ایلّپّن حیران ہیں اور تھوڑا غصے میں بھی ہیں۔
’’ہمارا تعلق سمندری ساحل پر رہنے والی کسی ماہی گیر برادری سے نہیں ہے۔ پھر ہمیں سیمبانند ماراوَر یا گوسانگی کے طور پر کیوں پہچانا جاتا ہے؟‘‘
’’ہم شولگا ہیں،‘‘ تقریباً ۸۲ سال کے بزرگ دعوے کے ساتھ کہتے ہیں۔ ’’سرکار ہم سے ثبوت چاہتی ہے۔ ہم یہیں رہتے آئے ہیں، کیا یہ ثبوت کافی نہیں ہے؟ آدھار انٹے آدھار یلّنڈا ترلی آدھار؟ [ثبوت! ثبوت! ان کی یہی رٹ ہے]۔‘‘
تمل ناڈو کے مدورئی ضلع کے سکّی منگلم گاؤں میں رہنے والے ایلپن کی برادری کے لوگ سڑکوں پر گھوم گھوم کر پیٹھ پر کوڑے مارنے کا تماشہ دکھاتے ہیں، اور مقامی طور پر چاتئی برادری کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ لیکن مردم شماری میں انہیں سیمبانند ماراور کے نام سے درج کیا گیا ہے، اور انتہائی پس ماندہ طبقہ (ایم بی سی) میں رکھا گیا ہے۔
وہ مزید کہتے ہیں، ’’مردم شماری سے وابستہ اہلکار آتے ہیں، ہم سے کچھ سوال کرتے ہیں اور پھر اپنی مرضی سے ہمیں فہرست میں درج کر لیتے ہیں۔‘‘
ایلپن اُن ۱۵ کروڑ ہندوستانیوں (تخمینی) میں سے ایک ہیں جن کی غیر مناسب طریقے سے نشاندہی اور زمرہ بندی کی گئی ہے۔ ان میں سے کئی برادریوں کو برطانوی دور حکومت میں نافذ کرمنل ٹرائبس ایکٹ، ۱۸۷۱ کے تحت ’خاندانی مجرم‘ قرار دے دیا گیا تھا۔ اس قانون کو بعد میں ۱۹۵۲ میں ردّ کر دیا گیا اور ان برادریوں کو ڈی- نوٹیفائیڈ ٹرائبس (ڈی این ٹی) یا خانہ بدوش قبائل کے طور پر درج فہرست کر دیا گیا۔
قومی کمیشن برائے ڈی نوٹیفائیڈ خانہ بدوش اور نیم خانہ بدوش قبائل کے ذریعے ۲۰۱۷ میں جاری ایک سرکاری رپورٹ میں کہا گیا ہے، ’’زیادہ تر معاملوں میں سب سے ادھورے اور سب سے خراب – ان کی سماجی حالت کو اسی زبان میں بیان کیا جا سکتا ہے۔ وہ سماجی مراتب میں سب سے نچلے پائیدان پر ہیں اور آج بھی انھیں بدگمانیوں کا سامنا کر رہے ہیں جو ان کے خلاف نوآبادیاتی حکومت کے دوران شروع ہوئی تھیں۔‘‘
بعد میں ان میں سے کچھ برادریوں کو درج فہرست ذات (ایس ٹی)، درج فہرست قبائل (ایس سی) اور دیگر پس ماندہ طبقہ (او بی سی) جیسے زمروں میں درج کر دیا گیا۔ لیکن ۲۶۹ برادریوں کو آج تک کسی بھی فہرست میں نہیں رکھا جا سکا ہے۔ یہ انکشاف بھی ۲۰۱۷ کی رپورٹ میں ہی ہوا ہے۔ یہ ان برادریوں کو تعلیم اور روزگار، زمین کی تقسیم، سیاسی اور سرکاری نوکریوں میں حصہ داری اور ریزرویشن جیسے فلاحی آئینی اقدام سے محروم رکھتی ہے۔
ان برادریوں میں ایلپن کی شولگا برادری کے علاوہ، سرکس کے اداکار، قسمت بتانے والے، سنپیرے، مصنوعی زیورات، تعویذ اور موتی بیچنے والے، روایتی جڑی بوٹیاں بیچنے والے، رسیوں پر کرتب دکھانے والے اور سانڈوں کو سینگ سے پکڑنے والے لوگ شامل ہیں۔ وہ خانہ بدوشوں کی زندگی بسر کرتے ہیں اور ان کے روزگار کا کوئی مستقل ذریعہ نہیں ہے۔ وہ اب بھی بھٹکنے کے لیے مجبور ہیں اور اپنی آمدنی کے لیے ہر دن نئے لوگوں کی مہربانیوں پر منحصر ہیں۔ لیکن اپنے بچوں کو پڑھانے کے لیے انہوں نے اپنا ایک ٹھکانہ ضرور بنا رکھا ہے، جہاں وہ وقتاً فوقتاً جاتے رہتے ہیں۔
مردم شماری کے مطابق، تمل ناڈو میں پیرومل مٹّو کرن، ڈومّارا، گڈوگڈوپانڈی اور شولاگ برادریوں کو ایس سی، ایس ٹی اور ایم بی سی زمروں میں رکھا گیا ہے۔ ان کی خاص پہچان کی اندیکھی کرتے ہوئے انہیں آدیئن، کٹونائکن اور سیمبانند ماراور برادریوں میں رکھا گیا ہے۔ کئی دوسری ریاستوں میں بھی متعدد برادریوں کو اسی طرح غلط طریقے سے درج فہرست کیا گیا ہے۔
پانڈی کہتے ہیں، ’’اگر پڑھائی اور نوکری میں ریزرویشن نہیں ملا، تو ہمارے بچے دوسروں کے مقابلے کہیں نہیں ٹک پائیں گے۔ ہم سے یہ امید کرنا کہ کسی مدد کے بغیر ہم دوسری برادریوں [غیر ڈی این ٹی اور این ٹی] کے درمیان آگے بڑھ پائیں گے، کسی بھی طرح سے ٹھیک نہیں۔‘‘ وہ پیرومل مٹوکرن برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کی برادری کے لوگ سجے ہوئے بیل کو لے کر گھومتے ہیں، اور لوگوں کے گھر گھر جا کر ملنے والی خیرات سے گزر بسر کرتے ہیں۔ اس برادری کو بوم بوم مٹوکرن کے نام سے بھی جانا جاتا ہے اور اس کے رکن خیرات ملنے کے بدلے لوگوں کو ان کی قسمت بتاتے ہیں، اور بھجن سناتے ہیں۔ سال ۲۰۱۶ میں درج فہرست قبیلہ کا درجہ ملنے کے بعد وہ آدیئن برادری میں شامل کر لیے گئے۔ وہ اس بات سے مطمئن نہیں ہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ لوگ انہیں پیرومل مٹوکرن کے نام سے پہچانیں۔
پانڈی جب ہم سے بات کر رہے ہوتے ہیں، تبھی ان کا بیٹا دھرمادورئی گھر لوٹتا ہے۔ اس نے اپنے ہاتھ میں ایک خوبصورتی سے سجائے ہوئے بیل کو رسی سے پکڑ رکھا ہے۔ کندھے پر اس کا تھیلا لٹکا ہوا ہے، جس میں وہ خیرات میں ملی چیزیں رکھتا ہے، اور کہنی میں دبا کر جس موٹی سی کتاب کو اس نے پکڑ رکھا ہے، اس کے سرورق پر لکھا ہے – ’پریکٹیکل ریکارڈ بک‘۔
دھرمادورئی، مدورئی کے سکّی منگلم میں گورنمنٹ ہائی اسکول میں ۱۰ویں کلاس کا طالب علم ہے۔ بڑا ہو کر وہ ضلع کلکٹر بننا چاہتا ہے، اور اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے اس کا اسکول میں رہنا ضروری ہے۔ اس لیے، جب اسے اپنے اسکول کے لیے سات کتابیں خریدنے کی ضرورت ہوئی، اور اس کے والد پانڈی کے ذریعے دیے گئے ۵۰۰ روپے اس کی ساتویں کتاب کو خریدنے کے لیے کم پڑ گئے، تب دھرمادورئی نے خود ہی ان پیسوں کا انتظام کرنے کا فیصلہ کیا۔
’’میں اس سجے ہوئے بیل کو لے کر نکل پڑا۔ تقریباً ۵ کلومیٹر تک گھومنے کے بعد میں نے ۲۰۰ روپے جمع کر لیے۔ انھیں پیسوں سے میں نے یہ کتاب خریدی ہے،‘‘ وہ بتاتا ہے۔ اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے کی گئی اس محنت کی خوشی اس کے چہرے پر صاف جھلکتی ہے۔
تمل ناڈو میں ڈی این ٹی برادریوں کی تعداد سب سے زیادہ (۶۸) ہے، اور این ٹی برادریوں کی نقطہ نظر سے یہ دوسرے (۶۰) نمبر پر آتا ہے۔ اور اس لیے، پانڈی کو ایسا نہیں لگتا ہے کہ دھرمادورئی کو یہاں بہتر تعلیم مل سکے گی۔ ’’ہمارا مقابلہ بہت سی دوسری برادریوں کے لوگوں کے ساتھ ہے،‘‘ ان کا اشارہ ان برادریوں کی طرف ہے جنہیں بہت پہلے سے درج فہرست قبیلہ کا درجہ ملا ہوا ہے۔ تمل ناڈو میں تعلیمی اداروں اور نوکری میں ۶۹ فیصد سیٹیں پس ماندہ طبقہ (بی سی)، انتہائی پس ماندہ طبقہ (ایم بی سی)، ونّیار، ڈی این ٹی، ایس سی اور ایس ٹی برادریوں کے لیے ریزرو ہیں۔
*****
’’ہم جس بھی گاؤں سے ہو کر گزرتے ہیں وہاں اگر کچھ کھو جائے، تو سب سے پہلے ہمیں قصوروار ٹھہرایا جاتا ہے۔ مرغیاں ہوں، زیورات ہوں یا کپڑے – کسی بھی چیز کی چوری کے لیے ہمیں ہی مجرم مان لیا جاتا ہے، ہمیں ہی سزا دی جاتی ہے اور ہمیں ہی مارا پیٹا اور بے عزت کیا جاتا ہے،‘‘ تقریباً ۳۰ سال کے مہاراجہ کہتے ہیں۔
آر مہاراجہ کا تعلق ڈومّار برادری سے ہے اور وہ سڑکوں پر کرتب دکھاتے ہیں۔ شیو گنگا ضلع کے من مدورئی میں اپنی فیملی کے ساتھ ایک بنڈی (عارضی کارواں) میں رہتے ہیں۔ ان کے ڈیرہ میں ۲۴ کنبے رہتے ہیں اور مہاراجہ کا گھر ایک تین پہیوں والی گاڑی ہے۔ اس گاڑی کو پیک کر کے فیملی اور ان کے سامانوں کے لیے ایک سواری گاڑی کے طور پر بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ان کے تمام گھریلو اور تماشہ دکھانے کے ساز و سامان – مثلاً چٹائی، تکیے اور ایک کیروسن تیل سے جلنے والے چولہے کے ساتھ ساتھ ایک میگا فون، آڈیو کیسٹ پلیئر، سلاخیں اور رنگ (جن کا استعمال وہ کرتب دکھانے کے دوران کرتے ہیں) – بھی ان کے ساتھ ہی چلتے ہیں۔
’’میں اور میری بیوی گوری صبح صبح اپنی بنڈی سے نکل پڑتے ہیں۔ ہم تیروپتّور پہنچتے ہیں، جو یہاں سے نکلنے کے بعد آنے والا پہلا گاؤں ہے، اور تلیور (گاؤں کے پردھان) سے گاؤں کے باہری علاقے میں اپنا ڈیرہ ڈالنے اور گاؤں میں اپنا تماشہ دکھانے کی اجازت لیتے ہیں۔ ہم ان سے اپنے لاؤڈ اسپیکر اور مائکرو فون کے لیے بجلی کا کنکشن دینے کی درخواست بھی کرتے ہیں۔‘‘
اور، پھر شام کو ۴ بجے کے آس پاس ان کا تماشہ شروع ہوتا ہے۔ سب سے پہلے گھنٹہ بھر تک کرتب پیش کیے جاتے ہیں، اور اس کے بعد ایک گھنٹہ تک گانوں کی ریکارڈنگ پر فری اسٹائل ڈانس کا پروگرام چلتا ہے۔ کھیل ختم ہونے کے بعد وہ گھوم گھوم کر ناظرین سے پیسے دینے کی اپیل کرتے ہیں۔
نوآبادیاتی دور میں ڈومّاروں کو کرمنل ٹرائب کے طور پر نشان زد کیا گیا تھا۔ حالانکہ، اب انہیں اس سے آزاد کر دیا گیا، ’’وہ ابھی بھی ایک مسلسل خوف کی حالت میں رہتے ہیں۔ آئے دن ان کے پولیس کی زیادتیوں اور بھیڑ کے حملوں کا نشانہ بننے کی خبریں سننے کو ملتی ہیں،‘‘ ایسا عوامی حقوق کے لیے کام کرنے والی مدورئی کی این جی او ’ٹینٹ‘ (دی امپاورمنٹ سنٹر آف نومیڈز اینڈ ٹرائبس) سوسائٹی کی سکریٹری آر مہیشوری کہتی ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ درج فہرست ذات اور درج فہرست قبائل کے خلاف ظلم کی روک تھام کے قانون نے بھلے ہی درج فہرست ذاتوں اور قبائل کو تفریق اور تشدد کے خلاف قانونی تحفظ فراہم کیا ہو، لیکن متعدد کمیشن اور ان کی رپورٹوں کے ذریعے فراہم کی گئی تجاویز کے بعد بھی ڈی این ٹی اور این ٹی جیسی کمزور برادریوں کے لیے کسی طرح کے آئینی اور قانونی تحفظ کا انتظام نہیں ہے۔
مہاراجہ بتاتے ہیں کہ ڈومّار اداکار کئی بار اپنے گھر لوٹنے سے پہلے سال بھر گھومتے رہتے ہیں۔ ’’جس دن بارش ہو جاتی ہے یا پولیس ہمارے تماشہ میں رخنہ ڈالتی ہے، اس دن ہم کچھ بھی نہیں کماتے ہیں،‘‘ گوری بتاتی ہیں۔ اگلے دن وہ اپنی بنڈی کو کسی دوسرے گاؤں لے جاتے ہیں۔ اپنے سفر کے لیے وہ ایک ہی گاؤں اور راستے سے ہو کر کئی بار گزرتے ہیں۔
ان کے ۷ سال کے بیٹے، منی مارن کی اسکولی تعلیم برادری کے لوگ مشترکہ طور پر سنبھالتے ہیں۔ ’’ایک سال بچوں کی دیکھ بھال کرنے کے لیے میرے بھائی کی فیملی ہمارے گھر پر رہی۔ کبھی کبھی میرے چچا بچوں کی دیکھ بھال کرتے ہیں،‘‘ وہ کہتے ہیں۔
*****
اپنے شاندار دنوں میں رکمنی کے کرتب دیکھ کر ناظرین حیران رہ جاتے تھے۔ وہ اپنے بال سے باندھ کر بھاری وزن کا پتھر اٹھا سکتی تھیں، اور لوہے کی سلاخیں موڑ سکتی تھیں۔ آج بھی وہ آگ کی مدد سے کیے جانے والے اپنے خطرناک کرتبوں سے اچھی خاصی بھیڑ اکٹھا کر لیتی ہیں۔ ان کھیلوں میں چھڑی کو گھمانے، اسپننگ اور کئی دوسرے تماشے شامل ہیں۔
سڑکوں پر کرتب دکھانے والی ۳۷ سال کی اداکار رکمنی ڈومار برادری کی رکن ہیں اور تمل ناڈو کے شیو گنگا ضلع کے من مدورئی میں رہتی ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ انہیں غلط جملے سے بار بار پریشان کیا جاتا ہے۔ ’’ہم گاڑھا میک اپ کرتے ہیں اور بھڑکیلے رنگین کپڑے پہنتے ہیں، جس کا مرد غلط مطلب نکالتے ہیں۔ ہمارے جسم کو بری نیت سے چھونے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ہم سے بھدے الفاظ کہتے ہیں، اور اپنا ’دام‘ بتانے کے لیے بھی کہا جاتا ہے۔‘‘
پولیس بھی ان کی مدد نہیں کرتی ہے۔ جن مردوں کے خلاف وہ شکایت کرتی ہیں وہ خود کو بے عزت محسوس کرتے ہیں، اور رکمنی کے مطابق، ’’وہ ہمارے خلاف ہی چوری کا معاملہ درج کر دیتے ہیں، اور اس پر کارروائی کرتے ہوئے پولیس ہمیں بند کر دیتی ہے اور پیٹتی ہے۔‘‘
سال ۲۰۲۲ میں اس این ٹی برادری، جسے مقامی لوگ کئی کوٹاڈیگل کہتے ہیں، کو درج فہرست ذات کے طور پر فہرست میں شامل کیا گیا۔
سابقہ ڈی این ٹی اور این ٹی کے مقابلے رکمنی کے تجربات الگ نہیں ہیں۔ حالانکہ، کرمنل ٹرائب ایکٹ کو منسوخ کر دیا گیا، لیکن کچھ ریاستوں نے اس کی جگہ عادتاً مجرم قانون بنایا، جو یکساں رجسٹریشن اور نگرانی کے عمل پر مبنی ہے۔ دونوں میں واحد فرق یہی ہے کہ پہلے کی طرح اب پوری برادری کو نہیں، بلکہ مخصوص آدمی کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔
برادری اس گاؤں میں عارضی خیموں، اینٹ گارے کے بنے سہولت سے عاری کمروں اور قافلوں میں رہتی ہے۔ رکمنی کی پڑوسن، ۶۶ سالہ سیلوی بتاتی ہیں کہ انہیں جنسی تشدد کا شکار ہونا پڑا ہے۔ سڑک پر کرتب دکھانے والی اداکار سیلوی کہتی ہیں، ’’گاؤں کے مرد رات میں ہمارے خیموں میں داخل ہوتے ہیں اور ہمارے بغل میں لیٹ جاتے ہیں۔ ہم اس لیے گندی رہتی ہیں، تاکہ وہ ہم سے دور رہیں۔ ہم اپنے بال میں کنگھی نہیں کرتیں، نہ نہاتی اور صاف کپڑے پہنتی ہیں۔ اس کے بعد بھی بدمعاش اپنی کارستانیوں سے باز نہیں آتے۔‘‘ سیلوی دو بیٹوں اور دو بیٹیوں کی ماں ہیں۔
’’جب ہم سفر میں رہتے ہیں، تب ہم اتنے گندے دکھائی دیتے ہیں کہ آپ ہمیں پہچان نہیں پائیں گے،‘‘ سیلوی کے شوہر رتینم کہتے ہیں۔
برادری کی ۱۹ سالہ نوجوان لڑکی تَیَمّا، سَنّتی پڈوکولم کے گورنمنٹ ہائر سیکنڈری اسکول میں ۱۲ویں کلاس میں پڑھتی ہے۔ اپنے قبیلہ میں اسکول کی تعلیم مکمل کرنے والی وہ پہلی لڑکی ہوگی۔
حالانکہ، مستقبل میں کالج میں کمپیوٹر کی پڑھائی کرنے کے ان کے خواب کو شاید ان کے والدین کی منظوری نہ مل پائے۔
’’ہمارے جیسی برادری کی لڑکیوں کے لیے کالج محفوظ جگہ نہیں ہے۔ اسکول میں ’سرکس پودروا ایوا‘ [سرکس کے اداکار] کہہ کر ان کا مذاق اڑایا جاتا ہے اور ان کے ساتھ بھید بھاؤ کیا جاتا ہے۔ کالج میں ان کے ساتھ اور بھی برا ہو سکتا ہے۔‘‘ ان کی ماں لکشمی اس بارے میں آگے سوچتے ہوئے کہتی ہیں، ’’اور انہیں داخلہ بھی کون دے گا؟ اگر داخلہ مل بھی گیا، تو ہم اس کی فیس کیسے بھریں گے؟‘‘
’ٹینٹ‘ کی مہیشوری بتاتی ہیں کہ اسی لیے اس برادری کی لڑکیوں کی شادی کم عمر میں ہی کر دی جاتی ہے۔ ’’اگر جنسی تشدد، عصمت دری اور ناجائز حمل جیسا کوئی غلط حادثہ ہوتا ہے، تو برادری کے اندر ہی ان کا بائیکاٹ کر دیا جاتا ہے اور ان کی شادی کے امکانات ختم ہو جاتے ہیں،‘‘ سیلوی بتاتی ہیں۔
اس طرح سے ان برادریوں کی عورتیں دوہری مار جھیلتی ہیں – نہ صرف ان کی برادریوں کو تفریق کا شکار ہونا پڑتا ہے، بلکہ عورت ہونے کی وجہ سے انہیں جنسی تفریق کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔
*****
تین بچوں کی ماں ۲۸ سالہ ہمساولّی کہتی ہیں، ’’جب میں ۱۸ سال کی تھی، تبھی میری شادی کر دی گئی تھی۔ میں پڑھی لکھی نہیں ہوں، اس لیے مجھے مستقبل کی پیشن گوئی کرنے کا پیشہ اختیار کرنا پڑا۔ لیکن میں نہیں چاہتی کہ آنے والی نسلوں کو بھی یہ کام کرنا پڑے۔ یہی وجہ ہے کہ میں اپنے سبھی بچوں کو اسکول بھیجتی ہوں۔‘‘
وہ گڈوگڈوپانڈی برادری سے تعلق رکھتی ہیں اور مدورئی ضلع کے گاؤوں میں لوگوں کی قسمت بتاتی ہوئی گھومتی رہتی ہیں۔ ایک دن میں وہ موٹے طور پر ۵۵ گھروں میں جاتی ہیں۔ اس سلسلے میں وہ وسطی تمل ناڈو کی ۴۰ ڈگری والے اونچے درجہ حرارت میں تقریباً ۱۰ کلومیٹر روزانہ پیدل چلتی ہیں۔ سال ۲۰۰۹ میں ان کی بستی میں رہنے والے لوگوں کو کٹونائکن، یعنی ایک درج فہرست قبیلہ کے طور پر زمرہ بند کر دیا گیا تھا۔
مدورئی شہر کی بستی جے جے نگر کے اپنے گھر میں وہ بتاتی ہیں، ’’ان گھروں میں رہتے ہوئے ہمیں کچھ کھانا اور کبھی کچھ اناج مل جاتا ہے۔ کبھی کبھی کوئی ہمیں ایک یا دو روپیے بھی دے دیتا ہے۔‘‘ جے جے نگر، مدورئی ضلع کے تیروپرن کندرم شہر میں تقریباً ۶۰ کنبوں کی ایک بستی ہے۔
گڈوگڈوپانڈی برادری کی اس بستی میں نہ تو بجلی کا کنکشن ہے اور نہ صفائی کی سہولت۔ لوگ بستی کے آس پاس کی گھنی جھاڑیوں میں رفع حاجت کرنے جاتے ہیں، اس لیے سانپ کاٹنے کا واقعہ ایک عام بات ہے۔ ہمساولّی بتاتی ہیں، ’’یہاں اتنے لمبے سانپ ملتے ہیں، جو کنڈلی مار کر بیٹھنے کے باوجود میری کمر کی اونچائی تک پہنچ سکتے ہیں۔‘‘ جب بارش میں ہمارے ٹینٹ ٹپکنے لگتے ہیں، تب زیادہ تر کنبے ’اسٹڈی سنٹر‘ کے بڑے سے ہال میں رات گزارتے ہیں۔ اس ’اسٹڈی سنٹر‘ کو ایک غیر سرکاری تنظیم نے بنوایا تھا۔
حالانکہ، ان کی آمدنی اتنی نہیں ہے کہ وہ ۱۱، ۹ اور پانچ سال کے اپنے تین بچوں کا پیٹ بھر سکیں۔ ’’میرے بچے ہمیشہ بیمار رہتے ہیں۔ ڈاکٹر کہتے ہیں، ’اچھا کھاؤ، بچوں کو بیماری سے لڑنے کی طاقت اور توانائی کے لیے غذائیت کی ضرورت ہے۔‘ لیکن میں زیادہ سے زیادہ انہیں راشن میں ملنے والے چاول سے بنا دلیا اور رسم ہی کھلا سکتی ہوں۔‘‘
شاید اسی لیے وہ پختگی کے ساتھ کہتی ہیں، ’’میری نسل کے ساتھ یہ پیشہ ختم ہو جانا چاہیے۔‘‘
ان برادریوں کے تجربات کا حوالہ دیتے ہوئے بی آری بابو کہتے ہیں، ’’کمیونٹی سرٹیفکیٹ صرف زمرہ بتانے والا شناختی کارڈ نہیں، بلکہ حقوق انسانی کو حاصل کرنے کا ذریعہ بھی ہے۔‘‘ بابو، مدورئی کے امیریکن کالج میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔
وہ آگے کہتے ہیں، ’’یہ سرٹیفکیٹ ان برادریوں کے لیے سماجی انصاف کے ساتھ ساتھ سیاسی، سماجی اور اقتصادی شمولیت کو یقینی بنانے کا ایک مضبوط آلہ ہے، تاکہ برسوں سے ہوتی آئی انتظامی غلطیوں کو درست کیا جا سکے۔‘‘ وہ ’بفون‘ کے بانی بھی ہیں جو ایک غیر پیشہ ورانہ یو ٹیوب چینل ہے۔ اس چینل نے وبائی مرض اور لاک ڈاؤن کے دوران تمل ناڈو میں حاشیہ پر پڑی برادریوں کے ذریعے جھیلی گئی پریشانیوں اور مسائل کو درج کرنے کا کام کیا ہے۔
*****
سنّتی پڈوکولم کے اپنے گھر میں، آر سپرمنی فخر کے ساتھ اپنا ووٹر شناختی کارڈ دکھاتے ہوئے کہتے ہیں، ’’۶۰ سالوں میں پہلی بار میں نے ان انتخابات [۲۰۲۱ میں ہوئے تمل ناڈو اسمبلی انتخابات] میں ووٹ ڈالا ہے۔‘‘ غیر سرکاری تنظیموں کی مدد سے آدھار کارڈ جیسے دوسرے سرکاری کاغذات بھی انہیں ملنے لگے ہیں۔
’’میں پڑھا لکھا نہیں ہوں، اس لیے کوئی دوسرا کام کر کے میں روزی روٹی نہیں کما سکتا۔ سرکار کو ہمیں کوئی پیشہ ورانہ تربیت اور قرض دینے کی بات سوچنی چاہیے۔ اس سے ذاتی روزگار کو فروغ حاصل ہوگا،‘‘ وہ کہتے ہیں۔
پچھلے سال، ۱۵ فروری کو سماجی انصاف اور تفویض اختیار کی وزارت نے ڈی این ٹی کے لیے اقتصادی طور پر با اختیار بنانے کی اسکیم (ایس ای ای ڈی) شروع کی۔ اس اسکیم کو ان کنبوں پر مرکوز رکھا گیا ہے، جن کی آمدنی سالانہ ڈھائی لاکھ روپے یا اس سے کم ہے، اور وہ کنبے جو مرکزی یا ریاستی حکومت کی ایسی کسی دیگر اسکیم سے فائدہ نہیں اٹھا رہے ہیں۔‘‘
پریس ریلیز میں بھی ان برادریوں کے ساتھ ہوئے بھید بھاؤ کی بات کہی گئی ہے، اور ’’مالی سال ۲۲-۲۰۲۱ سے لے کر ۲۶-۲۰۲۵ کے درمیان کے پانچ سالوں میں تقریباً ۲۰۰ کروڑ روپے کی رقم خرچ کرنے کی اسکیم پر خاصا زور دیا گیا ہے۔‘‘ لیکن ابھی تک کسی برادری کو ایک بھی پیسہ نہیں ملا ہے کیوں کہ ابھی تک گنتی کا کام پورا نہیں ہوا ہے۔
سپرمنی کہتے ہیں، ’’ہمیں آئین میں ایس سی اور ایس ٹی کی طرح ہی ایک الگ اور واضح منظوری ملنی چاہیے۔ یہ ریاست کے ذریعے اس بات کو یقینی بنانے کی سمت میں پہلا قدم ہوگا کہ ہمارے ساتھ بھید بھاؤ والا برتاؤ نہیں کیا جا رہا ہے۔‘‘ ان کے مطابق مناسب اور بغیر غلطی والی مردم شماری کے بعد ہی ان برادریوں اور ان کے ممبران کی صحیح طریقے سے پہچان ہو سکے گی۔‘‘
یہ مضمون ۲۲-۲۰۲۱ کے ایشیا پیسفک فورم آن ویمن، لاء اینڈ ڈیولپمنٹ (اے پی ڈبلیو ایل ڈی) میڈیا فیلوشپ کے تحت لکھا گیا ہے۔
مترجم: محمد قمر تبریز