ایک رات میں ہی تائی بائی گھُلے کو تقریباً ایک لاکھ روپے کا نقصان جھیلنا پڑا تھا، ایسا ان کا اندازہ ہے۔
اُس روز اچانک بھاری بارش شروع ہو گئی تھی، تب ۴۲ سالہ تائی بائی اپنے گاؤں سے ۹ کلومیٹر دور بھال وَنی میں تھیں۔ بھیڑ بکریاں چرانے والی تائی بائی بتاتی ہیں، ’’شام ۵ بجے بارش شروع ہوئی تھی اور آدھی رات کے بعد تیز ہو گئی۔‘‘ تازہ تازہ جوتا گیا کھیت کچھ ہی دیر میں کیچڑ سے بھر گیا تھا، اور تقریباً ۲۰۰ مویشیوں پر مبنی ان کا ریوڑ اس میں پھنس گیا تھا۔
تائی بائی سال ۲۰۲۱ کے دسمبر ماہ میں مہاراشٹر کے احمد نگر ضلع میں ہوئی بھاری بارش کو یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں، ’’ہم پوری رات اپنے مویشیوں کے ساتھ کیچڑ میں لت پت بیٹھے تھے، اور پانی میں پھنسے رہ گئے تھے۔‘‘
ڈھولپوری گاؤں کی چرواہا برادری سے تعلق رکھنے والی تائی بائی نے اس قدرتی آفت میں اپنی ۸ بھیڑیں اور ایک بکری گنوا دی تھی۔ وہ کہتی ہیں، ’’ہم نے بھاری بارش پہلے دیکھی تھی، لیکن کبھی اتنا نقصان نہیں جھیلنا پڑا تھا۔ ایسا پہلی بار ہوا تھا۔ ہم بس کسی طرح اپنے مویشیوں کو بچا لینا چاہتے تھے۔‘‘
خاص کر ستارا میں ۲ دسمبر ۲۰۲۱ کو بہت زیادہ بارش ہو گئی تھی۔ ضلع کے زیادہ تر تعلقہ میں تقریباً ۱۰۰ ملی میٹر بارش درج کی گئی تھی۔
ڈھوَلپوری کے ہی رہنے والے ۴۰ سالہ چرواہے گنگا رام ڈھیبے کہتے ہیں، ’’بارش اتنی زیداہ ہو رہی تھی کہ ہم کچھ اور سوچ ہی نہیں پا رہے تھے۔ بعد میں کچھ بھیڑیں مر گئیں، کیوں کہ وہ ٹھنڈ برداشت نہیں کر سکیں۔ ان میں جان ہی نہیں بچی تھی۔‘‘
برسات جب شروع ہوئی تھی، تب وہ بھانڈ گاؤں سے ۱۳ کلومیٹر دور تھے۔ اپنے ۲۰۰ مویشیوں میں سے ۱۳ کو انہوں نے اُس رات کھو دیا۔ ان میں ۷ جوان بھیڑیں، ۵ میمنے اور ایک بکری شامل تھی۔ گنگا رام نے دوائی کی مقامی دکان سے ۵۰۰۰ روپے کی دوائیں اور انجیکشن لے کر بیمار جانوروں کو لگایا، لیکن کچھ بھی کام نہیں آیا۔
تائی بائی اور گنگا رام ڈھیبے دھنگر برادری سے تعلق رکھتے ہیں، جو مہاراشٹر میں خانہ بدوش قبیلہ کے طور پر درج ہیں۔ وہ عام طور سے احمد نگر ضلع اور اس کے آس پاس رہتے ہیں، جہاں بھیڑیں بڑی تعداد میں ہیں۔
گرمیوں میں جب پانی اور چارہ ملنا مشکل ہو جاتا ہے، تب تائی بائی جیسے چرواہے شمالی کونکن کے پالگھر اور تھانے ضلع میں واقع ڈہانو اور بھیونڈی چلے جاتے ہیں۔ وہ تقریباً ۶ مہینے تک سفر میں رہتے ہیں اور مانسون کی آمد کے بعد واپس لوٹ جاتے ہیں، کیوں کہ چھوٹے جانور کونکن علاقے کی بھاری بارش کا سامنا نہیں کر پاتے۔
وہ کہتی ہیں، ’’ہمیں کوئی اندازہ نہیں ہے کہ اتنی بارش کیوں ہوئی۔ میگھ راج وہ ہیں، کیا کہہ سکتے ہیں۔‘‘
اُس واقعہ کو یاد کر کے ان کی آنکھیں نم ہو جاتی ہیں، ’’ہم نے بہت نقصان جھیلا ہے، بہت بڑا۔ اگر ہمیں کوئی اور کام ملے گا، تو ہم اس پیشہ کو چھوڑ دیں گے۔‘‘
تکا رام کوکرے نے ۹۰ مویشیوں کے اپنے ریوڑ میں سے ۹ جوان بھیڑیں اور ۴ میمنے گنوا دیے تھے۔ وہ کہتے ہیں، ’’کافی جھٹکا لگا تھا۔‘‘ ان کے مطابق، ایک بھیڑ خریدنے میں ۱۲۰۰۰ سے ۱۳۰۰۰ روپے خرچ ہو جاتے ہیں۔ تقریباً ۴۰ سال کے دھنگر چرواہے تکا رام بتاتے ہیں، ’’ہم نے ۹ بھیڑیں کھوئی ہیں۔ آپ خود ہی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہمیں کتنا بڑا نقصان پہنچا ہے۔‘‘
کیا پنچ نامہ کیا گیا تھا؟ تکا رام بے سہارا نظر آتے ہیں، ’’ہم لوگ کیسے بناتے؟ ہمارے پاس خود کو بچانے کے لیے کچھ نہیں تھا، اور آس پاس کوئی کسان بھی موجود نہیں تھا۔ بھیڑوں نے ادھر ادھر بھاگنا شروع کر دیا تھا۔ ہم انہیں چھوڑ نہیں سکتے تھے، اور اس واقعہ کی رپورٹ لکھوانے کا وقت ہی نہیں تھا۔‘‘
ان کا اندازہ ہے کہ صرف بھال وَنی میں ہی ۳۰۰ بھیڑوں کی موت ہو گئی تھی۔ ملک میں سب سے زیادہ بھیڑوں کی آبادی کے معاملے میں مہاراشٹر ساتویں مقام پر ہے، اور یہاں ان کی تعداد تقریباً ۲۷ لاکھ ہے۔
ستارا کے مان، کھٹاؤ اور دہیوَڑی میں ہوئے مویشیوں کے نقصان اور سرکار کی اندیکھی پر بولتے ہوئے، پھلٹن قصبہ کے رہنے والے چرواہے اور پہلوان شنبھو راجے شینڈگے پاٹل کہتے ہیں، ’’اگر ایک آدمی سوٹ بوٹ پہن کر سرکاری دفتر جائے، تو افسر اس کا کام ایک گھنٹہ کے اندر نمٹانے کا وعدہ کرتا ہے۔ لیکن میرے ساتھی دھنگر چرواہے جب چرواہوں والی اپنی پوشاک میں اس کے پاس جاتے ہیں، تو وہی افسر دو دن بعد آنے کو بولتا ہے۔‘‘
تائی بائی کہتی ہیں، ’’جو بھیڑیں ماری گئیں، ہم ان کی تصویر تک نہیں کھینچ سکے۔ ہمارے پاس فون ہیں، لیکن وہ چارج نہیں تھے۔ ہم انہیں صرف تبھی چارج کر پاتے ہیں، جب ہم کسی گاؤں یا بستی میں رکے ہوتے ہیں۔‘‘
اِس وقت، تائی بائی نے اپنے جانوروں کے ساتھ ایک میدان میں ڈیرہ ڈالا ہوا ہے۔ میدان کے ایک کونے میں خاص طریقے سے گانٹھ لگا کر اور عارضی طور پر رسیاں باندھ کر گھیرا بندی کی گئی ہے۔ وہ پیچھے چھوٹ گئی ٹولی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتی ہیں، ’’ہمیں اپنے مویشیوں کو چرانے کے لیے بہت دور تک پیدل چلنا پڑتا ہے۔‘‘
گنگا رام، بھیڑوں کے چارے کی تلاش میں پیدل ہی پونہ ضلع کے ڈھولپوری سے دیہو جاتے ہیں۔ انہیں دیہو کے میدانوں تک پہنچنے میں ۱۵ دن لگتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’اگر ہم چارے کے لیے لوگوں کے کھیتوں میں گھُس جائیں، تو ہمیں پیٹا جاتا ہے۔ ہمارے پاس مار کھانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوتا۔‘‘ یہ بتاتے ہوئے کہ مقامی غنڈے بھی انہیں پریشان کرتے ہیں، وہ مزید کہتے ہیں، ’’صرف کسان ہی ہماری مدد کرتے ہیں۔‘‘
مویشیوں کی معالج، ڈاکٹر نتیہ گھوٹگے کا کہنا ہے، ’’عموماً چرواہا برادری کے لوگ اندر سے کافی مضبوط ہوتے ہیں، اور ان میں مشکلوں کو برداشت کرنے کی طاقت ہوتی ہے۔ لیکن ۱ اور ۲ دسمبر کی غیر متوقع بارش نے انہیں توڑ کر رکھ دیا، کیوں کہ اُس دوران بہت سی بھیڑوں کی موت ہو گئی تھی۔‘‘
وہ کہتی ہیں کہ چرواہوں کو اپنی اور اپنی فیملی کی حفاظت کے لیے کئی قسم کی مشکلوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ چرواہوں اور کسانوں کے ساتھ مل کر کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم (این جی او) ’انترا‘ کی ڈائریکٹر ڈاکٹر گھوٹگے بتاتی ہیں، ’’چھوٹے بچے، غذائی اشیاء کے ساتھ ساتھ بقیہ سارا سامان، ایندھن کی لکڑی، موبائل فون، ان کے جانور، خاص طور پر کمزور و چھوٹے مویشی – سب خطرے میں آ گئے تھے۔‘‘
چرواہوں کو پنچ نامہ کرانے میں کافی مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ، قدرتی آفات، بیماریوں، ٹیکہ وغیرہ کے بارے میں اطلاعات، اور وقتاً فوقتاً مویشیوں کے ڈاکٹر کی ضرورت پڑتی ہے۔ گھوٹگے کہتی ہیں، ’’یہ امید کی جاتی ہے کہ سرکار مویشیوں سے متعلق اسکیمیں اور ماحولیاتی تبدیلی کے بارے میں پالیسیاں بناتے وقت ان باتوں کا دھیان رکھے گی۔‘‘
تکا رام مشورہ دیتے ہیں کہ ڈھولپوری میں مل جل کر ایک مشترکہ چھپر بنایا جانا چاہیے، جس سے ان کے جیسے چرواہوں کے مویشیوں کی حفاظت کرنے میں مدد ملے گی۔ کافی تجربہ کار چرواہے تکارام کا کہنا ہے، ’’اسے اس طرح بنانا چاہیے کہ بھیڑوں گیلی نہ ہوں اور محفوظ رہیں۔ اس طرح انہیں اس کے اندر سردی نہیں لگے گی۔‘‘
جب تک ایسا کوئی انتظام نہیں ہو جاتا، تب تک تائی بائی، گنگا رام اور تکا رام اپنے ریوڑ کے ساتھ چارہ پانی اور پناہ گاہ کی تلاش میں بھٹکتے رہیں گے۔ ان کا ماننا بھی ہے کہ سرکار یا بارش سے کسی طرح کی کوئی مدد یا راحت پانے کا انتظار نہ کرنے اور آگے بڑھتے رہنے میں ہی سمجھداری ہے۔
مترجم: محمد قمر تبریز