تُھلّور منڈل کے اُدَنڈرایونیِپلیم گاؤں کی ویموری سُجاتا کہتی ہیں، ’’پہلے میں ہفتے میں چھ دن روزازنہ ۱۵۰ روپے کما لیتی تھی۔ اب خواتین کے لیے کوئی کام دستیاب نہیں ہے۔‘‘ سجاتا، مالا برادری (دلتوں کی ایک ذیلی ذات) سے تعلق رکھنے والی ایک ۳۸ سالہ بیوہ ہیں اور بے زمین ہیں۔ جنوری ۲۰۱۵ تک وہ زرعی مزدور کے طور پر کام کرتی تھیں۔
لیکن جب حکومت آندھرا پردیش نے ’عالمی معیار‘ کی اپنی نئی راجدھانی، امراوتی کی تعمیر کے لیے زمین حاصل کرنا شروع کیا تو پھر گنٹور ضلع کے کھیتوں میں کام ملنا مشکل ہو گیا۔ سال ۲۰۱۴ میں ریاست کی آندھرا پردیش اور تلنگانہ میں تقسیم کے بعد حیدرآباد ایک دہائی تک (امراوتی کی تعمیر تک) دونوں ریاستوں کا دارالحکومت رہے گا۔
سال ۲۰۰۸ میں اپنے شوہر کی موت کے بعد سجاتا نے زرعی مزدوری سے حاصل ہونے والی اپنی قلیل آمدنی سے اپنے دو بیٹوں کی پرورش کی۔ اب وہ دونوں بھی روزی روٹی کمانے کی پوری جد و جہد کر رہے ہیں۔ ان کے بڑے بیٹے، ۱۹ سالہ ویموری پرساد نے ۲۰۱۵ میں تُھلّور کے ضلع پریشد اسکول سے دسویں جماعت پاس کرنے کے بعد پڑھائی چھوڑ دی تھی۔ ایک سال بعد اسی اسکول میں پڑھنے والے ان کے چھوٹے بھائی، ۱۷ سالہ ویموری راجہ نے بھی تعلیم سے کنارہ کشی اختیار کر لی تھی۔ دونوں اب کرشنا ندی کے کنارے ریت کی کھدائی میں یومیہ اجرت پر کام کرتے ہیں اور ہفتے میں تین دن روزانہ ۲۰۰ سے ۲۵۰ روپے کما لیتے ہیں۔ کام کی کمی کی وجہ سے انہیں باری باری سے کام ملتا ہے۔
راجہ کہتے ہیں، ’’یہ کمر توڑ محنت والا کام ہے، جس کے لیے بہت زیادہ توانائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہم صبح ۶ بجے جاتے ہیں اور شام ۶ بجے واپس لوٹتے ہیں۔‘‘ چونکہ خواتین کو ریت کی کھدائی میں مزدوری نہیں ملتی ہے اور اب انہیں گاؤں میں بھی زرعی مزدوری کا کام نہیں ملتا، اس لیے سجاتا کی طرح بہت سی عورتیں اپنے گھروں تک محدود ہوکر رہ گئی ہیں۔
اُدَنڈرایونیِپلیم دریائے کرشنا کے شمالی کنارے پر واقع ان ۲۹ گاؤوں میں سے ایک ہے، جس کی زمین امراوتی کی تعمیر کے لیے ریاست اپنی تحویل میں لے رہی ہے۔ امراوتی تعمیری منصوبے کے پہلے مرحلے میں ریاست ۳۳۰۰۰ ایکڑ (اور ۲۰۵۰ میں تیسرے مرحلے تک کل ۱۰۰۰۰۰ ایکڑ) زمین اپنی تحویل میں لے گی۔ امراوتی سسٹینیبل کیپٹل سٹی ڈیولپمنٹ پروجیکٹ کے لیے ۲۰۱۵ میں شروع کی گئی لینڈ پولنگ اسکیم (ایل پی ایس) کے تحت زمین مالکان ’’رضاکارانہ طور پر‘‘ اپنی زمین چھوڑ کر مالی معاضے کی بجائے ’’دوبارہ تشکیل شدہ‘‘ پلاٹ حاصل کر سکتے ہیں۔ آندھرا پردیش کیپٹل ریجن ڈیولپمنٹ اتھارٹی (اے پی سی آر ڈی اے)، جو ’پولنگ اتھارٹی‘ ہے، باقی ماندہ زمین اپنے پاس رکھے گی اور اسے سڑکوں، عوامی عمارتوں، صنعتوں اور دیگر شہری سہولیات کے لیے استعمال کرے گی۔ لیکن ایل پی ایس صرف زمین مالکان کی رضامندی لیتی ہے اور زمین پر منحصر دیگر افراد جیسے کہ زرعی مزدوروں کو خاطر میں نہیں لاتی ہے۔
۱۵۰۳ افراد کی آبادی والے اُدَنڈرایونیِپلیم کو تین اہم کالونیوں میں تقسیم کیا گیا ہے: مرکزی گاؤں، اس سے ملحق شیڈول کاسٹ (ایس سی) کالونی، اور لنکا شیڈیولڈ کاسٹ کالونی جو ندی کے کنارے واقع ہے۔ گاؤں والوں کا اندازہ ہے کہ تقریباً ۱۵۰ دلت کنبے ایس سی کالونی میں اور ۷۵ لنکا ایس سی کالونی میں آباد ہیں۔
مرکزی گاؤں میں اکثریتی کمّا ذات سے تعلق رکھنے والے زمین مالکان اور چھوٹے کسان رہتے ہیں۔ یہاں کے دلتوں کی اکثریت بٹائی دار کسان اور زرعی مزدور ہے۔ یہ کام کے لیے زمین مالکان پر منحصر رہتے ہیں۔ سال ۲۰۱۱ کی مردم شماری میں اُدَنڈرایونیِپلیم میں ۱۶۹ کسانوں اور ۵۵۶ زرعی مزدوروں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ آندھرا پردیش اصلاح اراضی (زرعی اراضی کی آخری حد) قانون، ۱۹۷۳ کے تحت ریاست کی طرف سے بے زمین غریبوں میں زمین تقسیم کرنے سے پہلے بہت کم دلتوں کے پاس اپنی زمینیں تھیں۔
منڈلا سُبّا راؤ (۷۰ سالہ) کہتے ہیں، ’’جب زمین مالکان نے اپنی زمینیں پولنگ کے لیے دے دیں اور کاشت کاری بند کر دی، تو زرعی مزدور کام سے محروم ہو گئے۔‘‘ تقریباً اسی وقت کرشنا کے کنارے آباد گاؤوں اُدَنڈرایونیِپلیم، بوروپلیم، لِنگایا پلیم اور وینکٹ پلیم میں ریت کی کانکنی میں اضافہ ہو گیا۔ دریا سے نکالی گئی ریت دارالحکومت کی تعمیر کے لیے استعمال کی جا رہی ہے۔
ان گاؤوں کے نوجوان اپنی کفالت کے لیے اب ریت کی کانکنی پر انحصار کرتے ہیں، لیکن عمردراز لوگوں کے پاس کوئی کام نہیں ہے۔ سُبّا راؤ کہتے ہیں، ’’میں نے کچھ دنوں تک کانکنی کا کام کرنے کی کوشش کی، لیکن یہ بہت مشکل ہے۔ میں اپنی عمر کی وجہ سے یہ کام نہیں کرسکتا۔‘‘ وہ اپنی ۶۰ سالہ بیوی وینکیَمّا منڈلا کے ساتھ رہتے ہیں۔ اب ان کی آمدنی کا واحد ذریعہ ۲۵۰۰ روپے ماہانہ وہ پینشن ہے، جس کا وعدہ حکومت نے بے زمین کسانوں سے کیا ہے۔ یہ پینشن لینڈ پولنگ اسکیم کے ایک حصے کے طور پر بے زمین کنبوں کو ۱۰ سال تک دی جانی ہے۔ پینشن کی یہ رقم ستمبر ۲۰۱۷ میں ورلڈ بینک کے انسپیکشن پینل کی رپورٹ کے مطابق طے کردہ بے زمین مزدوروں کی اوسط ماہانہ آمدنی، ۸۴۷۶ روپے سے بہت کم ہے۔
وینکیَمّا کہتی ہیں، ’’مرد روزانہ ۵۰۰ روپے کماتے تھے جبکہ خواتین کو ۱۵۰ سے ۲۰۰ روپے کی آمدنی ہوتی تھی، اور انہیں سال کے تمام ۳۶۵ دن کام ملتا تھا۔ اگر شوہر اور بیوی دونوں کام کرتے تھے تو ایک بے زمین زرعی مزدور کا کنبہ مہینے میں ۱۵۰۰۰ سے ۲۰۰۰۰ روپے کما لیتا تھا۔‘‘ سبا راؤ اپنی بات جوڑتے ہوئے کہتے ہیں، ’’ہم اپنے یومیہ اخراجات کو ۲۵۰۰ روپے سے کیسے پورا کر سکتے ہیں؟ ۲۵ کلو چاول کے تھیلے کی قیمت ۱۵۰۰ روپے ہے۔ نئی راجدھانی کی وجہ سے دیگر اخراجات جیسے آمد و رفت [لوگوں کو کام کی تلاش میں دور تک سفر کرنا پڑتا ہے] اور صحت میں اضافہ ہوا ہے، جبکہ آمدنی میں کمی آئی ہے۔‘‘
ایس سی کالونی کی ایک ۴۲ سالہ دلت بیوہ، کَمبھم پتی بھولکشمی کہتی ہیں، ’’پہلے تو حکومت نے ہمیں کچھ نہیں دیا۔ تمام پیکیج صرف زمین مالکان کے لیے تھے۔ ہمارے احتجاج کے بعد حکومت نے ہمیں یہ مونگ پھلیاں [۲۵۰۰ روپے کی پینشن] دیں۔ ہم فی کنبہ کم از کم ۱۰۰۰۰ روپے ماہانہ پینشن کا مطالبہ کر رہے ہیں۔‘‘ وہ مزید کہتی ہیں، ’’وہ وقت پر پینشن بھی نہیں دیتے۔ ہمیں دو مہینے میں ایک بار پیسے ملتے ہیں۔ مجھے ہر مہینے دو یا تین بار مندادم [چار کلومیٹر دور] میں واقع ایس بی آئی بینک جانا پڑتا ہے اور وہاں آنے جانے کے لیے [آٹورکشہ سے، چونکہ وہاں کوئی بس سروس نہیں ہے] کرایے کے طور پر ۴۰ روپے خرچ کرنے پڑتے ہیں۔‘‘
حکومت نے ۲۹ گاؤوں میں سال کے ۳۶۵ دنوں تک منریگا کا کام مہیا کرانے کا وعدہ کیا تھا ، لیکن یہ وعدہ ابھی تک پورا نہیں ہوا ہے۔ بھولکشمی کہتی ہیں، ’’جب سے امراوتی کے لیے [۲۰۱۵ میں] لینڈ پولنگ شروع ہوئی ہے، ۳۶۵ دنوں کی کون کہے، ہمارے پاس پچھلے چار سالوں میں ایک دن کا بھی منریگا کا کام نہیں آیا ہے۔‘‘
ان کے ۱۸ سالہ بیٹے اریمیا کی کمائی سے اب پانچ افراد پر مشتمل ان کے کنبے (جس میں اس کی بہن اور ان کے دو بچے شامل ہیں) کی کفالت ہو رہی ہے۔ انہوں نے ۲۰۱۵ میں دسویں جماعت میں پڑھائی چھوڑ دی تھی اور ہفتے کے تین دن روزانہ ۲۰۰ سے ۲۵۰ روپے کماتے ہیں۔ اریمیا بتاتے ہیں، ’’چونکہ وہاں کام کم ہے اور کام کرنے والے زیادہ ہیں، اس لیے ہم کام بانٹتے ہیں۔ ایک دن، ایس سی کالونی کے مرد کام پر جاتے ہیں اور دوسرے دن، لنکا ایس سی کالونی کے مرد جاتے ہیں۔‘‘
ایک ابر آلود دوپہر کو ریت کی کھدائی کا کام کرنے والے نوجوان دلت مرد (ان میں سے کچھ نے ایم بی اے کی ڈگریاں حاصل کی ہیں) تاش کھیلنے میں مصروف ہیں۔ یہ نوجوان حیدرآباد اور دیگر شہروں میں نوکریاں تلاش کرنے کی ناکام کوشش کر چکے ہیں۔ ان کے گاؤوں میں ان کے لیے زرعی مزدوری کا کوئی کام بھی نہیں ہے۔ ایلورو کے ایک انسٹی ٹیوٹ سے ایم بی اے کرنے والی ۲۳ سالہ انکلا مدن کہتی ہیں، ’’ریت کی کانکنی کا کام بھی سال بہ سال کم ہو رہا ہے۔ آخر کار دریا کنارے جمع ریت کو بھی ختم ہونا ہے۔‘‘
ریت کو ڈریج مشینوں سے کھود کر اور مشینی کشتیوں کے ذریعے نکال کر دریا کے کنارے جمع کیا جاتا ہے۔ ۲۴ سالہ پلی سدھیر بھی یہاں کام کرتے ہیں۔ انہوں نے گنٹور سے ایم بی اے کی ڈگری حاصل کی ہے، وہ کہتے ہیں، ’’ہم ریت کو ٹریکٹروں پر لوڈ کرتے ہیں۔ ہم نے ایم بی اے کیا ہے، لیکن مجبوری میں یہ کام کر رہے ہیں۔‘‘ سدھیر کے کزن ۲۵ سالہ بھرت کمار نے بھی ایم بی اے کیا ہے، وہ غصے میں ہیں: ’’ہم نے چندرا بابو نائیڈو کو ووٹ دیا، کیونکہ انہوں نے فی خاندان ایک نوکری کا وعدہ کیا تھا۔ ہمیں نہیں معلوم تھا کہ یہ پیشکش صرف انہیں کے خاندان کے لیے محدود ہے،‘‘ وہ نرا لوکیش کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں۔ نرا لوکیش وزیر اعلیٰ کے بیٹے ہیں، جنہیں ۲۰۱۷ میں ریاستی کابینہ میں وزیر بنایا گیا تھا۔
آندھرا پردیش ہائی کورٹ اور نیشنل گرین ٹریبونل نے مشین سے ریت کی کھدائی روکنے کے لیے کئی فیصلے صادر کیے ہیں، لیکن حکومت نے ان فیصلوں کو نظر انداز کر دیا ہے۔ اپنا نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ایم بی اے کر چکے ایک نوجوان دلت کان مزدور کا کہنا ہے، ’’دراصل، حکمراں تیلگو دیشم پارٹی (ٹی ڈی پی) کے بہت سے لوگ، جن میں مقامی ایم ایل اے، ایم پی اور چند وزراء بھی شامل ہیں، ریت کی کانکنی میں ملوث ہیں۔ وہ ہماری ضروریات کو پورا کیے بغیر اگلے سال ہونے والے انتخابات جیتنے کے لیے [ریت کی کانکنی سے حاصل] پیسے خرچ کریں گے۔‘‘
مارچ ۲۰۱۷ میں اُدَنڈرایونیِپلیم کے تین دلت کنبوں نے ۱۲ لاکھ روپے جمع کیے (اس کا کچھ حصہ بینکوں سے قرض لیا) اور ایک ڈریج مشین خریدی، تاکہ وہ خود ریت کی کانکنی کر سکیں۔ لیکن با رسوخ کمّا ذات کے سرپنچ، جو ٹی ڈی پی کے رکن ہیں، نے انہیں ریت کی کانکنی کرنے کی اجازت نہیں دی، لہٰذا وہ اب بھی ایک کمّا برادری سے تعلق رکھنے والے ٹھیکیدار کے لیے کام کرتے ہیں، جو خود ٹی ڈی پی کا رکن ہے۔ نوجوان دلت کہتے ہیں، ’’اگر ہم ریت کی کانکنی کرتے ہیں تو یہ غیر قانونی ہے۔ لیکن اگر ہم حکمراں پارٹی کے لوگوں کے لیے کام کرتے ہیں، تو وہی کانکنی قانونی ہو جاتی ہے… اور یہ اس لیے جائز ہوجاتی ہے کیونکہ اس سے ہمیں روزی روٹی مل رہی ہے۔‘‘
وقت گزرنے کے ساتھ کرشنا کے کناروں اور اس کے طاس سے ریت کی کانکنی نے ندی کے ماحولیاتی نظام کو کافی نقصان پہنچایا ہے۔ جواہر لال نہرو یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی کے ایمریٹس پروفیسر وکرم سونی، جنہوں نے اس ندی کا گہرائی سے مطالعہ کیا ہے، کہتے ہیں، ’’ریت دریا میں پانی کو روکنے کے لیے بہت مفید ہے۔ ماحولیاتی توازن کو برقرار رکھنے کے لیے دریاؤں میں کافی مقدار میں ریت کا ہونا ضروری ہے۔ [کرشنا میں] ریت کی کل گہرائی دریا کے درمیان ۳۰ میٹر سے لے کر باہر کے علاقوں میں پانچ میٹر تک ہوتی ہے، اور یہ غیر معمولی بات ہے۔ لاکھوں سالوں سے موجود پورے قدرتی دریائی نظام کو سیاست دانوں نے پیسے کی خاطر برباد کر دیا ہے۔‘‘
نہ تو ایم بی اے کر چکے نوجوان اور نہ ہی ریت کی کانکنی کرنے والے مزدوروں کے بچے راجہ، پرساد اور اریمیا، جانتے ہیں کہ وہ کس مقام پر پہنچ گئے ہیں۔ مدن کہتے ہیں، ’’حکومت ہمیں وہ نوکریاں دے جس کا اس نے وعدہ کیا ہے اور دریا کو بچانے کے لیے ریت کی کان کنی پر پابندی لگائے۔
راجہ کہتے ہیں، ’’ہمیں نہیں معلوم کہ ہم کیا کریں گے، اور جب ریت ختم ہو جائے گی تو ہم کیسے زندہ رہیں گے۔‘‘
اس سیریز کی مزید اسٹوریز:
نئی راجدھانی اور تقسیم کا پرانا طریقہ
زمین کی بڑھتی قیمت، گھٹتی پیداوار
راجدھانی کے لیے بڑا شہر، اور معمولی مزدوری پانے والے مہاجر مزدور
مترجم: شفیق عالم