’’ہم کام کرتے ہیں، اس لیے آپ کو کھانے کو ملتا ہے،‘‘ پونہ ضلع کی کھیڑ تحصیل کی ایک کسان، کرشنا بائی کارلے نے کہا۔ ان کے یہ الفاظ سرکار کو تلخ یاد دہانی کے لیے تھے۔ کرشنا بائی اس سال ستمبر میں مرکز کے ذریعہ پاس کیے گئے تین نئے زرعی قوانین کی بلا شرط واپسی کا مطالبہ کرنے والے بے شمار کسانوں میں سے ایک ہیں۔ انہوں نے ۱۱ دسمبر کو پونہ کی ایک میٹنگ میں ملک میں چل رہے کسانوں کے احتجاجی مظاہرے کی حمایت میں بات کی۔
ضلع بھر کے کسان، زرعی مزدور اور کارکن – تمام خواتین – پونہ شہر میں کسانوں اور خاص کر عورتوں پر نئے قوانین کے اثرات کو اجاگر کرنے کے لیے جمع ہوئی تھیں۔
ہندوستان میں خواتین زراعت میں حالانکہ اہم تعاون دیتی ہیں – کم از کم ۶۵ اعشاریہ ۱ فیصد خواتین زراعت میں کام کرتی ہیں، یا تو کاشتکار یا زرعی مزدور کی شکل میں (مردم شماری ۲۰۱۱) – پھر بھی انہیں کسان تسلیم نہیں کیا جاتا اور اکثر انہیں اپنی فیملی کی زمین پر مالکانہ حق سے محروم رکھا جاتا ہے۔ پونہ کی میٹنگ میں کسانوں نے کہا کہ مرکزی حکومت کو قانون – جو کہ ان کے معاش کے لیے خطرہ ہے – نافذ کرنے کی بجائے عورتوں کو کسانوں کے طور پر تسلیم کرنا چاہیے۔ ’’عورتیں نہ صرف کام کرتی ہیں، بلکہ وہ مردوں کے مقابلے زیادہ وقت تک کام کرتی ہیں،‘‘ دونڈ تحصیل کی ایک کسان، آشا آٹولے نے کہا۔
کسانوں کی ملک گیر مخالفت کے ۱۶ویں دن منعقد، ۱۱ دسمبر کی میٹنگ ’کسان باگ‘ – نئے قانون کو مسترد کرنے کے مطالبہ کو لیکر ۸ دسمبر کو شروع ہوئی مجلس – کے طور پر ایک ساتھ جمع ہوئی تھی۔ اس میٹنگ کا انعقاد استری مُکتی آندولن سمپرک سمیتی کے ذریعے کیاگیا تھا، جو کہ مہاراشٹر میں خواتین کی تنظیموں کا ۴۱ سال پرانا گروپ ہے۔
احتجاجی مظاہروں کے تئیں اپنی حمایت کا اظہار کرتے ہوئے، کسانوں نے اپنے لمبے عرصے سے زیر التوا مطالبات جیسے کہ بینک سے قرض اور منڈیوں تک رسائی کی کمی کو دوہرایا۔
میٹنگ میں پیش کی گئی مطالبات کی ایک فہرست میں انہوں نے کہا کہ کسانوں کو ’ملک مخالف‘ کہہ کر بدنام کرنا بند ہونا چاہیے۔ انہوں نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ سرکار فصلوں کے لیے کم از کم امدادی قیمت (ایم ایس پی) اور غیر مرکوز خرید سہولیات پر قومی کاشتکار کمیشن (یا سوامی ناتھن کمیشن) کی سفارشات کو نافذ کرے۔
مترجم: محمد قمر تبریز