یہ پینل تصاویر پر مبنی نمائش – ’کام ہی کام، عورتیں گُمنام‘ کا حصہ ہے، جس کے تحت دیہی خواتین کے ذریعے کیے جانے والے مختلف قسم کے کاموں کو دکھایا گیا ہے۔ یہ تمام تصویریں پی سائی ناتھ کے ذریعے سال ۱۹۹۳ سے ۲۰۰۲ کے درمیان ملک کی ۱۰ ریاستوں کا دورہ کرنے کے دوران کھینچی گئی ہیں۔ یہاں، پاری نے ایک انوکھے انداز سے تصویر پر مبنی اس نمائش کو ڈیجیٹل شکل میں پیش کیا ہے۔ پہلے یہ نمائش کئی سالوں تک ملک کے زیادہ تر حصوں میں طبیعی طور پر لگائی جاتی رہی ہے۔

زندگی بھر کا جھکنا

وژیا نگرم میں، دوپہر کی شدید دھوپ سے پریشان ہو کر، وہ تھوڑی دیر کے لیے رکی۔ لیکن، ویسے ہی جھکی رہی۔ وہ جانتی تھی کہ چند لمحوں میں ہی اسے اپنا کام دوبارہ شروع کرنا ہوگا – اسی طرح جھکے ہوئے۔

کاجو کے اِنھیں کھیتوں میں، اس کے گاؤں کی عورتوں کا دو الگ گروپ بھی کام کر رہا تھا۔ ایک گروپ، کھیت سے دو کلومیٹر دور، گھر سے دوپہر کا کھانا اور پانی ساتھ لایا تھا۔ دوسرا گروپ، مخالف سمت سے کام کر رہا تھا۔ کام کرتے وقت سبھی عورتیں جھکی ہوئی تھیں۔

اوڈیشہ کے رائے گڑھ میں، کھیت میں مرد بھی تھے۔ لینس کی آنکھوں سے دیکھنے پر، یہ ایک شاندار نظارہ تھا۔ تمام مرد کھڑے تھے، جب کہ عورتیں جھکی ہوئی تھیں۔ اوڈیشہ کے نواپاڑہ میں، گھاس پھوس نکالتی اس عورت کو بارش بھی نہیں روک پائی۔ کمر سے جھکی ہوئی، وہ اپنا کام کیے جا رہی تھی۔ ایک ہاتھ میں چھتری لیے ہوئے۔

ویڈیو دیکھیں: پی سائی ناتھ کہتے ہیں، ’میں نے جب بھی عورتوں کو کام کرتے دیکھا، تو میرے ذہن میں پہلا خیال یہی آیا کہ وہ ہمیشہ جھکی رہتی ہیں‘

ہاتھ سے روپائی، بوائی اور گھاس پھوس نکالنا کڑی محنت کا کام ہے۔ ایسا کرتے وقت، تکلیف دہ حالت میں گھنٹوں جھکے رہنا پڑتا ہے۔

ہندوستان میں ۸۱ فیصد عورتیں کاشت کاری، مزدوری، جنگلاتی پیداوار جمع کرنے اور مویشیوں کی نگرانی کا کام کرتی ہیں۔ زرعی کاموں میں صنف کی بنیاد پر ایک بڑا امتیاز دیکھنے کو ملتا ہے۔ عورتوں کے لیے ہل جوتنا ممنوع ہے۔ لیکن زراعت کے بقیہ کام وہی کرتی ہیں، خصوصی طور پر بیج کے پودے کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لگانا، گھاس پھوس نکالنا، فصلوں کی کٹائی، اناج کی صفائی اور فصل کی کٹائی کے بعد کے دیگر سبھی کام۔

ایک تجزیہ کے مطابق، زرعی کاموں میں لگنے والی کل افرادی قوت میں سے:

۳۲ فیصد عورتیں ہی ہیں، جو زمین کو کھیتی کے لیے تیار کرتی ہیں۔
۷۶ فیصد عورتیں ہی ہیں، جو بیج بونے کا کام کرتی ہیں۔
۹۰ فیصد عورتیں ہی ہیں، جو بیج سے اُگے پودوں کو ایک جگہ سے اکھاڑ کر دوسری جگہ لگاتی ہیں۔
۸۲ فیصد عورتیں ہی ہیں، جو کاٹی گئی فصل کو کھیت سے گھر تک ڈھوتی ہیں۔
۱۰۰ فیصد عورتیں ہی ہیں، جو کھانا پکانے کا کام کرتی ہیں۔ اور
۶۹ فیصد عورتیں ہی ہیں، جو دودھ کی پیداوار میں لگی ہوئی ہیں۔

PHOTO • P. Sainath
PHOTO • P. Sainath

ان میں سے زیادہ تر سرگرمیوں کا مطلب ہے دیر تک جھکے رہنا یا بیٹھ کر کام کرنا۔ اس کے علاوہ، کھیتی میں استعمال ہونے والے زیادہ تر آلات و اوزار عورتوں کی سہولت کے حساب سے نہیں بنائے گئے ہیں۔

کھیتوں میں کام کرتے وقت، عورتوں کو جھک کر یا بیٹھے ہوئے لگاتار آگے کی طرف بڑھنا پڑتا ہے۔ اسی لیے، ان کی پیٹھ اور ٹانگوں میں اکثر شدید درد رہتا ہے۔ اکثر پنڈلی تک گہرے پانی میں کھڑے ہو کر بیج سے اُگنے والے پودے کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لگانے کی وجہ سے، انہیں جلد سے متعلق امراض کا بھی خطرہ رہتا ہے۔

اس کے علاوہ اُن اوزاروں سے زخم لگنے کا خطرہ، جو مردوں کو ذہن میں رکھ کر بنائے گئے ہیں، عورتوں کو نہیں۔ ہنسیا اور درانتی سے چوٹ لگنا ایک عام بات ہے، جب کہ طبی نگہداشت کا کوئی انتظام نہیں ہوتا۔ ٹیٹنس کا خطرہ ہمیشہ بنا رہتا ہے۔

PHOTO • P. Sainath
PHOTO • P. Sainath
PHOTO • P. Sainath

زراعت میں اس قسم کے کاموں سے بچوں کی اعلیٰ شرحِ اموات ایک بڑا مسئلہ ہے۔ مثال کے طور پر، پودے لگانے کے دوران، عورتیں دن بھر میں زیادہ تر وقت جھکی رہتی ہیں یا پالتھی مار کر بیٹھی رہتی ہیں۔ مہاراشٹر میں ایک مطالعہ سے پتہ چلا کہ یہی وہ مدت ہے، جس میں اسقاطِ حمل اور بچوں کی اموات کے زیادہ تر معاملے سامنے آتے ہیں۔ دیر تک پالتھی مار کر بیٹھنے سے تھکان اور تناؤ ہوتا ہے، جس کی وجہ سے عورتیں اکثر بچوں کو وقت سے پہلے ہی جنم دے دیتی ہیں۔

اس کے علاوہ، خواتین مزدوروں کو مناسب غذا بھی نہیں ملتی ہے۔ ایسا ان کی عام غریبی کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اوپر سے یہ روایت کہ فیملی کو پہلے کھانا کھلا نا ہے عورتیں سب سے آخر میں کھائیں گی، اس حالت کو مزید خستہ بنا دیتا ہے۔ حاملہ عورتوں کو بہتر غذا نہیں ملتی، حالانکہ انہیں اس کی ضرورت ہوتی ہے۔ چونکہ خود ماں کم غذائیت کی شکار ہوتی ہے، اس لیے وقت سے پہلے پیدا ہونے والے بچوں کا وزن اتنا کم ہوتا ہے کہ وہ زندہ نہیں رہ پاتے۔

اس لیے زرعی کام کرنے والی عورتیں بار بار حاملہ ہونے اور بچوں کی اعلیٰ شرح اموات کے مسائل میں مبتلا رہتی ہیں، جو اُن کی صحت کو اور بگاڑ دیتا ہے۔ دورانِ حمل یا زچگی کے دوران، ایسی عورتوں کی موت بڑی تعداد میں ہو رہی ہے۔

PHOTO • P. Sainath

مترجم: محمد قمر تبریز

P. Sainath

পি. সাইনাথ পিপলস আর্কাইভ অফ রুরাল ইন্ডিয়ার প্রতিষ্ঠাতা সম্পাদক। বিগত কয়েক দশক ধরে তিনি গ্রামীণ ভারতবর্ষের অবস্থা নিয়ে সাংবাদিকতা করেছেন। তাঁর লেখা বিখ্যাত দুটি বই ‘এভরিবডি লাভস্ আ গুড ড্রাউট’ এবং 'দ্য লাস্ট হিরোজ: ফুট সোলজার্স অফ ইন্ডিয়ান ফ্রিডম'।

Other stories by পি. সাইনাথ
Translator : Qamar Siddique

কমর সিদ্দিকি পিপলস আর্কাইভ অফ রুরাল ইন্ডিয়ার উর্দু অনুবাদ সম্পাদক। তিনি দিল্লি-নিবাসী সাংবাদিক।

Other stories by Qamar Siddique