سِٹّی لِنگی وادی کے کچھ نوجوان آدیواسی مردوں کے لیے یہ اسکول واپس آنے جیسا ہے۔ اس بار حالانکہ یہ تعلیم کے لیے نہیں، بلکہ تولیر اسکول کے نئے کیمپس کی تعمیر کرنے کے لیے ہے۔
اُن میں سے ایک ۲۹ سالہ الیکٹریشین اے پیرومل بھی ہیں، جو ایک صبح کو وہاں تار اور پائپ کی فٹنگ کر رہے تھے۔ ’’زمینی سطح کے چھوٹے وینٹی لیٹر کو دیکھا آپ نے؟ اس سے، سب سے چھوٹے بچوں کو بھی تازہ ہوا مل سکتی ہے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ پیرومل سٹی لنگی وادی میں ٹی وی اور پنکھے ٹھیک کرنے کے اپنے مصروف ترین کام کو چھوڑ کر اس کنسٹرکشن سائٹ پر کام کرنے کے لیے آئے ہیں۔
پاس میں، ۲۴ سالہ ایم جے بل ہیں، جو ٹھوس مٹی کی اینٹوں کے استعمال سے آشنا ایک مقبول راج مستری ہیں۔ وہ مٹی کے آکسائڈ میں ڈیزائن والے ستونوں کو شکل دے رہے ہیں، حالانکہ انھوں نے وادی کے اپنے سرکاری اسکول میں کبھی آرٹ پیپر اور کریان نہیں پکڑا۔ وہ اسکول کی اس نئی عمارت میں، دسمبر ۲۰۱۶ میں اس کا پہلا پتھر رکھے جانے کے وقت سے ہی بڑھئی کے طور پر بھی کام کر رہے ہیں۔ انھیں اور دیگر کو یہاں آٹھ گھنٹے کام کرنے کے ۵۰۰ روپے ملتے ہیں، اور جب بھی ضرورت ہوتی ہے وہ آ جاتے ہیں۔
عمارت کی میکانکس میں ان کا پہلا سبق، تولیر کے اسکول کے بعد والے نصاب میں، ۲۰۰۴ میں شروع ہوا۔ یہاں، جے بل اور سٹی لنگی کے مقامی سرکاری اسکول کی پرائمری اور مڈل سطح کی کلاسوں کے دیگر طالب علم خود کے تجربات سے سائنس کی دریافت کرتے، ڈرائنگ کے ذریعہ آرٹ بناتے، اور کتابوں سے زبان سیکھتے۔
سٹی لنگی میں ۲۰۱۵ تک، تولیر ’سینٹر فار لرننگ‘ (’تولیر‘ کا مطلب ہے پودے کی نئی شاخ) قائم ہو چکا تھا، جو پانچویں کلاس تک کا ایک پرائمری اسکول ہے۔ تمل ناڈو کے دھرم پوری ضلع کے ایک دور افتادہ کونے میں واقع اس وادی کی کل آبادی تقریباً ۱۰ ہزار ہے – یہاں کی کل ۲۱ بستیوں میں سے ۱۸ ملیالی، دو لمباڈی تانڈا اور ایک دلت بستی ہے۔
عمارت پر کام کرنے والے سبھی لوگ ملیالی برادری کے ہیں، جو ۵۱ اعشاریہ ۳ فیصد کی شرحِ خواندگی کے ساتھ ریاست میں سب سے کم تعلیم یافتہ ہیں (مردم شماری ۲۰۱۱)۔ لیکن، ملیالی تمل ناڈو میں درج فہرست قبائل (ایس ٹی) کی کل آبادی ۷۹۴۶۹۷ ہے، جس میں سب سے زیادہ تعداد ملیالی آدیواسیوں کی ہے، ۳۵۷۹۸۰۔ وہ بنیادی طور سے دھرم پوری، نارتھ ارکاٹ، پڈوکوٹئی، سالیم، ساؤتھ ارکاٹ اور تیروچِراپلّی ضلعوں میں رہتے ہیں۔
’’پہلی چیز جو میں نے [اسکول کے بعد والے پروگرام میں] سیکھی وہ یہ تھی کہ پودوں کو پانی دینے کے لیے ’ایلبو جوائنٹ‘ کا استعمال کرکے پائپ کیسے جوڑی جائے،‘‘ تولیر اسکول کے ٹیچر، ۲۷ سالہ ایم شکتی ویل یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں، وہ ملیالی آدیواسیوں کی ایک بستی، مُلّا سِٹّی لِنگی میں بڑے ہوئے۔
شکتی ویل سیڑھی کے اوپر چڑھ کر ایک سولر پینل اور بیٹری کو ہٹا رہے ہیں، جسے انھیں وادی میں اسکول کے موجودہ کرایے کے کیمپس سے تقریباً ایک کلومیٹر دور، نئی اسکول عمارت میں منتقل کرنا ہے۔ نئے اسکول میں بہت سارے مہنگے آلات ہیں اور رات میں سولر لائٹ چوروں کو دور رکھنے میں مدد کرے گی، شکتی ویل کہتے ہیں۔
ان سے کچھ ہی دوری پر، ۲۸ سالہ کمار اے ونڈو گرِلس کے لیے لوہے کے چھڑوں کی پیمائش، کٹائی اور اسے موڑ رہے ہیں۔ وہ اور ان کے ساتھی اس بارے میں دماغ لگا رہے ہیں کہ کھڑکیوں کے لیے چھوڑی گئی جگہ کیسے سات سال کے بچوں کے لیے ایک دم صحیح رہے گی، جب وہ باہر نکل کر گھومنا چاہیں گے۔
سٹی لنگی کے سرکاری پرائمری اسکول میں پڑھتے وقت کمار، پیرومل، جے بل اور شکتی ویل کے لیے کھوج بین کرنے کا کوئی متبادل نہیں تھا۔ کلاسیں بھری ہوتی تھیں، ٹیچر زیادہ تر غائب رہتے تھے، اسکول مایوسی سے بھرا ایک تجربہ تھا۔ جب ہائی اسکول جانے کا وقت آیا، تو انھوں نے پڑھائی چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ شکتی ویل کہتے ہیں، ’’کلاس میں جو کچھ ہوتا، وہ مجھے سمجھ میں نہیں آتا تھا اور مجھے امتحان سے نفرت تھی،‘‘ پیرومل کہتے ہیں۔ ’’میرے والدین تعلیم یافتہ نہیں ہیں، اس لیے گھر پر [پڑھائی] کرنے کا کوئی طریقہ نہیں تھا۔‘‘
ملک بھر میں، پرائمری اسکولوں میں درج فہرست قبائل کے طلبہ کی اسکول چھوڑنے کی شرح ۶ اعشاریہ ۹۳ فیصد ہے۔ مڈل اسکولوں میں یہ بڑھ کر ۲۴ اعشاریہ ۶۸ فیصد ہو جاتی ہے (ہندوستان کے سبھی طلبہ میں یہ شرح ۴ اعشاریہ ۱۳ فیصد اور ۱۷ اعشاریہ ۰۶ فیصد ہے)، ایسا وزارتِ فروغِ انسانی وسائل کے ذریعہ تیار کی گئی ۲۰۱۸ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے، جس کا عنوان ہے ایجوکیشن اسٹیٹسٹکس ایٹ اے گلینس ۔ رپورٹ کہتی ہے، ’اس کا [ہائی ڈراپ آؤٹ ریٹ] سبب نہ صرف گھریلو سرگرمیوں میں مصروفیت ہے، بلکہ تعلیم میں دلچسپی کی کمی بھی ہے‘۔
’’ہم دن بھر ایک ہی جگہ بیٹھے رہتے، زیادہ کچھ سکھایا نہیں جاتا تھا،‘‘ جے بل کہتے ہیں۔ سٹی لنگی کے سابق پنچایت صدر، پی تھین موجھی کہتے ہیں، ’’آٹھویں کلاس کے آخر میں، میں انگریزی میں اپنا نام بھی نہیں لکھ سکتا تھا۔‘‘
اگر طلبہ کسی طرح اپنی تعلیم جاری رکھنا چاہتے، تو اس کا مطلب تھا محفوظ جنگل سے ہو کر ۱۰ کلومیٹر دور، کوٹّا پٹّی کے سرکاری ہائی اسکول تک پیدل جانا۔ بس سے جانے پر یا تو وہ اسکول بہت جلدی پہنچ جاتے یا بہت دیر میں۔ (جے بل اور دیگر نے جس سرکاری اسکول میں پڑھائی کی تھی، اسے ۲۰۱۰ میں وسعت دے کر ۱۰ویں کلاس تک کر دیا گیا تھا۔) سٹی لنگی وادی گھنے جنگلوں والی کلراین اور سِٹّیری پہاڑیوں سے گھری ہوئی ہے۔ پہلے صرف شمال کی طرف سے ہی وادی تک پہنچا جا سکتا تھا – کرشنا گیری سے تیرونّاملائی تک جانے والی قومی شاہراہ ۴۵اے سے۔ سال ۲۰۰۳ میں اس راستے کو جنوب تک بڑھا دیا گیا اور اس کا انضمام ریاست کی شاہراہ ۷۹ میں کر دیا گیا، جس کے کنارے سالیم (۸۰ کلومیٹر دور) اور تریپورہ کا انڈسٹریل ٹیکسٹائل بیلٹ، ایروڈ اور اِویناشی ہیں۔
ان علاقوں میں بڑی تعداد میں مزدوروں کی ضرورت ہوتی ہے۔ نئی سڑک نے لوگوں کو کام کے لیے ہجرت کرنا آسان بنا دیا، گاؤں کی ۶۵ سالہ بزرگ آر دھن لکشمی کہتی ہیں۔ ان کے تین بیٹوں نے ۷ویں کلاس میں پڑھائی چھوڑ دی اور ٹرک کی صفائی کرنے والے بن گئے؛ ان کی چار لڑکیوں نے بھی اسکول جانا چھوڑ دیا اور کھیتی میں مدد کرنے لگیں، جہاں فیملی چاول، گنّا، دال اور سبزیاں اگاتی ہے۔ ’’جب بارش نہیں ہوتی، تو بہت سارے لوگ ہجرت کرنے لگتے...‘‘ دھن لکشمی کہتی ہیں۔
اسٹیٹ پلاننگ کمیشن کے ذریعے مالی امداد یافتہ، ۲۰۱۵ کے تمل ناڈو مائگریشن سروے میں کہا گیا ہے کہ ۳۲ اعشاریہ ۶ فیصد مہاجرین نے صرف ۸ویں کلاس تک تعلیم حاصل کی ہے۔ اور ان کی اوسط عمر تقریباً ۱۴ سال ہے – جو کہ ہندوستان میں کئی شعبوں میں روزگار تلاش کرنے کی قانونی عمر ہے۔ نوکری کے لیے کوئی ہنر نہ ہونے کے سبب، بہت سے لوگ تعمیراتی مقامات پر مزدور بن جاتے ہیں – جو غیر منظم لیبر کی واحد اعلیٰ کیٹیگری ہے، ریاست کے ۱۰ مہاجرین میں سے ہر ایک یہی کام کرتا ہے۔
جے بل نے کلاس ۸ کے بعد اسکول چھوڑ دیا اور کیرالہ چلے گئے، جہاں وہ تعمیراتی مقامات پر صرف ہیلپر کا کام ڈھونڈ سکے، اور ہفتہ میں ۱۵۰۰ روپے کمانے لگے۔ کام اور رہنے کی حالت سے ناخوش، وہ چھ مہینے میں اپنی فیملی کی پانچ ایکڑ زمین پر کھیتی کرنے کے لیے لوٹ آئے۔ پیرومل بھی ۱۷ سال کی عمر میں کیرالہ چلے گئے تھے۔ ’’میں نے یومیہ مزدور کے طور پر کام کیا، زمین کو صاف کرتا، درختوں کو کاٹتا اور ایک دن میں ۵۰۰ روپے کماتا تھا۔ لیکن یہ بہت تھکا دینے والا کام تھا۔ میں ایک مہینہ بعد پونگل [فصلوں کا تہوار] منانے واپس آیا اور یہیں [فیملی کے تین ایکڑ کھیت میں کام کرنے کے لیے] رک گیا۔‘‘
سری رام آر ۱۲ویں کلاس پاس کرنے میں ناکام رہے، اس لیے انھوں نے اسکول چھوڑ دیا اور ۲۰۰ کلومیٹر دور، تیروپور چلے گئے۔ ’’میں نے چھ مہینے تک ٹیکسٹائل مشین بنانے والی اکائی میں کام کیا اور ہفتہ میں ۱۵۰۰ روپے کمائے،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔ ’’مجھے کاٹن فائبر سے ایلرجی ہو گئی، جس کی وجہ سے گھر لوٹنا پڑا۔‘‘
ان لڑکوں کے لیے، جنہوں نے اسکول چھوڑ دیا تھا اور تھوڑی کامیابی کے ساتھ ہجرت کرنے کی کوشش کی تھی، آرکی ٹیکٹ میاں بیوی- ۵۳ سالہ ٹی کرشنا اور ۵۲ سالہ ایک انورادھا – جنہوں نے تولیر کی بنیاد ڈالی اور سٹی لنگی کے تقریباً ۵۰۰ نوجوانوں کو ان کے اسکول کے بعد کے نصاب کو پورا کرتے ہوئے دیکھا تھا، ایک ’بیسک ٹکنالوجی‘ (بی ٹی) نصاب لے کر آئے۔ اس میں الیکٹرانکس، الیکٹریکلس، کنسٹرکشن اور متعلقہ موضوعات میں ایک سال کی عملی تربیت شامل تھی۔ ’’ہم نے سوچا کہ اگر وہ ایک ایسا ہنر سیکھ سکیں جو انھیں یہیں کام کرنے اور کمانے کا موقع دے، تو انھیں باہر جانے کی ضرورت نہیں پڑے گی،‘‘ کرشنا کہتے ہیں۔
پہلا بی ٹی کورس ۱۲ طلبہ کے ساتھ ۲۰۰۶ میں شروع ہوا (اب تک ۶۵ لڑکوں اور ۲۰ لڑکیوں نے یہ کورس پورا کر لیا ہے)۔ طلبہ نے سائیکل ٹھیک کرنے سے شروعات کی اور اس کے بعد مٹی، سیمنٹ اور ملبے (مقامی کنویں کی کھدائی سے) کا استعمال کرکے پائیدار آرکی ٹیکچر کے بارے میں سیکھنا شروع کیا۔ بنیادی انجینئرنگ ڈرائنگ اسکل، آرکی ٹیکچر ڈرائنگ میں پلان ویو یا خاکہ کو کیسے پڑھیں، سوئچ اور ساکیٹس کی موجودہ ریٹنگ، تحفظاتی کارروائی وغیرہ وادی کے اندر ہی کنسٹرکشن پروجیکٹس کی سائٹس پر سکھائی گئیں؛ جیسے کہ ٹرائبل ہیلتھ انیشیٹو، سٹی لنگی آرگینک فارمرس ایسوسی ایشن، اور پورگئی آرٹیزنس ایسوسی ایشن ۔
کورس کے دوران، انھیں ۱۰۰۰ روپے کا ماہانہ وظیفہ ملا۔ یہ وادی کے باہر کمائی جتنا – تعمیراتی مقامات پر روزانہ ۵۰۰ روپے – تو نہیں تھا، لیکن اس سے انھیں کام کے لیے ہجرت کیے بنا نصاب پورے کرنے میں مدد ملی۔ ’’مجھے لگا کہ میں [ایک ہنر] سیکھ سکتا ہوں اور گھر پر رہ کر ذریعہ معاش حاصل کر سکتا ہوں،‘‘ پیرومل کہتے ہیں۔
کورس پورا کرنے کے بعد، کئی لوگ خود اعتمادی سے لبریز طالب علم بن گئے اور اسکول اور کالج کی پڑھائی پوری کرنے کے لیے روایتی تعلیم کی طرف لوٹ آئے۔ دو لوگ اب تولیر میں پرائمری اسکول کے ٹیچر ہیں۔ ان میں سے ایک ۲۸ سالہ اے لکشمی ہیں، جو کہتی ہیں، ’’میں نے بی ٹی کورس کیا اور پھر اسکول کی تعلیم پوری کی۔ میں سائنس کا مزہ لیتی ہوں اور اسے پڑھانا پسند کرتی ہوں۔‘‘
پیرومل ایک ہنرمند اور مصروف الیکٹریشین ہیں، جو ٹریکٹر بھی چلاتے ہیں اور مہینہ میں کل ملا کر تقریباً ۱۵۰۰۰ روپے کماتے ہیں۔ ’’[۲۰۰۷ میں] بی ٹی کورس کرنے کے بعد، میں اپنی ۱۰ویں اور ۱۲ویں کلاس کا امتحان پاس کرنے میں کامیاب رہا اور فزکس (طبیعیات) میں بی ایس سی کرنے کے لیے سالیم کے کالج میں داخلہ لے لیا،‘‘ وہ خوشی سے کہتے ہیں۔ (انھوں نے بی ایس سی کی ڈگری پوری نہیں کی، لیکن یہ ایک اور کہانی ہے۔)
شکتی ویل تولیر میں کام کرکے ۸۰۰۰ روپے کماتے ہیں، گھر پر رہتے اور اپنی فیملی کی ایک ایکڑ زمین پر کھیتی کرنے میں مدد کرتے ہیں۔ ’’میں موبائل ٹھیک کرکے اور بجلی کا کام کرکے اضافی پیسے کما سکتا ہوں، کبھی کبھی ۵۰۰ روپے مہینہ تک۔‘‘
سال ۲۰۱۶ میں جب نئی تولیر عمارت کی تعمیر شروع ہونی تھی، تو بی ٹی کورس کے طالب علموں کو اس کی سائٹ پر منتقل کر دیا گیا، تاکہ وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ کر سیکھ سکیں۔ تب وظیفہ کی جگہ انھیں ۳۰۰ روپے یومیہ مزدوری دی جانے لگی۔ تعمیر کرنے والی ٹیم کے باقی رکن سابق بی ٹی گریجویٹ تھے، سوائے بڑھئی اے سمیہ کَنّو کے (جن کے بیٹے ایس سینتھل بی ٹی کے طالب علم تھے) کے۔
تولیر اسکول بلڈنگ – چھ کلاسز، ایک دفتر، ایک اسٹور اور ایک کانفرنس ہال – کا پہلا مرحلہ تقریباً پورا ہو چکا ہے۔ اس میں ایک لائبریری، باورچی خانہ اور آرٹ روم کو جوڑا جانا باقی ہے۔ اس پر اب تک ۵۰ لاکھ روپے خرچ کیے جا چکے ہیں، جو تولیر ٹرسٹ کو عطیہ کی شکل میں ملے تھے۔
’’بچے کبھی پڑھائی نہیں کر سکتے تھے کیوں کہ کبھی کبھی والدین، دونوں ہی ہجرت کرتے تھے،‘‘ تینموجھی کہتے ہیں: ’’مجھے خوشی ہے کہ ہمارے مقامی لڑکے نیا ہنر سیکھ رہے ہیں۔ وہ اپنی فیملی کے ساتھ یہاں ہیں اور کمائی کرنے میں اہل ہیں۔‘‘
رپورٹر، تولیر کے ٹیچر رام کمار، اور آرکی ٹیچکر کے طالب علم- میناکشی چندر اور دنیش راجا کا شکریہ ادا کرنا چاہتی ہیں، جنہوں نے یہ اسٹوری لکھنے میں ان کی مدد کی۔
(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)