ناندیڑ کے مہور تعلقہ کے ساورکھیڈ گاؤں کے زیادہ تر لوگ کھل کر ہنستے یا مسکراتے نہیں ہیں۔ کسی اجنبی سے بات کرتے وقت اپنے منھ کو لے کر وہ زیادہ محتاط رہتے ہیں۔ ’’یہ پریشان کن ہے،‘‘ رامیشور جادھو کہتے ہیں۔ بات کرتے وقت آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ان کے تمام دانت بوسیدہ اور بدصورت ہیں، ان میں سے کچھ کے رنگ پیلے اور کچھ کے گہرے بھورے ہو چکے ہیں۔
تقریباً ۵۰۰ لوگوں کی آبادی والے اس ساور کھیڈ گاؤں میں یہ مسئلہ صرف رامیشور (۲۲) کے ساتھ ہی نہیں ہے، جو کہ ایک زرعی مزدور ہیں۔ یہاں کے تقریباً سبھی بالغ افراد کے دانت ایسے ہی جھڑ رہے ہیں۔ کئی افراد تو ایسے ہیں جو تنگ گلیوں اور ہرے بھرے کھیتوں سے گزرتے وقت لنگڑا کر یا پھر پوری طرح جھک کر دھیرے دھیرے چلتے ہیں۔ جو لوگ چل سکتے ہیں، انھیں تھوڑی تھوڑی دیر میں ٹھہر کر سانس لینا پڑتا ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ پورا گاؤں کسی اور زمانے میں دھیمی رفتار سے چل رہا ہے۔
یہ نقشہ زمین کے اندر، گاؤوں والوں کے پیروں کے نیچے جو کچھ موجود ہے، اس کی وجہ سے بنا ہے: یہاں کے زیر زمین پانی میں فلورائڈ ہے۔ یہ وہ کیمیاوی مادّہ ہے، جو مٹی، پتھروں اور زیر زمین پانی میں فطری طور پر موجود رہتا ہے۔ لیکن ایک جگہ جمع ہونے پر یہ کافی نقصاندہ ثابت ہو سکتا ہے۔ قومی صحت تنظیم کے مطابق، اگر ایک لیٹر پانی میں فلورائڈ کی مقدار ڈیڑھ ملی گرام سے زیادہ ہو، تو وہ پینے کے لیے خطرناک ہے۔ ساورکھیڈ میں جب سال ۱۳-۲۰۱۲ میں گراؤنڈ واٹر سرویز اینڈ ڈیولپمنٹ ایجنسی (جی ایس ڈی اے) نے فلورائڈ کی مقدار کی جانچ کی تو پایا کہ ایک لیٹر پانی میں یہ مقدار ساڑھے نو ملی گرام تھی۔
’’فلوروسس کی تشکیل کا انحصار پانی میں فلورائڈ کی مقدار پر ہے، اور اسی لیے اس کے آگے بڑھنے کا عمل الگ الگ ہوتا ہے،‘‘ ناندیڑ ٹاؤن کے ایک طبیب، ڈاکٹر آشیش اردھا پورکر بتاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر ایک بار دانتوں کا جھڑنا شروع ہو گیا، تو اسے واپس ٹھیک نہیں کیا جا سکتا۔ ’’لیکن بچے اس سے محفوظ رہتے ہیں۔ عقل داڑھ نکلنے کے بعد ہی انھیں دانت کے فلوروسس سے خطرہ ہو سکتا ہے، اور ہڈیوں کے فلوروسس کا خطرہ ہڈیوں کے بڑھنے کے بعد ہوتا ہے، جو کہ عام طور سے چھ سال کی عمر کے بعد ہوتا ہے۔‘‘
’’فلوروسس کی جانچ شروعاتی دنوں میں ہی کی جا سکتی ہے،‘‘ لاتور ٹاؤن کے دانتوں کے مشہور ڈاکٹر ستیش بے راجدار بتاتے ہیں۔ ’’اگر جانچ نہیں کی گئی، تو اس کے دور رس اثرات ہو سکتے ہیں۔ لوگ پوری طرح سے معذور ہو جاتے ہیں، ان کے دانت جھڑ جاتے ہیں۔ یہ جسم کی قوتِ مدافعت اور بیماریوں سے لڑنے کی مجموعی طاقت کو گھٹا دیتا ہے، جس سے دوسری بیماریوں کا خطرہ لاحق ہو جاتا ہے۔‘‘
لیکن ساورکھیڈ کے لوگوں کو یہ بات بہت دنوں تک پتہ ہی نہیں چلی۔ وہ سال ۲۰۰۶ تک اس آلودہ پانی کو پیتے رہے، جب ریاست نے ایک کنویں میں نل کا انتظام کر دیا۔ یہ کنواں تقریباً ایک کلومیٹر دور ہے، اور پورے گاؤں کی پینے کے پانی کی ضرورت کو ابھی بھی پورا نہیں کر پاتا ہے۔ دوسری طرف، آپ کو تقریباً ہر گھر کے دروازے پر ہینڈپمپ مل جائے گا جو بورویل میں لگا ہوا ہے۔ ’’ہمیں معلوم تھا کہ [ہینڈپمپ سے] ہم جس پانی کو پی رہے ہیں، وہ پوری طرح صاف نہیں ہے۔ لیکن کسی نے یہ نہیں بتایا تھا کہ یہ اتنا خطرناک ہے۔ لیکن جب آپ کو شدید پیاس لگی ہو، تو جو بھی مل جائے آپ اسے پی جاتے ہیں،‘‘ ۵۵ سالہ کسان اور زرعی مزدور مدھوکر جادھو کہتے ہیں۔
جب تک کہ لوگوں میں بیداری آتی، مدھوکر کی بہن انوشیا راٹھوڑ (سب سے اوپر کور فوٹو میں) کے لیے کافی دیر ہو چکی تھی۔ ’’اس کی شروعات [۳۰ سال پہلے] گھٹنوں میں درد سے ہوئی،‘‘ وہ بتاتی ہیں، ان کے سارے دانت جھڑ چکے ہیں۔ ’’اس کے بعد درد پورے جسم میں پھیلنے لگا۔ دھیرے دھیرے میری ہڈیوں کا سائز اور شکل بدل گئی، جس کی وجہ سے میں لنگڑانے لگی۔‘‘
جوڑوں میں جب درد شروع ہوا، تو فیملی کو یہ نہیں معلوم تھا کہ وہ جس پانی کو پی رہے ہیں اس کی وجہ سے یہ سب ہو رہا ہے۔ ’’ہم نے سوچا کہ یہ شاید کوئی عام بیماری ہے،‘‘ مدھوکر کہتے ہیں۔ ’’بعد میں، جب یہ خطرناک ہوگیا، تو ہم انھیں یوتمال، ناندیڑ اور کِنوَٹ کے کئی ڈاکٹروں کے پاس لے گئے۔ میں نے اس پر شاید ایک لاکھ روپے سے زیادہ خرچ کیا ہوگا، زیادہ تر پیسہ رشتہ داروں اور دوستوں سے قرض لے کر۔ لیکن علاج کا کوئی فائدہ نہیں ہوا اور میرے پاس مزید خرچ کرنے کے لیے پیسے نہیں تھے۔ آخر کار، ہم تھک ہار کر بیٹھ گئے...‘‘
پینے کے پانی اور صاف صفائی کی وزارت کے مطابق، مہاراشٹر میں تقریباً ۲۰۸۶ آبی وسائل فلورائڈ سے آلودہ ہیں، ساتھ ہی ان میں نائٹریٹ اور آرسینک بھی ہے – یہ دونوں بھی کافی نقصاندہ ہیں
انوشیا، جو عمر کے ۵۰ویں سال میں ہیں، اب اپنے پیروں پر کھڑی نہیں ہو سکتیں۔ وہ مشکل سے چل پھر پاتی ہیں، اور انھیں اپنے ہاتھوں کا استعمال اس لیے کرنا پڑتا ہے، کیوں کہ ہڈی دار پیر آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ مڑے رہتے ہیں۔ ان کی یہ حالت تقریباً ۱۰ برسوں سے ہے۔ ’’میں اپنی فیملی کے اوپر بوجھ بن چکی ہوں،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ ’’میں اپنے بھائی کے ساتھ رہتی ہوں، جو میری دیکھ بھال کرتا ہے۔ لیکن مجھے برا لگتا ہے کہ میں اس کے اور اس کی فیملی کے لیے کچھ نہیں کر پاتی۔‘‘
مدھوکر نے خود گزرتے ہوئے برسوں میں اپنے اندر کمزوری دیکھی ہے۔ ’’اگر میں کھیت پر ایک گھنٹہ کام کرتا ہوں، تو اس میں سے آدھا گھنٹہ آرام بھی کرتا ہوں۔ میری پیٹھ میں کافی درد رہتا ہے،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔ ’’حوائج ضروریہ میں بھی دقت پیش آتی ہے، کیوں کہ جسم کافی سخت ہو چکا ہے۔‘‘ مدھوکر اپنی چھ ایکڑ زمین پر کپاس، ارہر اور جوار کی کھیتی کرتے ہیں۔ وہ زرعی مزدور کے طور پر بھی کام کرتے ہیں۔ ’’مجھے کوئی اتنا پیسہ نہیں دیتا جتنا عام طور سے مزدوروں کو ملتا ہے [روزانہ تقریباً ۲۵۰ روپے]۔ اپنی صلاحیت کو نیچے جاتا دیکھ افسوس ہوتا ہے۔‘‘
پنکج مہالے کی فیملی نے بھی بہت علاج کرایا، لیکن وہ اپنے ۵۰ سالہ والد کو نہیں بچا سکے، جن کی موت چھ سال پہلے ہو گئی۔ ’’ان کو ہڈیوں کا فلوروسس تھا،‘‘ ۳۴ سالہ پنکج بتاتے ہیں۔ ’’وہ کمر سے جھکے ہوئے تھے۔ ہم انھیں ہڈیوں کے ماہر کے پاس لے گئے، ناندیڑ اور یہاں تک کہ ناگپور کے ڈاکٹروں تک کے پاس لے گئے۔ لیکن انھوں نے بتایا کہ میرے والد کی ہڈیاں اتنی سخت ہو چکی ہیں کہ اگر انھیں ہلکا سا بھی جھٹکا لگا تو وہ زمین پر گر پڑیں گے۔ انھوں نے میرے والد کو کیلشیم کی دوائیں دیں، جن پر ماہانہ ۳۰۰۰ روپے خرچ آتا تھا۔ انھیں مختلف جگہوں کے ڈاکٹروں کے پاس لے جاتے وقت، ہمیں پرائیویٹ کار کرایے پر لینی پڑتی تھی۔ جب ان کا انتقال ہوا، تو یہ اخراجات لاکھوں میں پہنچ چکے تھے۔ ضلع انتظامیہ نے کوئی بھی مفت طبی مدد فراہم نہیں کی۔‘‘
تو آخر ساورکھیڈ کے پانی میں حد سے زیادہ فلورائڈ کہاں سے آیا؟ اس خطہ میں فلوروسس کی بنیادی وجہ قحط ہے۔ کئی دہائیوں سے یہاں کے کسان آبپاشی، کپڑا دھونے اور نہانے کے لیے زیر زمین پانی کو نکالنے کے لیے بورویل کی کھدائی کرتے رہے ہیں۔ لیکن، خشک زدہ مراٹھواڑہ میں چونکہ پانی کی کمی میں گزشتہ دو عشروں میں لگاتار اضافہ ہوتا رہا، لہٰذا انھوں نے زیر زمین پانی کو پینا بھی شروع کر دیا۔ زیر زمین پانی کے کچھ ذرائع میں فلورائڈ موجود ہے، لیکن بورویل کی کھدائی جتنی گہری کی جائے گی پانی میں فلورائڈ کی مقدار میں اتنا ہی اضافہ کا امکان رہے گا۔ اس کے علاوہ، کھاد، حشرہ کش دوائیں، نالے، صنعتوں سے نکلنے والی آلودگی اور زیر زمین پانی کی سطح میں کمی کی وجہ سے بھی فلورائڈ بڑی مقدار میں جمع ہوتا رہا۔
بورویل کی کھدائی یوں تو ۲۰۰ فٹ سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے (مہاراشٹر کے ۲۰۰۹ کے گراؤنڈ واٹر ایکٹ کے مطابق)، لیکن مراٹھواڑہ میں بورویل کی کھدائی ۵۰۰ فٹ یا اس سے زیادہ گہرائی میں کی جاتی ہے۔ بورویل کی تعداد اور گہرائی کی نگرانی کے بغیر، اور ٹھیک سے بارش نہ ہونے کے سبب پانی کی ضروریات میں اضافہ اور نقدی فصلوں کی جانب منتقلی کی وجہ سے، اس خطہ کے کسان بے صبری سے گہری سے گہری کھدائی کرتے چلے جاتے ہیں، جب تک کہ انھیں پانی نہ مل جائے۔
اور اگر ساورکھیڈ کی طرح کوئی گاؤں بدقسمت نکلا، جہاں بورویل کھودنے کے بعد پانی میں فلورائڈ کی مقدار زیادہ ہوئی، تو یہ کیمیکل دھیرے دھیرے لوگوں کے جسم کے اندر داخل ہو جاتا ہے – ۲۰۱۱ کی مردم شماری میں، ساورکھیڈ کے کل ۵۱۷ لوگوں میں سے ۲۰۹ کی درجہ بندی ’’نہ کام کرنے والے‘‘ کے طور پر کی گئی۔ اور فلورائڈ کی روک تھام اور کنٹرول کے لیے قومی پروگرام کی رپورٹ میں لکھا ہے کہ (۲۰۱۳ تک) ناندیڑ میں ۳۷۱۰ لوگوں کو دانتوں کا فلوروسس، اور ۳۸۹ کو ہڈیوں کا فلوروسس تھا۔
مقامی صحافی دھرم راج ہلیالے، جن کی اس بحران پر گہری نظر رہی ہے، کہتے ہیں کہ ساورکھیڈ میں سال ۲۰۰۶ میں نل سے پانی کا انتظام کیے جانے کے بعد بھی، چار سالوں تک اس نل نے کام ہی نہیں کیا۔ ’’بجلی ہی نہیں رہتی تھی،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔ ’’اس لیے پمپ کام نہیں کرتا تھا۔ میں نے ڈسٹرکٹ کلکٹر اور ریاستی حکومت کو خط لکھا۔ میں نے ایک مہینہ تک اس پر نظر رکھی، تب جا کر اسے سال ۲۰۱۰ میں ٹھیک کیا گیا۔‘‘ ہلیالے نے پوری ریاست – اور [کل ۳۶ ضلعوں میں سے] جن ۲۵ ضلعوں میں آبی وسائل میں کسی نہ کسی حد تک فلورائڈ شامل ہوگیا تھا، ان کے بارے میں جانکاری حاصل کرنے کے لیے آر ٹی آئی (حق اطلاع) درخواست ڈالی۔
ڈیٹا کے ذریعہ کے حساب سے یہ تعداد الگ الگ ہے۔ پینے کے پانی اور صاف صفائی کی وزارت کے مطابق، سال ۱۷-۲۰۱۶ میں، مہاراشٹر کے اندر ۲۰۸۶ آبی وسائل فلورائڈ سے آلودہ تھے، اور اس میں نائٹریٹ اور آرسینک بھی شامل تھا – یہ دونوں بھی کافی نقصاندہ ہیں۔ بعد کے برسوں میں یہ تعداد کم ہوتی چلی گئی – سال ۱۳-۲۰۱۲ میں یہ تعداد ۴۵۲۰ تھی۔ کلکٹر کے ذریعہ نیشنل گرین ٹربیونل (این جی ٹی) میں اگست ۲۰۱۴ میں داخل کیے گئے حلف نامہ کے مطابق، ۳۸۳ گاؤوں کے آبی وسائل میں فلورائڈ کی مقدار منظور شدہ حد کے مطابق تھی، جن میں سے ۲۵۷ گاؤوں کو متبادل آبی وسائل فراہم کرائے گئے۔ حالانکہ سال ۱۶-۲۰۱۵ میں، جی ایس ڈی اے نے ناندیڑ کے ۴۶ گاؤوں کی درجہ بندی فلوروسس سے متاثر کے طور پر کی، اور دعویٰ کیا کہ ان میں سے صرف چار کا ہی علاج کرنا باقی رہ گیا ہے۔
اسیم سروڈے کی قیادت میں نو وکیلوں کی ایک ٹیم کے ذریعہ اس بات کی شکایت کیے جانے کے بعد کہ گاؤوں والوں کو فلورائڈ پانی پینے پر مجبور کیا جا رہا ہے، ۱۱ جنوری، ۲۰۱۶ کو این جی ٹی نے جی ایس ڈی اے کے ساتھ ساتھ مہاراشٹر کے ۱۲ ضلعوں کے کلکٹروں کو ہدایت دی کہ وہ دیگر اقدامات کے علاوہ، پانی کے معیار کی جانچ کریں اور ضلع وار جانکاری شائع کریں؛ متبادل آبی وسائل مہیا کریں؛ اور مریضوں کو مفت میں طبی سہولیات مہیا کرائیں۔ اس ہدایت کو نظر انداز کرنے پر، این جی ٹی نے ۲۸ نومبر، ۲۰۱۷ کو ۱۲ ڈسٹرکٹ کلکٹرس کے خلاف وارنٹ جاری کیا، جس میں ناندیڑ، چندراپور، بیڈ، یوتمال، لاتور، واشم، پربھنی، ہِنگولی، جالنہ اور جلگاؤں کے ڈسٹرکٹ کلکٹر بھی شامل تھے۔
دریں اثنا، ساورکھیڈ سے تقریباً ۲۰۰ کلومیٹر دور، سُنے گاؤں (سانگوی) میں ایک کنواں ہے، جو پہلے نہیں تھا۔ سال ۲۰۰۶ میں لِمبوتی باندھ کی تعمیر کے بعد، لاتور کے احمد پور تعلقہ میں ۶۳۰ لوگوں کی آبادی والے گاؤں کے قریب ایک جھیل بن گئی۔ اس کی وجہ سے پانی کے رساؤ میں اضافہ ہوا، اور جب انھوں نے ۲۰۰۷ میں کنویں کی کھدائی کی، تو انھیں پانی آسانی سے مل گیا۔
لیکن تب تک، ۳۰ سالہ سُکیش دھاولے ۲۰ برسوں تک فلورائڈ آلودہ زیر زمین پانی پی چکے تھے، اور ساورکھیڈ کے لوگوں کی طرح ہی ان کی صحت بھی خراب ہونے لگی تھی۔ ’’مجھے ہمیشہ یہ محسوس ہوتا ہے کہ میرے دانتوں میں کوئی تہ ہے،‘‘ زرعی مزدور، سُکیش بتاتے ہیں، درخت کے نیچے سے کھڑا ہوتے وقت ان کی ہڈیوں کے جوڑ زور سے آواز کر رہے ہیں۔ ’’یہ تہ کچھ دنوں بعد جھڑ جاتی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی دانت کا کچھ حصہ بھی جھڑتا ہے۔ میں کوئی سخت چیز نہیں کھا سکتا۔ میری ہڈیوں کے جوڑ بھی درد کرتے ہیں، میں زیادہ دیر تک کام نہیں کر سکتا۔‘‘
سُنے گاؤں (سانگوی) سے تقریباً آٹھ کلومیٹر دور، احمد پور میں واقع جی ایس ڈی اے لیباریٹری میں، وہاں کے انچارج ہماری درخواست پر، کمپیوٹر پر فلوروسس سے متاثرہ گاؤوں کی فہرست تلاش کرتے ہیں؛ لاتور ضلع میں ایسے ۲۵ گاؤوں کی فہرست میں، پاس کا ایک گاؤں، سُنے گاؤں شینڈری بھی شامل ہے۔ سُنے گاؤں شینڈری کے ۳۵ سالہ گووند کالے، جو میرے ساتھ ہیں، بتاتے ہیں، ’’ہم تقریباً ایک سال سے زیر زمین پانی پی رہے ہیں۔ گاؤں کا عام کنواں کام نہیں کر رہا ہے۔ پورا گاؤں بورویل کا پانی پی رہا ہے۔ کوئی بھی اس کے بارے میں کچھ کیوں نہیں کر رہا ہے؟ ہمیں اس کے بارے میں پہلے سے آگاہ کیوں نہیں کیا گیا؟‘‘
آندھرا پردیش کے نلگونڈہ گاؤں (اب تلنگانہ میں ہے) میں سب سے پہلے اس مسئلہ کے اجاگر ہونے کے ۸۰ سال بعد بھی ایسا لگتا ہے کہ کسی نے کوئی سبق نہیں لیا – حالانکہ اس پر اب کریپلڈ لائیوز (رینگتی زندگی) کے عنوان سے ایک ڈاکیومنٹری بھی بن چکی ہے۔
(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)