یہ پینل تصاویر پر مبنی نمائش – ’کام ہی کام، عورتیں گُمنام‘ کا حصہ ہے، جس کے تحت دیہی خواتین کے ذریعے کیے جانے والے مختلف قسم کے کاموں کو دکھایا گیا ہے۔ یہ تمام تصویریں پی سائی ناتھ کے ذریعے سال ۱۹۹۳ سے ۲۰۰۲ کے درمیان ملک کی ۱۰ ریاستوں کا دورہ کرنے کے دوران کھینچی گئی ہیں۔ یہاں، پاری نے ایک انوکھے انداز سے تصویر پر مبنی اس نمائش کو ڈیجیٹل شکل میں پیش کیا ہے۔ پہلے یہ نمائش کئی سالوں تک ملک کے زیادہ تر حصوں میں طبیعی طور پر لگائی جاتی رہی ہے۔
گایوں کے گھر لوٹنے تک
گوبر سے گول اُپلے بناتی بہار کی یہ عورت قومی معیشت میں حیران کن تعاون دے رہی ہے۔ حالانکہ، اس کا شمار مجموعی گھریلو پیداوار (جی ڈی پی) میں نہیں ہوگا۔ ایندھن کے طور پر گائے کے گوبر کے اُپلوں کا استعمال کرنے والے لاکھوں خاندان اگر اس کی جگہ کوئلے یا تیل جیسے ایندھنوں کا استعمال کرنے لگیں، تو تباہی آ جائے گی۔ پیٹرولیم اور اس کی مصنوعات کی درآمدات پر ہندوستان کسی دیگر اشیاء کے مقابلے زیادہ زرِ مبادلہ خرچ کرتا ہے۔ سال ۲۰۰۰–۱۹۹۹ میں یہ رقم ۴۷ ہزار ۴۲۱ کروڑ روپے تھی۔
ہم غذائی اشیاء، خوردنی تیل، دوا اور ادویاتی مصنوعات، کیمکلس، لوہا اور اسٹیل کی درآمدات پر جتنا زرِ مبادلہ خرچ کرتے ہیں، یہ رقم اس سے تین گنا سے بھی زیادہ ہے۔ پیٹرولیم اور اس کی مصنوعات پر ہم جتنا خرچ کرتے ہیں، وہ ہماری کل درآمداتی بل کا تقریباً ایک چوتھائی حصہ ہوتا ہے۔
ہم رقم ہمارے ذریعے کھاد کی درآمد پر خرچ کیے جانے والے زرِ مبادلہ – یعنی ایک اعشاریہ چار بلین ڈالر – کا تقریباً آٹھ گنا ہے۔ گوبر ایک اہم نامیاتی کھاد ہے، جسے لاکھوں لوگ فصل اُگانے میں استعمال کرتے ہیں۔ تو، یہ اُس محاذ پر بھی ہمارے لیے بے شمار رقم بچانے کا کام کر رہا ہے۔ یہ حشرہ کُش کے طور پر بھی کام کرتا ہے۔ اس کے علاوہ، اس کے اور بھی کئی فائدے ہیں۔ آپ جس طرح چاہیں اسے استعمال کر لیں۔ جو عورتیں ملک بھر میں گوبر اکٹھا کرتی ہیں – اور یہ بھی ’عورتوں کا کام‘ ہے – وہ ہندوستان کے لیے ہر سال لاکھوں-کروڑوں، شاید اربوں ڈالر بچا رہی ہیں۔ لیکن گوبر، اسٹاک ایکسچینج میں رجسٹر نہیں ہے، اور شاید اس لیے نہیں کہ وہ اسے اکٹھا کرنے والی عورتوں کی زندگی کے بارے میں بہت کم جانتے ہیں یا ان کی پروا کم کرتے ہیں – مین اسٹریم کے ماہرین اقتصادیات اسے کبھی توجہ نہیں دیتے۔ وہ اس قسم کی محنت کی طرف نہ تو توجہ کرتے ہیں اور نہ ہی اس کا احترام کرتے ہیں۔
عورتیں گائے اور بھینس کے لیے چارہ اکٹھا کرتی ہیں۔ وہ گوبر میں بھوسا اور فصلوں کے ڈنٹھل ملاکر، کھانا پکانے کے لیے چولہے میں استعمال ہونے والا کنڈا (ایندھن) تیار کرتی ہیں۔ یہ سب اپنے خرچ پر ہوتا ہے، اور منتخب کرنے کا متبادل بھی نہیں ہوتا۔ گوبر جمع کرنا تھکا دینے والا کام ہے اور اسے استعمال کرنا آسان نہیں ہوتا ہے۔
لاکھوں عورتیں ہندوستان کو دودھ پیدا کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک بنانے میں بھی بڑے پیمانے پر اپنا تعاون دے رہی ہیں۔ اور صرف اس لیے نہیں کہ وہ خاص طور پر ہندوستان کی ۱۰ کروڑ گایوں اور بھینسوں کا دودھ نکالنے کے لیے ذمہ دار ہیں۔ آندھرا پردیش کے وجیہ نگرم کی اس عورت کے لیے، گائے کا دودھ نکالنا اُس کے کام کا ایک چھوٹا حصہ ہے۔ وہ گائے کے لیے چارہ اکٹھا کرے گی، اِسے کھلائے گی، نہلائے گی، گائے کی جھونپڑی کو صاف کرے گی، اور گوبر جمع کرے گی۔ اس کی پڑوسن اُس کی گائے کا دودھ لے کر دودھ کی سوسائٹی پر پہلے سے ہی موجود ہے، جہاں وہ ہر قسم کے لین دین کو سنبھالے گی۔ ڈیئری سیکٹر میں کام کرنے والی عورتوں کی تخمینی تعداد ۶۹ فیصد سے ۹۳ فیصد تک ہے۔ عورتیں ہی دودھ سے بننے والی مختلف اشیاء بھی تیار کرتی ہیں۔ دراصل، عورتیں مویشی پروری میں اہم رول ادا کرتی ہیں۔
ایک دوسری پڑوسن کھیتوں سے بھینس (کور فوٹو) کو واپس لا رہی ہے۔ بھینس تھوڑے تناؤ میں ہے، کیوں کہ اس نے نسبتاً چھوٹے، لیکن طاقتور حملہ آور کو دیکھ لیا ہے: یعنی ایک چھوٹے سے کتے کو، جو اس کے پیروں پر حملہ کرنے کا انتظار کر رہا ہے۔ عورت نے ان دونوں اشاروں کو بھانپ لیا ہے، لیکن حالات کو اپنے قابو میں رکھا ہے۔ وہ بھینس پر نظر رکھے گی اور اسے بحفاظت گھر لے جائے گی۔ جیسا کہ وہ ہر روز کرتی ہے۔
مویشی صرف اپنے دودھ یا گوشت سے ہی انسانوں کے لیے پیسے کا انتظام نہیں کرتے، بلکہ کروڑوں غریب ہندوستانیوں کے لیے وہ اہم بیمہ کی طرح بھی کام کرتے ہیں۔ سنگین بحران کے دوران، جب آمدنی کے تمام ذرائع ختم ہوجاتے ہیں، تو غریب فیملی گزارہ کے لیے اپنے ایک یا دو مویشی فروخت کر دیتی ہے۔ اس لیے بہت سے غریب ہندوستانیوں کی خوشحالی ملک کے مویشیوں کی صحت سے جڑی ہوئی ہے۔ اور مویشیوں کی صحت عورتوں کے ذمے ہے۔ پھر بھی، کچھ ہی عورتیں ہیں جن کا مویشیوں پر مالکانہ حق ہوتا ہے یا وہ ہی انہیں کنٹرول کرتی ہیں۔ دیہی ہندوستان کی ۷۰ ہزار ڈیئری کوآپریٹو سوسائٹیز (ڈی سی) میں سے زیادہ تر پر مردوں کا غلبہ ہے۔ ان سوسائٹیوں کے کل ممبران میں سے صرف ۱۸ فیصد ہی خواتین ہیں۔ ڈی سی بورڈ کے ممبران میں بھی ان کی تعداد تین فیصد سے کم ہی ہے۔
مترجم: محمد قمر تبریز