چندر بدن کھولو دوار/ تہارے من موہن ٹھاڑے، ہولی کھیلن کو (دروازہ کھولو، چندا / کرشن ہولی کھیلنے کا انتظار کر رہے ہیں)

مارچ مہینہ کی سرد دوپہر میں، پنچ چولی چوٹیوں سے گھری وادی عورتوں کے گیتوں سے گونج اٹھتی ہے۔ صبح بارش ہوئی ہے اور آسمان میں اب بھی بادل گھرے ہیں۔ پتھورا گڑھ ضلع میں واقع مُنسیاری بلاک کے سرمولی گاؤں کا پنچایت آفس جیسے جیسے قریب آتا ہے، ڈھول کی تال کی آواز بڑھتی جاتی ہے۔ جیسے ہی میں پہاڑ کے ایک موڑ کو پار کرتی ہوں، کھلے آسمان کے نیچے ہمالیہ کی آغوش میں درجنوں عورتیں ایک دائرہ میں گھومتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں، جو رقص کرنے کے ساتھ ہی ہولی کے گیت بھی گا رہی ہیں۔

اتراکھنڈ کے کُماؤں علاقے میں، ہولی (اس سال ۸ مارچ کو تھی) کا تہوار صرف رنگوں تک ہی محدود نہیں رہتا – یہ گیت، لے اور تال کا تہوار ہے۔ یہ علاقہ ہولی کی مختلف شکلوں کو مناتا ہے، اور یہ تمام شکلیں نغمے پر مبنی ہوتی ہیں۔ یہ ایک ایسا وقت ہوتا ہے جب عورتیں اور مرد سریلے ہولیار میں بدل جاتے ہیں – جو کہ ہولی کے گیت گاتے ہیں۔

بیٹھکیں، جنہیں ’بیٹھکی ہولی‘ کہا جاتا ہے، کماؤں کے قصبوں اور گاؤوں میں مقبول ہیں۔ عورتیں گھروں میں میٹنگ کرتی ہیں۔ وہ ہارمونیم، طبلے، اور ڈھول کے ساتھ ہندی، برج بھاشا، اودھی، اور کماؤنی گیت گاتی ہیں۔

سرمولی کی سندری لچھپال کہتی ہیں، ’’یہ وہ وقت ہوتا ہے جب ہم ہنستے ہیں، مستی کرتے ہیں، زور سے گاتے ہیں اور رقص کرتے ہیں۔ باقی وقت تو ہم اپنی کھیتی، بچوں، اور مویشیوں کی دیکھ بھال میں مصروف رہتے ہیں۔ ان گانوں کے ذریعے ہم ایک دوسرے کا مذاق بھی اڑاتے ہیں یا پھر گاؤں کے گڑبڑ گھوٹالوں کی بات کرتے ہیں۔ جب تک آپ رقص نہیں دیکھیں گی، آپ کو یقین نہیں ہوگا کہ یہ وہی عورتیں ہیں جو پہاڑیوں میں سر نیچے کیے اتنی محنت سے کام کرتی رہتی ہیں۔‘‘

مانا جاتا ہے کہ ۱۹ویں صدی کے وسط میں ’بیٹھکی ہولی‘ کی شروعات ہوئی تھی، جب اتر پردیش کے رامپور ضلع کے مشہور موسیقار اُستاد امان اللہ خان نے الموڑہ میں اسے پیش کیا تھا۔ الموڑہ کے ایک ہولیار نوین بشٹ کہتے ہیں، ’’ایسا کہا جاتا ہے کہ [سال] ۱۸۵۰ کے آس پاس، امان اللہ خان الموڑہ آئے اور یہاں کلاسیکی موسیقی کی شروعات کی۔ لیکن ہندوستانی کلاسیکی موسیقی کا علم نہ رکھنے والے لوگ بھی ہولی کے گیت سیکھ اور گا سکتے ہیں، جس کی وجہ سے ہولیار کی روایت آج بھی زندہ ہے۔‘‘

ہندو کیلنڈر کے مطابق، کُماؤں میں ہولی دسمبر میں پوس مہینہ کے پہلے دن سے شروع ہوتی ہے۔ لیکن اصل میں تہوار کی دھوم دھام مارچ میں دھولنڈی سے ایک ہفتہ پہلے سے بڑھتی ہے، جو کہ رنگوں کی ہولی والا دن ہوتا ہے۔ اس وقت کے آس پاس، بیٹھکی ہولی کھڑی ہولی میں بدل جاتی ہے – کھڑے ہو کر اور ناچ کر، وسنت (بہار) کی آمد کا جشن منایا جاتا ہے۔ کچھ گاؤوں میں عورتیں گاؤں کے ہر گھر جاتی ہیں اور ہولی کے گیتوں پر رقص کرتی ہیں۔

اس کے علاوہ، مہیلا ہولی کی روایت بھی ہے، جو کہ ہولی کے دن سے ایک ہفتہ پہلے گھروں اور مندروں میں عورتوں کے ذریعے منائی جاتی ہے۔ وہ اکٹھا ہو کر رادھا کرشن، گنیش، اور شو کے لیے گیت گاتی ہیں اور رقص کرتی ہیں۔

مارچ کی شروعات میں، میں نے پتھورا گڑھ ضلع کے مُنسیاری بلاک کے گاؤوں میں تین مہیلا ہولی کی تقریبات میں شرکت کی۔ یہ فوٹو اسٹوری ساحل سمندر سے ۲۲۷۰ میٹر کی اونچائی پر واقع مُنسیاری (’برف کی جگہ‘) جیسی ٹھنڈی جگہ پر منائے جانے والے تہواروں کو درج کرتا ہے – اور کماؤنی خواتین کے ذریعے گائے گئے ہولی کے گیتوں کو ریکارڈ کرتا ہے۔

PHOTO • Arpita Chakrabarty

سرمولی میں پنچایت آفس کے باہر سندری لچھپال ڈھول بجا رہی ہیں، جب کہ دیگر عورتیں گول دائرے میں گھوم رہی ہیں اور ہولی کے گیت گا رہی ہیں۔ ڈھول سے بندھے فیتے بڑے دیوتا کے تئیں ان کی عقیدت و احترام کی علامت ہیں

PHOTO • Arpita Chakrabarty

جیسے ہی عورتیں پنچایت آفس پہنچتی ہیں، دوسرے لوگ ان کی پیشانی پر گلال لگاتے ہیں – جیسے جیسے جشن آگے بڑھتا ہے ویسے ویسے ہر کوئی گلال کے رنگ میں ڈوبنے لگتا ہے

ویڈیو دیکھیں: سرمولی گاؤں کی عورتیں ایک گول دائرہ میں گھومتے ہوئے ہولی کا گیت گاتی ہیں۔ پہاڑوں پر اب بھی ٹھنڈ ہے، اور گول دائرہ کے بیچ میں جلتی آگ جشن کی گرماہٹ کو مزید بڑھاتی ہے

PHOTO • Arpita Chakrabarty

ہیرا دیوی، سندری لچھپال سے ڈھول لے کر بجانے لگتی ہیں۔ عورتیں باری باری سے رقص کرتی ہیں، جب کہ ۸ سالہ بھویش سنگھ پورے جوش سے منجیرا بجا رہا ہے۔ سرمولی میں مہیلا ہولی پانچ دنوں تک چلتی رہتی ہے

PHOTO • Arpita Chakrabarty

تقریباً ۵۰ عورتوں کے لیے پتھر کے چولہے پر گرما گرم چائے بنائی جا رہی ہے۔ پکوڑے، حلوہ، چپس، اور چائے سبھی کو پیش کی جاتی ہے۔ جیسے جیسے مہیلا ہولی کا یہ قافلہ مختلف بستیوں کی جانب بڑھتا ہے، الگ الگ بستیوں میں لوگوں کی ٹولیاں باری باری سے اُس دن کے لیے کھانے پینے کا انتظام کرتے ہیں۔ گھورپٹّا ملّا گاؤں کی منجو ترپاٹھی بتاتی ہیں، ’یہ تہوار عورتوں کے ذریعے منعقد کیا جاتا ہے – ایک دن گاؤں کے ایک حصہ میں، تو اگلے دن کسی دوسرے حصے میں؛ اور یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے، تاکہ سبھی کو ہولی کی میزبانی کرنے کا موقع ملے۔ اس پورے پروگرام میں ہونے والا خرچ بھی سبھی کے ذریعے برابر برابر برداشت کیا جاتا ہے‘

ویڈیو دیکھیں: گھورپٹّا ملّا گاؤں کی رجنی جوشی، متھرا کے ایک ہولی گیت پر رقص کر رہی ہیں

PHOTO • Arpita Chakrabarty

گھورپٹّا ملّا کی عورتیں ۹ مارچ کو بیٹھکی ہولی مناتی ہوئی۔ وہ ہولی کے گیتوں کی کتاب سے رادھا کرشن، شو، اور گنیش پر لکھے گیت گاتی ہیں

PHOTO • Arpita Chakrabarty

ڈھول اور ڈفلی، کماؤنی ہولی کا ضروری حصہ ہیں

PHOTO • Arpita Chakrabarty

کھڑی ہولی، بیٹھکی ہولی کے بعد آتی ہے – یہاں منجو ترپاٹھی، جو کہ دن کی میزبان ہیں، ہولی کی دُھن پر رقص کر رہی ہیں؛ ساتھ ہی ۷ سالہ چیتنا سنگھ بھی ڈانس کر رہی ہے

PHOTO • Arpita Chakrabarty

سرمولی میں، درکوٹ، نان سیم، نیا بستی، سرمولی، اور سنکدھورا کی عورتیں ماٹی سنگٹھن کے ایک کمرے کے آفس کے اندر ایک ساتھ بیٹھی ہیں؛ ماٹی سنگٹھن عورتوں کا ایک نیٹ ورک ہے، جو مہیلا ہولی منانے کے لیے مہمانوں کے قیام کا انتظام کرتا ہے۔ ابھی ابھی باہر برف پڑنی شروع ہوگئی ہے

PHOTO • Arpita Chakrabarty

عورتیں ایک دوسرے کو گلال لگا رہی ہیں، جب کہ بہت سی دیگر عورتیں بارش اور برف کی پرواہ کیے بنا یہاں پہنچ رہی ہیں

ویڈیو دیکھیں: یہ گیت کہتا ہے: ’جوہار اور مُنسیاری رنگین اور خوشحال مقام ہیں۔ میرا دل جوہار اور مُنسیاری میں بسا ہے۔ میں ناچتی ہوں اور گاتی ہوں…

PHOTO • Arpita Chakrabarty

۱۰ مارچ کے دن، مُنسیاری کے گاؤں برف سے ڈھکے ہوئے ہیں۔ پنچ چولی کی سفید چوٹیاں، پہاڑوں کے درمیان گونجتی دھنوں سے روشن تہواروں کو غور سے دیکھ رہی ہیں

مترجم: محمد قمر تبریز

Arpita Chakrabarty

অর্পিতা চক্রবর্তী স্বাধীনভাবে কর্মরত একজন ফ্রিল্যান্স সাংবাদিক, তাঁর নিবাস কুমায়ুন অঞ্চলে। তিনি ২০১৭ সালের পারি ফেলোশিপ প্রাপক।

Other stories by Arpita Chakrabarty
Editor : Sharmila Joshi

শর্মিলা জোশী পিপলস আর্কাইভ অফ রুরাল ইন্ডিয়ার (পারি) পূর্বতন প্রধান সম্পাদক। তিনি লেখালিখি, গবেষণা এবং শিক্ষকতার সঙ্গে যুক্ত।

Other stories by শর্মিলা জোশী
Translator : Qamar Siddique

কমর সিদ্দিকি পিপলস আর্কাইভ অফ রুরাল ইন্ডিয়ার উর্দু অনুবাদ সম্পাদক। তিনি দিল্লি-নিবাসী সাংবাদিক।

Other stories by Qamar Siddique