’’سندربن میں ہم اپنے وجود کے لیے روزانہ جدوجہد کرتے ہیں۔ کورونا وائرس نے بھلے ہی عارضی رخنہ پیدا کر دیا ہو، لیکن ہم زندہ رہیں گے اتنا ہمیں معلوم ہے۔ ہمارے کھیت آلو، پیاز، کریلا، چیچنڈا اور سہجن سے بھرے ہوئے ہیں۔ دھان کی بھی کوئی کمی نہیں ہے۔ ہمارے تالابوں میں مچھلیوں کی بھرمار ہے۔ اس لیے، ہم بھوک سے مر جائیں گے، اس کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، موسونی سے فون پر بات کرتے ہوئے، سرل داس کہتے ہیں۔
لاک ڈاؤن سے جہاں ملک بھر میں غذائی اجناس کی سپلائی میں رکاوٹ آ رہی ہے، وہیں ہندوستانی سندربن کے مغرب میں ۲۴ مربع کلومیٹر کے رقبہ میں پھیلے ایک چھوٹے سے جزیرہ، موسونی میں تشویش کی کوئی بات نہیں ہے۔ ’’یہاں سے جو سبزیاں اور دیگر پیداوار کشتیوں کے ذریعے روزانہ نام کھانا یا کاک دویپ کے بازاروں میں بھیجی جاتی تھیں، لاک ڈاؤن کے سبب انہیں اب اسی طرح سے نہیں بھیجا جا سکتا،‘‘ داس کہتے ہیں۔
پھر بھی، ناگہانی حالات میں استعمال ہونے والی ’مخصوص کشتی‘ موسونی سے کچھ سبزیاں لیکر آج بھی نام کھانا اور کاک دویپ، جو ایک دوسرے سے ۲۰ سے ۳۰ کلومیٹر کی دوری پر واقع ہیں، کے تھوک بازاروں کے چکر لگا رہی ہیں۔ کشتی سے سفر کرنے میں تقریباً ۳۰ منٹ لگتے ہیں، لیکن وہاں سے عام طور پر کولکاتا جانے والی گاڑیاں اور ٹرک اس وقت مشکل سے ہی چل رہے ہیں۔
کولکاتا کے بازاروں میں موسونی کی تین بنیادی فصلیں – دھان، کریلا اور سُپاری – کی مانگ بہت زیادہ ہے۔ ’’اسی لیے، شہر کے لیے یہ تشویش کا باعث ہے کہ اسے اشیائے ضروریہ کہاں سے ملیں گی،‘‘ موسونی جزیرہ کے باگ ڈانگا کوآپریٹو اسکول میں کلرک کے طور پر کام کرنے والے، ۵۱ سالہ داس کہتے ہیں۔ ان کے پاس پانچ ایکڑ زمین ہے، جسے وہ باگ ڈانگا گاؤں کے کسانوں کو بٹائی پر دے دیتے ہیں۔
ندیوں اور سمندر سے گھرے، مغربی بنگال میں سندربن کے ۱۰۰ سے زیادہ جزیروں کے گروپ ہندوستان کے میدانی علاقوں سے تقریباً کٹے ہوئے ہیں۔ موسونی میں، مُری گنگا ندی (جسے باراتال بھی کہا جاتا ہے) مغرب میں بہتی ہے، اور چِنئی ندی مشرق میں۔ یہ آبی گزرگاہیں کشتی اور بڑی موٹر کے ذریعے جزیرہ کے چار موضعوں (گاؤوں) – باگ ڈانگا، بلیارا، کُسُم تلا اور موسونی – کے تقریباً ۲۲ ہزار لوگوں (مردم شماری ۲۰۱۱) کو میدانی علاقوں سے جوڑنے میں مدد کرتی ہیں۔
داس بتاتے ہیں کہ جنوبی ۲۴ پرگنہ ضلع کے نام کھانا بلاک میں واقع اس جزیرہ کے باشندے آجکل گھر کے اندر ہی رہتے ہیں۔ وہ اب نہ تو ہاٹ جاتے ہیں اور نہ ہی باگ ڈانگا بازار کے بغل میں واقع اور ہفتہ میں دو بار – پیر اور جمعہ کو – لگنے والے بازار جاتے ہیں۔ مقامی انتظامیہ نے ضروری سامان بیچنے کے لیے، بازار کو روزانہ صبح ۶ بجے سے ۹ بجے تک کھولنے کی اجازت دی ہے۔ غیر ضروری سامان بیچنے والی جزیرہ کی سبھی دکانیں بند کر دی گئی ہیں۔ پڑوسی فریزر گنج جزیرہ پر واقع فریزر گنج ساحلی پولس اسٹیشن کے کانسٹیبل اور کچھ شہری رضاکار لاک ڈاؤن کی عمل آوری کرانے میں انتظامیہ کی مدد کر رہے ہیں۔
کُسُم تلا گاؤں کے ۳۲ سالہ جوئے دیب مونڈل فون پر تصدیق کرتے ہیں کہ موسونی کے کھیتوں میں ضرورت سے زیادہ فصلیں اُگ رہی ہیں۔ ’’جس چیچنڈے کو آپ کولکاتا میں ۵۰ روپے کلو خریدتے ہیں، اسے ہم اپنے بازاروں میں ۷-۸ روپے فی کلو فروخت کر رہے ہیں،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ جزیرہ پر ہر گھر میں سبزیاں پیدا ہوتی ہیں، اس لیے لوگ انہیں شاید ہی کبھی خریدتے ہیں، صرف انہی چیزوں کو خریدتے ہیں جن کی انہیں ضرورت ہوتی ہے، مونڈل بتاتے ہیں۔
’’مثال کے طور پر، میرے پاس ۲۰ کلو پیاز اور بہت سارے آلو ہیں۔ ہمارے تالابوں میں ضرورت سے زیادہ مچھلیاں ہیں۔ یہاں خریداروں کی کمی ہے، جس کی وجہ سے مچھلیاں بازاروں میں سڑ رہی ہیں۔ اب سے کچھ دن بعد، ہم سورج مکھی اُگا رہے ہوں گے۔ ہم بیج کی پیرائی کریں گے اور تیل بھی حاصل کریں گے،‘‘ مونڈل کہتے ہیں، جو ایک ٹیچر اور کسان اور تین ایکڑ زمین کے مالک ہیں، جس میں وہ آلو، پیاز اور پان کے پتے اُگاتے ہیں۔
حالانکہ، موسونی کے جنوبی ساحل پر واقع کُسُم تلا اور بلیارا گاؤوں میں زرعی کام تقریباً تبھی سے بند ہے، جب مئی ۲۰۰۹ میں سمندری طوفان آئیلا نے سندربن میں تباہی مچائی تھی۔ اس نے تقریباً ۳۰-۳۵ فیصد جزیرہ کو تباہ کر دیا تھا اور مٹی کے کھارے پن کو بڑھا دیا تھا۔ کھیتوں کی گھٹتی پیداوار نے بہت سے مردوں کو کام کی تلاش میں اپنا گھر چھوڑنے پر مجبور کیا ہے۔
مہاجرین عام طور پر گجرات اور کیرالہ اور ملک کے دیگر مقامات پر جاتے ہیں، خاص طور سے تعمیراتی مقامات پر مزدوروں کی شکل میں کام کرنے کے لیے۔ ان میں سے کچھ ملک سے باہر جاتے ہیں، مغربی ایشیائی ملکوں میں۔ ’’لاک ڈاؤن کے سبب ان کی کمائی پوری طرح سے بند ہو گئی ہے۔ کل کو اگر ان کی نوکری چلی گئی، تو وہ کیا کھائیں گے؟‘‘ مونڈل، جنہوں نے ۱۲ویں کلاس تک تعلیم حاصل کی ہے اور اپنے گاؤں میں سیکنڈری اور ہائر سیکنڈری کلاسز کے طالب علموں کو پڑھاتے ہیں، فکرمندی کا اظہار کرتے ہیں۔
مونڈل بتاتے ہیں کہ کچھ مہاجرین نے احمد آباد، سورت، ممبئی، پورٹ بلیئر اور دیگر مقامات سے گزشتہ چند ہفتوں میں واپسی شروع کر دی ہے۔ بلیارا کے کئی مرد، جو متحدہ عرب امارات، قطر اور عمان میں تعمیراتی مقامات پر کام کر رہے تھے، وہ بھی گھر آ گئے ہیں۔ یہی حال ان نوجوان عورتوں کا ہے جو بنگلورو میں نرس بننے کی ٹریننگ لے رہی تھیں۔
وقت کے ساتھ، سندربن میں سمندر کی آبی سطح بڑھنے اور زمین پر کھارے پانی کی بہتات نے نہ صرف زراعت کو، بلکہ جنوبی گاؤوں کے گھروں کو بھی متاثر کیا ہے۔ غریبوں کے گھروں میں، فیملی کے ۵-۱۰ افراد ایک ہی کمرے میں رہتے ہیں۔ ان کی روزمرہ کی زندگی گھر سے باہر، سڑکوں پر، کھیتوں میں کام کرنے یا ندیوں اور نالوں سے مچھلیاں پکڑنے میں بسر ہوتی ہے۔ ان میں سے کئی رات میں باہر سوتے ہیں۔ لاک ڈاؤن کے دوران ان کا گھروں کے اندر رہنا تقریباً ناممکن ہے۔
لیکن جزیرہ پر رہنے والے کورونا وائرس کے ممکنہ خطراک سے باخبر ہیں۔ داس کا کہنا ہے کہ اس قت جزیرہ پر سخت ہدایات پر عمل کیا جا رہا ہے۔ مقامی اہلکاروں کو لوٹنے والے مہاجرین کے بارے میں مطلع کیا جا رہا ہے، اور پڑوسی گھر گھر جاکر ان کے بارے میں پوچھ گچھ کر رہے ہیں۔ کاک دویپ سب ڈویژنل اسپتال کے ڈاکٹر ۱۴ دن تک لازمی طور پر الگ تھلگ رہنے کا حکم دے رہے ہیں، اور گاؤوں والے یہ یقینی بنانے کے لیے احتیاط برت رہے ہیں کہ اس کی تعمیل کی جائے۔ جو لوگ اسپتال جانے سے بچتے تھے، انہیں چیک اَپ کے لیے جانے پر مجبور کیا گیا، وہ بتاتے ہیں۔
دبئی سے لوٹا ایک نوجوان، جسے بخار تھا، اسے کولکاتا کے بیلیا گھاٹ کے آئی ڈی اینڈ بی جی اسپتال بھیج دیا گیا۔ کورونا وائرس کی جانچ کا نتیجہ جب نگیٹو آیا، تب جاکر اس کے گاؤں والوں نے راحت کی سانس لی۔ لیکن اسپتال نے اسے گھر پر الگ تھلگ رہنے کا حکم دیا۔ ایک نو شادی شدہ جوڑا جو کچھ دن پہلے ہی یو اے ای سے لوٹا تھا، وہ بھی اپنے گھر پرتنہائی میں ہے۔ اگر کوئی پروٹوکال کو توڑتا ہے، تو فون کے ذریعے اس کی اطلاع بلاک ڈیولپمنٹ آفیسر اور چیف میڈیکل آفیسر کو فوراً دے دی جاتی ہے۔
اگر بلیارا اور کُسُم تلا کے مرد کمائی کرنا پوری طرح سے بند کر دیں، تو ان کی فیملی کے پاس جمع غذائی اجناس جلد ہی ختم ہو جائیں گے۔ یہ گھر اب ریاستی حکومت کے ذریعے ۲ روپے فی کلو کے حساب سے دیے گئے چاول کے راشن پر منحصر ہیں۔ سرکار نے کووڈ- ۱۹ کے بحران سے نمٹنے کے لیے، پبلک ڈسٹربیوشن سسٹم سے ستمبر تک ہر ماہ پانچ کلو مفت چاول دینے کا وعدہ کیا ہے۔
سرل داس کا ماننا ہے کہ موسونی جزیرہ کے باشندے اس بحران کو پار کر لیں گے۔ ’’ہم سندربن کے لوگ، جغرافیائی طور پر میدانی علاقوں سے کٹے ہوئے ہیں۔ ہم نے جو لا تعداد آفتیں جھیلی ہیں، ان سے ہم نے بہت کچھ سیکھا ہے – بحران کے دوران ہمیں اپنی حفاظت خود کرنی ہوگی۔ ہم عام طور پر میدانی علاقوں سے امداد پر انحصار نہیں کرتے، جو کہ مقررہ وقت پر پہنچتی ہیں۔ جس طرح میں اپنے گھر سے اپنے پڑوسی کے لیے دو اضافی چیچنڈے بھیجتا ہوں، ویسے ہی مجھے معلوم ہے کہ اگر میرے پڑوسی کے پاس دو اضافی کھیرے ہوں گے، تو وہ میرے گھر ضرور آئیں گے۔ ہم ایک ساتھ مل کر حالات کا سامنا کرتے ہیں اور اس بار بھی ویسا ہی کریں گے،‘‘ وہ مسکراتے ہوئے کہتے ہیں۔
(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)