جنوری کی سرد رات کے ۹ بج چکے ہیں، اور تقریباً ۴۰۰ ناظرین کا مجمع اسٹیج پر ڈرامہ کی پیشکش کا انتظار کر رہا ہے، جسے ایک گھنٹہ پہلے ہی شروع ہو جانا چاہیے تھا۔
اچانک سامنے کی طرف عارضی اسٹیج کے قریب ہلچل ہونے لگتی ہے۔ بانس کے مچان پر بندھے ایک لاؤڈ اسپیکر سے آواز گونجتی ہے، ’’جلد ہی ہم ماں بون بی بی کو وقف منظوم ڈرامہ شروع کریں گے…جو ہمیں ہر برائی سے بچاتی ہیں۔‘‘
گوسابا بلاک کی جواہر کالونی میں آس پاس بھٹک رہے لوگ اس ’برائی‘ (بدمعاش بھوتوں، سانپ، مگرمچھ، شیر، شہد کی مکھیوں) کو دیکھنے کے لیے پرجوش ہو کر بیٹھنے لگتے ہیں، جن کا دیوی ماں بون بی بی نے آٹھارو بھاٹر دیش (۱۸ موجوں کی سرزمین) میں خاتمہ کیا تھا۔ یہ سندربن ہے، جو کھارے (نمکین) اور تازہ پانی کے آبی ذخائر سے گھرا دنیا کا سب سے بڑا مینگرو بن گیا ہے، جس میں جانور، نباتات، پرندے، رینگنے والے جانور اور ممالیہ جانوروں کی بھرمار ہے۔ یہاں، بون بی بی کی کہانیاں ایک نسل سے دوسری نسل کو وراثت کی طرح ملتی ہیں اور اس علاقے کی زبانی روایت میں پوری طرح پیوست ہیں۔
گرین روم یا آرائشی کمرہ، جس کو پردے کی مدد سے گھیر کر اسی گلی کے ایک کونے میں بنایا گیا ہے، ناظرین کی آمد و رفت سے گلزار ہے اور فنکار بون بی بی پال گان کے لیے تیار ہو رہے ہیں۔ اپنی باری آنے کے انتظار میں، شہد کے بڑے چھتے اور شیروں کے ٹیراکوٹا ماسک ترپال کی دیواروں کے سہارے رکھے ہوئے ہیں، جن کا آج کی پیشکش میں استعمال کیا جانا ہے۔ اس قسم کی پیشکش کا موضوع اکثر سندربن میں لوگوں کی زندگی سے جڑا ہوتا ہے – جو کہ سال ۲۰۲۰ میں ۹۶ شیروں کا گھر تھا۔
اداکار – جو کسان، ماہی گیر اور شہد جمع کرنے والے کارکن ہیں – اپنی پوشاک پہن رہے ہیں اور میک اپ کو حتمی شکل دے رہے ہیں۔ ناظرین میں اجتماعی جذبہ صاف دیکھا جا سکتا ہے۔ کچھ لوگ اسٹیج کے پیچھے جا کر فنکاروں کو ڈائیلاگ کی مشق کرا رہے ہیں یا پوشاک ٹھیک کرنے میں ان کی مدد کر رہے ہیں۔
ایک تکنیکی کاریگر اسپاٹ لائٹ میں رنگین فلٹر لگا رہا ہے، اور اب کچھ ہی دیر میں ٹولی اپنی آج کی پیشکش شروع کرے گی – رادھا کرشن منظوم ڈرامہ اور بون بی بی جاترا پال پرفارم کرے گی۔ بون بی بی پالا گان، دُکھے جاترا کے نام سے مشہور ہے، اور بنگالی ماگھ مہینہ (جنوری-فروری) کے پہلے دن پرفارم کیا جاتا ہے۔
اس سالانہ جلسے میں شامل ہونے اور بون بی بی پالا گان دیکھنے کے لیے، مغربی بنگال کے جنوبی ۲۴ پرگنہ کے گوسابا بلاک کے بہت سے گاؤوں کے لوگ آئے ہیں۔
نتیانند جوتدار، منڈلی کے میک اپ آرٹسٹ ہیں۔ وہ احتیاط سے ایک اداکار کے سر پر رنگین تاج رکھتے ہیں، جس پر بہت باریکی سے کاریگری کی گئی ہے۔ ان کی فیملی کئی نسلوں سے پالا گان کی پیشکش کا حصہ رہی ہے۔ حالانکہ، اب اس کے ذریعے ہونے والی آمدنی کے سہارے ان کے لیے گزارہ کر پانا مشکل ہو رہا ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’پالا گان کی آمدنی کے ساتھ کوئی اپنا گھر نہیں چلا سکتا۔ مجھے اتر پردیش اور بہار میں کیٹرنگ بزنس (کھانے پینے کے انتظام سے جڑے کاروبار) میں نوکری کرنی پڑی تھی۔‘‘ لیکن کووڈ۔۱۹ لاک ڈاؤن کے دوران وہ آمدنی بھی بند ہو گئی۔
منڈلی کے بہت سے ممبران نے پاری کو پالا گان کی پیشکش سے ہونے والی آمدنی سے گھر چلانے میں آ رہی مشکلوں کے بارے میں بتایا۔ اداکار ارون منڈل کہتے ہیں، ’’گزشتہ برسوں میں سندربن میں پالا گان کی بکنگ تیزی سے گھٹتی گئی ہے۔‘‘
بہت سارے پالا گان فنکار ماحولیاتی تباہی، گھٹتے مینگرو، اور فوک تھیٹر کی کم ہوتی مقبولیت کے سبب کام کی تلاش میں شہروں کا رخ کرنے لگے ہیں۔ تقریباً ۳۵ سال کے نتیانند، کولکاتا میں اور آس پاس کے تعمیراتی مقامات پر مزدوری کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’میں پالا گان کے بغیر رہ نہیں سکتا۔ اس لیے، آج رات میں یہاں فنکاروں کا میک اپ کر رہا ہوں۔‘‘
اس قسم کے کسی شو کے لیے ۷۰۰۰ سے ۱۵ ہزار روپے تک کی ادائیگی کی جاتی ہے۔ ان پیسوں میں سے جب ہر ایک فنکار کو پیسے دیے جاتے ہیں، تو وہ بہت معمولی رقم ہوتی ہے۔ ارون کہتے ہیں، ’’بون بی بی پالا گان کی اس پرفارمنس کے عوض ۱۲ ہزار روپے ملیں گے، جو ۲۰ سے زیادہ فنکاروں میں تقسیم ہونے ہیں۔‘‘
اسٹیج کے پیچھے، اوشا رانی گھرانی ایک معاون اداکار کی آنکھوں میں کاجل لگا رہی ہیں۔ وہ مسکرا کر کہتی ہیں، ’’شہری اداکاروں کے برعکس، ہم اپنی آرائش و زیبائش کا سارا سامان ساتھ رکھتے ہیں۔‘‘ جواہر کالونی گاؤں کی رہائشی اوشا رانی تقریباً ۱۰ برسوں سے پالا گان میں پرفارم کر رہی ہیں۔ آج وہ تین الگ الگ کردار نبھائیں گی، جن میں ماں بون بی بی کا مرکزی کردار بھی شامل ہے۔
گرین روم کے دوسرے کنارے پر بن مالی بیاپاری بھی موجود ہیں۔ وہ ایک تجربہ کار اداکار ہیں۔ پچھلے سال رجت جوبلی گاؤں میں، میں نے انہیں ماں منسا پالا گان میں پرفارم کرتے دیکھا تھا۔ وہ مجھے پہچان لیتے ہیں اور گفتگو شروع ہونے کے کچھ ہی منٹوں میں کہتے ہیں، ’’میرے ساتھ کے فنکار یاد ہیں، جن کی آپ نے تصویریں کھینچی تھیں؟ اب وہ سب آندھرا پردیش میں دھان کے کھیتوں میں مزدوری کرتے ہیں۔‘‘
تباہ کن سمندری طوفانوں – سال ۲۰۲۰ میں آئے امفن اور سال ۲۰۲۱ میں آئے یاس – نے سندربن میں فنکاروں کو مزید بحران میں دھکیل دیا ہے، اور علاقے میں موسمی مہاجرت بڑھتی جا رہی ہے۔ دہاڑی مزدوروں کے لیے، بغیر کسی مستقل آمدنی کے ہوتے ہوئے پالا گان میں پرفارم کرنے کے لیے لوٹنا مشکل کام ہے۔
بن مالی کہتے ہیں، ’’میرے ساتھی اداکار آندھرا پردیش میں تین مہینے رہیں گے۔ وہ فروری کے بعد لوٹیں گے۔ دھان کے کھیت میں کام کر کے وہ تقریباً ۷۰ سے ۸۰ ہزار روپے بچا لیں گے۔ سننے میں لگتا ہے کہ یہ بہت بڑی رقم ہے، لیکن یہ کمر توڑ دینے والا کام ہوتا ہے۔‘‘
اسی وجہ سے بن مالی، آندھرا پردیش نہیں گئے۔ ’’پالا گان کی پیشکش سے جو تھوڑا بہت پیسہ مجھے مل جاتا تھا، میں اسی میں خوش تھا۔‘‘
بون بی بی ڈرامہ کی ایک پیشکش میں منتظمین کے تقریباً ۲۰ ہزار روپے خرچ ہو جاتے ہیں، جس میں سے ۱۲ ہزار روپے منڈلی کو دیے جاتے ہیں اور باقی لاؤڈ اسپیکر اور اسٹیج تیار کرنے میں خرچ ہوتا ہے۔ آمدنی میں گراوٹ کے بعد بھی بون بی بی پالا گان مقامی لوگوں کی سرگرم حوصلہ افزائی، شرکت اور مالی تعاون کے سہارے بچا ہوا ہے۔
دریں اثنا، اسٹیج تیار ہو گیا ہے، بڑی تعداد میں ناظرین اپنی سیٹوں پر بیٹھ چکے ہیں، موسیقی اپنی رفتار پکڑتی ہے، اور پرفارمنس شروع ہونے کا وقت ہو جاتا ہے۔
اوشا رانی اعلان کرتی ہیں، ’’ماں بون بی بی کے آشیرواد سے، ہم شاعر جسیم الدین کے اسکرپٹ کی بنیاد پر پیشکش شروع کرنے جا رہے ہیں۔‘‘ کئی گھنٹے سے شو شروع ہونے کا بے صبری سے انتظار کر رہی بھیڑ چوکنی ہو جاتی ہے، اور اگلے ۵ گھنٹوں کے لیے پیشکش کے ساتھ بندھ جاتی ہے۔
دیوی ماں بون بی بی، ماں مانسا اور شِب ٹھاکر کے لیے گائے جانے والے دعائیہ گیتوں سے پورے شو کے لیے سماں بندھ جاتا ہے۔ دلیپ منڈل، سندربن کے ایک اہم پالا گان فنکار ہیں اور دکھن رائے کا کردار نبھاتے ہیں – جو کہ بھیس بدلتا رہتا ہے اور اکثر شیر میں بدل جاتا ہے۔
پرفارمنس کا وہ حصہ، جس میں ماں بون بی بی، دکھن رائے کے چنگل سے ایک نوجوان لڑکے دُکھے کو بچاتی ہیں، ناظرین کو مسحور کر دیتا ہے، اور کئی لوگوں کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں۔ سال ۱۹۹۹ سے ۲۰۱۴ کے درمیان ۴۳۷ لوگ سندربن میں داخل ہوتے یا اس سے گزرتے ہوئے شیروں کے حملے میں زخمی ہو گئے تھے۔ جنگل میں داخل ہونے کے ساتھ بنے رہنے والے شیر کے حملے کے خطرہ کو مقامی لوگ بخوبی جانتے ہیں، اس لیے وہ دُکھے کے ڈر کے ساتھ وابستگی محسوس کرتے ہیں، اور ماں بون بی بی کا آشیرواد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
اچانک مجمع کے درمیان سے کوئی چیختا ہے، ’’یہ مائک والا اتنا بیوقوف کیوں ہے! کتنی دیر سے کچھ بھی سنائی نہیں دے رہا ہے۔‘‘ جب تک ٹیکنیشین تاروں کو ٹھیک کرتا ہے، پرفارمنس رکی رہتی ہے۔ اس سے فنکاروں کو تھوڑی دیر کے لیے وقفہ مل جاتا ہے اور تکنیکی خامی دور ہونے کے بعد ۱۰ منٹ میں شو دوبارہ شروع ہو جاتا ہے۔
جاترا پال منڈلی کے منیجر جوگندر منڈل اسٹیج کے سامنے اس طرح بیٹھے ہیں کہ اگر کوئی اداکار اپنی لائن بھولے، تو وہ بتا سکیں۔ وہ بھی پالا گان کی گرتی مانگ سے مایوس ہیں، ’’کہاں ملتی ہے بکنگ؟ پہلے ایک کے بعد دوسرے شو ہوتے رہتے تھے، اور ہمیں مشکل سے ہی وقت مل پاتا تھا۔ اب وہ زمانہ چلا گیا۔‘‘
جوگندر جیسے منیجروں کے لیے منڈلی کے فنکار ڈھونڈنا مشکل ہو گیا ہے، کیوں کہ لوگ اس سے ہونے والی آمدنی سے گزارہ نہیں چلا پاتے۔ وہ بتاتے ہیں کہ انہیں بہت دور سے فنکاروں کو بلانا پڑتا ہے۔ ’’اب آپ کو اداکار ملتے کہاں ہیں؟ پالا گان کے سبھی فنکار اب مزدوری کرنے لگے ہیں۔‘‘
اسی دوران، کئی گھنٹے گزر چکے ہیں اور بون بی بی پالا گان اپنے آخری مرحلہ میں ہے۔ کسی طرح میری پھر سے اوشا رانی سے بات ہو جاتی ہے۔ وہ بتاتی ہیں کہ وہ پالا گان کے ساتھ ساتھ، گوسابا بلاک کے الگ الگ گاؤوں میں رامائن پر مبنی کہانیاں سناتی ہیں۔ لیکن ان کی کوئی مستقل آمدنی نہیں ہے ’’کسی مہینے میں ۵۰۰۰ کما لیتی ہوں، کسی مہینے کچھ بھی نہیں ملتا۔‘‘
اگلے سال پھر سے پرفارم کرنے کی امید کے ساتھ اپنا سامان باندھتے ہوئے اوشا رانی کہتی ہیں، ’’گزشتہ تین برسوں میں، ہم نے سمندری طوفان کا سامنا کیا، کووڈ۔۱۹ وبائی مرض اور لاک ڈاؤن جھیلا۔ پھر بھی پالا گان کو مرنے نہیں دیا۔‘‘
مترجم: محمد قمر تبریز