اس وبائی مرض نے ہمیں حلقوں اور گروہوں میں محدود کر دیا ہے۔ ہمیں جو جسمانی دوری بنائے رکھنے کی صلاح دی گئی ہے، اس نے لوگوں کے درمیان ایک بڑی سماجی دوری بنا دی ہے۔ ہم رابطہ اور کنیکشن بنانے سے ڈرتے ہیں۔ پورے میڈیا میں، ہم ہزاروں مہاجر مزدوروں کو انتظار کرتے ہوئے اور بھوک سے تڑپتے ہوئے دیکھ رہے ہیں، جو دیہی ہندوستان میں واقع اپنے گھر واپس پہنچنے کے لیے سینکڑوں کلومیٹر پیدل چلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کے پاس نہ تو پھوٹی کوڑی ہے اور نہ ہی ایک بھی نوالہ، اوپر سے انہیں لاٹھی چارج اور بیریکیڈوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ایسے میں ان کی حالت کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ کہیں بھی انسانیت نہیں بچی ہے۔
اور تبھی آپ شاہراہ کے درمیان میں ایک آدمی کو اپنی بوڑھی چچی کو گود میں اٹھائے ہوئے دیکھتے ہیں، جو مئی کی چلچلاتی دھوپ میں پیدل چل رہا ہے اور اس بوڑھی عورت کو مہاراشٹر کے اکولا ضلع میں واقع اس کے گھر واپس لے جا رہا ہے۔ وہ انسان ہے یا فرشتہ؟ عام دنوں میں بھی، لوگ بزرگوں کو میلے، بوڑھوں کے آشرم یا ورندا ون میں چھوڑ دیتے ہیں۔ خوشحال والدین کے لیے اکیلے رہنا عام بات ہے، جب کہ ان کے بچے اپنا کریئر بنانے اور اچھی زندگی کی تلاش میں کہیں دور چلے جاتے ہیں۔ لیکن یہ آدمی اس ’عام‘ والی تعریف میں فٹ نہیں بیٹھتا۔ وہ ایک فرشتہ ہے جو ہمیں دکھا رہا ہے کہ انسانیت ابھی زندہ ہے، غریبی اور ذلت کے درمیان بھی۔
نوٹ: یہ آدمی، جن کا نام وشوناتھ شندے ہے، ایک مہاجر مزدور ہیں، جو اپنی چچی، بچیلا بائی کو نوی ممبئی سے ممبئی-ناسک قومی شاہراہ پر پیدل چلتے ہوئے وِدربھ کے اکولا لے کر جا رہے تھے۔ مصور، لبنی جنگی نے یہ یہ منظر ۴ مئی، ۲۰۲۰ کو رویش کمار (این ڈی ٹی وی انڈیا) کے پرائم ٹائم شو میں سوہت مشرا کی ایک رپورٹ میں دیکھا تھا۔ لبنی کے ذریعے بتایا گیا یہ متن اسمیتا کھٹور نے ترجمہ کیا تھا۔
(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)