میں نے دھمتری ضلع کی ناگری تحصیل میں ایک سڑک کے کنارے، تقریباً ۱۰ لوگوں کے ایک گروپ کو کسی چیز پر جمع ہوتے دیکھا۔ میں رک کر ان کے پاس جاتا ہوں یہ دیکھنے کے لیے کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔
کچھ نوجوان چھتّے سے شہد ٹپکا کر بیچ رہے ہیں جو ایک مقامی سرکاری اسپتال کی چھت پر مدھومکھیوں کے ایک بڑے چھتّے کا حصہ تھے۔ اسپتال کی انتظامیہ نے ان سے چھتّے کو ہٹانے کے لیے کہا تھا۔
میں اُن سے پوچھتا ہوں کہ وہ کہاں سے ہیں؟ سائیبل، اپنے گھر سے انتہائی محبت کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’’کولکاتا، مغربی بنگال سے!‘‘ پراپر کولکاتا سے، میں پوچھتا ہوں؟ ’’کیا آپ سندربن کو جانتے ہیں؟‘‘ وہ جواب دیتے ہیں۔ بالکل، میں کہتا ہوں، یہ سوچتے ہوئے کہ کیا وہ سندربن میں اپنے گھر پر بھی شہد جمع کرتے ہیں۔
’’شہد جمع کرنا ہمارا پیشہ نہیں ہے، ہم [گھر کے] پینٹر ہیں۔ جب بھی کوئی ہم سے کہتا ہے، تو ہم یہ کام بھی کرتے ہیں۔ لیکن ہم اپنے گاؤں میں مدھومکھی پالنے والے کے طور پر شہد بھی جمع کرتے ہیں، اس لیے جانتے ہیں کہ چھتّے کو کیسے ہٹانا ہے۔ یہ ہمارا روایتی ہنر ہے۔ ہمارے دادا اور ان کے دادا جی نے بھی یہی کام کیا۔‘‘
سائیبل اس کے بعد مجھے بتاتے ہیں کہ کیسے وہ اڑتی اور بھنبھناتی ہوئی شہد کی مکھیوں کو بھگاتے ہیں۔ وہ سب سے پہلے مٹھی بھر گھاس میں آگ لگاتے ہیں اور پھر اس کے دھوئیں سے مدھومکھیوں کے چھتّے سے باہر نکالنا شروع کرتے ہیں۔ ’’ہم دھنواں کرکے رانی مدھومکھی کو پکڑ لیتے ہیں،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔ ’’ہم نہ تو مدھومکھیوں کو مارتے ہیں اور نہ ہی انھیں جلاتے ہیں۔ ایک بار جب ہم نے رانی مدھومکھی کو پکڑ لیا اور اسے ایک بیگ میں رکھ لیا، تو اس کے بعد دوسری مدھومکھیاں نقصان نہیں پہنچاتی ہیں۔‘‘ مدھومکھیاں اڑ کر دور چلی جاتی ہیں اور یہ لوگ چھتّے کو کاٹ کر شہید جمع کر لیتے ہیں۔ ’’اس کے بعد ہم رانی مدھومکھی کو جنگل میں چھوڑ دیتے ہیں، تاکہ وہ اپنا نیا چھتہ بنا سکیں۔‘‘
ناگری میں، سڑک کے کنارے، وہ ۳۰۰ روپے کلو شہد (اور شہد سے سرابور چھتّہ) بیچ رہے ہیں۔ انھیں اسپتال کے اہلکاروں کی طرف سے اجرت کے طور پر ۲۵ کلو شہد ملا ہے۔ وہ مدھومکھی کا موم بھی ۴۰۰ روپے فی کلو بیچتے ہیں۔ چھتیس گڑھ میں، گھڑوا برادری کے لوگ اس کا استعمال مخصوص ڈھوکرا آرٹ کے سامان بنانے میں کرتے ہیں۔
جب میں گروپ میں سب سے کم عمر کے رنجیت منڈل سے پوچھتا ہوں کہ وہ اس سے پہلے کتنی بار ایسا کر چکے ہیں، تو وہ جواب دیتے ہیں: ’’اب تک میں نے جگدل پور، بیجاپور، دنتے واڑہ، سِکّم، جھارکھنڈ جیسے مختلف مقامات پر تقریباً ۳۰۰ بار شہد کے چھتّے نکالے ہیں۔‘‘
دو سال پہلے، خشک سالی پر ایک اسٹوری کرتے ہوئے، میں دھمتری ضلع کی اسی تحصیل کے جبرّہ گاؤں کے پاس ایک جنگل سے ہوکر گزر رہا تھا۔ وہاں میری ملاقات کمار درج فہرست قبیلہ کے انجورہ رام سوری سے ہوئی، وہ جنگلاتی پیداوار بیچ کر گزر بسر کر رہے تھے۔ انھوں نے کہا، ’’جنگل میں جب قحط پڑتا ہے، تو شہد کی مکھیاں ہی ہیں جو اُس جنگل سے باہر نکل جاتی ہیں۔‘‘ تب مجھے احساس ہوا کہ جس طرح لوگوں کو دوسرے مقامات پر جانے کے لیے مجبور کیا گیا ہے، اسی طرح شہد کی مکھیوں کو بھی سبزہ زاروں کی طرف ہجرت کرنی ہوگی۔
(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)