الگ اپّولورو سے لیا تھا۔ ان کی بیوہ پرمیشوری کہتی ہیں، ’’مجھے صرف تین لاکھ [روپے] کے بارے میں معلوم تھا۔ مجھے نہیں پتہ تھا کہ اتنا زیادہ بقایا ہے۔‘‘
کمل چندر کی موت کے کچھ ہفتوں بعد جب ساہوکاروں نے پرمیشوری سے رابطہ کیا، تب انہیں پتہ چلا کہ ان کے شوہر نے دو ساہوکاروں سے ڈیڑھ لاکھ روپے اور تین دیگر ساہوکاروں سے ایک ایک لاکھ روپے قرض لیے تھے۔ یہ سارا قرض انہوں نے ۳۶ فیصد سالانہ شرح سود پر لیا تھا۔ اس کے لیے کوئی لکھا پڑھی نہیں ہوئی تھی اس لیے پرمیشوری کے پاس ان قرضوں کا صحیح حساب موجود نہیں تھا۔
وہ کہتی ہیں، ’’میں تو صرف انہی پر بھروسہ کر سکتی ہوں کہ قرض کی پوری رقم جب ادا ہو جائے تو وہ مجھے اس کے بارے میں بتا دیں۔‘‘ پچھلے مہینے جب انہوں نے ایک اپولورو سے پوچھا کہ اور کتنی رقم چکانے کو باقی ہے، تو اس نے کوئی صاف جواب نہیں دیا۔ اور انہیں اندھیرے میں رکھا۔
انہیں ہر ایک اپولورو کو ہر مہینے ۲۰۰۰ روپے چکانے پڑتے ہیں۔ بوجھ تھوڑا ہلکا کرنے کے لیے وہ ان پانچوں لوگوں کو مہینہ کے الگ الگ دنوں میں پیسے ادا کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’میرے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں کہ میں ایک مہینہ میں پانچوں کو ادا کروں۔‘‘ اس لیے وہ کچھ ساہوکاروں کو ہر مہینے صرف ۵۰۰ روپے ہی ادا کرتی ہیں۔
پرمیشوری کہتی ہیں، ’’میں اس [خودکشی] کے لیے اپنے شوہر کو قصوروار نہیں مانتی۔ خود میرے من میں بھی کبھی کبھی ایسا ہی خیال آتا ہے؛ لیکن میں اکیلے لڑ رہی ہوں۔‘‘
کئی بار تناؤ بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے، لیکن اپنے بچوں کے بارے میں سوچ کر وہ ایسا کوئی قدم اٹھانے سے رک جاتی ہیں۔ وہ مایوسی سے کہتی ہیں، ’’ اپولورو میرے بچوں کو قرض چکانے کے لیے کہیں گے [اگر میں نے نہیں چکایا]۔ لیکن وہ اسے کیوں چکائیں؟ میں چاہتی ہوں کہ وہ بڑے شہروں میں رہیں، اچھی طرح پڑھائی کریں اور قابل احترام عہدوں پر کام کریں۔‘‘
*****
پرمیشوری کا دن صبح ۵ بجے شروع ہو جاتا ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’’اگر گھر میں چاول ہوتا ہے، تو میں وہی بناتی ہوں۔ نہیں تو میں گنجی بنا لیتی ہوں۔‘‘ جس دن انہیں کام پر جانا ہوتا ہے، وہ اپنا لنچ پیک کرتی ہیں اور صبح ۸ بجے تک گھر سے نکل جاتی ہیں۔
باقی دنوں میں، وہ گھر کا کام کرتی ہیں اور خالی وقت میں ایک چھوٹے سے ٹیلی ویژن پر پرانی، بلیک اینڈ وائٹ تیلگو فلمیں اور سیریل دیکھتی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں، ’’مجھے فلمیں دیکھنا پسند ہے۔ لیکن کبھی کبھی میں اسے [کیبل کنکشن کی ممبرشپ] ختم کرنے کے بارے میں سوچتی ہوں۔‘‘ لیکن، وہ بتاتی ہیں کہ ۲۵۰ روپے کا کیبل کنکشن انہیں اداسیوں سے باہر نکلنے میں مدد کرتا ہے۔
اکتوبر ۲۰۲۲ میں، ان کے ایک رشتہ دار نے مشورہ دیا کہ وہ دیہی علاقوں میں تناؤ سے جڑی مدد کے لیے چلنے والے ہیلپ لائن ’کسان متر‘ سے رابطہ کریں۔ پرمیشوری یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں، ’’فون اٹھانے والی عورت سے بات کر کے مجھے اچھا لگا۔ انہوں نے کہا کہ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘ یہ ہیلپ لائن، رورل ڈیولپمنٹ سروس سوسائٹی کے ذریعے چلائی جاتی ہے، جو تلنگانہ اور آندھرا پردیش میں کام کرنے والا ایک این جی او ہے۔ کال کے فوراً بعد، کسان متر کے فیلڈ کوآرڈینیٹر جے نرسیمولو نے ان کے گھر کا دورہ کیا۔ وہ بتاتی ہیں، ’’انہوں نے [نرسیمولو] مجھ سے میرے شوہر، بچوں اور مالی پریشانیوں کے بارے میں پوچھا۔ ان سے بات کر کے مجھے اچھا لگا۔‘‘
اپنی آمدنی بڑھانے کے لیے پرمیشوری ایک گائے خریدنے جا رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’وہ [گائے] میرے اکیلے پن کو کم کرے گی۔‘‘ انہوں نے گائے کو خریدنے کے لیے پہلی قسط کے طور پر ۱۰ ہزار روپے ادا کر دیے ہیں۔ ’’حالانکہ، ابھی تک گائے میرے گھر نہیں آئی ہے، اور میں اس کا انتظار کر رہی ہوں۔‘‘
اگر آپ کے ذہن میں خودکشی کا خیال آ رہا ہو یا آپ کسی ایسے شخص کو جانتے ہیں جو ذہنی دباؤ کا شکار ہے، تو قومی ہیلپ لائن، کرن، کے 0019-599-1800 (چوبیسوں گھنٹے ٹال فری) پر کال کریں، یا اپنے آس پاس کے ان میں سے کسی بھی ہیلپ لائن پر رابطہ کریں۔ دماغی صحت سے وابستہ پیشہ وران اور خدمات کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے، براہ کرم ایس پی آئی ایف کی مینٹل ہیلتھ ڈائریکٹری ملاحظہ کریں۔
یہ اسٹوری
رنگ دے
کی طرف سے ملنے والی گرانٹ کی مدد سے کی گئی ہے۔
مترجم: محمد قمر تبریز