شام راؤ اور اَنجَمّا کھتالے بہت بیمار ہیں۔ لیکن انہوں نے علاج کی کوشش چھوڑ دی ہے۔ ’’ڈاکٹر؟ علاج؟ یہ سب بہت مہنگے ہیں،‘‘ شام راؤ کہتے ہیں۔ وردھا کے آشٹی گاؤں کے اس جوڑے کے اس فیصلے میں لاکھوں دوسرے لوگ بھی شریک ہیں۔ اب ۲۱ فیصد ہندوستانی اپنی بیماریوں کا کوئی طبی علاج نہیں چاہتے ہیں۔ (یہ اعداد و شمار ایک دہائی پہلے کے مقابلے میں ۱۱ فیصد زیادہ ہیں۔) وہ اس کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ ’’اور، اگر ہم ڈاکٹر کے پاس گئے بھی تو دوائیں کیسے خریدیں گے؟‘‘ شام راؤ پوچھتے ہیں۔
ان کے بیٹے پربھاکر کھتالے نے گزشتہ جولائی میں خودکشی کر لی تھی۔ زراعت کے شعبے میں جاری بحران کی وجہ سے وہ بھی بہت سے دوسرے لوگوں کی طرح تباہ ہو گئے تھے۔ ’’اس نے اپنے قرضوں کی وجہ سے خودکشی کر لی،‘‘ شام راؤ کہتے ہیں۔ دوسرا بیٹا، جو اس سانحے کے بعد شدید ذہنی دباؤ میں ہے، اپنے بوڑھے والدین کی دیکھ بھال کرنے کی حالت میں نہیں ہے۔ ایسا نہیں لگتا کہ وہ بھی کہیں زیر علاج ہے۔
یہاں تیزی سے ترقی کی منزلیں طے کرتا بے لگام پرائیویٹ میڈیکل سیکٹر ’تندرستی ہزار نعمت ہے‘ کے کلیے کی بالکل نئی تشریح پیش کر رہا ہے۔ پہلے صحت عامہ کی جیسی بھی خدمات دستیاب تھیں ان کے زوال کا نتیجہ یہ نکلا کہ غریب عوام نجی ہسپتالوں اور ڈاکٹروں کے منافع میں اضافہ کرتے رہیں۔ صحت پورے ملک میں دیہی کنبوں کے قرضوں کا دوسرا سب سے تیزی سے بڑھتا ہوا سبب ہے۔ (صحت پر ہندوستان کا فی کس خرچ دنیا میں سب سے کم ہے۔ یہاں ریاست اس مد میں جی ڈی پی کا ایک فیصد سے بھی کم خرچ کرتی ہے۔)
اسی ضلع کے وائپھڈ گاؤں کے کسان گوپال وِٹھوبا یادو نے صحت کی نگہداشت کے بلوں کی ادائیگی کے لیے اپنی زمین گروی رکھی۔ ’’ہسپتال میں صرف ۴۰ منٹ میں مجھے ۱۰ ہزار روپے کا خرچ آیا،‘‘ وہ شکایتی لہجے میں کہتے ہیں۔ کئی ایسے بھی ہیں جو ان سے بھی زیادہ خرچ کر چکے ہیں۔ لیکن یادو کو اپنی نو ایکڑ زمین کے کاغذ سے دست بردار ہونا پڑا، کیونکہ انہیں نقد رقم کی ضرورت تھی۔ کئی سالوں سے فصلوں کی خرابی نے اس امر کو یقینی بنایا تھا۔ وہ تفصیل سے بتاتے ہیں، ’’میرے قبضے میں زمین ہے، لیکن اس کی ملکیت کا کاغذ ساہوکار کے ہاتھ میں ہے۔‘‘
ان کے پڑوسی وشوناتھ جڈے کی آٹھ رکنی فیملی چار ایکڑ زمین پر گزر بسر کرتی ہے۔ ان کی ریڑھ کی ہڈی کے آپریشن میں ۳۰ ہزار روپے کی بڑی رقم خرچ ہوئی۔ ایم آر آئی اسکین پر مزید ۵۰۰۰ روپے خرچ ہوئے۔ ہسپتال میں کمرے کا بل ۷۵۰۰ روپے آیا۔ اور دوائیوں کے اوپر ۲۰ ہزار روپے خرچ ہوئے۔ پھر اوپر سے سفری اخراجات کا بوجھ۔ صرف ایک سال کے اندر جڈ ے کو ۶۵ ہزار روپے کے بلوں کی ادائیگی کرنی پڑی۔
اس طرح کے بہت سے مصیبت زدہ کنبے صحت پر جو رقم خرچ کرتے ہیں وہ حیران کن ہے۔ نام دیو بونڈے نے گزشتہ نومبر میں زرعی بحران کی وجہ سے خودکشی کر لی تھی۔ ان کے پاس بھی صحت کے بڑے بل تھے۔ ’’انہوں نے چندر پور، یوتمال ٹاؤن اور وانی کے تین دورے کیے تھے،‘‘ یوتمال کے کوٹھودا گاؤں میں ان کے بھائی پانڈورنگ کہتے ہیں۔ ’’مجموعی طور پر، انہوں نے اپنی بیماری پر تقریباً ۴۰ ہزار روپے خرچ کیے تھے۔‘‘
خودکشی سے متاثرہ جن دوسرے کنبوں کا ہم نے سروے کیا، ان پر بھی صحت کے اخراجات کا بھاری بوجھ تھا۔ دو سے چار ایکڑ زمین کی ملکیت والے کنبوں پر ۲۵ سے ۳۰ ہزار روپے کے قرضوں کا بوجھ عام بات تھی۔ اور اکثر بھاری نقصان کی وجہ سے ہر فصل کے ساتھ کھیتی بھی کم ہو جاتی ہے۔ اس لیے شام راؤ اور انجما نے دوائیاں خریدنا ہی چھوڑ دیا۔ وائپھڈ کے کسان کہتے ہیں، ’’سرکاری ہسپتال میں آپ کو کچھ نہیں ملتا۔‘‘
دوسری طرف، منوج چاندورورکر کہتے ہیں، ’’اگر ہم ناگپور جائیں، تو ہمیں ایک بڑی رقم ادا کرنی پڑے گی۔ لوگ ہسپتال جانے سے ڈرتے ہیں۔‘‘ وردھا سے لیے گئے زیادہ تر خون کی جانچ کی رپورٹوں یا ایکسرے کو (اگر رپورٹیں درست ہوں تب بھی) ناگپور کے پرائیویٹ ہسپتال مسترد کر دیتے ہیں۔ یہاں ریفرل ریکیٹ کو اس کے حصے سے محروم نہیں رکھا جا سکتا۔ ’’لہذا ہمیں دوبارہ جانچ سے گزرنا پڑتا ہے۔ ہر کوئی اپنا حصہ لیتا ہے اور خوش ہوجاتا ہے۔‘‘
یہ ’’سی ٹی اسکین اور دوائیں بڑے لوگوں کے لیے ہیں۔ ہمارے پاس پیسے نہیں ہیں،‘‘ پیشے سے کسان رامیشور چارڈی کہتے ہیں۔ غیرمنضبط نجی شعبہ اپنی مرضی کے مطابق کوئی بھی فیس وصول کر سکتا ہے۔ بہت سے لوگوں کے لیے ناکافی فنڈ، ناکافی ساز و سامان اور خستہ حال سرکاری ہسپتال ناقص متبادل پیش کرتے ہیں۔ مالواگڑھ میں سنتوش ایسائیں ہنستے ہوئے کہتے ہیں، ’’علاج مفت تھا، لیکن یہ صرف کہنے کے لیے تھا۔‘‘ انہوں نے اپنے بھائی اشوک (جو کینسر کے مریض ہیں) کی ادویات اور نگہداشت پر ۳۵ ہزار روپے خرچ کیے تھے۔ ایسائیں نے نقد رقم حاصل کرنے کے لیے یوتمال کے گاؤں میں اپنی تین ایکڑ زمین بیچ دی تھی۔ پھر ان کے پیسے ختم ہو گئے تھے۔
ان کے دوست سندیپ کدم سیدھے ایک پرائیویٹ ہسپتال میں گئے۔ انہوں نے اپنے والد (جن کی موت تپ دق کی وجہ سے ہو گئی) کے علاج پر تقریباً ۲ لاکھ روپے خرچ کیے۔ وہ کہتےہ یں، ’’اس خرچ کا مطلب تھا تین ایکڑ زمین بیچنا۔‘‘ یہ ان کی بڑی فیملی کی زمین کا تقریباً ایک تہائی حصہ تھا۔
پڑوسی ریاست آندھرا پردیش کی طرح یہاں بھی یہ ساری چیزیں زرعی بحران سے کا سامنا کر رہی کسان برادری کو متاثر کرتی ہیں۔ بہت کم لوگ اس قابل ہوتے ہیں جو قرض لیے بغیر کسی بڑی بیماری کا علاج کرا سکیں۔
انجما بیمار ہوکر فرش پر لیٹی ہیں۔ وہ اتنی کمزور ہو گئی ہیں کہ ان میں بیٹھنے کی سکت نہیں ہے۔ کمزور اور لاغر شام راؤ بستر پر بیٹھے ہیں۔ وہ خوش ہیں کہ انہوں نے اپنے مردہ بیٹے کے قرض چکا دیے ہیں۔ ’’ہم نے اس قرض سے جان چھڑائی تاکہ اس کی روح کو سکون ملے۔‘‘ یہ الگ بات ہے کہ ان کے اپنے جسم کو سکون نہیں ہے۔ صحت کی خرابی نے انہیں اپنی گرفت میں لے لیا ہے۔ بڑھتی ہوئی عمر کی وجہ سے وہ محنت کرکے روزی کمانے سے قاصر ہیں۔ لیکن صحت ایک قیمت پر آتی ہے۔ ایک ایسی قیمت جسے وہ اور ان جیسے لاتعداد لوگ ادا نہیں کر سکتے۔
وائپھڈ میں انہوں نے ہمیں خوشی خوشی رخصت کیا۔ ان میں سے ایک نے کہا، ’’اگر آپ صحت کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں، تو ہمارے کھیتوں کی طرف دیکھیں۔ اس کے بعد آپ کو سب کچھ معلوم ہو جائے گا۔ ہم سبھی کسان ابھی سیلائن ڈِرپ پر ہیں۔ اب سے دو سال بعد ہم آکسیجن پر آجائیں گے۔‘‘
پس نوشت
۳۱ اکتوبر، ۲۰۰۵: کسانوں سے متعلق قومی کمیشن کی ٹیم کے آشٹی میں شام راؤ کھتالے کے گھر پہنچنے سے ایک دن پہلے ان کا انتقال ہوگیا۔ کاروں کا ایک قافلہ ان کی بیوی سے ملنے وردھا کے اس گاؤں میں وارد ہوا، لیکن وہ اپنی حواس کھو چکی ہیں۔ بالکل ویسے ہی جیسے گزشتہ سال ان کے ایک بیٹے کے ساتھ ہوا تھا۔ ایک اور بیٹے پربھاکر نے ۲۰۰۴ میں خودکشی کر لی تھی۔ شام راؤ کی بیوی ابھی تک یہ نہیں سمجھ پائی ہیں کہ ان کے شوہر اس دنیا میں نہیں ہیں۔ وہ ایک ایسی نجی دنیا میں چلی گئی ہیں جہاں یہ سب کچھ نہیں ہوتا ہے۔ جو بول سکتی ہیں وہ ان کی بیٹی گنگا ہیں، جو زرعی بحران میں فیملی کے دیوالیہ ہو جانے کی سبب ۳۱ سال کی عمر میں غیرشادی شدہ ہیں۔ ان کے ایک اور بیٹے ہیں جو امراوتی سے بے روزگار لوٹے ہیں۔ شام راؤ اور ان کی بیوی، دونوں کافی بیمار تھے، ایک سال سے علاج بند کر چکے تھے۔ ’’کون ان ڈاکٹروں کے خرچے برداشت کر سکتا ہے؟‘‘ شام راؤ نے جون میں مجھ سے کہا تھا۔ ’’ہم تو نہیں کرسکتے، یہ ساری چیزیں بہت مہنگی ہیں۔ اور ہم دوائیں کیسے خریدیں گے؟‘‘
اس مضمون مضمون ایک قدرے مختلف ورژن سب سے پہلے دی ہندو اخبار میں شائع ہوا تھا۔
مترجم: شفیق عالم