شاستی بھوئیاں نے پچھلے سال اسکول جانا چھوڑ دیا تھا۔ اس کے بعد وہ سندربن خطہ کے اپنے گاؤں، سیتا رامپور سے تقریباً ۲۰۰۰ کلومیٹر دور، بنگلورو جانے کے لیے ٹرین میں سوار ہو گئیں۔ ’’ہم بے حد غریب ہیں۔ میں اسکول میں مڈ ڈے میل نہیں لے سکتی تھی،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ شاستی ۱۶ سال کی ہیں اور ۹ویں کلاس میں تھیں، اور مغربی بنگال اور پورے ہندوستان میں سرکاری اسکولوں میں صرف ۸ویں کلاس تک ہی طلبہ کو مڈ ڈے میل دیا جاتا ہے۔
اس سال مارچ میں، شاستی جنوبی ۲۴ پرگنہ ضلع کے کاک دویپ بلاک میں اپنے گاؤں لوٹ آئیں۔ بنگلورو میں لاک ڈاؤن شروع ہونے کے بعد گھریلو ملازمہ کی ان کی نوکری چھن گئی تھی۔ اس کے ساتھ ان کی ۷ ہزار روپے کی کمائی بھی بند ہو گئی، جن میں سے کچھ پیسے وہ ہر مہینے گھر بھیجتی تھیں۔
شاستی کے والد، ۴۴ سالہ دھننجے بھوئیاں، سیتا رامپور کے ساحل سے دور، نیاچر جزیرہ پر مچھلی پکڑنے کا کام کرتے ہیں – جیسا کہ یہاں کے گاؤوں کے بہت سے لوگ کرتے ہیں۔ وہ ننگے ہاتھوں اور کبھی کبھی چھوٹی جال سے مچھلیاں اور کیکڑے پکڑتے ہیں، انہیں آس پاس کے بازاروں میں فروخت کرتے ہیں اور ہر ۱۰-۱۵ دنوں میں گھر لوٹتے ہیں۔
وہاں مٹی اور پھوس کی جھونپڑی میں دھننجے کی ماں مہارانی، ان کی بیٹیاں، ۲۱ سالہ جنجلی، ۱۸ سالہ شاستی اور ۱۴ سالہ بیٹا سبرت رہتے ہیں۔ سبرت کی پیدائش کے کچھ مہینے بعد ان کی بیوی کا انتقال ہو گیا تھا۔ ’’ہمیں اس جزیرہ پر پہلے جتنی مچھلیاں اور کیکڑے نہیں ملتے ہیں [سال در سال] ہماری کمائی بہت زیادہ گھٹ گئی ہے،‘‘ دھننجے کہتے ہیں، جو ابھی ہر مہینے ۲-۳ ہزار روپے کماتے ہیں۔ ’’ہمیں زندہ رہنے کے لیے مچھلیاں اور کیکڑے پکڑنے پڑتے ہیں۔ انہیں اسکول بھیج کر ہمیں کیا مل جائے گا؟‘‘
اس لیے، جس طرح شاستی نے اسکول جانا چھوڑا ہے ویسے ہی سندربن کی کلاسوں سے دوسرے طلبہ بھی بڑی تیزی سے غائب ہو رہے ہیں۔ کھاری ہوتی زمین نے کھیتی کو مشکل بنا دیا ہے، چوڑی ہوتی ندیاں اور بار بار آتے سمندری طوفان، ڈیلٹا میں ان کے گھروں کو اجاڑتے رہتے ہیں۔ نتیجتاً، اس خطہ کے گاؤوں کے بہت سے لوگ روزی روٹی کی تلاش میں ہجرت کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ بچے – جو اکثر پہلی نسل کے طلبہ ہیں – ۱۳ یا ۱۴ سال کی عمر میں روزگار کے لیے ہجرت کرنے پر مجبور کر دیے جاتے ہیں۔ وہ دوبارہ کلاس میں واپس نہیں لوٹ پاتے۔
جنوبی ۲۴ پرگنہ ضلع میں سرکاری امداد سے چلنے والے ۳۵۸۴ پرائمری اسکولوں میں ۷۶۸۷۵۸ طلبہ، اور ۸۰۳ اَپر پرائمری اسکولوں میں ۴۳۲۲۶۸ طلبہ زیر تعلیم ہیں۔ جن اسکولوں کو زیادہ تر بچے چھوڑ دیتے ہیں، ان میں اساتذہ اور دیگر ملازمین کی بھاری کمی ہے، کلاسیں ٹوٹی ہوئی ہیں – اس کی وجہ سے بھی بچے دوبارہ ان اسکولوں میں لوٹ نہیں پاتے ہیں۔
’’۲۰۰۹ کے بعد سے [سندربن خطہ میں] اسکول چھوڑنے کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے،‘‘ ساگر بلاک میں گھوڑا مارا جزیرہ کے ایک پرائمری اسکول کے ٹیچر، اسوک بیرا کہتے ہیں، یہ جزیرہ سب سے زیادہ سیلاب اور پانی کے جماؤ کی چپیٹ میں ہے۔ وہ اُس سال کا ذکر کر رہے ہیں، جب اس علاقہ سے آئیلا سمندری طوفان ٹکرایا تھا، جس نے بھاری تباہی مچائی تھی اور لوگوں کو ہجرت کے لیے مجبور ہونا پڑا تھا۔ تب سے کئی طوفانوں اور سمندری طوفانوں نے زمین اور تالابوں میں کھارے پن کو بڑھایا ہے، جس سے یہاں کے کنبے اسکول جانے والے مزید نوجوانوں کو کام پر بھیجنے کے لیے مجبور ہوئے ہیں۔
’’یہاں پر ندی ہماری زمینوں، گھروں اور ٹھکانوں کو چھین لیتی ہے اور طوفان ہمارے طلبہ کو [چھین لیتا ہے]،‘‘ گوسابا بلاک کے امتلی گاؤں میں امرتا نگر ہائی اسکول کی ایک ٹیچر، امیو مونڈل کہتی ہیں، ’’ہم [ٹیچر] بیچارگی محسوس کرتے ہیں۔‘‘
یہ خالی کلاسیں، جو بھی قوانین اور عالمی اہداف میں مقرر کیے گئے ہیں، اس سے بے حد جدا زمینی حقیقت دکھاتی ہیں۔ سال ۲۰۱۵ میں، ہندوستان نے اقوام متحدہ کے ۲۰۳۰ کے لیے ۱۷ پائیدار ترقیاتی اہداف کو قبول کیا تھا؛ ان میں سے چوتھا ہدف ’’شمولیتی اور یکساں معیار کے ساتھ تعلیم کو یقینی بنانا اور سبھی کے لیے تا عمر سیکھنے کے مواقع کو بڑھانا‘‘ ہے۔ ملک کے مفت اور لازمی بچوں کی تعلیم کے حق کا قانون، ۲۰۰۹ میں، ۶ سے ۱۴ سال کے سبھی بچے شامل ہیں۔ قومی نصابی خاکہ، ۲۰۰۵، شمولیتی کلاسوں کی اہمیت پر زور دیتا ہے، خاص طور پر غریب طبقوں اور جسمانی چنوتیوں کا سامنا کر رہے طلبہ پر۔ مرکزی اور ریاستی حکومتیں بھی بچوں کے اسکولوں کو چھوڑنے کی شرح گھٹانے کے لیے کئی طرح کے وظیفے اور انسینٹو اسکیمیں چلا رہی ہیں۔
لیکن سندربن ڈیلٹا کے اسکول اب بھی دھیرے دھیرے اپنے طلبہ کو کھو رہے ہیں۔ یہاں ایک ٹیچر کے طور پر، کلاسوں میں کھوئے ہوئے چہرے کی تلاش مجھے ایسا محسوس کراتی ہے جیسے میں لگاتار سکڑتی زمین کے بیچ کھڑا ہوں۔
’’پڑھائی کرنے سے کیا ہوگا؟ مجھے بھی اپنے والد کی طرح ندی سے مچھلیاں اور کیکڑے پکڑنے پڑیں گے،‘‘ میرے طالب علم رابن بھوئیاں نے اسی سال ۲۰ مئی کو پاتھر پرتیما بلاک کے اپنے گاؤں، برابوریر ٹاٹ سے امفن طوفان کے ٹکرانے کے فوراً بعد مجھے بتایا تھا۔ ۱۷ سال کے رابن نے مچھلی پکڑنے کے کام میں اپنے والد کا ہاتھ بٹانے کے لیے دو سال پہلے اسکول چھوڑ دیا تھا۔ امفن طوفان نے اس کے گھر کو برباد کر ڈالا تھا اور کھارے پانی کے تھپیڑوں سے اس کے گاؤں میں پانی بھر گیا تھا۔ سپت مکھی کے پانی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس نے کہا تھا: ’’یہ ندی ہم سبھی کو خانہ بدوش بنا دے گی۔‘‘
اسکول چھوڑنے والوں میں سے ایک، ۱۷ سالہ مستکین جمادر بھی ہیں، جو شاستی کے ہی گاؤں کے رہنے والے ہیں۔ دو سال پہلے جب ۹ویں کلاس میں تھے، تو اسکول جانا کیوں چھوڑ دیا تھا، اس سوال پر وہ کہتے ہیں، ’’مجھے پڑھائی کرنے میں مزہ نہیں آتا۔‘‘ ان کے والد الیاس کہتے ہیں، ’’پڑھنے سے کیا ملے گا؟ میں نے اپنے بیٹے کو کمانے اور فیملی کی مدد کرنے کے لیے پوری طرح سے مچھلی پکڑنے کے کام میں لگا دیا ہے۔ پڑھنے سے کچھ نہیں ملنے والا۔ اس سے مجھے بھی کوئی فائدہ نہیں ہوا۔‘‘ ۴۹ سالہ الیاس نے روزی روٹی کی تلاش میں کلاس ۶ کے بعد پڑھائی چھوڑ دی تھی، اور بعد میں راج مستری کا کام کرنے کے لیے کیرالہ چلے گئے تھے۔
اسکول چھوڑنا لڑکیوں کو خاص طور سے متاثر کر رہا ہے – ان میں سے زیادہ تر یا تو گھروں میں رہتی ہیں یا پھر ان کی شادی کر دی جاتی ہے۔ ’’جب میں نے راکھی ہازرا [۷ویں کلاس کی ایک طالبہ] سے پوچھا تھا کہ وہ پچھلے ۱۶ دنوں سے اسکول کیوں نہیں آئی، تو وہ رونے لگی،‘‘ کاک دویپ بلاک کے شِب کالی نگر گاؤں کے آئی ایم ہائی اسکول کے پرنسپل، دلیپ بیراگی نے مجھے ۲۰۱۹ میں بتایا تھا۔ ’’اس نے کہا کہ جب اس کے والدین ہُگلی ندی میں کیکڑے پکڑنے جاتے ہیں، تب اسے اپنے بھائی [جو کلاس ۳ میں ہے] کی دیکھ بھال کرنی پڑتی ہے۔‘‘
لاک ڈاؤن کے سبب اسکول چھوڑنے کے اس قسم کے معاملے بڑھ گئے ہیں۔ برابوریر ٹاٹ گاؤں کے ایک مچھیرے، امل شیت نے اپنی ۱۶ سال کی بیٹی کُم کُم، جو ۹ویں کلاس میں تھی، کو تب اسکول چھوڑنے کے لیے کہہ دیا، جب فیملی نے اپنی مالی پریشانی دور کرنے کے لیے اس کی شادی کا انتظام کر لیا۔ ’’ندی میں اب پہلے جتنی مچھلیاں نہیں ملتیں،‘‘ امل کہتے ہیں، جو اپنی چھ رکنی فیملی میں کمانے والے واحد شخص ہیں۔ ’’اسی لیے، میں نے اس کی شادی لاک ڈاؤن کے دوران کر دی، جب کہ وہ اب بھی زیر تعلیم تھی۔‘‘
یونیسیف کی ۲۰۱۹ کی ایک رپورٹ بتاتی ہے کہ ہندوستان میں ۲۲۳ ملین کم سن دلہنیں (جن کی شادی ۱۸ سال سے پہلے ہوجاتی ہے) میں سے ۲۲ ملین مغربی بنگال میں رہتی ہیں۔
’’حکومت بنگال سے [تعلیم کو جاری رکھنے کے لیے] انسینٹو ملنے کے باوجود یہاں [سندربن خطہ میں] بڑی تعداد میں کم عمری کی شادیاں ہو رہی ہیں۔ زیادہ تر والدین اور سرپرست سوچتے ہیں کہ لڑکی کو پڑھانے سے فیملی کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا، اور کھانے والا ایک آدمی گھٹنے سے پیسے کی بچت ہوگی،‘‘ پاتھر پرتیما بلاک کے شِب نگر موکشدا سندری ودیا مندر کے پرنسپل، بمان میتی کہتے ہیں۔
’’کووڈ- ۱۹ لاک ڈاؤن کے سبب، اسکول طویل عرصے سے بند ہیں اور کچھ بھی پڑھائی نہیں ہو رہی ہے،‘‘ میتی آگے کہتے ہیں۔ ’’طلبہ تعلیم سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ اس نقصان کے بعد وہ واپس نہیں لوٹیں گے۔ وہ غائب ہو جائیں گے، پھر کبھی نہیں ملیں گے۔‘‘
وسط جون میں، جب شاستی بھوئیاں بنگلورو سے لوٹیں، تو ان کی بھی شادی کر دی گئی۔ ۲۱ سالہ تاپس نیّا بھی شاستی کے ہی اسکول میں پڑھتے تھے اور کلاس ۸ میں اسکول جانا چھوڑ دیا تھا، جب وہ ۱۷ سال کے تھے۔ پڑھائی میں ان کا من نہیں لگ رہا تھا اور وہ اپنی فیملی کی مدد کرنا چاہتے تھے، اس لیے انہوں نے کیرالہ میں راج مستری کا کام کرنا شروع کیا۔ لاک ڈاؤن کے سبب وہ مئی میں اپنے گاؤں لوٹ آئے۔ ’’وہ اب سِب کالی نگر میں مرغ کی ایک دکان پر کام کر رہے ہیں،‘‘ شاستی بتاتی ہیں۔
ان کی بڑی بہن – ۲۱ سالہ جنجلی بھوئیاں، جو دیکھ سن نہیں سکتیں، نے ۱۸ سال کی عمر میں پڑھائی چھوڑ دی تھی، جب وہ کلاس ۸ میں تھیں۔ ایک سال بعد ان کی شادی اُتپل مونڈل سے کر دی گئی، جو اب ۲۷ سال کے ہیں۔ انہوں نے کلپی بلاک کے اپنے گاؤں، نوتن تیانگ راچر کے اسکول سے پڑھائی چھوڑ دی تھی، جب وہ کلاس ۸ میں تھے۔ مونڈل کو بچپن میں ہی پولیو ہو گیا تھا اور تبھی سے انہیں چلنے پھرنے میں پریشانی ہوتی ہے۔ ’’میں اپنے ہاتھوں اور پیروں کے سہارے اسکول نہیں جا سکتا تھا، اور ہمارے پاس وہیل چیئر کے لیے پیسے نہیں تھے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’میں پڑھائی نہیں کر پایا، جب کہ میں پڑھنا چاہتا تھا۔‘‘
’’میری دونوں پوتیاں پڑھ نہیں سکیں،‘‘ شاستی اور جنجلی کی ۸۸ سالہ دادی، مہارانی کہتی ہیں، جنہوں نے ان کی پرورش کی ہے۔ اب، جب کہ کووڈ- ۱۹ لاک ڈاؤن کے سبب اسکول بند ہیں، وہ کہتی ہیں، ’’مجھے نہیں معلوم کہ میرا پوتا [سُبرت] پڑھ پائے گا یا نہیں۔‘‘
مترجم: محمد قمر تبریز