شانو کو سب سے پہلے ان کے چچیرے بھائی بسوناتھ سین نے شنکھ (سیپ کے خول) کو گھس کر چوڑیاں بنانا سکھایا تھا۔
اس کام کو کرتے ہوئے اپنی زندگی کا آدھے سے بھی زیادہ حصہ گزار چکے ۳۱ سالہ شانو گھوس بتاتے ہیں، ’’میں چوڑیوں پر ڈیزائن بناتا ہوں اور پھر بیچنے کے لیے انہیں مہاجن [ٹھیکہ دار] کے پاس بھیج دیتا ہوں۔ میں سیپ کی صرف ریگولر چوڑیاں بناتا ہوں۔ کئی کاریگر ان چوڑیوں اور شنکھوں پر سونے کا پانی چڑھانے کے لیے بھیج دیتے ہیں۔‘‘
وہ اس وقت مغربی بنگال کے شمالی ۲۴ پرگنہ ضلع کے بیرک پور میں واقع شنکھ بانک کالونی میں اپنے کارخانہ میں موجود ہیں۔ اس علاقے میں اس قسم کے ایسے کئی کارخانے ہیں جو سیپ سے بنا ہوا مال سپلائی کرتے ہیں۔ شانو بتاتے ہیں، ’’لال کُٹھی سے گھوش پاڑہ تک، سیپ کاریگر بڑی تعداد میں چوڑی کے کارخانوں میں کام کرتے ہیں۔‘‘
مہاجن لوگ یہ سیپ انڈمان اور چنئی سے منگواتے ہیں۔ سیپ دراصل سمندری گھونگھے کا خول ہوتا ہے۔ یہ خول کے سائز پر منحصر ہے کہ اس سے شنکھ (پھونکنے کے لیے) بنایا جائے گا یا چوڑیاں۔ موٹے اور بھاری سیپ سے چوڑیاں بنانا آسان ہے کیوں کہ چھوٹے اور ہلکے سیپ چرخی پر گھسائی کے دوران ٹوٹ جاتے ہیں۔ اس لیے ہلکے سیپوں سے شنکھ بنائے جاتے ہیں، جب کہ بھاری سیپوں کو چوڑیاں بنانے میں استعمال کیا جاتا ہے۔
سیپ کو اندر اور باہر سے صاف کرنے کے بعد اصل کام شروع ہوتا ہے۔ خول کو صاف کرنے کے بعد، اسے سلفیورک ایسڈ والے گرم پانی سے دھویا جاتا ہے۔ اس کے بعد، اسے پالش کیا جاتا ہے اور اگر کوئی سوراخ، دراڑ یا اوبڑ کھابڑ حصہ ہے، تو اسے بھرنے کے بعد چوڑی کو گھس کر چکنا کر دیا جاتا ہے۔
چوڑیوں کو الگ کرنے سے پہلے، انہیں ہتھوڑی سے توڑا جاتا ہے اور چرخی کی مدد سے کاٹا جاتا ہے۔ پھر کاریگروں کا کام شروع ہوتا ہے، جو ہر پیس کو رگڑتے اور پالش کرتے ہیں۔ شانو بتاتے ہیں، ’’کچھ کاریگر کچے سیپ کے خول کو توڑنے کا کام کرتے ہیں، جب کہ بقیہ لوگ اس سے چوڑیاں بناتے ہیں۔ ہم تمام لوگ الگ الگ مہاجن کے لیے کام کرتے ہیں۔‘‘
شنکھ بانک کالونی سیپ کے کارخانوں سے بھری ہوئی ہے، جن میں سے زیادہ تر کا سائز چھوٹے سے بیڈ روم یا گیراج کے برابر ہے۔ شانو کے کارخانہ میں ایک ہی کھڑکی ہے اور اس کی دیواریں سیپ کی کٹائی سے نکلنے والے سفید گرد و غبار سے بھر چکی ہیں۔ کمرہ کے ایک کونے میں گھسائی کرنے والی دو مشینیں رکھی ہوئی ہیں، جب کہ دوسرا کونا ان سیپوں سے بھرا ہوا ہے جن پر ابھی کام شروع نہیں ہوا ہے۔
زیادہ تر مہاجن اپنی دکانوں سے ہی تیار مال بیچتے ہیں، لیکن سیپ کی چوڑیوں کا ایک ہول سیل مارکیٹ بھی ہے جو ہر بدھ کو لگتا ہے۔
بعض دفعہ، یہ مہاجن خاص طور پر گولڈ پلیٹڈ چوڑیوں کا آرڈر کرنے والے گاہکوں کو سیدھے بیچ دیتے ہیں۔
شانو کا کہنا ہے کہ سیپ نہ ملنے کی وجہ سے حالیہ برسوں میں سیپ کی چوڑیوں اور شنکھوں کی فروخت میں کمی آئی ہے۔ شانو کہتے ہیں، ’’ہم چاہتے ہیں کہ خام مال کی قیمت تھوڑی کم کر دی جائے، تاکہ اسے آسانی سے خریدا جا سکے۔ حکومت کو خام مال کی کالا بازاری پر نظر رکھنی چاہیے۔‘‘
سیپ کے خول سے چوڑیاں اور دیگر آرائشی سامان تیار کرنے والے کاریگروں کو صحت سے متعلق کئی مسائل کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ شنکھ بانک کالونی میں کام کرنے والے ایک کاریگر ابھشیک سین بھی ہیں، جن کی عمر ۲۳ سال ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’سیپ کو رگڑتے وقت، اس کے خول سے نکلنے والا پاؤڈر ہماری ناک اور منہ میں بھر جاتا ہے۔ ہم خطرناک کیمیکلز بھی استعمال کرتے ہیں۔‘‘ ابھشیک، سیپ کی چوڑیاں اور شنکھ بناتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں، ’’میری آمدنی کام کے معیار اور اس کی قسم پر منحصر ہے۔ سیپ کی چوڑی جتنی چوڑی اور بھاری ہوگی، اجرت بھی اتنی ہی زیادہ ملے گی۔ کسی کسی دن میں ۱۰۰۰ روپے کما لیتا ہوں، لیکن باقی دنوں میں مجھے مشکل سے ۳۵۰ روپے ہی مل پاتے ہیں۔ میں اکثر صبح کو ساڑھے ۹ بجے اپنا کام شروع کرتا ہوں اور دن کے ۳ بجے تک اسے جاری رکھتا ہوں…پھر دوبارہ شام کے تقریباً ۶ بجے سے لے کر رات کے ۹ بجے تک کام کرتا ہوں۔‘‘
سجل (۳۲ سالہ) گزشتہ ۱۲ سالوں سے سیپوں کی گھسائی اور پالش کرنے کا کام کر رہے ہیں۔ ’’پہلی بار جب میں نے یہ کام شروع کیا تھا، تب ایک جوڑی [چوڑیوں] کے مجھے ڈھائی روپے ملتے تھے۔ اب چار روپے ملتے ہیں۔‘‘ وہ خول کی فنشنگ (چمکانے کا کام) کرتے ہیں۔ اس کے لیے وہ گوند اور زنک آکسائیڈ کو ملا کر پیسٹ تیار کرتے ہیں، پھر اس سے چوڑیوں کی سوراخ اور کریک (دراڑ) کو بھرتے ہیں۔ سجل بتاتے ہیں کہ وہ ایک دن میں ۴۰۰-۳۰۰ روپے کما لیتے ہیں۔
سوشانت دھر کہتے ہیں، ’’ہمارے ذریعے بنائی گئی چوڑیاں اور شنکھ آسام، تریپورہ، کنیا کماری، اور بنگلہ دیش تک جاتے ہیں اور اتر پردیش کے ہول سیلرز بھی یہاں خریداری کرنے آتے ہیں۔‘‘ ۴۲ سال کے اس کاریگر کا کہنا ہے کہ وہ سیپ کے خول پر پھول، پتیاں، دیوی دیوتاؤں کی تصویریں اور دوسرے ڈیزائن بناتے ہیں۔ سوشانت کہتے ہیں، ’’ہم ایک مہینہ میں ۵۰۰۰ سے ۶۰۰۰ روپے تک کما لیتے ہیں۔ بازار کی حالت خراب ہو رہی ہے اور مال مہنگے ہوتے جا رہے ہیں۔ بارش کے دنوں میں تو حالت اور بھی خراب ہو جاتی ہے کیوں کہ برسات کی وجہ سے ہول سیل کسٹمر یہاں نہیں آتے ہیں۔‘‘
شانو کہتے ہیں، ’’ایک دن میں اگر میں سیپ کی ۵۰ جوڑی چوڑیاں بناؤں، تو ۵۰۰ روپے کما سکتا ہوں۔ لیکن ایک دن میں سیپ کی ۵۰ جوڑی چوڑیوں پر ڈیزائن بنانا تقریباً ناممکن ہے۔‘‘
گرتے بازار، مالی بے یقینی اور سرکاری مدد نہ ملنے کی وجہ سے شانو اور شنکھ بانک کالونی کے دیگر کاریگر اپنے کاروبار کے بہتر مستقل کو لے کر ناامید ہوتے جا رہے ہیں۔
مترجم: محمد قمر تبریز