’’وہ آدھی رات کو ہمارے گاؤں میں داخل ہوئے اور ہماری فصلوں کو برباد کر دیا۔ راتوں رات، انہوں نے ہم سے ہماری زمین چھین لی اور اُس پر جھونپڑیاں بنا دیں،‘‘ ۴۸ سالہ انوسایا کمارے نے بتایا کہ کیسے، فروری ۲۰۲۰ میں، ان کی فیملی نے مہاراشٹر کے ناندیڑ ضلع کے سرکھنی گاؤں میں اپن آٹھ ایکڑ کھیت کا ایک بڑا حصہ کھو دیا۔
انوسایا، جن کا تعلق گونڈ آدیواسی برادری سے ہے، کا ماننا ہے کہ کچھ مقامی غیر آدیواسی تاجروں اور کاروباریوں نے ان کی فیملی کی زمین چُرانے کے لیے غنڈوں کو اس کام پر لگایا تھا۔ ’’ان لوگوں نے جھوٹے دستاویز بنائے اور غیر آدیواسی لوگوں کو ہماری زمین فروخت کر دی۔ سات بارہ [۷/۱۲؛ زمین کے مالکانہ حق کا ریکارڈ] اب بھی ہمارے نام پر ہے۔‘‘ ان کی فیملی زمین پر کپاس، چنا، ارہر اور گیہوں کی کھیتی کرتی ہے۔
’’کووڈ [لاک ڈاؤن] کے دوران، ہم نے اپنی تھوڑی بہت بچی ہوئی زمین پر اُگائی گئی فصلوں پر گزارہ کیا۔ پچھلے مہینے [دسمبر ۲۰۲۰ میں]، انہوں نے اسے بھی چھین لیا،‘‘ انوسایا نے بتایا، جو سرکھنی میں زمین کھونے والی واحد کسان نہیں تھیں۔ ۳۲۵۰ لوگوں کی آبادی والے اس گاؤں (مردم شماری ۲۰۱۱) میں، تقریباً ۹۰۰ آدیواسیوں میں سے ۲۰۰ نے اپنی زمین کھو دی ہے۔ وہ اس کی مخالفت میں روزانہ مقامی گرام پنچایت کے دفتر کے باہر جنوری کی شروعات سے ہی دھرنے پر بیٹھ رہے ہیں۔
’’ہم پنچایت دفتر کے سامنے ایک مہینہ سے احتجاج کر رہے ہیں۔ ہمارے پیروں میں درد ہے،‘‘ انوسایا نے اپنے دونوں ہاتھوں سے پیروں کو دباتے ہوئے کہا۔ ۲۳ جنوری کو رات کے تقریباً ۹ بجے تھے اور انہوں نے تھوڑی دیر پہلے ہی رات کے کھانے میں باجرے کی روٹی اور لہسن کی چٹنی کھائی تھی۔ وہ اور کچھ دیگر خواتین نے رات میں سونے کے لیے، ایگت پوری کے گھنٹہ دیوی مندر کے اندر اپنے اوپر موٹے کمبل اوڑھ لیے تھے۔
یہ خواتین تین نئے زرعی قوانین کے خلاف احتجاج کرنے ناسک سے ممبئی جا رہی گاڑیوں کے جتھے (مارچ) کا حصہ تھیں۔ وہ اپنی متعدد لڑائیوں کے بارے میں بتانے کے لیے بھی وہاں جا رہی تھیں۔
۲۲ جنوری کی دوپہر کو، انوسایا اور ۴۹ دیگر آدیواسی کِن وَٹ تعلقہ میں واقع اپنے گاؤں سے جیپ اور ٹیمپو سے روانہ ہوئے تھے۔ ۵۴۰ کلومیٹر کا سفر ۱۸ گھنٹے میں پورا کرنے کے بعد، وہ اگلی صبح ساڑھے چار بجے ناسک شہر پہنچے۔ وہاں وہ اُن ہزاروں کسانوں اور زرعی مزدوروں کے ساتھ شامل ہو گئے، جو ۲۳ جنوری کو ۱۸۰ کلومیٹر دور، جنوبی ممبئی کے آزاد میدان جانے کے لیے روانہ ہونے والے تھے۔
اُس رات گھنٹہ دیوی مندر میں، سرکھنی کی سرجا بائی آدے کو تھکان بھی تھی۔ ’’میری پیٹھ اور پیروں میں درد ہو رہا ہے۔ ہم اس جتھہ میں اس لیے آئے ہیں، تاکہ سرکار کو اپنے گھر پر چل رہے احتجاج کے بارے میں بتا سکیں۔ ہم ایک مہینہ سے اپنی زمینوں کے لیے لڑ رہے ہیں۔ ہم تھک گئے ہیں، لیکن ہم اپنی زمین کے حقوق کے لیے موت تک لڑیں گے،‘‘ ۵۳ سالہ سرجا بائی نے کہا، جن کا تعلق کولم آدیواسی برادری سے ہے۔
وہ اور ان کی فیملی اپنی تین ایکڑ زمین پر ارہر اور سبزیاں اُگاتی تھی۔ ’’انہوں نے ہماری فصلوں کو برباد کر دیا اور جھونپڑیاں بنا دیں۔ حالانکہ یہ زرعی زمین ہے، لیکن انہوں نے یہ کہتے ہوئے دستاویز تیار کر لیے کہ یہ غیر زرعی زمین ہے،‘‘ انہوں نے بتایا۔
سرکھنی کے آدیواسیوں کے پاس اپنی زمین کے مالکانہ حق کو ثابت کرنے کے لیے تمام قانونی دستاویز ہیں، سرجا بائی نے کہا۔ ’’قانوناً یہ ہماری زمین ہے۔ ہم نے ناندیڑ کے کلکٹر کو نوٹس دے دیا ہے اور کِن وَٹ کے تحصیل دار کو تمام دستاویز پیش کر دیے ہیں۔ ۱۰ دنوں تک، وہ [کلکٹر] گاؤں کے مسائل کو سمجھنے کے لیے بھی نہیں آیا۔ ہم نے ایک مہینہ تک انتظار کیا اور اس کے بعد احتجاج کرنے کا فیصلہ کیا۔‘‘
’’جتھہ میں آنے سے پہلے ہم نے گرام سیوک، تحصیل دار اور کلکٹر کو اپنا حلف نامہ دیا تھا،‘‘ انوسایا نے بتایا۔ حلف نامہ میں، آدیواسی کسانوں نے کہا کہ وہ اپنی زمین کے اصلی مالک ہیں، اور ثبوت کے طور پر زمین کے ریکارڈ جمع کروائے۔ ’’ہم دن بھر [پنچایت دفتر] کے باہر بیٹھے رہتے ہیں۔ ہم وہیں کھانا کھاتے ہیں اور سوتے ہیں اور غسل کرنے اور کچھ کھانا لانے کے لیے گھر آتے ہیں۔ ہم پوچھنا چاہتے ہیں، کیوں، آدیواسیوں کے مسائل کو جاننے کے بعد بھی، کیا وہ اب بھی غیر آدیواسی لوگوں کو ہماری زمین دے دیں گے،‘‘ انہوں نے کہا۔
۲۴ جنوری کو آزاد میدان پہنچنے پر، انوسایا اور سرجا بائی نے نئے زرعی قوانین کے خلاف سمیُکت شیتکری کامگار مورچہ کے ذریعہ ۲۴-۲۶ جنوری کو منعقد احتجاجی مظاہرہ میں شرکت کی۔ اس کے لیے مہاراشٹر کے ۲۱ ضلعوں کے کسان ممبئی آئے تھے۔ انہوں نے دہلی کی سرحدوں پر احتجاج کر رہے کسانوں کے تئیں اپنی حمایت کا اظہار کیا، جو ۲۶ جنوری کو ٹریکٹر پریڈ نکال رہے تھے۔
دہلی کے دروازے پر لاکھوں کسان، خاص طور سے پنجاب اور ہریانہ کے کسان، تین زرعی قوانین کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں، جنہیں حکومت نے سب سے پہلے ۵ جون، ۲۰۲۰ کو آرڈیننس کی شکل میں جاری کیا، پھر ۱۴ ستمبر کو پارلیمنٹ میں زرعی بل کے طور پر پیش کیا اور اسی ماہ کی ۲۰ تاریخ کو جلد بازی میں قانون میں بدل دیا تھا۔
یہ قوانین ہیں زرعی پیداوار کی تجارت و کاروبار (فروغ اور سہل آمیزی) کا قانون، ۲۰۲۰ ؛ کاشت کاروں (کو با اختیار بنانے اور تحفظ فراہم کرنے) کے لیے قیمت کی یقین دہانی اور زرعی خدمات پر قرار کا قانون، ۲۰۲۰ ؛ اور ضروری اشیاء (ترمیمی) قانون، ۲۰۲۰ ۔
کسان ان قوانین کو اپنے معاش کے لیے تباہ کن سمجھ رہے ہیں کیوں کہ یہ قوانین بڑے کارپوریٹ کو کسانوں اور زراعت پر زیادہ اختیار فراہم کرتے ہیں۔ نئے قوانین کم از کم امدادی قیمت (ایم ایس پی)، زرعی پیداوار کی مارکیٹنگ کمیٹیوں (اے پی ایم سی)، ریاست کے ذریعہ خرید وغیرہ سمیت، کاشتکاروں کی مدد کرنے والی بنیادی شکلوں کو بھی کمزور کرتے ہیں۔ ان قوانین کی اس لیے بھی تنقید کی جا رہی ہے کیوں کہ یہ ہر ہندوستانی کو متاثر کرنے والے ہیں۔ یہ ہندوستان کے آئین کی دفعہ ۳۲ کو کمزور کرتے ہوئے تمام شہریوں کے قانونی چارہ جوئی کے حق کو ناکارہ کرتے ہیں۔
سرکھنی کے آدیواسی کسان ایک طرف جہاں ممبئی میں اپنی جدوجہد کی نمائندگی کر رہے تھے، وہیں تقریباً ۱۵۰ دیگر کسان پنچایت دفتر کے باہر اپنے رات دن کے احتجاج کو جاری رکھنے کے لیے وہیں رک گئے تھے۔ ’’ہم آدیواسیوں کی آواز بلند کرنے کے لیے ممبئی آئے ہیں،‘‘ انوسایا نے کہا۔ ’’اور انصاف ملنے تک ہم اپنا احتجاج جاری رکھیں گے۔‘‘
مترجم: محمد قمر تبریز