منی رام منڈاوی املی کے بڑے درختوں سے گھری اپنی ہوادار ورکشاپ میں بیٹھ کر بانسری بنا رہے ہیں – جو اس کے اندر سے ہوا گزرنے پر بجتی ہے، لیکن یہ جانوروں کو ڈرانے کے لیے ایک مضبوط ہتھیار کے طور پر بھی کام کر سکتی ہے۔ ’’اُن دنوں،‘‘ جب وہ جوان تھے، ’’جنگل میں شیر، چیتا، اور بھالو ہوتے تھے، لیکن اگر آپ اسے گھماتے تو وہ آپ سے دور رہتے تھے،‘‘ ۴۲ سالہ منی رام کہتے ہیں۔
وہ بانس کے اس ساز کو ’گھمانے والی بانسری‘ کہتے ہیں – یا چھتیس گڑھی زبان میں سُکُڈ بانسری۔ اس میں منہ نہیں ہوتا ہے، بس دو سوراخ ہوتے ہیں، اور بجانے کے لیے اسے ہوا میں گھمانا پڑتا ہے۔
منی رام اپنے ذریعہ بنائی گئی ہر ایک بانسری کو – وہ ایک دن میں ایک بنا سکتے ہیں – آس پاس کے شہروں کی نمائشوں میں یا دستکار تنظیموں کو تقریباً ۵۰ روپے میں فروخت کرتے ہیں۔ اس کے بعد، گاہک اس بانسری کو کم از کم ۳۰۰ روپے میں خریدتے ہیں۔
منی رام نے تقریباً تین دہائی قبل اس پیشہ کو تب اپنایا، جب انہیں بانسری بنانے والے استاد، مندار سنگھ منڈاوی سے ملنے کا موقع ملا تھا۔ ’’میں تقریباً ۱۵ سال کا تھا،‘‘ وہ بتاتے ہیں، ’’اور جنگل سے جلانے والی لکڑی لانے گیا تھا جب انہوں نے مجھے بلایا اور کہا ’تم اسکول نہیں جاتے ہو۔ آؤ، میں تمہیں کچھ سکھاتا ہوں۔‘‘ اس لیے منی رام نے خوشی خوشی اسکول جانا چھوڑ دیا اور آنجہانی استاد دستکار کے ساتھ کام کرنے لگے۔
منی رام اب بانسری کی جس ورکشاپ میں کام کرتے ہیں، وہ گڑھ بنگل کے کنارے پر ہے، جو کہ چھتیس گڑھ کے نارائن پور ضلع کے ابوجھماڑ (اورچھا) بلاک کے جنگلوں میں گونڈ آدیواسی برادری کی ان کی بستی ہے۔ تمام سائز کی بانس کی چھڑیوں کا چاروں طرف انبار لگا ہے اور ساز کو گرم کرنے کے لیے استعمال کی جانے والی چھوٹی آگ سے دھواں سردی کی ہوا میں پھیلا ہوا ہے۔ تیار بانسری اور چھینی اور مختلف سائز کے چاقو رکھنے کے لیے ایک طرف عارضی جھونپڑی ہے۔ منی رام یہاں روزانہ تقریباً آٹھ گھنٹے کام کرتے ہیں – بانس کو سائز کے مطابق کاٹنا، اسے چھیلنا، ملائم کرنا، اور پھر گرم کیے گئے اوزار کے استعمال سے اس پر پھول کے ساتھ ساتھ جیومیٹریکل ڈیزائن تیار کرنا، آگ کی گرمی سے بانسری پر ہلکے اور گہرے پیٹرن بنانا۔
منی رام جب بانسری نہیں بنا رہے ہوتے ہیں، تب اپنے دو ایکڑ کھیت کے کام میں مصروف رہتے ہیں، جہاں وہ اپنی پانچ رکنی فیملی – ان کی بیوی اور تین بچے، جو اب جوان ہو چکے ہیں – کے لیے بارش کے پانی پر منحصر دھان اگاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے بیٹے، جو چھوٹے موٹے کام کرتے ہیں، اس ہنر کو سیکھنے میں ان کی کوئی دلچسپی نہیں ہے (برادری کے صرف مرد ہی اسے بناتے ہیں)۔
بانسری کے لیے بانس نارائن پور شہر سے آتا ہے – جو کہ تقریباً ایک گھنٹہ کی پیدل دوری پر ہے۔ ’’تقریباً ۲۰ سال قبل، جنگل یہیں تھا اور ہمیں آسانی سے بانس مل سکتا تھا۔ اسے حاصل کرنے کے لیے اب ہمیں کم از کم ۱۰ کلومیٹر کی دوری طے کرنی پڑتی ہے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’جنگل گھنے ہوتے تھے اور بڑے درختوں جیسے ساگوان (صنوبر) اور پھل دار درختوں جیسے جامن اور موڈیا [مقامی آلوبخارہ] سے بھرے ہوتے تھے۔ اب بڑے درخت نہیں رہے۔ اب گھمانے والی بانسری بنانا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔‘‘
املی کے درختوں کے سایہ میں واقع اس ورکشاپ میں بیٹھے ہم جس وقت بات کر رہے ہیں، منی رام ماضی کو یاد کرتے ہوئے، افسردہ اور تقریباً آنسوؤں کے ساتھ، کہتے ہیں: ’’یہاں خرگوش اور ہرن ہوا کرتے تھے، اور کبھی کبھی نیل گائے بھی۔ جنگلی سور بھی پوری طرح سے غائب ہو چکے ہیں... کل جب ہمارے بچے مجھ سے پوچھیں گے – ’جنگل میں کچھ بھی کیوں نہیں ہے؟ کیا جنگل میں درخت اور جانور نہیں تھے؟‘ – تب ہمارے پاس ان کے لیے کوئی جواب نہیں ہوگا۔‘‘
مترجم: محمد قمر تبریز