جنوبی ممبئی کے بھولیشور کی تنگ گلیوں کی گہما گہمی میں منظور عالم شیخ روز صبح پانچ بجے اٹھتے ہیں اور کام پر چلے جاتے ہیں۔ پتلے دبلے منظور لنگی پہنے ہوئے کرایے کی اپنی ۵۵۰ لیٹر کی ٹینکر گاڑی کو لے کر کاواسجی پٹیل ٹینک جاتے ہیں، تاکہ پانی بھر سکیں۔ وہ علاقہ ان کے گھر سے تقریباً ایک کلومیٹر دور، مرزا غالب بازار کے پاس دودھ بازار میں ایک پبلک ٹوائلیٹ کے کونے میں واقع ہے۔ وہ اپنی گاڑی کو لے کر دودھ بازار واپس آتے ہیں، ایک کونے میں اپنی گاڑی لگاتے ہیں، اور پھر وہاں پاس کی دکانوں اور گھروں میں اپنے گاہکوں کو پانی سپلائی کرتے ہیں۔
پچاس سالہ منظور کا تعلق بھشتیوں کی اس آخری نسل سے ہے، جو اس کام کے ذریعے اپنا معاش حاصل کر رہے ہیں۔ وہ تقریباً چار دہائیوں سے ممبئی کے اس تاریخی علاقے میں یہاں کے رہائشیوں کو پینے، صاف صفائی اور کپڑے دھونے کے لیے پانی سپلائی کر رہے ہیں۔ کورونا وبائی مرض نے جب بھشتیوں پر معاشی بحران کا بوجھ نہیں ڈالا تھا، تب منظور ان چنندہ لوگوں میں سے تھے جو بھولیشور میں مشکیزہ بھر کر پانی سپلائی کرتے تھے۔ مشکیزہ چمڑے کا ایک ایسا بیگ ہوتا ہے، جس میں تقریباً ۳۰ لیٹر پانی بھر کر کندھے پر لادا جا سکتا ہے۔
منظور، جو سال ۲۰۲۱ سے پلاسٹک کی بالٹیوں کا استعمال کرنے لگے ہیں، بتاتے ہیں کہ مشکیزہ سے پانی دینے کی روایت اب ’’ختم ہوگئی‘‘ ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’بوڑھے بھشتیوں کو اپنے گاؤں واپس جانا ہوگا اور نوجوانوں کو نئی نوکریاں تلاش کرنی ہوں گی۔‘‘ بھشتیوں کا کام شمالی ہندوستان کی مسلم بھشتی برادری کا روایتی کام رہا ہے۔ لفظ ’بھشتی‘ فارسی سے ماخوذ ہے، جس کا مطلب ہے ’پانی ڈھونے والا‘۔ یہ برادری ’سقّہ‘ نام سے بھی جانی جاتی ہے، جو عربی زبان میں ’پانی ڈھونے والوں‘ یا ’گھڑے لے کر چلنے والوں‘ کو کہا جاتا ہے۔ راجستھان، اتر پردیش، ہریانہ، دہلی، مدھیہ پردیش، اور گجرات (یہاں اس برادری کو ’پکھالی‘ کے نام سے جانتا ہے) میں بھشتی کو دیگر پس ماندہ طبقہ کی فہرست میں رکھا گیا ہے۔
منظور بتاتے ہیں، ’’بھشتی، پانی پہنچانے کے کاروبار میں سرفہرست تھے۔ ممبئی کے الگ الگ علاقوں میں پانی کی ان کی ایسی ٹینکر گاڑیاں کھڑی ہوا کرتی تھیں۔ پانی پہنچانے کے لیے ہر ایک گاڑی کے ساتھ تقریباً ۸ سے ۱۲ لوگ کام کرتے تھے۔‘‘ وہ بتاتے ہیں کہ پرانی ممبئی میں کبھی عروج پر رہا بھشتیوں کا کاروبار جب ٹھنڈا پڑنے لگا، تو انہوں نے دوسرے روزگاروں کی تلاش کرنی شروع کر دی۔ بھولیشور میں، دھیرے دھیرے اتر پردیش اور بہار کے دیہی علاقوں سے آئے مہاجر مزدوروں نے ان کی جگہ لینی شروع کر دی۔
منظور ۱۹۸۰ کی دہائی میں بہار کے کٹیہار ضلع کے گچھّ رسول پور گاؤں سے ممبئی آئے تھے۔ اس کام میں آنے سے پہلے انہوں نے کچھ مہینوں تک ’وڑا پاؤ‘ کا ٹھیلہ لگایا۔ حالانکہ وہ پیدائشی طور پر بھشتی نہیں تھے، لیکن انہوں نے بھولیشور علاقے کے ڈونگری اور بھنڈی بازار میں پانی پہنچانے کا کام شروع کیا۔
منظور کہتے ہیں، ’’مجھے راجستھان کے ایک بھشتی، ممتاز نے نوکری پر رکھا اور اس کی ٹریننگ دی۔ اس کے پاس اُس وقت پانی کی چار گاڑیاں تھیں۔ ہر گاڑی الگ الگ محلے میں رکھی جاتی تھی، جہاں سے ۸-۷ لوگ مشکیزہ سے پانی دینے کا کام کرتے تھے۔‘‘
تقریباً پانچ سال تک ممتاز کے ساتھ کام کرنے کے بعد، منظور نے اپنا خود کا کام شروع کیا اور پانی کی ایک گاڑی کرایے پر لینے لگے۔ منظور کہتے ہیں، ’’یہاں تک کہ ۲۰ سال پہلے تک ہمارے پاس بہت سارا کام تھا۔ لیکن اب صرف چوتھائی کام رہ گیا ہے۔ ہمارے کاروبار کو سب سے زیادہ نقصان تب پہنچا، جب پانی کو پلاسٹک کی بوتلوں میں فروخت کیا جانے لگا۔‘‘ سال ۱۹۹۱ میں ہندوستانی اقتصادیات کے لبرلائزیشن کے بعد بوتل بند پانی کی صنعت کے تیزی سے عروج نے بھولیشور میں بھشتیوں کے کاروبار کو ایک طرح سے ہڑپ لیا۔ سال ۱۹۹۹ اور ۲۰۰۴ کے درمیان، ہندوستان میں بوتل بند پانی کی کل کھپت تین گنی ہو گئی۔ اس صنعت کا تخمینی کاروبار ۲۰۰۲ میں ۱۰۰۰ کروڑ روپے تھا۔
لبرلائزیشن نے کئی چیزوں کو بدل کر رکھ دیا، چھوٹے دکانوں کی جگہ بڑے شاپنگ مال نے لے لی، چال (جھونپڑی) کی جگہ بڑی عمارتیں بنا دی گئیں، اور موٹر سے چلنے والی پائپ کی مدد سے ٹینکروں سے پانی دیا جانے لگا۔ رہائشی عمارتوں سے پانی کی مانگ میں لگاتار کمی آنے لگی اور صرف چھوٹے کاروباری ادارے، جیسے کہ دکانیں اور کارخانے ہی مشکیزہ والوں پر منحصر رہ گئے تھے۔ منظور کہتے ہیں، ’’جو لوگ عمارتوں میں رہتے ہیں، انہوں نے ٹینکروں سے پانی مانگنا شروع کر دیا۔ لوگوں نے پانی کے لیے پائپ لائنوں کو لگوایا۔ اور اب شادیوں میں بوتل بند پانی دینے کا رواج ہو گیا ہے، لیکن پہلے ایسے موقعوں پر پانی دینے کا کام ہم لوگ کرتے تھے۔
وبائی مرض سے پہلے، منظور ہر مشکیزہ (تقریباً ۳۰ لیٹر پانی) کے لیے ۱۵ روپے کماتے تھے۔ اب، وہ ۱۵ لیٹر پانی کی بالٹی کے ۱۰ روپے پاتے ہیں۔ ہر مہینے انہیں پانی کی گاڑی کے لیے کرایے کے ۱۷۰ روپے دینے پڑتے ہیں، اور پانی بھر کر لانے پر انہیں ایک دن میں ۵۰ سے ۸۰ روپے خرچ کرنے پڑتے ہیں، جو پانی بھرنے کے ذریعہ پر منحصر ہے۔ مندر اور اسکول، جن کے بھی یہاں کنویں ہیں، وہ ان بھشتیوں کو پانی بیچتے ہیں۔ منظور تب کی اور اب کی (یعنی جب ان کا کاروبار اپنے عروج پر تھا اور اب جب اس کی کمر ٹوٹ چکی ہے) موازنہ کرتے ہوئے بتاتے ہیں، ’’پہلے ہمارے پاس کم از کم ۱۰ سے ۱۵ ہزار روپے بچ جاتے تھے، لیکن اب مشکل سے ۴ سے ۵ ہزار روپے بچ رہے ہیں۔‘‘
ان کے اکلوتے بزنس پارٹنر، ۵۰ سالہ عالم (جو صرف اپنا پہلا نام استعمال کرتے ہیں) بھی بہار سے ہیں۔ عالم اور منظور باری باری سے ۶-۳ مہینے ممبئی میں رہ کر کام کرتے ہیں، اور تب ان میں سے دوسرا آدمی گاؤں میں اپنی فیملی کے ساتھ رہتا ہے۔ گھر پر وہ اپنے کھیتوں کی دیکھ بھال کرتے ہیں یا زرعی مزدور کے طور پر کام کرتے ہیں۔
مارچ ۲۰۲۰ میں پورے ملک میں لاک ڈاؤن کے اعلان کے بعد، بھولیشور میں مشکیزہ والوں کے پاس صرف کچھ ہی گاہک (صارف) رہ گئے تھے۔ غور طلب ہے کہ یہ لاک ڈاؤن جون ۲۰۲۰ تک جاری رہا۔ باقی بچے گاہکوں میں وہ لوگ تھے، جو بہت چھوٹا کاروبار کرتے تھے۔ جو دن بھر کام کرتے تھے اور رات کو فٹ پاتھ پر سوتے تھے۔ لیکن بہت سی دکانیں بند ہو گئیں اور ان کے ملازمین واپس گھر چلے گئے۔ اس لیے، منظور اتنا پیسہ نہیں بچا سکے کہ وہ گھر پر اپنے پانچ بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے کچھ خرچ بھیج سکیں۔ سال ۲۰۲۱ کی شروعات میں وہ شہر کے حاجی علی علاقے میں ایک زیر تعمیر عمارت میں یومیہ ۶۰۰ روپے کی مزدوری پر ایک راج مستری کے ہیلپر (معاون) کے طور پر کام کرنے لگے۔
مارچ ۲۰۲۱ میں منظور واپس اپنے گاؤں، گچھّ رسول پور لوٹ گئے جہاں انہوں نے ۲۰۰ روپے یومیہ کی دہاڑی پر کھیتوں میں کام کیا۔ جتنے پیسے انہوں نے کمائے اس سے انہوں نے اپنے گھر کی مرمت کرائی۔ چار مہینے بعد، وہ واپس ممبئی آ گئے اور اس بار انہوں نے نل بازار میں مشکیزہ والے کے طور پر کام شروع کیا۔ لیکن ان کے چمڑے کے تھیلے (مشکیزہ) کو مرمت کی ضرورت تھی۔ عام طور پر ایک مشکیزہ کو ہر دو مہینے پر مرمت کی ضرورت پڑتی ہے۔ منظور مرمت کے لیے یونس شیخ کے پاس گئے۔
یونس، جن کی عمر ۶۰ سے ۷۰ سال کے درمیان ہے، اپنے معاش کے لیے بھنڈی بازار میں مشکیزہ بنانے اور اس کی مرمت کا کام کرتے ہیں۔ مارچ ۲۰۲۰ میں ہوئے لاک ڈاؤن کے چار مہینے بعد یونس اتر پردیش کے بہرائچ ضلع میں واقع اپنے گھر لوٹ گئے تھے۔ اسی سال دسمبر میں وہ دوبارہ ممبئی واپس آئے، لیکن ان کے پاس کچھ خاص کام نہیں تھا۔ ان کے علاقے میں صرف ۱۰ مشکیزہ والے رہ گئے تھے، اور کورونا وبائی مرض کے سبب ہوئے لاک ڈاؤن کے بعد، وہ لوگ انہیں ان کے کام کے بہت کم پیسے دے رہے تھے۔ نا امیدی کے درمیان، سال ۲۰۲۱ کی شروعات میں وہ ہمیشہ کے لیے بہرائچ واپس چلے گئے۔ ان کا کہنا ہے کہ اب ان کے پاس طاقت نہیں رہ گئی ہے کہ مشکیزہ کی مرمت کا کام کریں۔
پینتیس سالہ بابو نائر کے لیے اس کا مطلب یہ ہے کہ اب ان کے مشکیزہ اٹھانے کے دن چلے گئے۔ ’’میں نے اسے پھینک دیا، کیوں کہ اب اس کی مرمت نہیں ہو سکتی تھی۔‘‘ وہ اب بھنڈی بازار میں نواب ایاز مسجد کے آس پاس کی دکانوں میں پانی دینے کے لیے پلاسٹک کین کا استعمال کرتے ہیں۔ بابو نے بتایا، ’’چھ مہینے پہلے، ۶-۵ لوگ مشکیزہ کا استعمال کرتے تھے۔ لیکن یونس کے چلے جانے کے بعد، اب تمام لوگ بالٹی یا ہانڈہ استعمال کر رہے ہیں۔‘‘
اپنے چمڑے کے بیگ کی مرمت کے لیے کسی کو تلاش نہیں کر پانے کی وجہ سے منظور کو بھی پلاسٹک کی بالٹیوں کے استعمال کے لیے مجبور ہونا پڑا۔ منظور بتاتے ہیں، ’’یونس کے بعد، مَشک کی مرمت کرنے والا کوئی نہیں ہے۔‘‘ انہیں پانی سے بھری بالٹیاں لے کر سیڑھیوں پر چڑھنے میں پریشانی ہوتی ہے۔ مشکیزہ کے ساتھ آسانی ہوتی تھی، کیوں کہ اسے کندھے پر چڑھایا جا سکتا تھا اور اس میں زیادہ پانی لے جایا جا سکتا تھا۔ بابو کا اندازہ ہے، ’’بھشتی کے طور پر ہمارے کام کا یہ آخری دور ہے۔ اس میں پیسہ نہیں ہے۔ موٹر والی پائپوں نے ہمارا کام چھین لیا ہے۔‘‘
مترجم: محمد قمر تبریز