’’نہیں، کرفیو ہمارے لیے نہیں ہے۔ ہم ایک دن کی بھی چھٹی نہیں لے سکتے۔ لوگوں کا محفوظ رہنا ضروری ہے – اور اس کے لیے ہمیں شہر کو صاف کرتے رہنا ہوگا،‘‘ چنئی کے تھاؤزینڈ لائٹس علاقے میں کام کرنے والی ایک صفائی ملازمہ، دیپکا کہتی ہیں۔
۲۲ مارچ کو ’جنتا کرفیو‘ کے دوران تقریباً پورا ملک اپنے اپنے گھروں میں تھا – شام ۵ بجے کو چھوڑ کر، جب طبی کارکنوں کا ’شکریہ‘ ادا کرنے کے لیے مجمع اکٹھا ہو گیا تھا۔ صفائی ملازمین، جو ان لوگوں میں سے تھے جن کے لیے ’شکریہ‘ کی یہ بارش ہو رہی تھی، پورا دن شہر کی صفائی ستھرائی میں لگے ہوئے تھے۔ ’’ہماری خدمات کی پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت ہے،‘‘ دیپکا کہتی ہیں۔ ’’ہمیں ان سڑکوں سے وائرس مٹانا ہے۔‘‘
حسب معمول، دیپکا اور ان کے جیسے دیگر ملازمین بغیر کسی تحفظاتی آلہ کے سڑکیں صاف کر رہے تھے۔ لیکن اکثر دنوں کے برعکس، چیزیں مزید بدتر ہو گئی ہیں۔ ملک گیر لاک ڈاؤن ہونے کی وجہ سے، کئی ملازمین کو کام پر پہنچنے کے لیے ان گاڑیوں پر چڑھ کر جانا پڑا جن میں کچرا لے جایا جاتا ہے۔ کچھ لوگ کئی کلومیٹر پیدل چل کر کام پر پہنچے۔ ’’۲۲ مارچ کو مجھے باقی دنوں سے زیادہ سڑکیں صاف کرنی پڑیں کیوں کہ میرے کئی ساتھی جو دور سے آتے ہیں، نہیں پہنچ پائے،‘‘ دیپکا بتاتی ہیں۔
ان تصویروں میں دکھائی گئی زیادہ تر عورتیں وسطی اور جنوبی چنئی کے علاقے جیسے تھاؤزینڈ لائٹس اور الورپیٹ، اور انّا سلائی کے ایک حصہ، میں کام کرتی ہیں۔ عورتوں کو اپنے گھروں سے، جو شمالی چنئی میں واقع ہیں، یہاں پہنچنے کے لیے سفر کرنا پڑتا ہے۔
ان لوگوں کو آج کل ایک عجیب طرح کا شکرانہ مل رہا ہے۔ ملازمین کا الزام ہے کہ ۲۴ مارچ کو لاک ڈاؤن کا اعلان ہونے کے بعد سے ہی، یہ لوگ چھٹی پر جانے کا خطرہ مول نہیں لے سکتے۔ ’’انہیں بتایا گیا ہے کہ اگر وہ لوگ غیر حاضر رہتے ہیں، تو ان کی نوکری چلی جائے گی،‘‘ سیٹو سے وابستہ چنئی کارپوریشن ریڈ فلیگ یونین کے جنرل سکریٹری، بی شری نواسولو کہتے ہیں۔ شری نواسولو بتاتے ہیں کہ حالانکہ آنے جانے کے لیے بسیں چلائی گئی ہیں، لیکن وہ کافی نہیں ہیں اور اکثر دیر سے چلتی ہیں۔ اس کی وجہ سے ملازمین آنے جانے کے لیے کچرے کی لاریوں کا استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔ یہاں کے صفائی ملازمین ہر مہینے ۹۰۰۰ روپے تک کماتے ہیں، لیکن اچھے سے اچھے دنوں میں بھی آنے جانے کے لیے ان کو روزانہ تقریباً ۶۰ روپے خرچ کرنے پڑتے ہیں۔ کرفیو اور لاک ڈاؤن کے دوران، جو لوگ سرکاری بسوں اور کارپوریشن کے ذریعے چلائی جا رہی گاڑیوں میں سفر نہیں کر پاتے، ان کو پوری دوری پیدل ہی طے کرنی پڑتی ہے۔
’’حال ہیں میں چنئی میونسپل کارپوریشن نے انہیں تحفظاتی آلات مہیا کرانے شروع کیے ہیں، لیکن وہ اچھی کوالٹی کے نہیں ہیں۔ انہیں ایک بار استعمال کرکے پھینکنے والے ماسک دیے گئے تھے، لیکن ان کو وہ ماسک دوبارہ استعمال کرنے پڑتے ہیں۔ کچھ ملیریا ملازمین [جو مچھروں کو بھگانے کے لیے دھواں کرتے ہیں] – صرف ان میں سے کچھ لوگوں کو – کچھ تحفظاتی آلات دیے گئے ہیں، لیکن ان کے پاس نہ تو جوتے ہیں اور نہ ہی معیاری دستانے،‘‘ شری نواسولو کہتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ کورونا وائرس کے خلاف مہم چلانے کے لیے، کارپوریشن نے، ہر ژون کے حساب سے، کچھ اضافی روپیوں کی منظوری دی ہے۔
خالی، غیر معمولی طور پر خاموش سڑکیں اور پوری طرح بند کیے گئے دروازے اور کھڑکیاں، ان دنوں صفائی ملازمین کے لیے کسی بھی رہائشی علاقے میں ایک مسلسل نظارہ ہے۔ ’’لیکن ہمیں دھوپ میں محنت کرنی پڑتی ہے، تاکہ ان کے بچے وائرس سے آزاد رہیں۔ ہمارے بچوں اور ان کی حفاظت کی کس کو پڑی ہے؟‘‘ ان میں سے ایک پوچھتے ہیں۔ جہاں کرفیو کے بعد سڑکوں پر کچرا کم ہو گیا ہے، وہیں گھروں سے آنے والا کچرا بڑھ گیا ہے۔ ’’ایسی حالت میں ہمارے ملازمین قدرتی طور پر سڑ جانے والے کچرے کو نہ سڑنے لائق کچرے سے الگ کر پانے میں ناکام ہیں۔ ہم نے اس کو عارضی طور پر روکنے کے لیے کارپوریشن سے درخواست کی ہے،‘‘ شری نواسولو کہتے ہیں۔ اس لاک ڈاؤن کے دوران صفائی ملازمین کو پینے کا پانی تک ملنے میں دقت ہو رہی ہے، اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے شری نواسولو کہتے ہیں، ’’پہلے، جن کالونیوں میں وہ کام کرتے ہیں، وہاں پر رہنے والے لوگ انہیں پینے کے لیے پانی دے دیتے تھے۔ لیکن اب کئی ملازمین بتاتے ہیں کہ ان کو پانی کے لیے منع کر دیا جاتا ہے۔‘‘
شری نواسولو بتاتے ہیں کہ تمل ناڈو میں تقریباً ۲ لاکھ صفائی ملازمین ہیں۔ چنئی میں ہی تقریباً ۷۰۰۰ کل وقتی ملازمین ہیں، لیکن پھر بھی یہ تعداد کافی کم ہے۔ ’’کیا آپ کو ۲۰۱۵ کا سیلاب اور اس کے اگلے ہی سال آیا وردا طوفان یاد ہے؟ ۱۳ ضلعوں کے ملازمین کو چنئی میں آکر اس کو دوبارہ عام حالت میں لانے کے لیے ۲۰ دنوں تک کام کرنا پڑا تھا۔ اگر راجدھانی کی یہ حالت ہے، تو باقی ضلعوں میں تو ملازمین کی مطلوبہ تعداد سے بہت کم ملازمین ہوں گے۔‘‘
صفائی ملازمین کے لیے اپنے ریٹائرمنٹ سے پہلے ہی مر جانا کوئی انوکھی بات نہیں ہے۔ ’’ہمارے پاس کوئی تحفظاتی آلہ نہیں ہے اور ان میں سے کسی بھی بیماری سے متاثر ہوکر ہماری موت ہو سکتی ہے،‘‘ ان میں سے ایک بتاتے ہیں۔ جو لوگ صفائی کرنے کے لیے سیور میں گھستے ہیں، ان میں سے کچھ کی موت دم گھٹنے سے ہو جاتی ہے۔ فروری کے مہینے میں ہی، تمل ناڈو میں کم از کم پانچ ملازمین کی موت سیور میں ہوئی ہے۔
’’یہ فطری بات ہے کہ لوگ اب شکرانہ ادا کر رہے ہیں، کہ ہم ان کی سڑکیں صاف رکھ رہے ہیں اور ان کو انفیکشن سے بچا رہے ہیں۔ ٹیلی ویژن چینلوں نے ہمارا انٹرویو لیا ہے۔ لیکن یہ کام تو ہم ہمیشہ سے کرتے آئے ہیں،‘‘ وہ کہتی ہیں۔
’’ہم نے تو ہمیشہ سے ہی شہر کو صاف رکھنے کے لیے کام کیا ہے اور اس کام کے لیے اپنی جان خطرے میں ڈالی ہے۔ وہ لوگ تو بس ابھی ہی شکرانہ ادا کر رہے ہیں، لیکن ہم تو ہمیشہ سے ہی ان کی بھلائی کے بارے میں سوچتے آئے ہیں۔‘‘
لاک ڈاؤن کے دوران کام کرنے کے لیے صفائی ملازمین کو اضافی پیسے نہیں دیے جاتے ہیں۔
آپ کے لیے صرف شکرانہ ہی ہے۔
مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز