یہ پینل تصاویر پر مبنی نمائش – ’کام ہی کام، عورتیں گُمنام‘ کا حصہ ہے، جس کے تحت دیہی خواتین کے ذریعے کیے جانے والے مختلف قسم کے کاموں کو دکھایا گیا ہے۔ یہ تمام تصویریں پی سائی ناتھ کے ذریعے سال ۱۹۹۳ سے ۲۰۰۲ کے درمیان ملک کی ۱۰ ریاستوں کا دورہ کرنے کے دوران کھینچی گئی ہیں۔ یہاں، پاری نے ایک انوکھے انداز سے تصویر پر مبنی اس نمائش کو ڈیجیٹل شکل میں پیش کیا ہے۔ پہلے یہ نمائش کئی سالوں تک ملک کے زیادہ تر حصوں میں طبیعی طور پر لگائی جاتی رہی ہے۔

صاف صفائی!

آندھرا پردیش کے وجیہ نگرم میں یہ بوڑھی عورت اپنے گھر اور اس کے آس پاس کی جگہوں کو چمکا کر صاف رکھتی ہے۔ یہ گھر کا کام ہے – اور ’عورتوں کا کام‘ بھی۔ لیکن گھر میں، یا عوامی جگہوں پر، ’صفائی‘ کا کام زیادہ تر عورتوں کے ذریعے ہی کیا جاتا ہے۔ اور انہیں اس کام میں پیسہ کم، لوگوں کا غصہ زیادہ جھیلنا پڑتا ہے۔ راجستھان میں لوگوں کو اس قسم کے حالات کا سامنا کچھ زیادہ ہی کرنا پڑتا ہے، جیسے کہ اس عورت کو۔ یہ دلت ہے۔ یہ عورت ہاتھ سے میلا صاف کرتی ہے اور لوگوں کے گھروں میں ٹوائلیٹ کی صفائی کرتی ہے۔ وہ یہ کام راجستھان کے سیکر میں روزانہ تقریباً ۲۵ گھروں میں کرتی ہے۔

اس کے بدلے اسے مزدوری کے طور پر ہر گھر سے روزانہ ایک روٹی ملتی ہے۔ مہینے میں ایک بار، اگر وہ ذرا مہربان ہوئے، تو اسے کچھ روپے بھی دے سکتے ہیں۔ شاید ایک گھر سے دس روپے۔ اہلکار اسے ’بھنگی‘ کہتے ہیں، لیکن وہ خود کو ’مہتر‘ بتاتی ہے۔ اِن برادریوں سے تعلق رکھنے والے زیادہ تر لوگ خود کو ’بالمیکی‘ کہتے ہیں۔

وہ اپنے سر پر انسانوں کا فضلہ اٹھا کر لے جا رہی ہے۔ مہذب معاشرہ اسے ’رات کی مٹی‘ کہتا ہے۔ وہ ہندوستان کے سب سے غیر محفوظ اور مظلوم شہریوں میں سے ایک ہے۔ اور اکیلے راجستھان کے سیکر میں اس خاتون جیسے ہزاروں شہری ہیں۔

ہندوستان میں ہاتھ سے میلا اٹھانے والے کتنے ہیں؟ ہمیں نہیں معلوم۔ ۱۹۷۱ کی مردم شماری تک، اسے ایک الگ پیشہ کی فہرست میں شامل نہیں کیا گیا تھا۔ کچھ ریاستوں کی حکومتیں تو یہ بھی ماننے کو تیار نہیں ہوتی ہیں کہ ’رات کی مٹی‘ صاف کرنے والے مزدوروں کا کوئی وجود بھی ہے۔ پھر بھی، خامی سے بھرا، آدھا ادھورا جو کچھ بھی ڈیٹا موجود ہے، وہ بتاتا ہے کہ تقریباً دس لاکھ دلت ہاتھ سے میلا اٹھانے کا کام کرتے ہیں۔ حقیقی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔ ’رات کی مٹی‘ سے جڑے کام زیادہ تر عورتیں کرتی ہیں۔

ویڈیو دیکھیں: ’ہاتھ سے میلا ڈھونا، ذات پر مبنی ہمارے معاشرے میں اس نظام کے ذریعے انسان پر تھوپا گیا ہے، جو اس کی عزت نفس کو ٹھیس پہنچاتا ہے، اسے نیچا دکھاتا ہے، اور اسے ذلیل کرتا ہے‘

اس کام کی وجہ سے ذات پر مبنی نظام کی سب سے بڑی سزا بھگتنی پڑتی ہے۔ انہیں اپنی زندگی کے ہر موڑ پر چھوا چھوت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان کی بستیاں دوسروں سے بالکل الگ ہوتی ہیں۔ ان میں سے کئی بستیاں دیہی قصبے اور شہر کے درمیان میں کہیں بسائی گئی ہوتی ہیں۔ اُن گاؤوں میں، جو بغیر کسی منصوبہ بندی کے ’قصبے‘ بن گئے ہیں۔ لیکن ایسی کچھ بستیاں میٹروپولیٹن شہروں میں بھی ہیں۔

سال ۱۹۹۳ میں، مرکزی حکومت نے ’’ہاتھ سے میلا ڈھونے والوں کی ملازمت اور خشک لیٹرین کی تعمیر (کی ممانعت) کا قانون‘‘ پاس کیا۔ اس قانون نے ہاتھ سے میلا اٹھانے کے کام پر پابندی لگا دی۔ کئی ریاستوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ ان کے یہاں یہ روج ہے ہی نہیں یا پھر خاموشی اختیار کر لی۔ لیکن ان کی باز آبادکاری کے لیے فنڈ موجود ہے اور ریاستی حکومتوں کے لیے دستیاب ہے۔ لیکن، آپ جس کے وجود سے ہی انکار کر رہے ہیں، اس سے لڑیں گے کیسے؟ کچھ ریاستوں میں تو اس قانون کو اپنانے کو لے کر کابینہ کی سطح پر مخالفت بھی شروع ہو گئی تھی۔

کئی میونسپلٹیز میں خواتین ’صفائی ملازمین‘ کو اتنی کم تنخواہ ملتی ہے کہ وہ اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے الگ سے ’رات کی مٹی‘ یعنی میلا اٹھانے کا کام کرتی ہیں۔ اکثر میونسپلٹیاں مہینوں تک ان کی تنخواہیں ادا نہیں کرتیں۔ اس قسم کے برتاؤ کے خلاف، ہریانہ کے صفائی ملازمین نے ۱۹۹۶ میں ایک بڑا احتجاجی مظاہرہ کیا۔ جواب میں، ریاستی حکومت نے تقریباً ۷۰۰ خواتین ملازمین کو لازمی خدمات کے قانون (ایسما) کے تحت تقریباً ۷۰ دنوں کے لیے بند کر دیا تھا۔ ہڑتال کرنے والوں کی واحد مانگ تھی: وقت پر ہماری تنخواہیں ادا کر دی جائیں۔

اس کام کو بڑے پیمانے پر معاشرے کی منظوری حاصل ہے۔ اور اسے ختم کرنے کے لیے معاشرے کی اصلاح ضروری ہے۔ کیرالہ نے ۱۹۵۰ اور ۶۰ کی دہائی میں بغیر کسی قانون کے ہی ’رات کی مٹی‘ ڈھونے کے کام سے نجات حاصل کر لی تھی۔ اس کے لیے عوام کا بیدار ہونا ضروری تھا، اور اب بھی ہے۔

PHOTO • P. Sainath
PHOTO • P. Sainath

مترجم: محمد قمر تبریز

P. Sainath

পি. সাইনাথ পিপলস আর্কাইভ অফ রুরাল ইন্ডিয়ার প্রতিষ্ঠাতা সম্পাদক। বিগত কয়েক দশক ধরে তিনি গ্রামীণ ভারতবর্ষের অবস্থা নিয়ে সাংবাদিকতা করেছেন। তাঁর লেখা বিখ্যাত দুটি বই ‘এভরিবডি লাভস্ আ গুড ড্রাউট’ এবং 'দ্য লাস্ট হিরোজ: ফুট সোলজার্স অফ ইন্ডিয়ান ফ্রিডম'।

Other stories by পি. সাইনাথ
Translator : Qamar Siddique

কমর সিদ্দিকি পিপলস আর্কাইভ অফ রুরাল ইন্ডিয়ার উর্দু অনুবাদ সম্পাদক। তিনি দিল্লি-নিবাসী সাংবাদিক।

Other stories by Qamar Siddique