’’گاؤں والے بس ہم پر چیخ رہے ہیں کہ ہم ان کے دروازے پر نہ آئیں۔ وہ کہتے ہیں کہ کوئی بیماری آئی ہے۔ ہمیں کوئی نہیں بتا رہا ہے کہ وہ بیماری کیا ہے۔ مجھے کوئی بیماری نہیں ہے۔ پھر، مجھے کیوں روک رہے ہیں؟‘‘
گیتا بائی کالے، جو ایک پھانسے پاردھی آدیواسی ہیں، انہیں ایک ہفتہ سے کھانا نہیں ملا ہے۔ کیوں کہ، عام دنوں میں بھی صرف بھیک مانگ کر ہی یہ ۷۸ سالہ خاتون اپنا پیٹ بھر پاتی ہیں۔ یہ ذریعہ اب لاک ڈاؤن کے دوران غائب ہو چکا ہے۔ انہیں کووڈ- ۱۹ کے بارے میں ذرا بھی معلومات نہیں ہے، لیکن ان کو اور باقی پاردھی لوگوں کو اس کا اثر روزانہ دکھائی دیتا ہے – اپنے خالی پیٹوں میں۔
وہ یاد کرتی ہیں کہ انہیں آخری بار ۲۵ مارچ کو باجرے کی باسی بھاکھری کھانے کو ملی تھی۔ ’’کچھ لڑکے – جنہیں میں نہیں جانتی – اتوار [۲ مارچ] کو آئے تھے اور ۴ بھاکھری دے گئے تھے، جسے میں نے چار دنوں تک کھایا۔‘‘ تبھی سے وہ اپنی بھوک دبا کر بیٹھی ہیں۔ ’’اس کے بعد یہاں پر کوئی نہیں آیا اور گاؤں والے بھی مجھے اندر نہیں آنے دے رہے ہیں۔‘‘
گیتا بائی مہاراشٹر کے پونہ ضلع کے شیرور میں شاہراہ کے پاس ٹن کی ایک جھونپڑی میں رہتی ہیں، اور وہاں سے دو کلومیٹر دور چوہان واڑی گاؤں میں بھیک مانگنے جاتی ہیں۔ ’’لوگ ہمیں جو بھی بچا ہوا کھانا دے دیتے تھے، وہ ہم کھا لیتے تھے،‘‘ وہ بتاتی ہیں۔ ’’میں نے کسی کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ سرکار مفت میں اناج بانٹ رہی ہے – لیکن صرف ان کو، جن کے پاس راشن کارڈ ہے۔ میرے پاس تو نہیں ہے۔‘‘
درج فہرست ذات کے طور پر فہرست بند پھانسے پاردھی لوگ پہلے سے ہی غریب اور محروم پاردھی آدیواسی برادریوں میں سب سے غریب ہیں۔ آزادی کے ۷۰ سال سے بھی زیادہ ہونے کے بعد بھی پاردھی لوگوں کو اپنے ظالمانہ نو آبادیاتی طریقوں کی وراثت کا بوجھ اٹھانا پڑ رہا ہے۔ ۱۸۷۱ میں، انگریزوں کے خلاف بغاوت کرنے والے اور ان کی حکمرانی کو چیلنج کرنے والے کئی آدیواسی اور خانہ بدوشوں کو سزا دینے اور قابو میں رکھنے کے لیے ان پر جرائم پیشہ قبائل قانون نافذ کیا گیاتھا، جس کے تحت تقریباً ۲۰۰ برادریوں کو پیدائشی طور پر ’مجرم‘ قرار دے دیا گیا تھا۔ ان برادریوں پر اس کا بہت ہی تباہ کن اثر پڑا اور ان کو معاشرہ سے الگ کر دیا گیا۔
آزاد ہندوستان نے، ۱۹۵۲ میں اس قانون کو ردّ کرکے ’جرائم پیشہ قبائل‘ کے نوٹفکیشن کو منسوخ کر دیا تھا۔ لیکن معاشرہ کے ذریعے دی گئی بدنامی، غلط فہمی اور درد ابھی بھی چلا آ رہا ہے۔ اس برادری کے کئی لوگوں کے لیے گاؤں میں داخل ہو پانا یا کنویں سے پانی لے پانا ناممکن ہے۔ یہ لوگ گاؤں سے ۲-۳ کلومیٹر کی دوری پر رہتے ہیں۔ ان لوگوں کے پاس نوکریاں نہیں ہیں، ان کی تعلیمی سطح نہ کے برابر ہے، بہت سے لوگوں کو چھوٹے جرائم کے لیے جیل ہو چکی ہے۔ ان لوگوں کے پاس بھیک مانگنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہے۔
گیتا بائی ان لوگوں میں سے ایک ہیں، جن کے پاس کوئی متبادل نہیں ہے۔ ۷۵ سالہ شانتا بائی کا بھی یہی حال ہے، جو پونہ ضلع میں شیرور تعلقہ کے کرڈے گاؤں کے باہر ایک کمرے کے نصف پختہ ڈھانچے میں رہتی ہیں۔ وہ بھی ایک پھانسے پاردھی آدیواسی ہیں اور ان کا گھر گیتا بائی کے گھر سے ۴ کلومیٹر دور ہے۔ شانتا بائی، ان کے شوہر اور ان کے ۴۴ سالہ بیٹے سندیپ کے لیے، جو ۲۰۱۰ میں ایک حادثہ میں جسمانی طور سے معذور ہو گئے تھے، کرڈے گاؤں میں بھیک مانگنا پیٹ پالنے کا واحد ذریعہ ہے۔
گیتا بائی کے دونوں لڑکے، ۴۵ سالہ سنتوش اور ۵۰ سالہ منوج، پمپری چنچوڑ – جو ۷۷ کلومیٹر دور ہے – وہاں پر صفائی ملازم ہیں۔ ان کو اپنے بیٹوں کی کوئی خبر نہیں ملی ہے۔ ’’میرے بیٹے مجھے دیکھنے نہیں آئے۔ وہ مہینہ میں کم از کم ایک بار آیا کرتے تھے۔‘‘ ۲۳ مارچ کو ریاست گیر کرفیو اور اس کے بعد ۲۴ مارچ کو وزیر اعظم کے ذریعے اعلان کردہ لاک ڈاؤن نے ان کی کھانا حاصل کرنے کی تمام کوششوں کو ناکام کر دیا۔ پیٹ بھرنے کی امید میں وہ ۲۸ مارچ کو پھر سے ایک بار چوہان واڑی گئی تھیں، لیکن انہیں روک دیا گیا۔
شانتا بائی کو بھی کرڈے گاؤں میں اسی طرح کا برتاؤ جھیلنا پڑا۔ ایسے بے شمار پاردھی کنبے ہیں جو اسی طرح سے پھنسے ہوئے ہیں۔ کووڈ- ۱۹ کی وجہ سے پھانسے پاردھی لوگوں کے بھیک مانگنے پر بھی روک لگ گئی ہے۔
’’گاؤں والے مجھ پر چیختے ہیں کہ میں ان کے دروازے پر نہ آؤں۔ مجھے کم از کم اپنے بیٹے کو تو کھانا کھلانا ہی ہے۔‘‘ سندیپ کو کمر کے نیچے سے لقوہ مار چکا ہے۔ ’’اگر ہمیں بھیک مانگ کر کھانے کو نہیں ملا، تو ہم کیا کھائیں گے؟‘‘ شانتا بائی کالے نے مجھ سے فون پر پوچھا۔ ’’میرا بیٹا تو بستر سے اٹھ بھی نہیں سکتا۔‘‘
وہ اور ان کے ۷۹ سالہ شوہر دھولیہ، بیٹے کا سارا کام کرتے ہیں اور اس کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ ’’وہ تین سال تک اوندھ سرکاری اسپتال میں تھا۔ وہاں کے ڈاکٹر نے بتایا کہ اس کے دماغ کی نسیں بیکار ہو چکی ہیں اس لیے وہ ہل نہیں سکتا،‘‘ شانتا بائی نے مجھے یہ بات مارچ ۲۰۱۸ میں اپنے ایک کمرے کے مکان میں بتائی تھی۔ سندیپ چوتھی کلاس تک پڑھا ہے اور حادثہ سے پہلے جو بھی کام ملتا تھا اسے کر لیا کرتا تھا: جیسے جھاڑو لگانا، سڑک کھودنا، ٹرکوں پر سامان چڑھانا اتارنا، پونہ کے ہوٹلوں میں برتن دھونا۔
سندیپ کی فیملی اس کی ۶-۷ ہزار روپے کی ماہانہ آمدنی میں خرچ چلاتی تھی۔ ’’ہم نے اپنے بچپن سے لے کر جوانی تک بھیک مانگی۔ ہمارے بیٹے کی کمائی نے ہمیں اس کام سے چھٹکارہ دلا دیا تھا، لیکن اس کے حادثہ کے بعد ہم پھر سے بھیک مانگنے لگے ہیں،‘‘ شانتا بائی نے مجھے ۲۰۱۸ میں بتایا تھا۔ اپنے گھر کے باہر وہ کرڈے گاؤں سے مانگ کر جمع کی گئی باسی بھاکھری – راگی، اور باجرا یا جوار سے بنی – سکھاتی ہیں۔ ’’ہم انہیں دھوپ میں سکھاتے ہیں۔ اور پھر انہیں کھانے سے پہلے گرم پانی میں ابال لیتے ہیں۔ صبح، دوپہر اور رات کو ہم یہی کھاتے ہیں۔ یہی ہمارا کھانا ہے۔‘‘
باسی بھاکھریوں کے ساتھ انہیں کبھی کبھی کچے چاول بھی مل جاتے تھے۔ ابھی ان کے پاس صرف ۲ کلو چاول ہی بچے ہیں۔ وہ، دھولیہ اور سندیپ دن میں ایک بار ہی کھا رہے ہیں – تھوڑے سے تیل میں فرائی کیے ہوئے چاول، تھوڑی سی لال مرچ اور نمک کے ساتھ۔ ’’مجھے ۲۲ مارچ سے کچھ بھی نہیں ملا ہے،‘‘ وہ بتاتی ہیں، ’’باسی بھاکھری بھی نہیں۔ ایک بار یہ چاول ختم ہو گیا تو ہمارے پاس کھانے کے لیے کچھ نہیں بچے گا۔‘‘
لوگوں نے چونکہ گاؤں کے چاروں طرف درخت کی شاخوں سے مورچہ بندی کر دی ہے – کیوں کہ لوگ ’وائرس‘ کو دور رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں – ایسے میں شانتا بائی اور گیتا بائی بس گاؤں کے باہر ہی گھوم سکتی ہیں، ’’یہ دیکھنے کے لیے کہ کیا کسی نے بھاکھری یا دیگر کھانا پھینکا تو نہیں ہے۔‘‘
دھولیہ نے بھیک مانگنے یا اگر ممکن ہو سکا، تو سڑک کی کھدائی کا کام کرنے کے لیے ۶۶ کلومیٹر دور، پونہ شہر جانے کی بھی کوشش کی تھی۔ لیکن وہ بتاتے ہیں کہ ’’ہفتہ کے روز جب میں پونہ کی طرف جا رہا تھا، تب پولس نے مجھے شکراپور گاؤں کے پاس روک دیا۔ انہوں نے کہا کہ کوئی وائرس ہے اور مجھے منہ ڈھکنے کے لیے کہا۔ میں ڈر گیا اور گھر لوٹ آیا۔‘‘
شانتا بائی کے علاوہ، ان کے ہی آس پاس کے ۱۰ دیگر پاردھی کنبے بھوک مری کے دہانے پر ہیں کیوں کہ انہیں گاؤں میں داخل نہیں ہونے دیا جا رہا ہے۔ طویل عرصے سے ان سماجی طور پر بدنام برادریوں کے لیے بھیک مانگنا ہی زندہ رہنے کا ایک اہم ذریعہ ہے، جس کے ساتھ ہمیشہ دیگر خطرے جڑے رہتے ہیں۔
بامبے پریوینشن آف بیگنگ ایکٹ، ۱۹۵۹ کے تحت مہاراشٹر میں بھیک مانگنا جرم قرار دے دیا گیا تھا۔ یہ قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کو اختیار دیتا ہے کہ وہ بھیک مانگنے والوں کو بنا وارنٹ گرفتار کرکے کسی بھی منظور شدہ ادارہ میں ۱-۳ سال تک کے لیے بند کر دیں۔ کئی ریاستوں نے اس قانون کو یا اس پر مبنی دیگر قوانین کو اپنایا ہے – بھیک مانگنے اور کمی کو لیکر کوئی مرکزی قانون نہیں ہے۔
حالانکہ، اگست ۲۰۱۸ میں دہلی ہائی کورٹ نے کہا تھا کہ اس قانون کے التزامات آئینی جانچ پر کھرے نہیں اتریں گے اور ردّ کرنے کے قابل ہیں۔ (مہاراشٹر میں ایسا نہیں کیا گیا ہے)۔
عدالت نے کہا، ’’بھیک مانگنا ایک مرض کی، اور اس حقیقت کی علامت ہے کہ آدمی سماج کے ذریعے بنائے گئے جال کو توڑ کر نیچے گر گیا ہے۔ سبھی کو سماجی تحفظ فراہم کرنے، اور تمام شہریوں کے لیے بنیادی سہولیات کو یقینی بنانے کی ذمہ داری حکومت کی ہے، اور فقیروں کی موجودگی یہ ثابت کرتی ہے کہ ریاست اپنے شہریوں کو یہ سب مہیا نہیں کرا پائی ہے۔‘‘
وزیر خزانہ کے ذریعے (۲۶ مارچ کو، کووڈ- ۱۹ سے نمٹنے کے لیے) اعلان کردہ ’پیکیج‘ کے کئی وعدے ان شہریوں کو کچھ نہیں دے پائیں گے۔ ان کے پاس نہ تو کوئی راشن کارڈ ہے، نہ بینک میں اکاؤنٹ اور نہ ہی منریگا کا نوکری کارڈ۔ ان کو وہ پانچ کلو ’مفت اناج‘ کیسے ملے گا؟ یا پھر پردھان منتری غریب کلیان یوجنا کے تحت ڈائریکٹ کیش ٹرانسفر کیسے ہوگا؟ ان میں سے کچھ بھی گیتا بائی اور شانتا بائی کو کیسے ملے گا؟ اس کے علاوہ، ان برادریوں کو کووڈ- ۱۹ وبائی مرض کے بارے میں بھی کچھ نہیں معلوم، انہیں تو یہ بھی نہیں معلوم کہ کس قسم کے احتیاط برتنے ہیں۔
جیسا کہ سنیتا بھونسلے، جو خود ایک پھانسے پاردھی اور اس برادری کے ساتھ کام کرنے والی پونہ میں مقیم سماجی کارکن ہیں، کہتی ہیں: ’’لوگ بری طرح متاثر ہیں۔ ان کے پاس کھانے کے لیے کھانا نہیں ہے.... آپ کے ذریعے اعلان کردہ اسکیمیں ہم تک کیسے پہنچیں گی؟‘‘
اور دھولیہ کہتے ہیں کہ جب اچھے دنوں میں کام نہیں ملتا، تو پھر لاک ڈاؤن کی تو بات ہی مت کیجئے۔ ’’لوگ ہم پر شک کرتے ہیں کیوں کہ ہم پاردھی ہیں۔ اگر بھیک مانگنے پر بھی روک لگا دی گئی، تو ہمارے پاس مرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بچے گا۔‘‘
مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز