آج ۲۶ فروری ہے، شَیلا کا ۱۸واں یومِ پیدائش۔ انھوں نے آج ایک نئی پوشاک پہنی ہے، بالوں میں چنبیلی کے پھول ہیں۔ ماں نے ان کی پسندیدہ چکن بریانی پکائی ہے۔ کالج میں شَیلا نے اپنے دوستوں کو ایک چھوٹی سی دعوت بھی دی ہے۔
شَیلا چنّئی کے ایک مشہور پرائیویٹ نرسنگ کالج، شری ساستھا کالج آف نرسنگ میں پڑھتی ہیں۔ انگریزی میڈیم کے اس کالج میں داخلہ پانا ایک جدوجہد تھی۔ قبولیت حاصل کرنا اور بھی مشکل تھا۔
جس دن دیگر طالب علموں کو یہ پتہ چلا کہ ان کے والد، آئی کنّن کی موت سیپٹک ٹینک کی صفائی کرتے وقت ہوئی تھی، ان کا اگلا سوال ان کی ذات کو لے کر تھا۔
’’اچانک،‘‘ شَیلا کہتی ہیں، ’’مجھے ہمارے درمیان ایک اندیکھی دیوار محسوس ہوئی۔‘‘
وہ اور ان کی ماں اُس اندیکھی دیوار کو ۲۷ ستمبر، ۲۰۱۷ سے ہی کھٹکھٹا رہی ہیں، جب کنّن کی موت دو دیگر ساتھیوں کے ساتھ ہوئی تھی۔ وہ آدی دراوڑ مڈیگا کمیونٹی کے ایک راج مستری اور قلی تھے۔ یہ ایک درج فہرست ذات ہے، جو عام طور سے ہاتھ سے میلا ڈھونے کا کام کرتی ہے۔ لوگوں کے ذریعہ بلائے جانے پر وہ سیپٹک ٹینک اور سیور صاف کرنے جاتے تھے۔
’’یہ ایک لمبی لڑائی رہی ہے،‘‘ شَیلا کہتی ہیں۔ ’’میں انگریزی زبان میں مہارت حاصل کرنے کے لیے کڑی محنت کر رہی ہوں۔ میرے والد چاہتے تھے کہ میں ایک ڈاکٹر بنوں، لیکن ان کے بغیر، یہ ایک مشکل خواب تھا۔ میں نے اس کے بجائے ایک نرسنگ کالج میں داخلہ لے لیا۔ ہمارے علاقے سے کسی نے بھی یہ کورس نہیں کیا ہے۔ اگر میں ایک نرس کے طور پر کامیاب ہوتی ہوں، تو یہ میرے والد کی یاد میں ہوگا۔ میں ذات میں یقین نہیں کرتی اور ذات یا مذہب کی بنیاد پر کوئی تفریق نہیں ہونی چاہیے۔ ایک بات جو میں پوری دنیا کو بتانا چاہتی ہوں، وہ یہ ہے کہ کسی کو بھی میرے والد کی طرح نہیں مرنا چاہیے۔
’’دھیرے دھیرے،‘‘ شَیلا آگے کہتی ہیں، ’’میں اپنے کالج کے دوستوں کے ساتھ برابر کی سطح پر بات چیت کرنے میں کامیاب ہوئی۔ اب ان میں سے کچھ میری پڑھائی میں مدد بھی کرتے ہیں۔ میں نے تمل میڈیم سے پڑھائی کی ہے، اس لیے میری انگریزی کمزور ہے۔ ہر کوئی مجھ سے انگریزی کی کوچنگ کلاس کرنے کو کہتا ہے، لیکن ہم اس کی فیس نہیں دے سکتے، اس لیے میں اپنے دَم پر سیکھنے کی کوشش کر رہی ہوں۔ ناکام ہونا میرے لیے کوئی متبادل نہیں ہے۔‘‘
شَیلا کو فخر ہے کہ انھوں نے ۱۲ویں کلاس میں اچھا مظاہرہ کیا اور آس پاس کے علاقے میں ایک ریکارڈ بنایا ہے۔ میڈیا نے ان کی کامیابی کی کہانی بیان کی، جس سے انھیں نرسنگ کی تعلیم کے لیے مالی تعاون حاصل کرنے میں مدد ملی۔
پوری کہانی دھیرے دھیرے سامنے آتی ہے۔ ان کی ماں، ۴۰ سالہ کے ناگمّا حیران ہیں، کیوں کہ شَیلا ایک شرمیلی لڑکی ہے۔ یہ پہلی بار ہے جب وہ اپنی بیٹی کو اتنا کھل کر بولتے ہوئے دیکھ رہی ہیں۔
ناگمّا یہ یقینی بنانے کی پوری کوشش کر رہی ہیں کہ ان کی بیٹیاں ایک بہتر مستقبل کا خواب دیکھ سکیں۔ ان کی چھوٹی بیٹی، ۱۰ سالہ کے آنندی، ۱۰ویں کلاس میں ہے۔
جس دن ناگمّا نے اپنے شوہر کی موت کے بارے میں سنا، وہ صدمے میں چلی گئیں۔ ان کے والدین نے ان کی دیکھ بھال کی۔ شَیلا اس وقت آٹھ سال کی تھیں اور آنندی صرف چھ سال کی، دونوں ابھی تک اسکول نہیں گئی تھیں۔
’’مجھے یاد نہیں کہ میں اپنے شوہر کی لاش کے ساتھ آندھرا پردیش کے پرکاسم ضلع میں اپنے گاؤں، پامورو کیسے گئی تھی یا آخری رسومات کیسے ادا کی گئیں۔ میرے سسر مجھے اسپتال لے کر گئے تھے، جہاں مجھے بجلی کے جھٹکے دیے گئے اور دیگر علاج کیا گیا، تب جاکر میں ہوش میں آئی۔ مجھے یہ تسلیم کرنے میں دو سال سے زیادہ وقت لگا کہ میرے شوہر واقعی میں مر چکے ہیں۔‘‘
اس واقعہ کو ۱۰ سال گزر چکے ہیں، لیکن ناگمّا ان کی موت کو یاد کرکے اب بھی بے سُدھ ہو جاتی ہیں۔ ’’تب میرے رشتہ داروں نے کہا تھا کہ مجھے اپنی بیٹیوں کے لیے جینا ہے، اس کے بعد ہی میں نے اپنی جدوجہد شروع کر دی۔ مجھے پاس کی ایک فیکٹری میں ہاؤس کیپنگ کی نوکری مل گئی، لیکن مجھے اس کام سے نفرت تھی۔ میرے والدین بھی صفائی ملازم تھے – میرے والد سیپٹک ٹینک/نالے کی صفائی اور کچرا اکٹھا کرتے تھے اور میری ماں جھاڑو لگاتی تھیں۔‘‘
تمل ناڈو میں زیادہ تر صفائی ملازم آندھرا پردیش کے ہیں؛ وہ تیلگو بولتے ہیں۔ تمل ناڈو کے کئی حصوں میں، صفائی ملازم طبقہ کے لیے خصوصی تیلگو میڈیم اسکول ہیں۔
ناگمّا اور ان کے شوہر آبائی طور پر پامورو گاؤں کے تھے۔ ’’میری شادی ۱۹۹۵ میں ہوئی تھی، جب میں ۱۸ سال کی تھی،‘‘ ناگمّا کہتی ہیں۔ ’’میرے والدین میری پیدائش سے پہلے ہی چنّئی آ گئے تھے۔ ہم اپنی شادی کےے لیے گاؤں چلے گئے اور چنئی لوٹنے سے پہلے کچھ سال وہیں رہے۔ میرے شوہر تعمیراتی مقام پر راج مستری کا کام کرنے لگے۔ جب بھی کوئی سیپٹک ٹینک صاف کرنے کے لیے بلاتا، وہ چلے جاتے۔ جب مجھے پتہ چلا کہ وہ سیور میں کام کرتے ہیں، تو میں نے اس کی پرزور مخالفت کی۔ اس کے بعد، وہ جب بھی اس کام کے لیے جاتے مجھے اس کے بارے میں بتاتے نہیں تھے۔ جب وہ اور دو دیگر، ۲۰۰۷ میں سیپٹک ٹینک کے اندر مرے، تو کوئی گرفتاری نہیں ہوئی؛ ان کے قتل کے لیے کسی کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا گیا۔ دیکھئے، ملک ہمارے ساتھ کیسا برتاؤ کرتا ہے؛ ہماری زندگی کوئی معنی نہیں رکھتی۔ ہماری مدد کے لیے کوئی سامنے نہیں آیا – کوئی سرکار نہیں، کوئی افسر نہیں۔ آخرکار، صفائی کرمچاری آندولن (ایس کے اے) نے مجھے سکھایا کہ اپنے حقوق کے لیے کیسے لڑنا ہے۔ میں ۲۰۱۳ میں آندولن کے رابطہ میں آئی۔‘‘
اپنے حقوق کے بارے میں معلوم ہو جانے کے بعد، ناگمّا پر اعتماد اور کھل کر بولنے لگیں۔ وہ دیگر خواتین سے ملیں، جنہوں نے اپنے شوہر یا رشتہ داروں کو سیور یا سیپٹک ٹینک میں کھو دیا ہے۔ ’’جب مجھے پتہ چلا کہ گٹر میں اپنا شریک حیات کھونے والی میں اکیلی نہیں ہوں، بلکہ ایسی سیکڑوں خواتین ہیں جن کا غم میرے جیسا ہی ہے، تو میں نے اپنے غم کو اپنی طاقت میں بدلنا شروع کر دیا۔‘‘
اُس طاقت نے ناگمّا کو ہاؤس کیپنگ کی نوکری چھوڑنے کے قابل بنایا۔ انھوں نے ۲۰ ہزار روپے کا قرض لیا اور اپنے والد اور کل ہند تنظیم، ایس کے اے کی مدد سے اندرا نگر میں اپنے گھر کے سامنے روزمرہ استعمال کی اشیاء کی ایک دکان کھولی۔
شوہر کی موت کے بعد معاوضہ حاصل کرنے کی ان کی لڑائی ۲۱ویں صدی کے اس ہندوستان میں ان کے لیے ذات کا عذاب لے کر آئی۔ میونسپل کارپوریشن نے آخرکار، نومبر ۲۰۱۶ میں انھیں ۱۰ لاکھ روپے کا معاوضہ دیا، جو ۲۰۱۴ کے سپریم کورٹ کے فیصلہ کے بعد، سیور کی صفائی کے دوران سبھی مرنے والوں کو دینا لازمی ہے۔ ناگمّا نے قرض کا پیسہ لوٹا دیا، اپنی دکان میں کچھ اور پیسے لگائے، اور اپنی بیٹیوں کے نام پر بینک میں فکسڈ ڈپوزٹ کروا دیا۔
’’میری ماں ایک بے خوف خاتون ہیں،‘‘ آنندی فخر سے کہتی ہیں۔ ’’وہ بھلے ہی ناخواندہ ہیں، لیکن کسی بھی افسر سے پورے اعتماد سے بات کرتی ہیں، چاہے وہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو۔ انھوں نے اپنی درخواست ہر جگہ جمع کی۔ افسر جب اپنے دفتر میں داخل ہوتے تھے، تو انہیں وہاں دیکھ کر محتاط ہو جاتے تھے، کیوں کہ انھیں معلوم تھا کہ یہ گھنٹوں انتظار کریں گی اور اپنے حقوق کو لے کر دیرتک بحث کریں گی۔‘‘
’’میرے شوہر کی موت ۲۰۰۷ میں ہوئی تھی، اور اتنے جدوجہد اور ایک تنظیم کی مدد سے مجھے ۲۰۱۶ کے اخیر میں جا کر معاوضہ ملا،‘‘ ناگمّا بتاتی ہیں۔ ’’سپریم کورٹ کے ۲۰۱۴ کے فیصلہ کے مطابق، مجھے اسی سال معاوضہ ملنا چاہیے تھا۔ لیکن انصاف دینے کا کوئی انتظام نہیں ہے۔ کسی کو فرق نہیں پڑتا۔ نظام نے مجھے مہتر بننے پر مجبور کیا۔ کیوں؟ میں نے اسے قبول کرنے سے منع کر دیا۔ میں اپنے اور اپنی بیٹیوں کے لیے ذات سے آزاد زندگی کی لڑائی لڑ رہی ہوں۔ آپ کس کے حق میں ہیں؟‘‘
(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)