گزشتہ ۱۶ جون، ۲۰۲۲ کی رات کو آسام کے ’نگاؤں‘ گاؤں کے دوسرے لوگوں کی طرح لَو داس بھی ننوئی ندی کے کنارے ریت سے بھرے بورے جمع کر رہے تھے۔ تقریباً ۴۸ گھنٹے قبل انہیں بتایا گیا تھا کہ برہم پتر کی معاون ندی اپنے کناروں کو توڑ دے گی۔ ضلع انتظامیہ کے ذریعے دَرَنگ ضلع کے ان گاؤوں کو ریت کی بوریاں مہیا کرائی گئی تھیں، جو ندی کے کنارے جمع کرکے رکھے گئے تھے۔
سیپا جھار بلاک میں واقع نگاؤں کی ہیرا صبوری بستی کے رہنے والے لَو کہتے ہیں، ’’کنارے پر بنا بند آدھی رات کو ۱ بجے [۱۷ جون] کے قریب ٹوٹ گیا۔ بند الگ الگ جگہوں سے ٹوٹ رہا تھا، اس لیے ہم لاچار تھے۔‘‘ تب گزشتہ پانچ دنوں سے لگاتار بارش ہو رہی تھی، لیکن ریاست میں مہینہ کی شروعات سے ہی جنوب مغربی مانسون کا اثر دکھائی دینے لگا تھا۔ ہندوستانی محکمہ موسمیات نے ۱۸-۱۶ جون کے دوران آسام اور میگھالیہ میں ’بہت زیادہ بارش‘ (ایک دن میں ۵ء۲۴۴ ملی میٹر سے زیادہ یا اس کے برابر) کی وارننگ جاری کرتے ہوئے ریڈ الرٹ جاری کیا تھا۔
۱۶ جون کی رات تقریباً ساڑھے ۱۰ بجے، نگاؤں سے ایک کلومیٹر جنوب میں خاص دیپیلا بستی کے کلیتا پاڑہ گاؤں میں بھی ننوئی ندی زبردست بہاؤ کے ساتھ بہنے لگی۔ جے متی کلیتا اور ان کی فیملی نے سیلاب میں اپنا سب کچھ گنوا دیا۔ ترپال اور ٹن کی چھت والے اس عارضی شیلٹر (جھونپڑی) کے باہر بیٹھی جے متی کہتی ہیں، ’’ہمارا ایک چمچہ بھی نہیں بچا۔ پانی کے تیز بہاؤ میں اناجوں کے گودام اور گئوشالہ کے ساتھ ہمارا گھر بہہ گیا۔‘‘
آسام اسٹیٹ ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کی سیلاب کی رپورٹ کے مطابق، ۱۶ جون کو ریاست کے ۲۸ ضلعوں کے تقریباً ۱۹ لاکھ لوگ بارش سے متاثر ہوئے۔ اُس رات ریاست کے تین سب سے بری طرح متاثرہ ضلعوں میں سے ایک درنگ بھی تھا، جہاں تقریباً ۳ لاکھ لوگوں کو سیلاب کا اثر جھیلنا پڑا۔ رات کے وقت جب ننوئی کے پانی نے کناروں کو پار کر دیا، اس وقت ریاست کی چھ دیگر ندیاں – بیکی، مانس، پاگلادیا، پُٹھی ماری، جیا بھرلی، اور برہم پتر – خطرے کے نشان سے اوپر بہہ رہی تھیں۔ اس کے تقریباً ایک ہفتہ بعد تک بھاری بارش پوری ریاست میں تباہی مچاتی رہی۔
ٹنکیشور ڈیکا کہتے ہیں، ’’ہم نے ۲۰۰۲، ۲۰۰۴ اور ۲۰۱۴ میں بھی سیلاب کا سامنا کیا تھا، لیکن اس بار کا سیلاب زیادہ خطرناک تھا۔‘‘ ٹنکیشور ڈیکا، نگاؤں سے گھٹنے بھر پانی میں دو کلومیٹر پیدل چل کر بھیرو آدل گاؤں کے پاس ہاتی مارہ میں واقع نزدیکی پبلک ہیلتھ سنٹر تک پہنچ پائے تھے۔ ایک پالتو بلی نے انہیں کاٹ لیا تھا، جس کے بعد وہ ۱۸ جون کو ریبیز کا ٹیکہ لینے وہاں گئے تھے۔
ٹنکیشور بتاتے ہیں، ’’بلی بھوک سے بے حال تھی۔ شاید وہ بھوکی تھی یا بارش کے پانی سے ڈری ہوئی تھی۔ اس کا مالک اسے دو دن سے کھانا نہیں کھلا پایا تھا۔ چاروں طرف پانی بھرا ہونے کی وجہ سے، ان کے لیے اسے کھانا دے پانا ممکن بھی نہیں تھا۔ باورچی خانہ، گھر، اور پورا گاؤں پانی میں ڈوبا ہوا تھا۔‘‘ ہم جب ۲۳ جون کو ان سے ملے تھے، تب تک ٹنکیشور پانچ میں سے دو ٹیکے لگوا چکے تھے۔ تب سے، سیلاب کا پانی کم ہوا ہے اور نچلے علاقے میں واقع منگل دوئی میں بھرا ہوا ہے۔
ٹنکیشور بتاتے ہیں کہ درخت کی بہت زیادہ بڑی جڑوں، سفید چینٹیوں، اور چوہوں نے کنارے بنے بند کو کھوکھلا کر دیا تھا۔ وہ کہتے ہیں، ’’ایک دہائی سے اس کی مرمت نہیں ہوئی تھی۔ دھان کے کھیت ۳-۲ فٹ کیچڑ میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ یہاں کے لوگ معاش کے لیے بنیادی طور پر کھیتی اور دہاڑی مزدوری پر منحصر رہتے ہیں۔ وہ اپنی فیملی کا پیٹ کیسے بھر پائیں گے؟‘‘
لکشیہ پتی داس بھی اسی حالت کا سامنا کر رہے ہیں۔ ان کی تین بیگھہ زمین (تقریباً ایک ایکڑ) کیچڑ میں ڈوبی ہوئی ہے۔ وہ فکرمند ہو کر کہتے ہیں، ’’دو کٹھے [پانچ کٹھا ایک بیگھہ کے برابر ہوتا ہے] میں بوئے دھان کے پودے اب کیچڑ میں لتھڑے ہوئے ہیں۔ میں پھر سے بوائی نہیں کر سکتا۔‘‘
لکشیہ پتی کی بیٹی اور بیٹا نگاؤں سے ۱۵ کلومیٹر دور واقع سیپا جھار کالج میں پڑھتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں، ’’انہیں کالج جانے کے لیے روزانہ ۲۰۰ روپے خرچ کرنے پڑتے ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ اب ہم اس پیسے کا انتظام کیسے کریں گے۔ [سیلاب کا] پانی تو چلا گیا، لیکن اگر پھر سے واپس آ گیا، تو کیا ہوگا؟ ہم ڈرے ہوئے اور بہت فکرمند ہیں۔‘‘ حالانکہ، انہیں امید ہے کہ جلد ہی بند کی مرمت کر دی جائے گی۔
ہیرا صبوری میں سمترا داس کہتی ہیں، ’’سفید کدو کی بیلیں مر گئی ہیں اور پپیتے کے پیڑ اکھڑ گئے ہیں۔ ہم نے گاؤں کے لوگوں کو کدو اور پپیتے بانٹے۔‘‘ ان کی فیملی کا مچھلی کا تالاب بھی نیچے دھنس گیا ہے۔ سمترا کے شوہر للت چندر سیلاب کے پانی میں سڑ گئے آلو اور پیاز کو الگ کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’’میں نے تالاب میں ۲۵۰۰ روپے کے مچھلیوں کے بچے ڈلوائے تھے۔ تالاب کے پانی کی سطح اب زمین کے برابر آ گئی ہے۔ ساری بڑی مچھلیاں بھاگ گئی ہیں۔‘‘
سمترا اور للت چندر ’بندھک‘ سسٹم کے تحت کھیتی کرتے ہیں، جس میں پیداوار کا ایک چوتھائی حصہ زمین کے مالک کو بطور کرایہ ادا کیا جاتا ہے۔ وہ خود کے استعمال کے لیے فصل اگاتے ہیں اور للت کبھی کبھی آس پاس کے کھیتوں میں دہاڑی مزدوری کا کام بھی کرتے ہیں۔ سمترا کہتی ہیں، ’’کھیتوں کو پھر سے کھیتی کے لیے تیار ہونے میں ایک دہائی کا وقت لگے گا۔‘‘ وہ بتاتی ہیں کہ سیلاب آنے کے بعد سے ہماری آٹھ بکریوں اور ۲۶ بطخوں کے لیے چارے کا انتظام کرنا بھی بہت مشکل ہو گیا ہے۔
اس فیملی کو گھر چلانے کے لیے اب پوری طرح سے بیٹے لَو کُش داس کی آمدنی پر منحصر رہنا ہوگا، جو نگاؤں سے ۸-۷ کلومیٹر کی دوری پر واقع نام کھولا اور لوتھا پاڑہ کے بازار میں روزمرہ کے ضروری سامان اور پیاز اور آلو جیسی سبزیاں بیچتے ہیں۔
حالانکہ، ان سب نقصان اور بحران کے درمیان، ۲۷ جون کو سمترا اور للت کو یہ خوشخبری ملی کہ ان کی بیٹی انکیتا نے ۱۲ویں کلاس کا امتحان فرسٹ ڈویژن سے پاس کر لیا ہے۔ انکیتا آگے پڑھنا چاہتی ہے، لیکن فیملی کی مالی حالت کو دیکھتے ہوئے ان کی ماں اس بات کو لے نا امیدی سے بھری نظر آتی ہیں۔
انکیتا کی طرح، ۱۸ سال کی جوبلی ڈیکا بھی آگے کی پڑھائی کرنا چاہتی ہے۔ نگاؤں میں اپنے گھر سے تقریباً تین کلومیٹر دور واقع دیپیلا چوک کے این آر ڈی ایس جونیئر کالج کی اس طالبہ نے بارہویں کا امتحان ۷۵ فیصد نمبروں کے ساتھ پاس کیا ہے۔ اپنے آس پاس تباہی کے اس منظر کو دیکھتے ہوئے، وہ اپنے مستقبل کے بارے میں غیر یقینی صورتحال سے گھری ہوئی ہے۔
نگاؤں میں سیلاب سے تباہ ہوئے اپنے گھر کی کھڑکی سے ہم سے بات کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں، ’’مجھے شیلٹر میں رہنا اچھا نہیں لگتا، اس لیے میں آج واپس آ گئی۔‘‘ ان کی چار رکنی فیملی کے بقیہ لوگ ضلع انتظامیہ کے ذریعے لگائے گئے ایک راحت کیمپ میں ہیں۔ جوبلی کہتی ہے، ’’اس رات ہم یہ طے ہی نہیں کر پائے کہ کہاں جانا ہے، کیا ساتھ لینا ہے۔‘‘ جوبلی کے گھر میں جب سیلاب کا پانی داخل ہونے لگا، تو وہ اپنے کالج کا بیگ ساتھ لینا نہیں بھولی تھی۔
دیپانکر داس (۲۳ سال) بارش کے دوران تقریباً ۱۰ دنوں تک نگاؤں میں واقع اپنی چائے کی دکان نہیں کھول سکے تھے۔ وہ عام طور پر ایک دن میں ۳۰۰ روپے کما لیتے تھے، لیکن سیلاب کے بعد سے ان کے کاروبار میں تیزی نہیں آئی ہے۔ جب ہم ۲۳ جون کو ان سے ملنے گئے تھے، تو ان کی دکان میں ایک ہی گاہک موجود تھا، جو ایک کپ بھیکی ہوئی مونگ کی پھلیوں اور ایک سگریٹ لینے کے لیے وہاں آیا تھا۔
دیپانکر کی فیملی کے پاس کوئی زمین نہیں ہے۔ وہ گزارہ کے لیے دیپانکر کی اسٹال سے ہونے والی کمائی اور اور ان کے ۴۹ سالہ والد ست رام داس کو کبھی کبھی ملنے والی دہاڑی مزدوری کے کام سے ہونے والی آمدنی پر منحصر رہتے ہیں۔ دیپانکر کہتے ہیں، ’’ہمارا گھر اب بھی رہنے لائق نہیں ہوا ہے، کیوں کہ وہ گھٹنے تک کیچڑ میں ڈوبا ہوا ہے۔‘‘ وہ بتاتے ہیں کہ اس نیم پختہ مکان کو اچھی خاصی مرمت کی ضرورت ہے، جس میں ان کی فیملی کو ایک لاکھ روپے سے زیادہ خرچ آئے گا۔
دیپانکر کہتے ہیں، ’’اگر حکومت نے سیلاب سے پہلے ضروری قدم اٹھائے ہوتے، تو اس آفت کو ٹالا جا سکتا تھا۔‘‘ دیپانکر کووڈ لاک ڈاؤن کے دوران گوہاٹی سے نگاؤں واپس چلے آئے تھے، جہاں وہ ایک مشہور بیکری چین کے لیے کام کرتے تھے۔ ’’وہ [ضلع انتظامیہ] تب کیوں آئے، جب کنارے کا بند ٹوٹنے والا تھا؟ انہیں بارش کا موسم شروع ہونے سے پہلے آنا چاہیے تھا۔‘‘
آسام اسٹیٹ ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے مطابق، ۱۶ جون کی بارش سے ۲۸ ضلعے کے تقریباً ۱۹ لاکھ لوگ متاثر ہوئے تھے
دریں اثنا، پبلک ہیلتھ انجینئرنگ ڈپارٹمنٹ کے ایک خلاصی ملازم دلیپ کمار ڈیکا ہمیں ایک فہرست دکھاتے ہوئے بتاتے ہیں کہ محکمہ نے اب گاؤں میں کہاں کہاں ٹیوب ویل لگانے کا فیصلہ لیا ہے۔ سیلاب کے بچاؤ کے طریقے کے طور پر، اونچی جگہوں پر لگائے گئے ٹیوب ویل سے سیلاب کے دوران لوگ پینے کا پانی آسانی سے حاصل کر سکتے ہیں۔
یہ پوچھے جانے پر کہ سیلاب کے بعد محکمہ نے کارروائی کرنے میں دیر کیوں کی، انہوں نے کہا، ’’ہم صرف اوپر سے ملنے والے آرڈر کی تعمیل کرتے ہیں۔‘‘ درنگ ضلع کے بیاس پاڑہ گاؤں میں واقع دلیپ کا گھر بھی سیلاب کے پانی میں ڈوب گیا تھا۔ جون کی ۲۲ تاریخ تک، ضلع میں مہینہ کی شروعات کے مقابلے معمول سے ۷۹ فیصد زیادہ بارش ہوئی تھی۔
جے متی کہتی ہیں، ’’کل [۲۲ جون] انتظامیہ نے پانی کے پیکٹ بانٹے تھے، لیکن آج ہمارے پاس پینے کے پانی کی ایک بوند بھی نہیں ہے۔‘‘ جے متی کے شوہر اور بڑے بیٹے کو کتے نے کاٹ لیا تھا اور وہ دونوں ریبیز کا ٹیکہ لگوانے گئے تھے۔
نگاؤں سے نکلتے وقت، للت چندر اور سمترا ہمیں وداع کرنے کے لیے سیلاب سے تباہ ہوئے اپنے گھر سے باہر تک آئے۔ للت چندر نے کہا: ’’لوگ آتے ہیں، ہمیں راحت اشیاء کے پیکٹ دیتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔ کوئی ہمارے ساتھ بیٹھ کر بات نہیں کرتا۔‘‘
مترجم: محمد قمر تبریز