دیوو بھورے ۳۰ سال سے رسیاں بنا رہے ہیں۔ اس کے لیے وہ کپاس کے کمزور لچھوں کو زیادہ لچکدار دھاگوں سے الگ کرتے ہیں۔ ان لچکدرا دھاگوں کو گھر کے فرش سے لگ بھگ نو فٹ اونچی چھت میں لگے ہُک (کانٹوں) کے سہارے کھینچ کر باندھاتے ہیں، جس سے ڈیڑھ سے دو کلوگرام سوت کے بنڈل تیار ہوتے ہیں۔ روزانہ ۷ گھنٹے کام کرکے وہ ہفتے میں تین دفع ایسے ۱۰ بنڈل تیار کرلیتے ہیں۔
فیملی کے اس کاروبار میں کپاس دیر سے داخل ہوا تھا۔ کئی نسلوں تک ان کے اہل خاندان بنکماری (آگیو) کے پودوں سے رسیاں بناتے تھے۔ جب وہ فائدے کا سودا نہیں رہا، تو انہوں نے کپاس کا استعمال کرنا شروع کیا۔ اور اب نائلون کی رسیوں کی پھیلاؤ نے اسے بھی ایک کمزور پیشہ بنا دیا ہے۔
دیوو کے بچپن میں ان کے والد ۱۰ کلومیٹر پیدل چل کر مہاراشٹر اور کرناٹک کی سرحد سے ملحقہ گاؤوں کے قریب واقع جنگلوں سے بنکماری کے پودے اکٹھا کرتے تھے۔ ان پودوں کو مراٹھی میں گھائے پات اور مقامی طور پر پھڈ کہا جاتا ہے۔ وہ تقریباً ۱۵ کلو بنکماری لے کر واپس لوٹتے تھے۔ پتوں کے کانٹے دار کناروں کو کاٹنے چھانٹنے کے بعد انہیں ایک ہفتہ تک پانی میں بھگوتے اور دو دن تک خشک کرتے تھے۔ اس عمل سے رسی بنانے کے لیے دو کلو فائبر حاصل ہوتا تھا۔ دیوو کی ماں مینا بائی بھی اس کام میں شامل تھیں، اور دیوو نے بھی جلد ہی ۱۰ برس کی عمر میں اس پیشہ کو اختیار کر لیا تھا۔
رسی بنانے کے لیے بھورے اور دیگر کنبوں نے ۱۹۹۰ کی دہائی کے اوائل میں بنکماری کے ریشوں کی بجائے سوتی دھاگے کا استعمال شروع کیا۔ سوتی کی رسیاں زیادہ پائیدار ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ، دیوو کہتے ہیں، ’’لوگوں نے جنگلات کاٹ دیے ہیں اور [بنکماری کے پودوں کو بھگونے اور خشک کرنے کے طویل عمل کی وجہ سے] سوتی کے دھاگوں کا استعمال پھڈ کے مقابلے میں آسان ہے۔‘‘
دیوو کا اندازہ ہے کہ ۱۹۹۰ کی دہائی کے آخر تک اس گاؤں کا تقریباً ہر کنبہ رسیاں بناتا تھا۔ دیوو بیلگام ضلع کے چکوڈی تعلقہ کے بورگاؤں میں رہتے ہیں۔ جب نائلون کی سستی رسیوں کے بازار میں آجانے سے آمدنی کم ہونے لگی، تو بہت سے لوگ قریبی دیہاتوں میں زرعی کام کی طرف متوجہ ہوئے، یا قریبی اچلکرنجی اور کاگل قصبوں میں پاور لومز یا آٹو پارٹ ورکشاپوں اور دیگر فیکٹریوں میں کام کرنے چلے گئے۔
گاؤں میں بھورے فیملی کے صرف تین افراد اب رسیاں بنانے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ یہ تین افراد ہیں دیوو، ان کی بیوی نندو بائی اور ان کا بڑا بیٹا امت۔ امت کی بیوی سویتا ٹیلرنگ کا کام کرتی ہیں۔ دیوو کا ایک چھوٹا بیٹا ۲۵ سالہ بھرت، کاگل انڈسٹریل اسٹیٹ میں بطور مزدور کام کرتا ہے اور دو شادی شدہ بیٹیاں، مالن اور شالن گھریلو خواتین ہیں۔
۵۸ سالہ دیوو کہتے ہیں، ’’کئی صدیوں سے صرف ہماری ذات کے لوگ ہی رسیاں بناتے آ رہے ہیں۔ میں نے اپنے آباء و اجداد کے فن کو زندہ رکھا ہے۔‘‘ دیوو کا تعلق ماتنگ برادری سے ہے، جو ایک درج فہرست ذات ہے۔ دیوو رسیاں بنانے والے اس خاندان کی چوتھی نسل سے ہیں۔ انہوں نے دوسرے درجے تک تعلیم حاصل کی ہے۔ ان کے والدین انہیں مزید تعلیم دلانے کے متحمل نہیں تھے۔ اس کے علاوہ دن میں تین گھنٹے تک اپنی چار گایوں کا دودھ دوہنے کے بعد اسکول کے لیے وقت نکالنا ان کے لیے مشکل ہوگیا تھا۔
آبائی پیشہ اختیار کرنے سے قبل دیوو نے اِچلکرنجی میں ۱۰ سال تک بطور پینٹر (گھروں کی پُتائی کا) کام کیا۔ بعد ازاں ایک ایکڑ خاندانی زمین پر وقفے وقفے سے مونگ پھلی، سویابین اور سبزیوں کی کاشت کی۔ آبپاشی کے لیے ان کا انحصار بارش کے پانی پر ہوتا تھا۔ پھر چھ سال کے بعد ۲۸ سال کی عمر میں انہوں نے اپنے والد کرشنا بھورے کے ساتھ رسیاں بٹنے کا کام شروع کیا تھا۔
دیوو اب اچلکرنجی (جو بورگاؤں سے ۱۵ کلومیٹر دور ہے) سے ۳۸۰۰ روپے فی کوئنٹل کے حساب سے بڑی مقدار میں سوت خریدتے ہیں۔ بھورے فیملی تقریباً ایک کوئنٹل (۱۰۰ کلو) سوت کا استعمال کرکے ہر دو ہفتے میں تقریباً بارہ فٹ لمبی ۱۵۰ رسیاں بناتی ہے، جن میں سے ہر ایک کا وزن ۵۵۰ گرام ہوتا ہے، اور ان میں چھوٹی رسیوں کی کھیپ بھی شامل ہوتی ہے۔
وہ ہفتے کے تین دن سوت تیار کرتے ہیں اور باقی کے دنوں میں سوت کے بنڈلوں کو آر کے نگر میں اپنے گھر کے بالکل سامنے کچی سڑک کے ساتھ ۱۲۰ فٹ لمبے ’روپ واک‘ پر پھیلاتے ہیں۔ روپ واک کے ایک سرے پر ایک مشین ہوتی ہے جسے امت چلاتے ہیں۔ اس مشین میں چھ چھوٹے چھوٹے کانٹے لگے ہوتے ہیں، جن سے بنڈل بندھے ہوتے ہیں۔ دوسرے سرے پر نندو بائی ایک بھورکھڑی یا ’ٹی‘ کی شکل کے لیور کے ساتھ بیٹھی رہتی ہیں، جس کے ساتھ سوت کے بنڈل بھی جڑے ہوئے ہیں۔
جب دوسرے سرے کے لیور کو گھمایا جاتا ہے تو وہ ہک سے بندھے سوت کو گھماتا ہے۔ دیوو سوت کے بنڈلوں کے درمیان لکڑی کا ’کارل‘ یا ’ٹاپ‘ رکھتے ہیں اور اسے ان کی پوری لمبائی کے ساتھ گھماتے ہیں تاکہ وہ مضبوطی سے یکساں طور پر اینٹھ جائیں۔ اینٹھنے کے اس عمل میں تقریباً ۳۰ منٹ کا وقت اور تین لوگوں کی محنت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس عمل کے مکمل ہونے کے بعد یہ سوت ایک ساتھ ملا کر رسی بٹنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔
’ہم سخت محنت کرتے ہیں لیکن پھر بھی کما نہیں پاتے۔ لوگ ہم سے یہ رسیاں نہیں خریدتے، بلکہ شہروں کے ہارڈ ویئر کی دکانوں سے خریدتے ہیں۔‘ ان کا خیال ہے کہ دکانوں کی رسیاں سڑک کے کنارے بکنے والی رسیوں سے بہتر ہوتی ہیں
آرڈر ملنے پر دیوو کبھی کبھی رسی بٹنے سے قبل دھاگوں کو رنگتے ہیں۔ ۲۶۰ روپے میں ۲۵۰ گرام رنگ کا پاؤڈر خریدنے کے لیے وہ مہینے میں دو بار ۳۰ کلومیٹر دور، مہاراشٹر کے میراج قصبے تک بس کا سفر کرتے ہیں۔ اس رنگ کو پانچ لیٹر پانی میں ملا کر اس میں دھاگوں کو ڈبویا جاتا ہے۔ گیلے دھاگوں کو دھوپ میں خشک ہونے میں تقریباً دو گھنٹے کا وقت لگتا ہے۔
دیوو کی فیملی کسانوں کے لیے دو طرح کی رسیاں بناتی ہے: تین فٹ لمبی ’کنڈا‘ جو بیل کے گلے میں باندھی جاتی ہے اور ۱۲ فٹ لمبی ’کاسرا‘ جس کا استعمال ہل جوتنے میں ہوتا ہے۔ کاسرا کا استعمال کٹی ہوئی فصلوں کو باندھنے اور بعض گھروں میں شیر خوار بچوں کے جھولے کو چھت سے لٹکانے میں بھی ہوتا ہے۔ بھورے فیملی یہ رسیاں کرناٹک کے سوندلگا، کاردگا، اکّول، بھوج اور گلٹگا گاؤوں اور مہاراشٹر کے کرندواڑ کے ہفتہ وار بازاروں میں فروخت کرتی ہے۔ رنگی ہوئی کسرا رسیوں کی ایک جوڑی ۱۰۰ روپے میں فروخت ہوتی ہے، اور سفید جوڑی ۸۰ روپے میں۔ اسی طرح رنگی ہوئی کنڈا کی ایک جوڑی ۵۰ روپے میں ملتی ہے اور سفید جوڑی ۳۰ روپے میں۔
۳۰ سالہ امت کہتے ہیں، ’’اس سے ہمیں زیادہ آمدنی نہیں ہوتی ہے۔‘‘ بھورے کنبے کا ہر فرد ۸ گھنٹے کام کرکے اوسطاً ۱۰۰ روپے کماتا ہے۔ اس لحاظ سے ان کی فیملی کی ماہانہ آمدنی بمشکل ۹۰۰۰ روپے بنتی ہے۔ دیوو کہتے ہیں، ’’سالانہ بیندور یا پولا تہوار [جون سے اگست تک، بیلوں کے لیے مخصوص] کے دوران رنگین رسیوں کی بہت مانگ ہوتی ہے۔‘‘ اس کے علاوہ ایک کسان کو پٹّہ پر دی گئی ایک ایکڑ خاندانی زمین (اجتماعی طور پر چار بھائیوں کی ملکیت) سے سال میں ایک بار ملنے والے کرایے سے انہیں ۱۰ ہزار روپے کی ایک ٹھیک ٹھاک آمدنی ہو جاتی ہے۔
دیوو کہتے ہیں، ’’اب آپ کو [زراعت میں] بہت زیادہ بیل نہیں دکھائی دیتے۔ کاشتکاری مشینوں سے کی جاتی ہے۔ تو پھر یہ رسیاں کون خریدے گا؟‘‘ نندو بائی کی عمر اب ۵۰ کی دہائی میں ہے۔ ان کا تعلق مہاراشٹر کے جیسنگ پور قصبے کے زرعی مزدوروں کی فیملی سے ہے۔ وہ ۱۵ سال کی عمر میں شادی کے بعد سے رسیاں بنا رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’پلاسٹک اور نائلون کی وجہ سے [کپاس کی] رسیوں کی مانگ میں کمی آئی ہے۔ یہ رسیاں زیادہ دیر تک چلتی ہیں۔ لیکن اب ہم رسی سازی کے اس کاروبار کو دو سال تک جاری رکھنے کے بھی متحمل نہیں ہوں گے۔‘‘
اس تجارت سے حاصل ہونے والے ناقص منافع سے مایوس امت کہتے ہیں، ’’بڑے دکاندار بیٹھ کر ہماری رسیوں سے منافع حاصل کرتے ہیں۔ ہم محنت کرتے ہیں لیکن پھر بھی ہم کما نہیں پاتے۔ لوگ یہ رسیاں ہم سے نہیں خریدتے، وہ شہروں میں ہارڈ ویئر کی دکانوں سے خریدتے ہیں۔‘‘ ان کا خیال ہے کہ دکانوں کی رسیاں سڑک کے کنارے بکنے والی رسیوں سے بہتر ہوتی ہیں۔
غائب ہوتی ہندوستانی رسیوں کی کہانی کا فوٹو البم بھی ضرور دیکھیں
مترجم: شفیق عالم