’’یمنا کے ساتھ ہمارا رشتہ ویسا ہی ہے جیسا کہ کسی پڑوسی کے ساتھ ہوتا ہے۔ ہم اس کے کناروں پر ہی پلے بڑھے ہیں۔‘‘
یہ وجیندر سنگھ ہیں جو اپنی فیملی کے ساتھ اس ندی کے رشتوں پر بات کر رہے ہیں۔ ملاحوں (کشتی چلانے والوں) کی برادری گزشتہ کئی نسلوں سے یمنا کے کنارے آباد ہے اور دہلی میں اس ندی کے کنارے واقع میدانوں میں کھیتی کرتی رہی ہے۔ یہ ۱۳۷۶ کلومیٹر لمبی ندی قومی راجدھانی خطہ میں ۲۲ کلومیٹر تک بہتی ہے اور اس کے ساحلی میدانوں کا رقبہ تقریباً ۹۷ مربع کلومیٹر تک ہے۔
وجیندر جیسے ۵۰۰۰ سے زیادہ کسانوں کو اس علاقے میں کھیتی کرنے کے لیے ۹۹ سالوں کا پٹّہ ملا ہوا تھا۔
حالانکہ، یہ بلڈوزر آنے سے پہلے کی بات تھی۔
سال ۲۰۲۰ کی سرد جنوری میں میونسپل اہلکاروں نے ان کھیتوں کی لہلہاتی فصلوں پر اس لیے بلڈوزر چلا دیے، تاکہ ایک مجوزہ بائیو ڈائیورسٹی پارک کی تعمیر کا راستہ صاف ہو سکے۔ وجیندر دہلی سے اپنی فیملی کو لے کر پاس کی گیتا کالونی کے ایک کرایے کے مکان میں رہنے چلے گئے۔
یہی کام راجدھانی کے لال قلعہ سے تھوڑی ہی دور آباد سینکڑوں دوسرے کسانوں نے بھی کیا۔
راتوں رات ۳۸ سال کے اس کسان کو اپنے معاش سے ہاتھ دھونا پڑا اور اپنی پانچ رکنی فیملی کا پیٹ بھرنے کے لیے ڈرائیونگ کا پیشہ اپنانے پر مجبور ہونا پڑا۔ ان کی فیملی میں ان کے اور ان کی بیوی کے علاوہ ان کے تین بیٹے ہیں اور سب کی عمر ۱۰ سال سے بھی کم ہے۔ وہ اکیلے نہیں ہیں جو اس مسئلہ کا سامنا کر رہے ہیں۔ اپنی زمین اور روزگار سے بے دخل کر دیے گئے بہت سے دوسرے لوگ پینٹر، مالی، سیکورٹی گارڈ اور میٹرو اسٹیشنوں پر صفائی ملازم کے طور پر کام کرنے کو مجبور ہیں۔
وہ کہتے ہیں، ’’اگر آپ لوہا پل سے آئی ٹی او جانے والی سڑک پر نظر ڈالیں گے، تو دیکھیں گے کہ سائیکل پر کچوڑیاں بیچنے والوں کی تعداد بہت بڑھ گئی ہے۔ کسان کو اس کی زمین سے بے دخل کر دیا جائے تو وہ کیا کر سکتا ہے؟‘‘
کچھ مہینے بعد ۲۴ مارچ کو ملک میں غیر میعادی لاک ڈاؤن لگا دیا گیا، جس نے ان کی فیملی کی پریشانیوں میں بہت اضافہ کر دیا۔ وجیندر کا منجھلا بیٹا، جو اس وقت صرف ۶ سال کا تھا، دماغی فالج (سیریبرل پالسی) کا شکار ہو گیا اور اس کے ہر مہینے کی دواؤں کے خرچ کا بوجھ اٹھانا فیملی کے لیے بہت مشکل ہو گیا۔ ریاستی حکومت کے ذریعے ان کے جیسے یمنا کے کناروں سے بے دخل کیے گئے تقریباً ۵۰۰ دوسرے کنبوں کی باز آبادکاری کے لیے کوئی ہدایت نہیں دی گئی تھی۔ ان کی آمدنی کا ذریعہ اور ان کے گھر بار پہلے ہی اجڑ چکے تھے۔
کمل سنگھ کہتے ہیں، ’’وبائی مرض سے پہلے ہم پھول گوبھی، ہری مرچ، سرسوں اور پھول جیسی چیزیں فروخت کرکے ہر مہینے ۸ سے ۱۰ ہزار روپے کما لیتے تھے۔‘‘ ان کی پانچ رکنی فیملی میں بیوی کے علاوہ ۱۶ اور ۱۲ سال کے دو بیٹے ہیں، اور ۱۵ سال کی ایک بیٹی ہے۔ تقریباً ۴۵ سال کے اس کسان کو اپنی قسمت کے بارے میں سوچ کر حیرت ہوتی ہے کہ ان کی طرح اناج اگانے والا ایک کسان آج رضاکارانہ تنظیموں کے ذریعے دیے جانے والے کھانے پر زندہ ہے۔
وبائی مرض کے دوران ان کی آمدنی کا واحد ذریعہ فیملی کی ایک بھینس سے ملنے والا دودھ تھا۔ دودھ کی فروخت سے ملنے والے ۶۰۰۰ روپے فیملی کا پورا خرچ اٹھا پانے کے لیے ناکافی تھے۔ کمل بتاتے ہیں، ’’اس سے میرے بچوں کی تعلیم پر برا اثر پڑا۔ ہم جو سبزیاں اگاتے تھے اس سے ہمارا گزارہ چلتا تھا۔ فصلیں کاٹے جانے کے لیے تیار تھیں، لیکن انہوں نے [اہلکاروں نے] انہیں روند ڈالا۔ ان کا کہنا تھا کہ نیشنل گرین ٹربیونل (این جی ٹی) کا حکم ہے۔‘‘
اس واقعہ سے چند ماہ قبل ہی ستمبر ۲۰۱۹ میں این جی ٹی نے دہلی ڈیولپمنٹ اتھارٹی (ڈی ڈی اے) کے عہدیداروں کو یمنا کے ساحلی میدانوں کی گھیرابندی کرنے کی ہدایت دی تھی، تاکہ اسے ایک بائیو ڈائیورسٹی پارک میں تبدیل کیا جا سکے۔ یہاں ایک میوزیم بنانے کا بھی منصوبہ تھا۔
بلجیت سنگھ پوچھتے ہیں، ’’سب سے زرخیز زمین والے کھادر کے آس پاس کے علاقوں میں رہنے والے ہزاروں لوگ اپنی روزی روٹی کے لیے ندی پر ہی منحصر تھے۔ اب وہ کہاں جائیں گے؟‘‘ (پڑھیں: ’ان کا کہنا ہے کہ دہلی میں کوئی کسان نہیں ہے‘ ) تقریباً ۸۶ سال کے بلجیت سنگھ ’دہلی پیزنٹس کوآپریٹو ملٹی پرپز سوسائٹی‘ کے جنرل سکریٹری ہیں۔ انہوں نے ۴۰ ایکڑ زمین کسانوں کو پٹّے پر دی تھی۔ وہ کہتے ہیں، ’’سرکار یمنا کو بائیو ڈائیورسٹی پارک بنا کر اپنی آمدنی کا ذریعہ بنانا چاہتی ہے۔‘‘
ڈی ڈی اے اب کچھ عرصے سے ان کسانوں کو زمین خالی کرنے کے لیے کہہ رہا ہے۔ لیکن، سچ یہی ہے کہ تقریباً ایک دہائی پہلے میونسپل کارپوریشن کے عہدیدار بلڈوزروں کے ساتھ ان کے گھر گرانے کے لیے آ چکے تھے، تاکہ ’بحالی‘ اور ’تزئین کاری‘ کا کام شروع کیا جا سکے۔
یمنا کے کسانوں کے سبزیوں کے کھیت کو حالیہ دنوں نشانہ بنایا گیا ہے، تاکہ دہلی کو ایک ایسا ’ورلڈ کلاس‘ شہر بنایا جا سکے جس کے ندی کے کنارے غیر منقولہ جائیداد کی قیمت کے نقطہ نظر سے زیادہ سے زیادہ فائدہ دینے والا کاروبار کھڑا ہو سکے۔ انڈین فاریسٹ سروس کے ریٹائرڈ افسر منوج مشرا کہتے ہیں، ’’افسوس کی بات یہ ہے کہ شہر کے ڈیولپرز [تعمیرات کے کام میں مشغول آدمی یا کمپنی] کی نظر اب سیلابی میدانوں پر لگی ہوئی ہے، جہاں انہیں ترقی کے وسیع امکانات دکھائی دے رہے ہیں۔‘‘
*****
ایک ورلڈ ’کراس‘ شہر میں کسانوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ کبھی تھی بھی نہیں۔
۱۹۷۰ کی دہائی میں ان میدانوں کے ایک بڑے حصے پر ایشیائی کھیلوں کے لیے تعمیرات کے کاموں کے لیے قبضہ کر لیا گیا تھا اور یہاں اسٹیڈیم اور ہاسٹل بنا دیے گئے تھے۔ تعمیرات کے اس کام میں اس بڑے منصوبہ کو نظر انداز کیا گیا جس میں ایکولوجیکل (حیاتیاتی) علاقے کے طور پر خاص مقامات کی نشاندہی کی گئی تھی۔ بعد میں ۹۰ کی دہائی کے آخر میں ان ساحلی میدانوں اور ندی کے کنارے آئی ٹی پارک، میٹرو ڈپو، ایکسپریس ہائی وے، اکشردھام مندر اور کامن ویلتھ گیمز کے گاؤں اور رہائشی عمارتیں بنائی گئیں۔ مشرا آگے بتاتے ہیں، ’’یہ سب تب ہوا، جب ۲۰۱۵ کے این جی ٹی کے فیصلے نے کہہ دیا تھا کہ ساحلی میدانوں پر تعمیرات کا کام نہیں کیا جا سکتا ہے۔‘‘
تعمیرات کے ہر ایک کام کے ساتھ یمنا کے کسانوں کے لیے راستے بند ہوتے گئے اور انہیں بڑی تعداد میں بے رحمی کے ساتھ ان کی زمینوں سے بے دخل کر دیا گیا۔ وجیندر کے ۷۵ سالہ والد شوشنکر بتاتے ہیں، ’’چونکہ ہم غریب تھے، تو ہمیں نکال باہر کیا گیا۔‘‘ انہوں نے تا عمر یا کم از کم حالیہ برسوں میں آئے این جی ٹی کے آرڈر تک تو ضرور، دہلی میں یمنا کے ساحلی میدانوں پر کھیتی کی تھی۔ ’’یہ ہندوستان کی راجدھانی ہے، جہاں کسانوں کے ساتھ ایسا برتاؤ کیا جاتا ہے، تاکہ مٹھی بھر سیاحوں کے لیے یہاں میوزیم اور پارک بنائے جا سکیں۔‘‘
بعد میں ان مزدوروں، جنہوں نے ہندوستان کی ’ترقی‘ کے ان چمکدار اور عالیشان یادگاری عمارتوں کو بنانے میں خون پسینہ بہایا تھا، کو بھی ان ساحلی میدانوں سے بے دخل کر دیا گیا۔ ان کے عارضی باشندوں کے لیے ’قومی عظمت‘ کی اس مبینہ قصیدہ گوئی اور تزئین کاری میں کوئی جگہ نہیں تھی۔
این جی ٹی کے ذریعے قائم کردہ یمنا مانیٹرنگ کمیٹی کے سربراہ بی ایس سجوان کہتے ہیں، ’’سال ۲۰۱۵ میں این جی ٹی نے حکم دیا کہ ایک بار جب علاقے کو یمنا کے ساحلی میدانوں کے طور پر نشان زد کر دیا گیا ہے، تو اس کو محفوظ رکھنا ضروری ہے، کیوں کہ یہ میرا یا آپ کا نہیں، بلکہ ندی کا حصہ ہے۔‘‘ ان کے مطابق، ٹربیونل اپنے فیصلہ پر عمل کر رہا ہے۔
اپنی زندگی کے ۷۵ سال انہی ساحلی میدانوں پر کھیتی کرتے ہوئے گزارنے والے رما کانت ترویدی کہتے ہیں، ’’ہمارا کیا ہوگا؟ ہم تو اسی زمین کی مدد سے اپنا پیٹ بھرتے ہیں!‘‘
کسان کل ۲۴۰۰۰ ایکڑ میں کھیتی کرتے ہوئے الگ الگ قسم کی فصلیں اگاتے ہیں اور ان تازہ فصلوں کو دہلی کے بازاروں میں بیچتے ہیں۔ ایسے میں شوشنکر جیسے کئی کسان این جی ٹی کے اس دوسرے دعوے سے تذبذب کے شکار ہیں کہ وہ جن فصلوں کو اگا رہے ہیں ’’وہ ندی کے آلودہ پانی سے سینچائی کرنے کے سبب صحت کے لیے نقصاندہ ہیں۔‘‘ وہ پوچھتے ہیں، ’’تب ہمیں یہاں دہائیوں تک رہ کر شہرکے لیے اناج و سبزی اگانے کی اجازت کیوں دی گئی؟‘‘
’پاری‘ پہلی بار ۲۰۱۹ میں اس علاقے میں وجیندر، شوشنکر اور یہاں آباد دوسرے کنبوں سے ملا تھا، جب ہم ماحولیاتی تبدیلی سے متاثر ان کے معاش پر رپورٹنگ کرنے وہاں گئے تھے۔ پڑھیں: بڑا شہر، چھوٹے کسان، اور ایک مرتی ہوئی ندی ۔
*****
اگلے پانچ سال بعد – سال ۲۰۲۸ میں، اقوام متحدہ کی تحقیق کے مطابق دہلی کے دنیا کی سب سے بڑی آبادی والا شہر بن جانے کی امید ہے۔ ایسا مانا جا رہا ہے کہ ۲۰۴۱ تک یہاں کی آبادی ۸ء۲ سے ۱ء۳ کروڑ کے درمیان ہو جائے گی۔
بڑھتی ہوئی آبادی کا بوجھ صرف کناروں اور ساحلی میدانوں کو ہی نہیں، بلکہ خود ندی کو بھی اٹھانا پڑ رہا ہے۔ مشرا بتاتے ہیں، ’’یمنا مانسون کے پانی پر منحصر ندی ہے اور اس میں صرف تین مہینے کے لیے اوسطاً ۱۰ سے ۱۵ دن ہر مہینے ہونے والی بارش کا پانی جمع ہوتا ہے۔‘‘ وہ اس سوال کا جواب دے رہے تھے کہ ملک کی راجدھانی پینے کے پانی کے لیے یمنا پر منحصر ہے۔ پانی کا ایک دوسرا ذریعہ زیر زمین جمع پانی بھی ہے، جو ندی کے پانی کو جذب کرکے ہی جمع ہوتا ہے۔
ڈی ڈی اے نے دہلی کی مکمل طور پر شہرکاری کی تجویز پیش کی ہے، جس کا تذکرہ دہلی کے اقتصادی سروے ۲۲-۲۰۲۱ میں بھی کیا گیا ہے۔
اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’’دہلی میں زراعت سے متعلق کام تیزی سے کم ہو رہے ہیں…‘‘
منو بھٹناگر بتاتے ہیں کہ سال ۲۰۲۱ تک تقریباً ۵ سے ۱۰ ہزار لوگ دہلی کی یمنا سے اپنا معاش چلاتے تھے۔ منو، انڈین نیشنل ٹرسٹ فار آرٹ اینڈ کلچر ہیریٹج (انٹیک) کے قدرتی وراثت شعبہ کے پرنسپل ڈائرکٹر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اجاڑے گئے لوگوں کو ہی ساحلی میدانوں کی تزئین کاری کے کام میں لگایا جا سکتا تھا۔ ’’آلودگی کی سطح گرنے سے ماہی گیری کی صنعت کو فروغ حاصل ہوگا۔ واٹر اسپورٹس ایک اور متبادل ہو سکتا ہے، اور ۹۷ مربع کلومیٹر کے ساحلی میدانوں کا استعمال تربوز جیسی دیگر غذائی پیداوار کے لیے کیا جا سکتا ہے،‘‘ جب ۲۰۱۹ میں ’پاری‘ کی ان سے ملاقات ہوئی تھی، تب انٹیک کے ذریعے شائع اپنی کتاب ’نریٹوز آف دی انوائرمنٹ آف دہلی‘ ہمیں تحفہ میں دیتے ہوئے انہوں نے یہ کہا تھا۔
*****
راجدھانی میں وبائی مرض کے پھیلنے کے ساتھ ہی اس علاقے کے بے دخل کیے گئے ۲۰۰ سے زیادہ کنبوں کے سامنے راشن کا زبردست بحران تھا۔ سال ۲۰۲۱ کے شروع میں جس فیملی کی مہینہ بھر کی آمدنی ۴ سے ۶ ہزار روپے تھی، وہ لاک ڈاؤن کے دوران گر کر صفر پر پہنچ گئی۔ ترویدی بتاتے ہیں، ’’دو وقت کے کھانے کی جگہ ہمیں ایک وقت کھا کر ہی اپنا گزارہ کرنا پڑ رہا تھا۔ یہاں تک کہ دن کی ہماری دو چائے بھی گھٹ کر ایک ہو گئی تھی۔ ہم ڈی ڈی اے کے مجوزہ پارک میں بھی کام کرنے کے لیے تیار تھے، تاکہ ہمارے بچوں کا پیٹ بھر سکے۔ سرکار کو ہم پر دھیان دینا چاہیے؛ کیا ہمیں ایک برابر حقوق نہیں ملے ہیں؟ ہماری زمینیں لے لو، مگر روزی روٹی کمانے کے دوسرے راستے تو چھوڑو۔‘‘
سال ۲۰۲۰ کے مئی مہینہ میں کسان سپریم کورٹ میں اپنا مقدمہ ہار گئے اور ان کے پٹّوں کو ردّ کر دیا گیا۔ ان کے پاس ایک لاکھ روپے بھی نہیں تھے جس کی مدد سے وہ اپیل دائر کر پاتے۔ اس طرح سے انہیں وہاں سے بے دخل کرنے کا راستہ پوری طرح صاف ہو گیا۔
وجیندر بتاتے ہیں، ’’لاک ڈاؤن نے حالات کو مزید سنگین بنا ڈالا، جب یومیہ مزدوری اور کار لوڈنگ جیسے کام بھی بند ہو گئے۔ ہمارے پاس دوا خریدنے تک کے پیسے نہیں تھے۔‘‘ ان کے ۷۵ سالہ والد، شوشنکر کو چھوٹے موٹے کاموں کی تلاش میں شہر میں بھٹکنا پڑا۔
’’ہم سب کو پہلے ہی کھیتی باڑی چھوڑ کر نوکریاں ڈھونڈ لینی چاہیے تھیں۔ جب اناج نہیں پیدا ہوگا، تب لوگوں کو یہ بات سمجھ میں آئے گی کہ کھانا ہمارے لیے کتنا ضروری ہے اور کسان کتنے اہم ہوتے ہیں،‘‘ ان کی آواز میں غصہ صاف دکھائی دیتا ہے۔
*****
شوشنکر اس وقت کے بارے میں سوچتے ہیں جب وہ اور ان کی کسان فیملی لال قلعہ سے صرف دو کلومیٹر کی دوری پر رہتی تھی۔ اسی لال قلعہ کی فصیل سے وزیر اعظم ہر سال یوم آزادی کے موقع پر ملک سے خطاب کرتے ہوئے تقریر دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان تقریروں کو سننے کے لیے انہیں کبھی بھی ٹی وی یا ریڈیو کی ضرورت نہیں پڑی۔
’’وزیر اعظم کے الفاظ ہواؤں میں تیرتے ہوئے ہم تک پہنچ جاتے تھے… افسوس اس بات کا ہے کہ ہمارے الفاظ ان تک کبھی نہیں پہنچ پائے۔‘‘
مترجم: محمد قمر تبریز