اس سال ۴ مئی کو جب ہریندر سنگھ نے اپنے ساتھی کارکن پپو کو اُس دن کی آخری دو لاشوں کو آخری رسومات کے لیے تیار کرنے کو کہا، تو انہیں اس بات کی بالکل بھی امید نہیں تھی کہ ان کا یہ کہنا ان کے ساتھی کارکنوں کو حیرت زدہ کر دے گا۔ اپنی بات کہنے کے لیے انہوں نے جن الفاظ کا استعمال کیا تھا وہ کچھ غیر معمولی تھے۔
ہریندر نے کہا: ’’دو لونڈے لیٹے ہوئے ہیں‘‘۔ ہریندر کا لاش کو ’لونڈا‘ کہنا انہیں حیرت زدہ کر گیا۔ لیکن حیرانی میں مبتلا ان کے ساتھیوں کو جلد ہی احساس ہو گیا کہ ہریندر سنجیدہ ہیں۔ اور وہ معصومیت میں ایسا کہہ رہے ہیں۔ ان کی معصومیت پر وہ فوراً قہقہہ لگانے لگے۔ نئی دہلی کے مصروف ترین شمشان، نگم بودھ گھاٹ پر ان کی پُرخطر نوکری کے درمیان یہ راحت ایک نادر لمحہ تھا۔
مگر ہریندر کو لگا کہ انہیں وضاحت پیش کرنی چاہیے۔ انہوں نے گہری سانس لی – وہ خوش قسمت تھے کہ کووڈ وبائی مرض کے دوران جہنم نما ماحول میں سانس لے پا رہے تھے – اور کہا، ’’آپ انہیں باڈی کہتے ہیں۔ ہم انہیں لونڈے [لڑکے] کہتے ہیں۔‘‘ ایسا کہہ کر انہوں نے مرنے والوں کو پوری عزت بخش دی۔
یہ مزدور شمشان گھاٹ کی بھٹیوں کے بالکل قریب بنے ایک چھوٹے سے کمرے میں کھانا کھا رہے تھے۔ پپو نے مجھ سے کہا، ’’جس انسان کو بھی یہاں لایا جا رہا ہے، وہ یا تو کسی کا بیٹا ہے یا بیٹی ہے۔ بالکل میرے بچوں کی طرح۔ انہیں بھٹی میں ڈالنا افسوس ناک ہے۔ لیکن، ہمیں ان کی آتما کی شانتی کے لیے ایسا کرنا ہوتا ہے، ہے نا؟‘‘
یمنا کنارے، دہلی کے کشمیری گیٹ کے قریب اس شمشان میں داخل ہوتے ہی دیوار پر بنی ایک تصویر پر نظر رک جاتی ہے۔ اس تصویر پر لکھا ہے: ’مجھے یہاں تک پہنچانے والے، تمہارا شکریہ، آگے ہم اکیلے ہی چلے جائیں گے‘۔ لیکن، اس سال جب اپریل مئی میں کووڈ۔۱۹ نے ملک کی راجدھانی کو موت کے پنجوں میں جکڑ لیا، تب یہ مرنے والے اکیلے نہیں رہے ہوں گے – ان کو دوسری دنیا کے سفر پر کوئی نہ کوئی ساتھی ضرور مل گیا ہوگا۔ وہاں روزانہ ۲۰۰ سے زیادہ لاشوں کی آخری رسومات ادا کی جا رہی تھیں۔ یہ تعداد سی این جی بھٹیوں اور کھلی ’چِتا‘ کو ملاکر تھی۔
وبائی مرض سے قبل، شمشان کی یہ سی این جی بھٹیاں ایک مہینہ میں صرف ۱۰۰ لاشوں کی ہی آخری رسومات ادا کرتی تھیں۔ اُس دن، ۴ مئی کو نگم بودھ گھاٹ پر سی این جی بھٹیوں میں ۳۵ لاشوں کی آخری رسومات ادا کی گئی تھیں۔ اپریل کے پہلے ہفتہ کے بعد جب کووڈ کی دوسری لہر دہلی کو اپنے حصار میں لے رہی تھی، تب یہ تعداد روزانہ اوسطاً ۴۵-۵۰ سے تھوڑا کم تھی۔
لاشوں کے جلنے اور آلودہ یمنا کی زہریلی بدبو ہوا میں پھیلی ہوئی تھی۔ دو دو ماسک لگانے کے باوجود، ان ہواؤں کے ناک میں گھُسنے سے میرا دَم گھُٹ رہا تھا۔ ندی کے قریب ہی تقریباً ۲۵ چِتائیں جل رہی تھیں۔ ندی کے ساحل پر جانے والے ایک تنگ راستے کے دونوں کناروں پر مزید لاشیں تھیں – پانچ چتائیں دائیں اور تین بائیں جانب۔ ان سب جلتی چتاؤں کے علاوہ اور بھی لاشیں اپنی باری کا انتظار کر رہی تھیں۔
وہیں احاطہ کے اندر، بالکل آخرے کنارے پر ایک خالی میدان کو نئے سرے سے ۲۰ سے زیادہ لاشوں کے لیے تیار کیا جا رہا ہے۔ اسی میدان کے بیچ میں ایک نیا درخت ہے۔ جلتی چتاؤں کی گرمی سے جھلس چکے اس پتّے، اُس خوفناک کافکائی (مصنف کافکا کے فکشن کی دنیا) دلدل کو تاریخ میں درج کر رہے ہیں، جہاں ملک کو دھکہ دے دیا گیا ہے۔
کسی اندھیری غار نما عمارت میں ٹیوب لائٹ کی ٹمٹماتی اور ہلکی روشنی موجود ہے۔ سی این جی بھٹیاں اسی عمارت کے اندر ہیں، جہاں ہریندر اور ان کے ساتھی مزدور کام کرتے ہیں۔ اس عمارت کا ہال بہت کم استعمال کیا جاتا ہے۔ قطار میں لگ کر اندر آنے کے باوجود یہاں آنے والے کھڑے ہی رہتے ہیں، کرسی پر بیٹھتے نہیں۔ وہ ادھر ادھر گھومتے، روتے، ماتم کرتے اور متوفی کی آتما کے لیے پرارتھنا کرتے رہتے ہیں۔
پپو کہتے ہیں، یہاں موجود چھ بھٹیوں میں سے، ’’تین پچھلے سال لگائی گئی تھیں، جب کورونا سے متاثر لاشوں کا انبار لگنا شروع ہو گیا تھا۔‘‘ کووڈ۔۱۹ کے یہاں پیر جمانے کے بعد، سی این جی بھٹیوں میں صرف اُن لاشوں کی آخری رسومات ادا کی گئیں، جو کووڈ سے متاثر تھیں۔
انتظار ختم ہوتا ہے۔ جب لاشوں کی آخری رسومات ادا کرنے کی باری آتی ہے، تب ان کے ساتھ آنے والے یا اسپتال یا پھر شمشان کے ملازمین لاش کو بھٹی میں لاتے ہیں۔ کچھ لاشیں – جو دوسروں سے زیادہ خوش قسمت ہیں – سفید کپڑے میں لپٹی ہوتی ہیں۔ کچھ دیگر، سفید پلاسٹک کی بوریوں میں پیک نظر آتی ہیں۔ ان کو ایمبولینس سے اتارا جاتا ہے، کچھ کو اسٹریچر حاصل ہوتا ہے۔ کچھ کو لوگ اپنے بازوؤں کا سہارا دیتے ہیں۔
تب شمشان کے مزدور لاش کو پہیوں والے ایک پلیٹ فارم پر رکھ دیتے ہیں۔ یہ پلیٹ فارم بھٹی میں جانے والی ریل پر رکھا ہوا ہے۔ اب کام جلدی کرنا ہوتا ہے۔ ایک بار جب لاش بھٹی کے اندر داخل ہو جائے، تو یہ مزدور پلیٹ فارم کو فوراً باہر کھینچتے ہی، بھٹی کا دروازہ بند کرکے اسے بولٹ کر دیتے ہیں۔ پُر نم آنکھوں سے فیملی اپنے عزیزوں کو بھٹی میں غائب ہوتے دیکھتے جاتے ہیں اور چمنی سے دھواں نکلتا جاتا ہے۔
پپو نے مجھ سے کہا، ’’دن کی پہلی باڈی (جسم) کو پوری طرح سے جلنے میں دو گھنٹے لگتے ہیں، کیوں کہ بھٹی کو گرم ہونے میں وقت لگتا ہے۔ اس کے بعد ہر لاش کو ایک ڈیڑھ گھنٹے کا وقت لگتا ہے۔‘‘ ہر بھٹی ایک دن میں ۷-۹ لاشوں کی آخری رسومات ادا کر سکتی ہے۔
نگم بودھ گھاٹ پر چار مزدور ایک ساتھ مل کر بھٹیوں کا کام سنبھال رہے ہیں۔ ان سب کا تعلق اتر پردیش کی ایک درج فہرست ذات، کوری برادری سے ہے۔ بنیادی طور پر یوپی کے بلیا ضلع کے رہنے والے ۵۵ سالہ ہریندر سب سے بزرگ ہیں۔ وہ سال ۲۰۰۴ سے یہاں کام کرتے آ رہے ہیں۔ اتر پردیش کے کانشی رام نگر ضلع کے سوروں بلاک کے ۳۹ سالہ پپو نے ۲۰۱۱ میں یہاں کام کرنا شروع کیا تھا۔ ۳۷ سالہ راجو موہن بھی سوروں کے رہنے والے ہیں۔ وہیں، ۲۸ سالہ راکیش بھی اس نوکری میں راجو موہن کی طرح نئے ہیں اور اتر پردیش کے گونڈا ضلع میں واقع پرس پور علاقے کے بہووَن مدار ماجھا گاؤں کے رہائشی ہیں۔
اپریل اور مئی میں، صبح ۹ بجتے ہی یہ مزدور کام میں مصروف ہو جاتے اور نصف شب کے بعد تک مصروف رہتے۔ ان کو روزانہ ۱۵-۱۷ گھنٹے اُن بھٹیوں کی گرمی میں جھلسنا پڑتا۔ اگر وہ کورونا وائرس سے کسی طرح بچ بھی جاتے، تو ۸۴۰ ڈگری سیلسیس میں دہکتی ہوئی بھٹی کی آگ انہیں نگل لیتی۔
اس مشقت بھرے کام میں یہ ایک روز کی بھی چھٹی نہیں لے پاتے۔ پپو کہتے ہیں، ’’اس حال میں ہم کیسے چھٹی لیں، جب ہمارے پاس چائے یا پانی پینے کا بھی وقت نہیں ہے۔ اِدھر ہم نے ایک یا دو گھنٹے کی چھٹی لی، اُدھر ہنگامہ برپا ہو جائے گا۔‘‘
باوجود اس کے، کوئی بھی کارکن مستقل طور پر ملازم نہیں ہے۔ نگم بودھ گھاٹ میونسپل کا شمشان ہے، جس کا انتظام بڑی پنچایت ویشیہ بیس اگروال (جو ’سنستھا‘ کے طور پر جانی جاتی ہے) نام کا ایک خیراتی ادارہ کرتی ہے۔
’سنستھا‘ ہریندر کو ہر مہینے ۱۶ ہزار روپے دیتی ہے، جس کا مطلب ہوا کہ ایک دن کے محض ۵۳۳ روپے۔ اگر وہ بوڑھا مزدور روزانہ آٹھ لاشوں کی آخری رسومات ادا کرے، تو ہر لاش کے اسے ۶۶ روپے حاصل ہوتے ہیں۔ پپو کو مہینے کے ۱۲ ہزار روپے، راجو موہن اور راکیش دونوں کو ۸۔۸ ہزار روپے ملتے ہیں۔ اس طرح ایک لاش کی آخری رسومات ادا کرنے کے پپو کو ۵۰ روپے، راجو اور راکیش کو ۳۳۔۳۳ روپے ملتے ہیں۔ ہریندر بتاتے ہیں، ’’سنستھا نے تنخواہ بڑھانے کا وعدہ تو کیا ہے، مگر کتنا بڑھائیں گے یہ نہیں بتایا۔‘‘
حالانکہ، سنستھا ایک لاش کی آخری رسومات ادا کرنے کے ۱۵۰۰ روپے لیتی ہے (وبائی مرض سے پہلے یہ ۱۰۰۰ روپے تھا)، لیکن کارکنوں کی تنخواہ بڑھانے کے بارے میں دور دور تک نہیں سوچ رہی ہے۔ سنستھا کے جنرل سکریٹری سمن گپتا نے مجھ سے کہا، ’’اگر ہم نے ان کی تنخواہ بڑھا دی، تو ہمیں ان کو سال بھر بڑھی ہوئی رقم دینی پڑے گی۔‘‘ انہوں نے آگے کہا کہ وہ ان مزدوروں کو ’انسینٹیوز‘ دیتے ہیں۔
تنخواہ کے علاوہ جب وہ مزدوروں کو ’انسینٹیو‘ دینے کی بات کر رہے تھے، ان کا مطلب اُس کمرے سے نہیں ہو سکتا تھا جہاں یہ کارکن بیٹھ کر کھانا کھا رہے تھے، اور جو اتنا گرم تھا کہ بھاپ سے غسل کرنے کی کوئی جگہ لگ رہا تھا۔ لوگ اپنے پسینے میں نہا رہے تھے، اور ان کے بدن کے پسینے کو خشک ہوکر بھاپ بننے میں دیر نہیں لگ رہی تھی۔ پپو نے تب کولڈ ڈرنک کی ایک بڑی بوتل منگوائی۔ اس کولڈ ڈرنک کی قیمت اُس لاش کے عوض ملنے والی اجرت، ۵۰ روپے سے زیادہ تھی جس کی آخری رسومات پپو نے اس دن ادا کی تھی۔
گپتا نے بتایا کہ اپریل میں، نگم بودھ کی سی این جی بھٹیوں میں ۵۴۳ لاشوں کی آخری رسومات ادا کی گئی تھی اور سنستھا کا سی این جی بل ۳ لاکھ ۲۶ ہزار ۹۶۰ روپے تھا۔ پپو کہتے ہیں کہ ایک لاش کو جلانے کے لیے تقریباً ۱۴ کلو گیس کی ضرورت ہوتی ہے۔ ’’پہلے جسم کو ہمارے باورچی خانہ میں استعمال ہونے والے دو گھریلو سیلنڈروں جتنی گیس کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے بعد، صرف ایک سے ڈیڑھ سیلنڈر کی ضرورت ہوتی ہے۔‘‘
بھٹی میں جلنے کے عمل کو اور تیز کرنے کے لیے، یہ مزدور جلتی بھٹی کا دروازہ کھولتے ہیں اور لاش کو ایک لمبی چھڑی کی مدد سے مشین میں اندر تک دھکیلتے اور اسے ہلاتے رہتے ہیں۔ ہریندر نے کہا، ’’اگر ہم ایسا نہ کریں، تو باڈی کو پوری طرح سے جلنے میں کم از کم ۲-۳ گھنٹے لگیں گے۔ ہمیں اسے جلدی ختم کرنا ہوتا ہے، تاکہ ہم سی این جی بچا سکیں۔ ورنہ سنستھا کو مالی نقصان ہوگا۔‘‘
لاگت بچانے کی ان کی تمام کوششوں کے باوجود، شمشان کے ملازمین کی تنخواہ دو سال سے بڑھائی نہیں گئی ہے۔ اپنی کم تنخواہ پر پپو نے افسوس جتاتے ہوئے کہا، ’’ہم اپنی جان خطرے میں ڈال کر، کووڈ والی لاشوں کی آخری رسومات ادا کر رہے ہیں۔ ہم سے کہا گیا ہے: ’سنستھا عطیہ پر چلتی ہے، تو کیا کیا جا سکتا ہے‘؟‘‘ اور، واقعی، ان کے لیے کچھ بھی نہیں کیا گیا تھا۔
ان کو کووڈ ٹیکہ کے دونوں ڈوز بھی نہیں لگے ہیں۔ پپو اور ہریندر کو ویکسین کی پہلی خوراک سال کی شروعات میں لگی تھی، جب صف اول کے کارکنان کو ٹیکہ لگایا جا رہا تھا۔ پپو نے کہا، ’’میں دوسرے ٹیکہ کے لیے نہیں جا سکا، کیوں کہ میرے پاس وقت نہیں تھا۔ میں شمشان میں مصروف تھا۔ جب مجھے کال آئی، تو میں نے ٹیکہ کاری مرکز کے اُس شخص سے کہا کہ آپ میرے حصہ کا ٹیکہ کسی اور ضرورت مند کو دے دیں۔‘‘
صبح کو پپو ایک اور کام کرتے ہیں۔ انہوں نے دیکھا کہ پچھلے روز آئے رشتہ داروں نے بھٹی کے پاس کوڑے دان میں اور اس کے نیچے پی پی ای کٹ رکھ چھوڑے ہیں۔ سیکورٹی کے نقطہ نظر سے انہیں باہر چھوڑنے کا ضابطہ تھا، مگر کئی لوگوں نے انہیں وہیں پھینک رکھا تھا۔ پپو نے لاٹھی کی مدد سے ان کٹ کو باہر نکالا اور بڑے کوڑے دان میں رکھا۔ المیہ ایسا کہ پپو نے خود کوئی پی پی ای کٹ نہیں پہن رکھی تھی، اور اس وقت وہ دستانے بھی نہیں پہن سکے تھے۔
پپو کہتے ہیں، بھٹیوں کے قریب ناقابل برداشت گرمی میں پی پی ای پہننا ناممکن ہے۔ ’’اس کے علاوہ، پی پی ای میں آگ لگنے کا امکان زیادہ ہوتا ہے، خاص طور پر تب، جب اندر جل رہی لاش کا پیٹ پھٹتا ہے اور آگ کی لپٹیں دروازے سے نکلنے کو بیتاب ہو جاتی ہیں۔‘‘ وہ مجھے سمجھاتے ہیں۔ ہریندر آگے کہتے ہیں، ’’پی پی ای کو اتارنے میں وقت لگے گا اور اتنا وقت کافی ہوگا ہمیں موت کے منہ میں جھونک دینے کے لیے۔ ہریندر نے پھر مجھے بتایا: ’’کٹ پہننے سے میرا دَم گھُٹتا ہے اور میری سانس پھول جاتی ہے۔ مرنا ہے کیا مجھ کو؟‘‘
کورونا سے جنگ میں گزشتہ کئی دنوں سے پہنے ہوئے ماسک ان کی واحد ڈھال تھے، کیوں کہ وہ روز نیا خرید نہیں سکتے تھے۔ پپو نے کہا، ’’ہم وائرس کے زیر اثر آنے سے فکرمند ہیں، مگر ہمارے سامنے ایسا بحران ہے کہ جسے نظرانداز کرنا گوارہ نہیں کر سکتے۔ لوگ پہلے ہی مصیبت زدہ ہیں، ہم انہیں مزید تکلیف میں مبتلا نہیں کر سکتے۔‘‘
جوکھم بھری داستان یہیں ختم نہیں ہوتی۔ ایک بار ایک لاش کی آخری رسومات ادا کرتے وقت، پپو کا بایاں ہاتھ آگ کی لپٹوں سے جھلس گیا اور اپنا نشان چھوڑ گیا تھا۔ پپو نے کہا، ’’میں نے اسے محسوس کیا، درد بھی ہوا، لیکن اب کیا کر سکتے ہیں۔‘‘ جب میں ہریندر سے ملا، اس سے ایک گھنٹہ پہلے ہریندر کو بھی چوٹ لگ گئی تھی۔ انہوں نے مجھے بتایا، ’’جب میں دروازہ بند کر رہا تھا، تو یہ میرے گھٹنے پر لگا۔‘‘
راج موہن مجھے بتاتے ہیں، ’’بھٹی کے دروازے کا ہینڈل ٹوٹ گیا تھا۔ ہم نے اسے بانس کی چھڑی سے کسی طرح ٹھیک کیا ہے۔‘‘ ہریندر کہتے ہیں، ’’ہم نے اپنے سپروائزر سے کہا کہ دروازے کی مرمت کروا دیں۔ انہوں نے ہم سے کہا، ’ہم لاک ڈاؤن میں اسے کیسے ٹھیک کروا سکتے ہیں؟‘ اور ہم جانتے ہیں کہ کچھ نہیں کیا جائے گا۔‘‘
ان کارکنوں کے لیے فرسٹ ایڈ باکس (ابتدائی علاج کے ساز و سامان کا باکس) تک مہیا نہیں ہے۔
ان کے علاوہ، مزدوروں کو اب نئے خطرات کا بھی سامنا کرنا تھا۔ مثلاً گھی اور پانی کے سبب پھسل جانا، جو متوفی کے اہل خانہ کے ذریعے لاش کو بھٹی میں بھیجنے سے قبل لاش پر ڈالنے سے فرش پر پھیل جاتا ہے۔ دہلی میونسپل کارپوریشن کے ایک اہلکار امر سنگھ نے کہا، ’’لاشوں پر گھی اور پانی ڈالنے کی اجازت نہیں ہے۔ یہ صحت کے نقطہ نظر سے مہلک اور پُر خطر ہے، لیکن لوگ پابندیوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔‘‘ امر سنگھ نگم بودھ گھاٹ کے کام کاج کی نگرانی کے لیے، وبائی مرض کے دوران مقررہ سات ایم سی ڈی سپروائزروں میں سے ایک ہیں۔
امر سنگھ نے بتایا کہ رات ۸ بجے سے پہلے آ گئی لاشوں کی آخری رسومات اسی دن ادا کی جاتی ہیں۔ بعد میں آنے والوں کو اگلی صبح تک انتظار کرنا پڑتا ہے، ایسے میں کوئی دیکھ بھال کے لیے ان کے قریب بھی نہیں آ سکتا۔ ایسی حالت میں ایمبولینس کا خرچ بڑھ گیا، کیوں کہ ان کو رات بھر وہیں ٹھہرنا ہوتا تھا۔ ’’اس مسئلہ کا ایک فوری حل یہ ہو سکتا ہے کہ بھٹی کو چوبیسوں گھنٹے جلانا ہوگا۔‘‘
لیکن کیا یہ ممکن تھا؟ اس سوال کے جواب میں سنگھ کہتے ہیں، ’’کیوں نہیں؟ جب آپ تندور میں چکن بھونتے ہیں، تو تندور جوں کی توں برقرار رہتی ہے۔ یہاں کی بھٹیاں ۲۴ گھنٹے چلنے کی طاقت رکھتی ہیں۔ لیکن، سنستھا اس کی اجازت نہیں دے گی۔‘‘ پپو امر سنگھ سے متفق نہیں ہیں۔ انہوں نے اس بات کو وہیں خارج کر دیا اور کہا، ’’مشین کو بھی، ایک انسان کی ہی طرح، کچھ آرام کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔‘‘
حالانکہ، امر سنگھ اور پپو دونوں اس بات پر متفق تھے کہ شمشان میں مزدوروں کی کافی کمی ہے۔ سنگھ نے کہا، ’’اگر ان میں سے کسی ایک کے ساتھ بھی کچھ ہو گیا، تو پہلے سے ہی گھُٹ گھُٹ کر چلنے والا کام بھی ٹھپ ہو جائے گا۔‘‘ انہوں نے آگے کہا کہ مزدوروں کا کوئی بیمہ بھی نہیں ہوا ہے۔ پپو ایک بار پھر ذرا الگ سوچتے ہوئے کہتے ہیں، ’’اگر ہریندر اور میرے جیسے کچھ اور کارکن ہوتے، تو یہاں چیزیں آسان ہو جاتیں، اور ہمیں کچھ آرام مل پاتا۔‘‘
کیا ہوگا اگر ان چار کارکنوں میں سے کسی ایک کو کچھ ہو گیا؟ میں نے یہی سوال کیا سنستھا کے جنرل سکریٹری سُمن گپتا سے۔ ان کا جواب تھا، ’’تب باقی تین کام کریں گے۔ نہیں تو ہم باہر سے مزدوروں کو لے آئیں گے۔‘‘ انہیں دیے گئے ’بھتوں‘ کا شمار کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’ایسا نہیں ہے کہ ہم انہیں کھانا نہیں دیتے ہیں۔ دیتے ہیں۔ ہم انہیں کھانا، دوائیں، اور سینیٹائزر بھی دیتے ہیں۔‘‘
جب ہریندر اور ان کے ساتھی نے چھوٹے کمرے میں رات کا کھانا کھایا، قریب کی ہی ایک بھٹی میں آگ ایک لاش کو اپنی آغوش میں لے رہی تھی۔ انہوں نے اپنے گلاس میں کچھ وہسکی بھی ڈالی تھی۔ ہریندر کہتے ہیں، ’’ہمیں [شراب] پینا ہی پینا ہے۔ اس کے بغیر، ہمارا زندہ رہنا ناممکن ہے۔‘‘
کووڈ وبائی مرض سے پہلے وہ دن میں تین پیگ وہسکی (ایک پیگ میں ۶۰ ملی لیٹر شراب ہوتی ہے) سے کام چلا لیتے تھے، لیکن اب دن بھر نشے میں رہنا ہوتا ہے، تاکہ وہ اپنا کام کر سکیں۔ پپو نے کہا، ’’ہمیں ایک چوتھائی [۱۸۰ ملی لیٹر] صبح، اتنا ہی دوپہر میں، شام کو، اور رات کے کھانے کے بعد پھر ایک چوتھائی پینا ہوتا ہے۔ کبھی کبھی، ہم واپس گھر جانے کے بعد بھی پیتے ہیں۔‘‘ ہریندر کہنے لگتے ہیں، ’’اچھی بات یہ ہے کہ سنستھا ہمیں [شراب پینے سے] نہیں روکتی۔ بلکہ، وہ ہمیں ہر دن شراب مہیا کراتی ہے۔‘‘
شراب کا کام صرف اتنا ہے کہ یہ سماج کے آخری پائیدان پر کھڑے ان ’صف آخر‘ کے محنت کشوں کو ایک مرے ہوئے انسان کو جلانے کے درد اور کڑی محنت سے ذرا سکون میں لیکر جاتی ہے۔ ہریندر نے کہا، ’’وہ تو مر چکے ہیں، لیکن ہم بھی مر جاتے ہیں، کیوں کہ یہاں کام کرنا بیحد تھکا دینے والا اور دردناک ہوتا ہے۔‘‘ پپو بتاتے ہیں، ’’جب میں ایک پیگ پی لیتا ہوں اور لاش کو دیکھتا ہوں، تو میں پھر سنجیدہ ہو جاتا ہوں۔ اور جب کبھی کبھی گرد اور دھواں ہمارے حلق میں پھنس جاتا ہے، تو شراب اسے حلق سے نیچے اتار دیتی ہے۔‘‘
راحت کا وہ لمحہ گزر چکا تھا۔ پپو کو ہریندر کے اُن ’’دو لیٹے ہوئے لونڈوں‘‘ کی آخری رسومات ادا کروانے کے لیے جانا تھا۔ آنسوؤں سے بھری ان کی آنکھیں، زبان پر آئے الفاظ سے پہلے ہی ان کا درد بیان کر رہی تھیں۔ انہوں نے کہا، ’’ہم بھی روتے ہیں۔ ہمیں بھی آنسو آتے ہیں۔ لیکن ہمیں اپنے دلوں کو تھامے رہنا ہوتا ہے اور اس کی حفاظت کرنی ہوتی ہے۔‘‘
مترجم: محمد قمر تبریز