مکیش رام دیوالی سے ۱۰ دن پہلے اپنے گاؤں محمد پور لوٹ آئے تھے۔ وہ ہماچل پردیش کے شملہ ضلع میں تعمیراتی مقامات پر مزدوری کا کام کرتے تھے۔
چالیس سال کے مکیش ہر سال چھٹھ پوجا منانے کے لیے بہار کے گوپال گنج ضلع میں واقع اپنے گھر لوٹ آتے تھے۔ غور طلب ہے کہ چھٹھ کے تہوار میں دیوالی کے بعد ۶ویں دن اگتے سورج کی پوجا کی جاتی ہے۔
گاؤں لوٹنے کے بعد، وہ گھر سے تقریباً چھ کلومیٹر دور واقع منگل پور پرانا بازار میں ایک تعمیراتی مقام پر مزدوری کرنے لگے تھے۔ وہ صبح ۸ بجے گھر سے نکلتے تھے اور شام ۶ بجے تک گھر لوٹ آتے تھے۔
مگر ۲ نومبر، ۲۰۲۱ کو وہ دیر سے لوٹے اور کچھ دیر بعد ہی سر میں بے تحاشہ درد کی شکایت کرنے لگے۔
وہ صبح تک درد میں مبتلا رہے، اور ان کی آنکھیں بھی بند ہو رہی تھیں۔ حالانکہ، صبح کے وقت مکیش ایک بار کام پر جانے کے لیے تیار بھی ہوئے، مگر درد کی وجہ سے جا نہیں پائے۔
ان کی حالت کو دیکھتے ہوئے، پربھاوتی نے کرایے پر ایک پرائیویٹ گاڑی بُک کی اور انہیں ۳۵ کلومیٹر دور گوپال گنج شہر کے پرائیویٹ اسپتال لے گئیں۔ ’’ سویرے [اسپتال] لے جات، لے جات، ۱۱ بجے مئوگت ہو گئیل [صبح اسپتال لے جاتے، لے جاتے، ۱۱ بجے موت ہو گئی]۔‘‘
شوہر کے گزر جانے کے غم میں ڈوبی ہوئی پربھاوتی (۳۵) شام کو جب لاش کے ساتھ گھر لوٹیں، تب تک ان کے پکّے مکان کو سیل کیا جا چکا تھا۔ محمد پور تھانے کی پولیس نے ان کے گھر پر چھاپہ ماری کی تھی۔
وہ بتاتی ہیں، ’’ہم گھر آئے، تو دیکھا کہ گھر سیل پڑا ہے۔ لاش کو رات بھر باہر رکھنا پڑا اور بچوں کے ساتھ کھلے آسمان کے نیچے پوئیرا [پوال یا پرالی] تاپ کر رات گزارنی پڑی۔‘‘
’’ گھربو سے گئینی، آؤ مردو سے گئینی؟ ای تبئو کونو بات نئیکھے بھئیل نا۔ کونو ت آدھار کرے کے چاہی [گھر بھی چلا گیا، اور شوہر بھی۔ یہ تو کوئی بات نہیں ہوئی نا۔ کوئی تو بنیاد ہونی چاہیے کسی بات کی]۔‘‘
*****
جس روز یہ اسٹوری شائع ہوئی، بہار پولیس کی طرف سے جاری پریس ریلیز کے مطابق، ۱۴ اپریل ۲۰۲۳ کو زہریلی شراب پینے سے مشرقی چمپارن ضلع کے مختلف گاؤوں میں ۲۶ اموات درج کی گئی ہیں اور ابھی بھی کئی لوگ بیمار ہیں۔
بہار میں نافذ شراب بندی اور ایکسائز قانون، ۲۰۱۶ کے تحت دیسی اور غیر ملکی شراب سمیت تاڑی کی پیداوار، خرید و فروخت اور اسے پینے پر پابندی ہے۔
زہریلی شراب نے پربھاوتی سے ان کا شوہر چھینا اور شراب بندی قانون نے انہیں بے گھر بنا دیا۔
محمد پور تھانے کی پولیس نے مقامی لوگوں کے بیانات کی بنیاد پر درج کی گئی اپنی ایف آئی آر میں لکھا کہ مکیش شراب بیچا کرتا تھا اور اس کے گھر سے ۲ء۱ لیٹر دیسی شراب برآمد ہوئی ہے۔ ایف آئی آر کے مطابق، اطلاع ملنے کے بعد پولیس مکیش رام کے گھر پر پہنچی اور وہاں سے پولی تھین کے ۲۰۰-۲۰۰ ملی لیٹر کے ۶ پاؤچ برآمد کیے۔ اس کے علاوہ، پولی تھین کی تین خالی تھیلیاں بھی برآمد کی گئیں۔
پاری سے بات کرتے ہوئے پربھاوتی ان الزامات کو خارج کرتی ہیں، اور ایسبیسٹس کی چھت والے اپنے سیل پڑے پکّے مکان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتی ہیں، ’’جو دارو (شراب) بیچتا ہے اس کا گھر جا کر دیکھئے۔ اگر ہم لوگ دارو بیچتے، تو ہمارا گھر ایسا ہوتا کیا؟‘‘
وہ ایف آئی آر میں کیے ہوئے پولیس کے دعووں کو سرے سے خارج کرتی ہیں کہ ان کے گھر میں شراب کا دھندہ ہوتا تھا۔ وہ کہنے لگتی ہیں، ’’ ہمرے مالک صاحب [اپنے شوہر] کے دارو بیچتے دیکھتی ت ہم خود کہتیں کہ ہمرا کے لے چلیں [مالک صاحب دارو کا دھندہ کر رہے ہوتے، تو میں خود پولیس سے کہتی کہ ہمیں لے چلو]۔‘‘
’’آپ گاؤں والوں سے پوچھ لیجئے۔ لوگ خود ہی بتائیں گے کہ مالک صاحب مستری کا کام کرتے تھے۔‘‘ حالانکہ، وہ مکیش کے شراب پینے سے انکار نہیں کرتیں، مگر کہتی ہیں کہ وہ شرابی نہیں تھے۔ ’’وہ صرف تبھی پیتے تھے، جب کوئی انہیں پلا دیتا تھا۔ جس دن ان کے سر میں درد تھا، اس دن انہوں نے ہمیں نہیں بتایا تھا کہ وہ شراب پی کر آئے ہیں۔‘‘
ان کی موت زہریلی شراب پینے سے ہوئی یا نہیں، اس کی تصدیق پوسٹ مارٹم سے ہو سکتی تھی، لیکن مکیش کی لاش کو اس کے لیے بھیجا ہی نہیں گیا تھا۔
*****
اتر پردیش کی سرحد سے لگے، گوپال گنج کے سدھ ولیا بلاک میں واقع، ۷۲۷۳ کی آبادی (مردم شماری ۲۰۱۱) والے محمد پور گاؤں میں ۶۲۸ لوگ درج فہرست ذات سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہاں کے زیادہ تر لوگ پیٹ پالنے کے لیے دوسری ریاستوں میں مہاجرت کرتے ہیں؛ جو نہیں جا پاتے وہ گاؤں میں رہ کر دہاڑی مزدوری کرتے ہیں۔
مکیش کی موت گوپال گنج ضلع کے جس زہریلی شراب والے واقعہ میں ہوئی تھی اس میں کل ۱۸ لوگ مارے گئے تھے۔ مرنے والوں میں، مکیش سمیت ۱۰ لوگ چمار برادری کے تھے، جو بہار میں مہادلت کے زمرے میں آتے ہیں۔ حاشیہ پر زندگی بسر کرنے والی یہ برادری روایتی طور پر مرے ہوئے جانوروں کے جسم سے چمڑا نکال کر اسے بیچنے کا کام کرتی ہے۔
بہار میں، پچھلے سال اکیلے دسمبر مہینہ میں ہی زہریلی شراب پینے سے ۷۲ لوگوں کی موت ہو گئی تھی۔ وہیں، سال ۲۰۱۶ سے اب تک زہریلی شراب پینے سے ۲۰۰ لوگوں کی موت ہو چکی ہے اور ان کے اہل خانہ کو کوئی معاوضہ نہیں ملا ہے۔
اکثر پولیس یا سرکار زہریلی شراب کو ان اموات کے سبب کے طور پر درج نہیں کرتی، اس لیے یہ اعداد و شمار غلط فہمی پیدا کرنے والے بھی ہو سکتے ہیں۔ زیادہ تر معاملوں میں پولیس ان اموات کی وجہ زہریلی شراب کو ماننے سے صاف انکار کر دیتی ہے۔
*****
پربھاوتی کا گھر اچانک سیل کر دیا گیا تھا، اس کی وجہ سے وہ گھر سے کپڑے، چوکی، اناج جیسی ضرورت کی چیزیں بھی نہیں نکال سکی تھیں۔ اس وقت مقامی لوگوں اور ان کی نند نے ان کی مدد کی تھی۔
مکیش جب شملہ میں کام کرتے تھے، تو ہر مہینے ۵ سے ۱۰ ہزار روپے بھیج دیتے تھے۔ اب ان کی موت کے بعد سے، پربھاوتی اپنے چاروں بچوں – بیٹیاں سنجو (۱۵) اور پریتی (۱۱)، اور بیٹے دیپک (۷) اور انشو (۵) کا پیٹ پالنے کے لیے زرعی مزدوری پر منحصر ہیں۔ لیکن یہ کام سال میں مشکل سے دو مہینے ہی مل پاتا ہے، اور انہیں بیوہ پنشن کے طور پر ہر مہینے ملنے والے ۴۰۰ روپے سے گزارہ چلانا پڑتا ہے۔
پچھلے سال انہوں نے ۱۰ کٹھّا (تقریباً ۱ء۰ ایکڑ) کھیت بٹائی پر لے کر دھان کی کھیتی کی تھی، جس سے تقریباً ۲۵۰ کلو دھان ہوا تھا۔ دھان کا بیج کھیت کے مالک نے دے دیا تھا، اور کھاد پانی میں جو ۳۰۰۰ روپے خرچ ہوئے اسے ان کی بہن نے برداشت کیا تھا۔
مکیش اور پربھاوتی کے بڑے بیٹے دیپک کو پڑھانے کا ذمہ بھی پربھاوتی کی بہن نے اپنے اوپر لے لیا ہے، اور فی الحال وہ ان کے ساتھ ہی رہتا ہے۔ پربھاوتی اب تک ۱۰ ہزار روپے کا قرض بھی لے چکی ہیں۔ چونکہ سود پر قرض لے کر اسے واپس ادا کر پانا ان کے لیے ممکن نہیں ہے، تو انہوں نے کسی سے ۵۰۰ روپے، تو کسی سے ۱۰۰۰ روپے لیے ہیں، جسے وہ قرض نہیں، ’ہاتھ اٹھائی‘ کہتی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں، ’’کسی سے ۵۰۰، تو کسی سے ۱۰۰۰ روپے لیتے ہیں اور کچھ دن میں انہیں واپس کر دیتے ہیں۔ ایک انسان سے ۵۰۰ سے ۱۰۰۰ روپے ہی لینے اور جلدی ادا کر دینے پر سود نہیں دینا پڑتا ہے۔‘‘
مکیش کی موت کے تین مہینے بعد، بہار سرکار کی ایک غریبی مٹاؤ اسکیم کے تحت پربھاوتی کو ایک گُمٹی (لکڑی کی ایک چھوٹی دکان) اور ۲۰ ہزار روپے کا سامان دیا گیا تھا۔
وہ بتاتی ہیں، ’’سرف، صابن، کرکرے، بسکٹ۔ یہی سب دیا گیا تھا بیچنے کے لیے۔ لیکن کمائی بہت کم تھی، اور صرف ۱۰ روپے بچتے تھے۔ لیکن ۱۰ روپے کا تو ہمارا بچہ ہی سامان خرید کر کھا جاتا تھا، تو کوئی فائدہ نہیں تھا۔ اوپر سے میری طبیعت خراب ہو گئی تھی۔ تو دکان کی پونجی علاج میں خرچ ہو گئی۔‘‘
پربھاوتی کو اب مستقبل کی فکر ستاتی ہے۔ ’’بچوں کی پرورش کیسے کریں گے؟ دونوں بیٹیوں کی شادی کیسے کریں گے؟ یہ سب سوچ کر سر میں درد ہوتا ہے۔ رو رو کر بیمار ہو جاتی ہوں۔ ہر وقت یہی سوچتی ہوں کہ کہاں جاؤں، کیا کام کروں کہ دو روپے آئیں اور بچوں کو کھانا کھلا پاؤں… ہمرا کھانی دکھ آ ہمرا کھانی بپدا مودئی کے نا ہوکھے [ہمارے جیسا دکھ اور مصیبت دشمن کو بھی نہ ہو]۔‘‘
مکیش کی موت کے بعد، ان کی فیملی غریبی میں زندگی بسر کرنے کو مجبور ہو گئی: ’’مالک صاحب تھے، تو میٹ مچھلی بنتا تھا۔ ان کے جانے کے بعد سے سبزی بھی نصیب میں نہیں ہے۔‘‘ پربھاوتی فریاد کرتی ہیں، ’’ اے سر، ائیسن لیکھیں کہ سرکار کچھ مدت کرے اور کچھ پئیسا ہاتھ میں آئے [سر، ایسا لکھ دیجئے کہ سرکار کچھ مدد کر دے اور کچھ پیسہ ہاتھ میں آئے]۔‘‘
یہ اسٹوری بہار کے ایک ٹریڈ یونینسٹ کی یاد میں دی گئی فیلوشپ کے تحت لکھی گئی ہے، جن کی زندگی ریاست میں حاشیہ پر سمٹی برادریوں کے لیے جدوجہد کرتے ہوئے گزری تھی۔
مترجم: محمد قمر تبریز