۱۲ مارچ، ۲۰۱۸ کو، ۴۰ ہزار سے زیادہ کسان ممبئی شہر آئے، ودھان بھون کو گھیرنے کے ارادے سے اور یہ یقینی بنانے کے لیے کہ حکومت ان کے مطالبات کو پورا کرے گی، جو نفع بخش قیمتوں اور کسانوں کی قرض معافی سے لے کر، فاریسٹ رائٹس ایکٹ اور کسانوں کے لیے بنائے گئے قومی کمیشن (سوامی ناتھن کمیشن) کی سفارشوں کو نافذ کرنے تک پھیلے ہوئے ہیں۔
ریاست کی بے حسی اور ان کے مسائل کو لے کر کی جانے والی لگاتار اندیکھی سے پریشان اور ناراض کسانوں نے، اکھل بھارتیہ کسان سبھا کے ذریعے منعقد کیے گئے طویل مارچ میں حصہ لیا۔ وہ چھ دنوں تک پیدل چلتے رہے، جس کے دوران انھوں نے تقریباً ۱۸۰ کلومیٹر کی دوری طے کی، ناسک کے سی بی ایس چوک سے جنوبی ممبئی کے آزاد میدان تک۔
ہزاروں کسان پورے صبرو و تحمل کے ساتھ بیٹھے ہوئے اپنے لیڈروں کی تقریریں سنتے رہے – جب کہ ایک چھوٹے وفد نے وزیر اعلیٰ سے ملاقات کی – اس امید میں کہ ان کے مطالبات پر غور کیا جائے گا اور اتنی لمبی دوری طے کرنے کی محنت رنگ لائے گی۔
ان واقعات سے متاثر ہو کر، پاری کی جیوتی شِنولی نے ہندوستانی کسان کے بارے میں ایک نظم لکھی کہ اس کا کیا کہنا ہے۔ یہاں پر دیے گئے ویڈیو میں، جسے پاری ٹیم نے ہی تیار کیا ہے، مارچ کے پہلے اور آخری دن کی فوٹیج ہے، نظم کی آڈیو کے ساتھ ’میں ایک کسان ہوں، میں اس لمبے سفر پر چل رہا ہوں‘۔
میں ایک کسان ہوں، میں اس لمبے سفر پر چل رہا ہوں
میں ایک کسان ہوں، یہ میری جدوجہد ہے
میں پورے ہندوستان کو کھلاتا ہوں، پھر بھی میں غربت میں جی رہا ہوں
قحط، قرض، فصل کی قیمت، میں کتنی تکلیفوں کو شمار کروں
میں اس لمبے سفر پر چل رہا ہوں تاکہ میری آواز سنی جائے
میری پوری زندگی کھیتی کرنے میں گزر گئی
میرے خون اور پسینے اس مٹی میں مل گئے
میری آواز سنو، میں اس لمبے سفر پر چل رہا ہوں
میں نے نہ تو چلچلاتی دھوپ کی پرواہ کی اور نہ ہی ہواؤں کی
میں نے رات اور دن محنت کی، لیکن نتیجہ میں مجھے کچھ نہیں ملا
اس طرح میں خالی ہاتھ اس لمبے سفر پر چل رہا ہوں
اب تو میں رو بھی نہیں سکتا، میرے آنسو خشک ہو چکے ہیں
مجھے یہ سب کیوں سہنا پڑ رہا ہے، اس لیے کہ میں کسان ہوں؟
میں یہ زندگی دوبارہ نہیں چاہتا، اسی لیے میں اس لمبے سفر پر چل رہا ہوں
میرا مطالبہ کیا ہے، میرے جینے کا حق
کیا تم میں سے کوئی میری یہ زندگی جیے گا؟
اپنی آواز کو پہنچانے کے لیے، میں اس لمبے سفر پر چل رہا ہوں
اس سے پہلے کہ میری زندگی ختم ہو جائے، تھوڑی دیر کے لیے میری آواز سنو
ورنہ میرا یہ ہندوستان بھوک سے مر جائے گا
اسی لیے میں اس لمبے سفر پر چل رہا ہوں
پاری ٹیم: جیوتی شنولی، سمیکتا شاستری، سدھارتھ اڈیلکر اور سنچتا ماجی
(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)