جلد از جلد طبی مدد حاصل کرنے کا سب سے آسان طریقہ تھا، باندھ والے ذخیرۂ آب کے راستے کشتی کے ذریعے دو گھنٹے کا سفر۔ دوسرا متبادل یہ تھا کہ نیم تعمیر شدہ سڑک سے ہوتے ہوئے اونچی پہاڑی کو پار کرنا۔
پربا گولوری نو ماہ کی حاملہ تھیں اور کسی بھی وقت ڈلیوری کی نوبت آ سکتی تھی۔
دوپہر میں تقریباً ۲ بجے جب میں کوٹاگُڈا بستی پہنچی، تو پربا کے پڑوسی یہ سوچ کر ان کی جھونپڑی کے ارد گرد جمع ہو گئے تھے کہ بچہ شاید اس دنیا میں نہیں آ سکے گا۔
۳۵ سالہ پربا نے اپنے پہلے بچے کو اُس وقت کھو دیا تھا، جب وہ محض تین مہینے کا تھا۔ پربا کی بیٹی تقریباً چھ سال کی ہو چکی ہے۔ انہوں نے دونوں بچوں کو، روایتی طور پر ڈلیوری کرانے والی دائیوں کی مدد سے گھر پر ہی جنم دیا تھا، اور زیادہ پریشانی بھی نہیں ہوئی تھی۔ لیکن اس بار دائی ہچکچا رہی تھیں۔ ان کا اندازہ تھا کہ اس بار ڈلیوری میں مشکل آنے والی ہے۔
اُس دوپہر جب فون کی گھنٹی بجی، تب میں پاس کے ایک گاؤں میں تھی اور ایک اسٹوری پر کام کر رہی تھی۔ ایک دوست کی موٹر بائک (عام طور پر میں جس اسکوٹی سے چلتی ہوں، اس سے ان پہاڑی سڑکوں پر چلنا مشکل تھا) لیکر، میں اوڈیشہ کے ملکانگیری ضلع کی اس کوٹاگُڈا بستی کی طرف بھاگی، جہاں مشکل سے ۶۰ لوگ رہتے ہیں۔
یہاں پہنچنا تو مشکل ہے ہی، وسطی ہندوستان کے آدیواسی بیلٹ کے دوسرے حصوں کی طرح، چترکونڈا بلاک کی اس بستی میں نکسل ملی ٹینٹ اور ریاستی سکیورٹی فورسز کے درمیان آئے دن جھڑپیں بھی ہوتی رہی ہیں۔ یہاں کئی جگہوں پر، سڑک اور دوسری بنیادی سہولیات خستہ حالت میں ہیں اور ناکافی ہیں۔
کچھ کنبے جو کوٹاگُڈا میں رہتے ہیں، سبھی پروجا قبیلہ کے ہیں۔ یہ عام طور پر ہلدی، ادرک، اپنے کھانے کے لیے دالیں اور کچھ دھان اُگاتے ہیں۔ ساتھ ہی، یہ لوگ کچھ دوسری فصلیں بھی اُگاتے ہیں، تاکہ وہاں آنے والے خریداروں کو فروخت کر سکیں۔
پانچ کلومیٹر دور، جوڈامبو پنچایت میں موجود نزدیکی ابتدائی طبی مرکز (پی ایچ سی) میں ڈاکٹر لاپتہ رہتے ہیں۔ اگست ۲۰۲۰ میں جب پربا کو بچہ ہونے والا تھا، اُس وقت لاک ڈاؤن کے سبب یہ ابتدائی طبی مرکز بند کر دیا گیا تھا۔ کُڈومُلوگُما گاؤں میں واقع کمیونٹی ہیلتھ سنٹر تقریباً ۱۰۰ کلومیٹر دور ہے۔ اس بار تو پربا کو سرجری کی ضرورت تھی، جس کا انتظام اس کمیونٹی ہیلتھ سنٹر میں نہیں تھا۔
اس لیے، اب ۴۰ کلومیٹر دور واقع چترکونڈا کا سب ڈویژنل ہاسپیٹل ہی آخری متبادل بچا تھا، لیکن چترکونڈا/بالی میلا ذخیرۂ آب کے اُس پار پہنچانے والی کشتیاں شام کے بعد چلنا بند کر دیتی ہیں۔ اونچی پہاڑیوں والے راستے کے لیے موٹربائک کی ضرورت پڑتی یا پیدل سفر کرنا پڑتا، جو نو مہینے کی حاملہ پربا کے لیے کسی بھی لحاظ سے صحیح نہیں ہوتا۔
میں نے ملکانگیری ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر کے اپنے شناساؤں کے ذریعے مدد حاصل کرنے کی کوشش کی، لیکن انہوں نے کہا کہ ایسی خراب سڑکوں پر ایمبولینس بھیجنا مشکل ہے۔ ضلع اسپتال میں واٹر ایمبولینس سروس ہے، لیکن لاک ڈاؤن کے سبب اسے بھی بلایا نہیں جا سکا۔
پھر، میں کسی طرح ایک مقامی آشا کارکن (منظور شدہ سماجی طبی کارکن) کو پرائیویٹ پِک اَپ وین کے ساتھ آنے کے لیے راضی کرنے میں کامیاب رہی۔ اس کے لیے ۱۲۰۰ روپے ادا کرنے تھے۔ لیکن، وہ بھی اگلی صبح ہی آ سکتی تھی۔
ہم اسپتال کے لیے روانہ ہو گئے۔ لیکن، گاڑی جلد ہی اونچی پہاڑی کی زیر تعمیر سڑک پر بند ہو گئی، جس راستے سے ہم پربا کو لے جا رہے تھے۔ ہمیں جلانے والی لکڑی تلاش کر رہے بارڈر سیکورٹی فورس کا ایک ٹریکٹر دکھائی دیا۔ ہم نے ان سے مدد مانگی۔ وہ ہمیں پہاڑی کی اُس چوٹی پر لے گئے، جہاں بی ایس ایف کا ایک کیمپ لگا ہوا ہے۔ ہنتل گُڈا میں موجود اُس کیمپ کے جوانوں نے، پربا کو چترکونڈا کے سب ڈویژنل اسپتال بھیجنے کے لیے گاڑی کا انتظام کیا۔
اسپتال کے اسٹاف نے کہا کہ پربا کو ۶۰ کلومیٹر دور، ملکانگیری ضلع ہیڈکوارٹر لے جانا ہوگا۔ وہاں تک جانےکے لیے انہوں نے گاڑی کا انتظام کرنے میں مدد کی۔
جس دن میں بھاگ کر کوٹا گُڈا گئی تھی، اس کے اگلے دن دوپہر میں کافی دیر سے ہم ضلع اسپتال پہنچ پائے۔
وہاں، ڈاکٹر اور طبی ملازمین ڈلیوری کرانے کی کوشش کر رہے تھے، لیکن انہیں کامیابی نہیں ملی، جس کی وجہ سے پربا کو تین دنوں تک درد زہ برداشت کرنا پڑا۔ آخر میں ہمیں بتایا گیا کہ ان کا آپریشن کرنا پڑے گا۔
۱۵ اگست کا دن تھا، اور دوپہر کے وقت پربا کے بچے کی پیدائش ہوئی – اُس کا وزن تین کلو تھا۔ ڈاکٹروں نے بتایا کہ اس کی حالت نازک ہے۔ بچے کے جسم میں پاخانہ باہر نکالنے کا راستہ نہیں تھا اور اسے فوراً سرجری کی ضرورت تھی۔ حالانکہ، ملکانگیری ضلع ہیڈ کوارٹر پر واقع اسپتال میں اس کی کوئی سہولت موجود نہیں تھی۔
بچے کو کوراپُٹ کے شہید لکشمن نائک میڈیکل کالج اور اسپتال میں داخل کرانے کی ضرورت تھی، جو تقریباً ۱۵۰ کلومیٹر دور تھا۔
بچے کی ماں ابھی بھی بیہوش تھیں، اور اس کے والد، پوڈو گولوری پوری طرح مایوس ہو چکے تھے۔ آشا کارکن (جو پہلے کوٹا گُڈا بستی میں وین کے ساتھ آئی تھیں) اور میں بچے کو لیکر کوراپُٹ گئے۔ اُس وقت ۱۵ اگست کی شام کے تقریباً ۶ بج رہے تھے۔
ہم اسپتال کی جس ایمبولینس میں سفر کر رہے تھے، وہ صرف تین کلومیٹر چلنے کے بعد ہی خراب ہو گئی۔ ہم نے کال کرکے دوسری ایمبولینس بلائی۔ وہ بھی ۳۰ کلومیٹر کے بعد خراب ہو گئی۔ ہم گھنے جنگل میں بارش کے درمیان، ایک اور ایمبولینس کے آنے کا انتظار کرتے رہے۔ آخرکار، لاک ڈاؤن کے دوران ہی، آدھی رات کو ہم کوراپُٹ پہنچ گئے۔
وہاں، ڈاکٹروں نے طبی نگرانی میں بچے کو سات دنوں تک آئی سی یو میں رکھا۔ دریں اثنا، ہم پربا کو (پوڈو کے ساتھ) بس کے ذریعے کوراپُٹ لانے میں کامیاب رہے، تاکہ وہ پورے ایک ہفتہ بعد اپنے بچے کو پہلی بار دیکھ سکیں۔ اس کے بعد، ڈاکٹروں نے ہمیں بتایا کہ ان کے پاس بچوں کی سرجری سے متعلق ضروری سہولیات اور مہارت نہیں ہے۔
بچے کو ایک بار پھر کسی دوسرے اسپتال میں لے جانے کی ضرورت پڑی۔ وہ اسپتال تقریباً ۷۰۰ کلومیٹر دور تھا – برہام پور (جسے برہم پور بھی کہا جاتا ہے) کا ایم کے سی جی میڈیکل کالج اور اسپتال۔ ہمیں دوبارہ کسی اور ایمبولینس کا انتظار کرنا پڑا اور ایک اور لمبا سفر طے کرنا پڑا۔
ایمبولینس ریاستی [طبی] مرکز سے آئی تھی، لیکن چونکہ یہ علاقہ حساس ہے، اس لیے ہمیں اخراجات کے لیے تقریباً ۵۰۰ روپے ادا کرنا پڑا۔ (میں نے اور میرے دوستوں نے یہ خرچ اٹھائے – ہم نے اسپتالوں کے اس سفر پر کل ۳-۴ ہزار روپے خرچ کیے)۔ مجھے یاد آتا ہے کہ ہمیں برہام پور کے اسپتال پہنچنے میں ۱۲ گھنٹے سے زیادہ وقت لگا۔
تب تک ہم وین، ٹریکٹر، بس اور کئی ایمبولینسوں کے ذریعے چار الگ الگ اسپتالوں کا دورہ کر چکے تھے – چترکونڈا، ملکانگیری ہیڈ کوارٹر، کوراپُٹ، اور برہام پور۔ اس کے لیے، ہم نے تقریباً ایک ہزار کلومیٹر کی دوری طے کی تھی۔
ہمیں بتایا گیا کہ سرجری تشویش ناک تھی۔ بچے کے پھیپھڑے کو بھی نقصان پہنچا تھا اور اس کے ایک حصہ کو آپریشن کے ذریعے نکالنا پڑا تھا۔ پاخانہ جسم سے باہر نکالنے کے لیے پیٹ میں ایک سوراخ کرنا پڑا۔ اس کے علاوہ، پاخانہ نکالنے کے لیے ایک باقاعدہ جگہ بنانے کی ضرورت تھی، جس کے لیے ایک دوسرا آپریشن ہونا تھا۔ لیکن، دوسرا آپریشن تبھی کیا جا سکتا تھا، جب بچے کا وزن آٹھ کلو ہو جائے۔
اس سلسلے میں جب میں نے فیملی کے ساتھ آخری بار بات کی تھی، تو پتہ چلا کہ آٹھ مہینے کا ہونے کے بعد بھی بچے کا وزن اتنا نہیں ہو پایا تھا۔ دوسری سرجری ابھی ہونی باقی ہے۔
بے شمار مشکلوں کے درمیان پیدا ہوئے اس بچے کی پیدائش کے تقریباً ایک مہینہ بعد، مجھے اس کا نام رکھنے کی تقریب میں مدعو کیا گیا۔ میں نے اس کا نام مرتیونجے رکھا – یعنی موت پر فتح حاصل کرنے والا۔ ہندوستانی یومِ آزادی کے موقع پر، ۱۵ اگست ۲۰۲۰ کی آدھی رات کو وہ اپنی قسمت سے لڑ رہا تھا اور اپنی ماں کی طرح فاتح ہوکر لوٹا تھا۔
*****
پربا نے خصوصاً بہت مشکل حالات کا سامنا کیا۔ ملکانگیری ضلع کی دور دراز کی کئی آدیواسی بستیوں میں صحت عامہ اور بنیادی ڈھانچے کی سہولیات کمیاب ہیں، جہاں عورتوں کو ایسے حالات میں عام طور پر بہت زیادہ خطرہ اٹھانا پڑتا ہے۔
ملکانگیری کے ۱۰۵۵ گاؤوں میں درج فہرست قبائل کی تعداد کل آبادی کا ۵۷ فیصد ہے۔ ان میں، پروجا اور کویا آدیواسیوں کی آبادی سب سے زیادہ ہے۔ ایک طرف ان برادریوں اور علاقے کی ثقافت، روایات، اور قدرتی وسائل کا جشن منایا جاتا ہے، وہیں دوسری طرف یہاں کے لوگوں کی صحت سے متعلق ضروریات کو کافی حد تک نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ یہاں کے جغرافیہ – پہاڑیاں، جنگلات اور آبی علاقے – کے ساتھ ساتھ، برسوں سے چل رہے تصادم اور ریاست کی اندیکھی کے سبب، ان گاؤوں اور بستیوں میں صحت سے وابستہ بنیادی خدمات تک رسائی بہت کم ہے۔
ملکانگیری ضلع کے کم از کم ۱۵۰ گاؤوں میں سڑک نہیں بنی ہے (پنچایتی راج اور پینے کے پانی کے وزیر پرتاپ جینا نے ۱۸ فروری، ۲۰۲۰ کو ریاستی اسمبلی میں کہا تھا کہ اوڈیشہ کے ۱۲۴۲ گاؤں ایسے ہیں، جہاں سڑک نہیں پہنچی ہے)۔
ان میں، کوٹاگُڈا سے تقریباً دو کلومیٹر دور واقع ٹینٹا پلّی گاؤں بھی شامل ہے، جہاں تک سڑک نہیں پہنچی ہے۔ ٹینٹا پلی گاؤں میں ہی اپنی زندگی کے ۷۰ سال گزارنے والی کملا کھِلّو کہتی ہیں، ’’بابو، ہماری زندگی چاروں طرف سے پانی سے گھری ہوئی ہے، ہم جئیں یا مریں، کسے فرق پڑتا ہے؟ ہم نے اپنی زندگی کا زیادہ تر وقت صرف اسی پانی کو دیکھتے ہوئے گزارا ہے، جس نے عورتوں اور لڑکیوں کی تکلیفوں میں صرف اضافہ ہی کیا ہے۔‘‘
دوسرے گاؤوں تک جانے کے لیے، جوڈامبو پنچایت کی ٹینٹا پلی، کوٹاگُڈا، اور تین دیگر بستیوں کے لوگ آبی ذخیرہ کے راستے موٹر بوٹ سے سفر کرتے ہیں، جس میں ۹۰ منٹ سے لیکر چار گھنٹے تک کا وقت لگ جاتا ہے۔ بستی سے ۴۰ کلومیٹر دور چترکونڈا جاکر طبی سہولیات حاصل کرنے کے لیے کشتی سے سفر کرنا ہی سب سے آسان راستہ بچتا ہے۔ تقریباً ۱۰۰ کلومیٹر دور موجود کمیونٹی ہیلتھ سنٹر تک پہنچنے کے لیے، یہاں کے لوگوں کو پہلے کشتی سے سفر کرنا پڑتا ہے، اور پھر بس یا مشترکہ سواری والی جیپ کے سہارے آگے کا سفر طے کرنا پڑتا ہے۔
محکمہ آبی وسائل نے جو موٹر لانچ سروس شروع کی ہے، وہ ان خدمات کے بار بار اور کبھی بھی ہونے والے التوا کے سبب قابل اعتماد نہیں رہ گئی ہے۔ یہ کشتیاں عام طور پر دن میں صرف ایک بار دوسری طرف جاتی ہیں اور ایک بار واپس آتی ہیں۔ پرائیویٹ چلنے والی پاور بوٹ کا ایک ٹکٹ ۲۰ روپے کا پڑتا ہے، اور یہ قیمت اسٹیٹ سروس کے مقابلے ۱۰ گنا زیادہ ہے۔ یہ پرائیویٹ سروس بھی شام تک بند ہو جاتی ہے۔ ایسے میں، ناگہانی حالات میں ٹرانسپورٹیشن ایک بڑا مسئلہ بن جاتا ہے۔
نریا، جن کی عمر ۲۰ سال ہے، کہتی ہیں، ’’چاہے آدھار کا کام ہو یا ڈاکٹر سے صلاح لینی ہو، ہمیں ان [نقل و حمل کے وسائل] پر ہی منحصر رہنا پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کئی عورتیں ڈلیوری کے لیے اسپتال جانے سے کتراتی ہیں۔‘‘ کُسُم تین بچوں کی ماں ہیں۔
حالانکہ، اب آشا کارکن ان دور دراز کے گاؤوں کا دورہ کرتی ہیں، وہ بتاتی ہیں۔ لیکن یہاں کی آشا دیدی بہت تجربہ کار یا جانکار نہیں ہوتی ہیں، اور وہ حاملہ خواتین کو آئرن کی گولیاں، فولک ایسڈ کی گولیاں، اور غذائی تکمیلات دینے کے لیے مہینہ میں بس ایک یا دو بار ہی آتی ہیں۔ بچوں کی ٹیکہ کاری کے ریکارڈ بکھرے اور ادھورے رہتے ہیں۔ جب کسی عورت کو مشکل ڈلیوری ہونے کا خدشہ ہوتا ہے، تو وہ حاملہ خاتون کے ساتھ اسپتال جاتی ہیں۔
یہاں کے گاؤوں میں، باقاعدہ میٹنگیں نہیں ہوتیں اور نہ ہی بیداری کیمپ لگائے جاتے ہیں۔ عورتوں اور لڑکیوں کے ساتھ ان کی صحت سے متعلق مسائل پر کوئی گفتگو نہیں ہوتی ہے۔ آشا کارکنوں کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اسکول کی عمارتوں میں میٹنگ بلائیں، لیکن شاید ہی کوئی کوئی میٹنگ ہوتی ہے؛ کیوں کہ کوٹاگُڈا میں کوئی اسکول ہی نہیں ہے (حالانکہ، ٹینٹا پلّی میں ایک اسکول ہے، جہاں ٹیچر باقاعدگی سے موجود نہیں رہتے ہیں) اور آنگن باڑی کی بلڈنگ پوری بنی ہی نہیں ہے۔
علاقے میں کام کرنے والی آشا کارکن جمنا کھارا کہتی ہیں کہ جوڈامبو پنچایت کے پرائمری ہیلتھ سنٹر میں صرف چھوٹی موٹی بیماریوں کا علاج کیا جا سکتا ہے۔ حاملہ عورتوں کے معاملے میں یا صحت سے متعلق دیگر مشکل مسائل کے لیے یہاں کوئی سہولت دستیاب نہیں ہے۔ جمنا اور دوسری آشا کارکن، چترکونڈا کے کمیونٹی ہیلتھ سنٹر کا رخ کرنا ہی پسند کرتی ہیں۔ ’’لیکن یہ بہت دور ہے اور سڑک کے راستے ٹھیک سے سفر کر پانا ممکن نہیں ہو پاتا ہے۔ کشتی سے سفر جوکھم بھرا ہوتا ہے۔ سرکاری موٹر لانچ کی سروس ہر وقت دستیاب نہیں ہوتی۔ اس لیے، برسوں سے ہم دائی ماں پر ہی منحصرہیں۔
ٹینٹا پلّی بستی میں رہنے والی، پروجا آدیواسی کمیونٹی کی سامری کھِلّو اس بات کی تصدیق کرتی ہیں: ’’ہم طبی [خدمات] کے مقابلے دائی ماں پر زیادہ منحصر ہیں۔ میرے تینوں بچوں کی پیدائش انہی کی مدد سے ہوئی تھی۔ ہمارے گاؤں میں تین دائی ماں ہیں۔‘‘
یہاں کی تقریباً ۱۵ بستیوں کی عورتیں ’بوڈھکی ڈوکری‘ پر بہت زیادہ انحصار کرتی ہیں – روایتی طریقے سے ڈلیوری کرانے میں مدد کرنے والی دائیوں کو مقامی زبان میں یہی کہا جاتا ہے۔ سامری کہتی ہیں، ’’وہ ہمارے لیے نعمت ہیں کیوں کہ ان کی مدد سے ہم میڈیکل سنٹر گئے بنا، پوری حفاظت کے ساتھ ماں بن سکتے ہیں۔ ہمارے لیے وہی ڈاکٹر ہیں اور بھگوان بھی ہیں۔ عورت ہونے کے ناتے بھی وہ ہمارا درد سمجھتی ہیں۔ مردوں کو شاید ہی اس بات کا احساس ہو کہ ہمارے پاس بھی دل ہے اور ہمیں بھی درد ہوتا ہے۔ انہیں لگتا ہے کہ ہمارا جنم بچے صرف بچے پیدا کرنے کے لیے ہوا ہے۔‘‘
دائی مائیں اُن عورتوں کو دیسی دوائیں اور جڑی بوٹیاں بھی دیتی ہیں جن کا حمل نہیں ٹھہرتا۔ اگر یہ دوائیں کام نہیں کرتیں، تو کئی بار ان کے شوہر دوسری شادی کر لیتے ہیں۔
کُسُم نریا کی ۱۳ سال کی عمر میں شادی ہو گئی تھی اور ۲۰ سال کی عمر میں ان کے تین بچے ہیں۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ انہیں حیض کے بارے میں علم نہیں تھا، مانع حمل تو دور کی بات ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’’میں ایک بچی تھی اور کچھ بھی نہیں جانتی تھی۔ لیکن جب یہ [حیض] شروع ہوا، تو ماں نے کپڑے کا استعمال کرنے کو کہا اور پھر جلد ہی یہ کہتے ہوئے میری شادی کر دی کہ میں بڑی ہو گئی ہوں۔ مجھے جسمانی رشتوں کے بارے میں بھی کچھ پتا نہیں تھا۔ میری پہلی ڈلیوری کے دوران، اس نے مجھے اسپتال میں اکیلا چھوڑ دیا تھا۔ اسے اتنی بھی پرواہ نہیں تھی کہ بچہ مر گیا یا زندہ ہے – کیوں کہ لڑکی پیدا ہوئی تھی۔ لیکن میری بچی زندہ بچ گئی۔‘‘
کُسُم کے بقیہ دونوں بچے لڑکے ہیں۔ ’’جب میں نے تھوڑے ہی وقفہ کے بعد دوسرا بچہ پیدا کرنے سے منع کر دیا، تو مجھے پیٹا گیا، کیوں کہ ہر کوئی مجھ سے لڑکا پیدا کرنے کی امید کر رہا تھا۔ نہ ہی مجھے اور نہ ہی میرے شوہر کو دوائی [مانع حمل گولیوں] کے بارے میں کوئی جانکاری تھی۔ معلوم ہوتا، تو مجھے تکلیف نہیں ہوتی۔ لیکن اگر میں نے مخالفت کی ہوتی، تو مجھے گھر سے نکال دیا گیا ہوتا۔‘‘
کوٹا گُڈا میں کُسُم کے گھر سے کچھ ہی فاصلہ پر پربا رہتی ہیں۔ وہ ایک دن مجھ سے کہ رہی تھیں: ’’مجھے یقین نہیں ہو رہا ہے کہ میں زندہ ہوں۔ مجھے نہیں معلوم کہ اُس وقت جو مشکلیں آئی تھیں، میں نے انہیں کیسے برداشت کیا۔ میں خطرناک درد میں مبتلا تھی، میرا بھائی رو رہا تھا اور مجھے درد جھیلتے ہوئے دیکھ نہیں پا رہا تھا۔ پھر اسپتال سے اسپتال تک کا سفر، بچہ پیدا ہونا، اور پھر کچھ دنوں تک اسے دیکھ بھی نہیں پانا۔ مجھے نہیں معلوم کہ میں نے یہ سب کچھ کیسے برداشت کر لیا۔ میں ایشور سے پرارتھنا کرتی ہوں کہ کسی کو بھی اس قسم کے درد سے نہ گزرنا پڑے۔ لیکن ہم سبھی گھاٹی [پہاڑی] لڑکیاں ہیں اور ہم سب کی زندگی ایک جیسی ہی ہے۔
مرتیونجے کو جنم دینے والی پربا کا تجربہ، یہاں کے گاؤوں کی بہت سی عورتوں کی کہانیاں، اور آدیواسی ہندوستانی کے ان حصوں میں عورتیں جس طرح بچوں کو جنم دیتی ہیں – ناقابل یقین ہے۔ لیکن، کیا کسی کو اس بات سے کوئی فرق پڑتا ہے کہ ہمارے ملکانگیری میں کیا ہو رہا ہے؟
پاری اور کاؤنٹر میڈیا ٹرسٹ کی جانب سے دیہی ہندوستان کی بلوغت حاصل کر چکی لڑکیوں اور نوجوان عورتوں پر ملگ گیر رپورٹنگ کا پروجیکٹ پاپولیشن فاؤنڈیشن آف انڈیا کے مالی تعاون سے ایک پہل کا حصہ ہے، تاکہ عام لوگوں کی آوازوں اور ان کی زندگی کے تجربات کے توسط سے ان اہم لیکن حاشیہ پر پڑے گروہوں کی حالت کا پتا لگایا جا سکے۔
اس مضمون کو شائع کرنا چاہتے ہیں؟ براہِ کرم [email protected] کو لکھیں اور اس کی ایک کاپی [email protected] کو بھیج دیں۔
مترجم: محمد قمر تبریز