میں رائے پور- دھمتری چھوٹی لائن کی ٹرین پر شام کو ۶ بجے جیسے ہی رائے پور کے تیلی بندھا اسٹیشن پر سوار ہوا، ایک آدمی نے بیٹھنے کے لیے مجھے جگہ کی پیشکش کی۔ میں نے اسے قبول کرتے ہوئے بات چیت کا سلسلہ شروع کر دیا – کیوں کہ میں یہ سفر اس لیے کر رہا ہوں تاکہ ان لوگوں سے بات کر سکوں جو کھچا کھچ بھری ہوئی اس ٹرین سے سفر کرتے ہیں۔ میرے ساتھ سفر کر رہے کرشن کمار تارک، نوگاؤں (تھوہا) میں رہتے ہیں، جو ٹرین کو اس لائن کے کُرود اسٹیشن پر پکڑنے کے لیے ۱۲ کلومیٹر سائیکل چلا کر آتے ہیں۔
وہ اور اس ریلوے لائن کے آس پاس رہنے والے گاؤوں کے دیگر مزدور، یومیہ مزدوری کی تلاش میں چھتیس گڑھ کی راجدھانی، رائے پور جانے کے لیے صبح سویرے اس ٹرین کو پکڑتے ہیں اور رات میں گھر واپس لوٹتے ہیں۔ یہ اور ایک اور ٹرین دن میں تین بار چلتی ہے، اور دھمتری ٹاؤن تک تقریباً ۶۶ کلومیٹر کی دوری تین گھنٹے میں پوری کرتی ہے۔
حالانکہ دھمتری ضلع کے کچھ حصوں میں ہر سال دو فصلیں اُگائی جاتی ہیں، جس کی وجہ سے زرعی مزدوروں کی مانگ ہمیشہ رہتی ہے، لیکن اس سفر کی بات چیت کے دوران مزدوروں نے مجھے بتایا کہ کھیتوں پر کام کرنے میں اکثر مزدوری بہت کم ملتی ہے – تقریباً ۱۰۰ روپے ایک دن میں، جب کہ رائے پور میں ۲۰۰ سے ۲۵۰ روپے مزدوری ملتی ہے۔ اس کے علاوہ گاؤوں میں منریگا اور پنچایت کے دیگر کاموں کا پیسہ عام طور پر کئی مہینوں کے بعد آتا ہے۔ جب کہ شہروں میں کام کرنے کے بعد فوراً نقد پیسہ مل جاتا ہے۔ اسی لیے کئی لوگ رائے پور میں کام کرنے کے لیے ٹرین سے چھ گھنٹے کا سفر طے کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
میں نے ۴۰ سالہ کرشن کمار سے پوچھا کہ وہ کہاں سے آ رہے ہیں، تو ان کا جواب تھا، ’’میں کام کے لیے رائے پور گیا ہوا تھا اور اب گھر واپس لوٹ رہا ہوں۔ میں نے اپنی سائیکل [کرود میں] پان کی دکان پر چھوڑ دی تھی۔ گھر پہنچتے پہنچتے رات کے ۱۰ بج جائیں گے۔‘‘ پان کی دکان والا دوہری کمائی کرتا ہے۔ وہاں پر روزانہ ۵۰-۱۰۰ سائیکلیں کھڑی ہوتی ہیں، جن میں سے ہر ایک کے لیے وہ روزانہ ۵ روپے وصول کرتا ہے۔
آپ کے پاس کتنی زمین ہے اور اس سال کتنی فصل ہوئی؟ وہ جواب میں کہتے ہیں، ’’پانچ ایکڑ۔ ربیع کی فصل ابھی بھی کھیت میں ہی ہے [جس وقت ہم ان سے ملے تھے]۔ خریف کے موسم میں پیدا ہونے والے چاول میں سے کچھ کو ہم نے فروخت کر دیا تھا اور کچھ اپنی فیملی کے کھانے کے لیے اپنے پاس ہی رکھ لیا تھا۔‘‘ ان کی سینچائی والی زمین میں دو فصلیں پیدا ہوتی ہیں، اور کھیتی کے موسم میں پوری فیملی ایک ساتھ مل کر کام کرتی ہے۔ ’’ہمیں کھاد، کمپوسٹ اور دیگر اشیاء پر ۲۵-۳۰ ہزار روپے خرچ کرنے پڑتے ہیں۔ ہماری فیملی میں کل ۴۵ لوگ ہیں – پانچ بھائی، سبھی شادی شادہ ہیں اور ان کے بچے۔ میری بیوی وملا اور میرے پانچ بچے ہیں۔‘‘
میں ان سے زور دے کر پوچھتا ہوں: آپ نے کتنی پڑھائی کی ہے؟ ’’میں نے تیسری کلاس تک پڑھائی کی ہے۔ میرے والدین نے مجھے [مزید پڑھنے کی] اجازت نہیں دی، بلکہ انہوں نے مجھ سے کام کرنے کے لیے کہا۔ ہماری مالی حالت اچھی نہیں تھی۔ میرے والد کی تین بیویاں تھیں۔ پہلی بیوی سے دو لڑکے اور دو لڑکیاں تھیں – میں ان ہی میں سے ایک ہوں۔‘‘
کرشن کمار کا تعلق دھیمار ذات، او بی سی، سے ہے جن کا روایتی پیشہ ماہی گیری تھا۔ ان کی لمبی چوڑی فیملی پھوس کی چھت والے گھر میں رہتی ہے۔ اپنے مشترکہ بی پی ایل (خط افلاس سے نیچے) راشن کارڈ پر انہیں ہر مہینے ۳۵ روپے میں کل ۳۵ کلو چاول ملتے ہیں، جو پانچ دنوں سے زیادہ نہیں چلتا۔ ان کے راشن کارڈ سے ہر فیملی کو (ایک ساتھ رہنے والے پانچ کنبوں کا مجموعہ) دو لیٹر کیروسین تیل، ایک کلو چینی اور ۲۰۰ گرام دال کے ساتھ ساتھ دو کلو نمک بھی ملتا ہے۔
’’ہم تمام بھائی اچھی طرح رہتے ہیں۔ میں نے ان سب کی پرورش کی کیوں کہ وہ بہت چھوٹے تھے۔ راجیو گاندھی کے انتقال سے ایک سال پہلے میری ماں کی موت ہو گئی تھی۔ میرے والد کے اس دنیا سے چلے جانے کے بعد دونوں سوتیلی ماؤں کا بھی انتقال ہو گیا۔ میرے بھائی بہن چھوٹے تھے اور میں نے فیملی کی ذمہ داری سنبھال لی۔ میں ان کی تعلیم کا انتظام نہیں کر سکتا تھا۔ میں بچپن سے ہی کڑی محنت کرنے کا عادی ہوں۔ خوش رہنے اور آرام کرنے کا وقت نہیں ملا۔‘‘
ایک دن میں وہ کتنا کماتے ہیں؟ ’’۲۵۰ روپے۔ ہم تیلی بندھا میں لائن لگا کر کھڑے ہو جاتے ہیں، جہاں سے ٹھیکہ دار ہمیں کام پر لے جاتے ہیں۔ بعض دفعہ کام نہیں ملتا۔ کبھی کبھی، ہمیں دیر ہو جاتی ہے اور ہم [وقت پر] رائے پور نہیں پہنچ پاتے... ہم صبح ۶ بجے گھر سے نکلتے ہیں اور ٹرین ۷ بج کر ۱۵ منٹ پر روانہ ہوتی ہے۔‘‘ وہ بس کیوں نہیں پکڑتے؟ ’’اس کا کرایہ بہت مہنگا ہے۔ تیلی بندھا تک ٹرین کا کرایہ ۱۵ روپے ہے [اس میں سوار ہونے والے اسٹیشن کے حساب سے یہ الگ الگ ہوتا ہے] جب کہ بس کا کرایہ ۵۰ روپے ہے۔ اس لیے ٹرین چھوٹ جانے پر ہم گھر واپس چلے جاتے ہیں۔‘‘
آپ کے بھائی آپ کے ساتھ یہ کام کیوں نہیں کرتے؟ ’’میں انہیں اپنے ساتھ نہیں لانا چاہتا۔ اگر وہ رائے پور آئیں گے تو انہیں بری چیزوں کی لت لگ جائے گی، جیسے کہ شراب، منشیات اور الکحل۔ جیسا کہ آپ دیکھ سکتے ہیں، کچھ مرد نشے میں ہیں اور یہاں [ٹرین میں] جوا کھیل رہے ہیں۔ میرے بھائی گاؤں میں کام کرتے ہیں یا کرود جاتے ہیں جہاں سے وہ روزانہ ۱۰۰ روپے کما لیتے ہیں۔‘‘
کرشن کمار کے پانچ بچوں میں سے ان کی سب سے بڑی بیٹی، کُسُم ۱۲ویں کلاس میں ہے اور سب سے چھوٹا بیٹا کھلیشور ۶ویں کلاس میں ہے، باقی بچے درمیانی جماعت میں ہیں۔ انہیں خاص طور پر کُسُم کی محنت پر فخر ہے، لیکن کہتے ہیں، ’’ان سبھی کے بڑے بڑے خواب ہیں – کوئی ٹیچر بننا چاہتا ہے، کوئی نرس، تو کوئی پولیس اور وکیل۔ مجھے فکر ہوتی ہے۔ میں ایک غریب آدمی ہوں۔ میں ان سے کہتا ہوں کہ میں انہیں زیادہ پڑھا نہیں پاؤں گا۔ بچے کہتے ہیں کہ انہیں اس کی کوئی پرواہ نہیں ہے اور وہ کسی بھی طرح اپنی تعلیم جاری رکھیں گے۔‘‘
کرشن کمار سے بات کرتے وقت میں نے تقریباً ۱۸ سال کے پردیپ ساہو کو دیکھا، جو اپنے ہاتھ میں موبائل فون تھامے ہماری بات چیت کو سن رہے تھے۔ وہ ٹی شرٹ اور جینس پہنے ہوئے ہیں، اور کھڑکی کے پاس اکیلی سیٹ پر بیٹھے ہوئے ہیں۔
پردیپ اتانگ گاؤں میں رہتے ہیں، جو کہ بلاک ہیڈکوارٹر، کرود سے تقریباً آٹھ کلومیٹر دور ہے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ وہ کہاں سے آ رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’میں کام کرنے رائے پور گیا تھا۔ میں چار دن سے وہاں جا رہا ہوں۔ اس سال میں نے ۱۲ویں کلاس کا امتحان دیا ہے۔ گھر سے باہر میں پہلی بار کام کر رہا ہوں۔‘‘
وہ آگے بتاتے ہیں، ’’میرے والد کرود منڈی میں سامان ڈھونے کا کام کرتے ہیں۔ لیکن وہ بیمار ہیں اور فیملی میں [فی الوقت] کمانے والا کوئی دوسرا نہیں ہے۔‘‘ ان کے والد کے بخار کی وجہ سے، پردیپ کی ماں بھی کام پر نہیں جا پا رہی ہیں۔ دہاڑی مزدور کے طور پر وہ ۱۰۰ روپے روزانہ کماتی ہیں۔ اس لیے فیملی کی مالی حالت کافی کمزور ہو گئی ہے۔
پردیپ بتاتے ہیں، ’’میں نے اپنے والد اور بھائی سے جب یہ کہا کہ میں بھی کام کرنا چاہتا ہوں، تو وہ ناراض ہو گئے۔ میں نے انہیں کسی طرح سمجھایا کہ میں پاپا کے ٹھیک ہونے تک ہی کام کروں گا۔ آج، میرے بھائی پنکج نے بھی کام پر جانا شروع کر دیا ہے۔ وہ کالج کے پہلے سال میں ہیں اور امتحان ہونے تک ان کے پاس کچھ دنوں کی چھٹی ہے۔ منڈی میں انہیں کلرک کا کام مل گیا ہے، جہاں پر انہیں اناج کی بوریاں پہنچانی ہوتی ہیں اور حساب کتاب رکھنا پڑتا ہے۔ مجھے بھی کلرک کی نوکری مل گئی ہے، لیکن وہ مجھے صرف ۳۰۰۰ روپے ہی دے رہے ہیں۔ اس لیے میرے گاؤں کے جو لوگ روزانہ رائے پور جاتے ہیں، میں نے ان سے کہا ہے کہ وہ مجھے بھی اپنے ساتھ لے جایا کریں۔ مجھے وہاں پر روزانہ ۲۵۰ روپے ملتے ہیں۔‘‘
رائے پور میں کام کرنا کیسا لگتا ہے؟ ’’کوئی مسئلہ نہیں ہے، لیکن اسٹوڈنٹ لائف سب سے بہتر ہے۔ پہلے دن ہی مجھے بدبودار نالے میں کام کرنا پڑا۔ مجھے یہ ذرا بھی اچھا نہیں لگا۔ دوسرے مزدور بہت اچھے ہیں، لیکن روزانہ سفر کرنے میں مشکل ہوتی ہے۔ آج اتوار ہے، اس لیے ٹرین میں زیادہ بھیڑ نہیں ہے۔ لیکن عام طور پر ڈبے میں جگہ نہیں ہوتی اور لوگ دروازے کے باہر لٹک کر سفر کرتے ہیں۔‘‘
اپنا کمایا ہوا پیسہ وہ کیسے استعمال کریں گے؟ پردیپ کہتے ہیں کہ سب سے پہلے وہ اپنی ماں کے لیے ایک ساڑی خریدیں گے۔ اس کے بعد اپنے لیے ایک موبائل اور کچھ کپڑے بھی خریدنے پر غور کریں گے۔ وہ بتاتے ہیں کہ اس وقت وہ جس موبائل کو استعمال کر رہے ہیں وہ ’’میرے والد کا ہے جنہوں نے مجھے اس لیے دیا ہے تاکہ میں سفر کے دوران اُن کے رابطہ میں رہ سکوں۔ بعض دفعہ، جب مجھے رات بھر کام کرنا پڑتا ہے، تو میں انہیں اطلاع دے سکتا ہوں کہ آج رات میں واپس نہیں آؤں گا۔‘‘ کیا آپ اپنے موبائل پر انٹرنیٹ پلان لیں گے، میں نے سوال کیا۔ ’’جی ہاں، آج کل انٹرنیٹ ہونا ضروری ہے۔ ہم گانے سے لیکر خبروں تک، کسی بھی چیز تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں اور انہیں ڈاؤن لوڈ کر سکتے ہیں۔‘‘
رات کے تقریباً ۹ بجنے والے ہیں اور ٹرین کرود اسٹیشن پہنچنے والی ہے۔ میں نے دیکھا کہ تقریباً ۴۰ سال کی ایک عورت اکیلے سفر کر رہی ہے اور باہر دیکھ رہی ہے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ وہ کتنے دنوں سے اس ٹرین میں سفر کر رہی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں، ’’۱۸ سال ہو چکے ہیں۔ میں روزانہ آبھن پور [رائے پور سے تقریباً ۳۰ کلومیٹر دور] تک کا سفر کرتی ہوں، جہاں میں سبزیاں بیچنے جاتی ہوں۔‘‘
آج آپ نے کتنا کمایا؟ ’’میں نے ۲۵۰ روپے میں کچھ کھٹی سبزیاں فروخت کیں اور آج ۱۰۰ روپے [کا منافع] کمایا۔ کاروبار کے لحاظ سے آج کا دن اچھا نہیں تھا۔ میں اکثر ۲۵۰-۳۰۰ روپے کماتی ہوں۔‘‘
انہوں نے مجھ سے اپنا نام شائع نہیں کرنے کے لیے کہا۔ ’’میں پڑھی لکھی نہیں ہوں، لیکن میرے رشتہ دار ہیں اور تنخواہ والی نوکری کرتے ہیں۔ اگر کہیں پر میرا نام ظاہر ہو گیا، تو وہ ہندوستان میں کہیں بھی اسے پڑھ سکتے ہیں۔ یہ میری عزت کا سوال ہے۔‘‘
میں انہیں بھروسہ دلاتا ہوں کہ ان کا نام شائع نہیں ہوگا۔ وہ اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہتی ہیں، ’’مجھے معلوم ہے کہ سبزیاں کیسے فروخت کی جاتی ہیں۔ ہر کوئی یہ کام نہیں کر سکتا۔ مثال کے طور پر، آپ کے پاس نوکری ہے۔ کیا یہ مزدور اس کام کو کر سکتے ہیں؟‘‘ میں نے ان کی بات سے اتفاق کرتے ہوئے اپنا سر ہلایا۔
کیا آپ کبھی اسکول گئی ہیں؟ ’’کبھی نہیں۔ ہمارے پاس کھانے کے لیے بھی نہیں ہوتا تھا۔ میرے والدین دہاڑی مزدور کے طور پر کام کرتے تھے، جب کہ میں اپنے چھوٹے بھائی بہن کی دیکھ بھال کرتی تھی۔ میں نے تو کبھی سو روپے کا نوٹ بھی نہیں دیکھا تھا!‘‘
کُسُم کا بڑا بیٹا شادی شدہ ہے اور کام پر جانے کے لیے اسی ٹرین سے سفر کرتا ہے۔ لیکن، وہ کہتی ہیں، ’’آج کل، گاؤں میں کھیتی کا کام چل رہا ہے، اس لیے وہ وہاں کام کر رہا ہے۔ میرے چھوٹے بیٹے نے حال ہی میں کمپیوٹر کی ٹریننگ حاصل کرنے کے لیے چھ مہینے تک ۲۰۰-۳۰۰ روپے ماہانہ خرچ کیے۔ اب وہ اسی سنٹر پر کام کرتا ہے اور ہر مہینے ۳۰۰۰ روپے سے ۳۵۰۰ روپے تک کماتا ہے۔ وہ مجھے ایک بھی پیسہ نہیں دیتا، البتہ اپنی بہن کو ۱۰۰۰ روپے دیتا ہے، جو کامرس کا کورس کر رہی ہے اور چوتھے سال میں ہے۔‘‘ اس کے بعد وہ آگے کہتی ہیں، ’’لیکن مجھے اپنے نام کا دستخط کرنا آتا ہے۔ میں نے ایک آدمی سے سیکھا تھا جو بینک اکاؤنٹ میں میرے پیسے جمع کرنے میں مدد کرتا ہے۔‘‘
کرود سے تقریباً دو کلومیٹر پہلے، وہ بجلی سے چمکتے ہوئے ایک گھر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ یہ اُن کا گھر ہے۔ ٹرین جب دھیرے ہونے لگتی ہے، تو وہ سبزیوں کا اپنا بیگ تھامے ہوئے نیچے اتر جاتی ہیں۔
پوسٹ اسکرپٹ: اپریل ۲۰۱۸ میں، حکومت نے اس ریلوے لائن کی دوری کم کرکے ۵۲ کلومیٹر کر دی، اور رائے پور میں پٹری کے بقیہ حصے کو مجوزہ ایکسپریس وے کے لیے اپنی تحویل میں لے لیا۔ اب اس ٹرین کا آخری اسٹیشن تیلی بندھا نہیں، بلکہ کیندری ہے۔ اس کی وجہ سے مزدوروں پر کافی برا اثر پڑا ہے۔
مترجم: محمد قمر تبریز