’’میرے ذریعے بنائی گئی ہر جھونپڑی کم از کم ۷۰ سال چلتی ہے۔‘‘
کولہاپور ضلع کے جامبھڑی گاؤں میں رہنے والے وشنو بھوسلے کا ہنر نرالا ہے – وہ جھونپڑی بنانے کے ماہر ہیں۔
وشنو (۶۸ سالہ) لکڑی کے فریم اور پھوس سے جھونپڑی بناتے ہیں۔ انہوں نے اپنے آنجہانی والد، گنڈو بھوسلے سے یہ ہنر سیکھا تھا۔ وہ اب تک ۱۰ سے زیادہ جھونپڑیاں بنا چکے ہیں اور اتنی ہی تعداد میں اسے بنانے میں دوسروں کی مدد کر چکے ہیں۔ وہ یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں، ’’ہم لوگ اسے [عام طور پر] گرمیوں میں بناتے تھے کیوں کہ [اس وقت] کھیتوں میں ہمارے پاس کوئی کام نہیں ہوتا تھا۔ اُن دنوں جھونپڑی بنوانے میں لوگوں کی کافی دلچسپی ہوا کرتی تھی۔‘‘
وشنو ۱۹۶۰ کی دہائی کو یاد کرتے ہیں، جب جامبھڑی میں سو سے زیادہ جھونپڑیاں ہوا کرتی تھیں۔ وہ کہتے ہیں کہ دوست لوگ ایک دوسرے کی مدد کرتے تھے اور اسے بنانے کا سامان گاؤں کے آس پاس آسانی سے مل جاتا تھا۔ وہ بتاتے ہیں، ’’جھونپڑی بنانے کے لیے ہم لوگ ایک بھی روپیہ خرچ نہیں کرتے تھے۔ کسی کے پاس اتنے پیسے ہوتے ہی نہیں تھے۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں، ’’لوگ تین مہینے تک انتظار کرنے کو تیار رہتے تھے، اور جب تمام سامان صحیح طریقے سے جمع ہو جاتے تھے تبھی اسے بنانا شروع کرتے تھے۔‘‘
صدی کے آخر میں، ۴۹۶۳ لوگوں کی آبادی (مردم شماری ۲۰۱۱) والے اس گاؤں میں لکڑی اور پھوس کی بجائےے اینٹ، سیمنٹ اور ٹن کی مدد سے گھر بنائے جانے لگے۔ جھونپڑی کو پہلا نقصان تب ہوا، جب مقامی کمہاروں نے کھپری کولو (چھت کی ٹائل جسے کھپریل بھی کہتے ہیں) یا کُمبہری کولو بنانا شروع کیا۔ بعد میں مشین سے بنے ہوئے بنگلور کے کولو آنے لگے، جو مضبوط ہونے کے ساتھ ساتھ زیادہ دنوں تک چلتے تھے۔
جھونپڑی کا چھپّر (چھت) بنانے میں کافی محنت لگتی ہے، جب کہ کھپریل (ٹائلوں) کو بڑی آسانی اور تیزی کے ساتھ لگایا جا سکتا ہے اور اس کا رکھ رکھاؤ بھی زیادہ نہیں کرنا پڑتا۔ آخر میں، پختہ مکان کی تعمیر کے لیے اینٹ اور سیمنٹ آ جانے کی وجہ سے جھونپڑیوں کا زوال شروع ہو گیا۔ جامبھڑی میں لوگوں نے جھونپڑیوں میں رہنا چھوڑ دیا، اور آج وہاں پر دو چار جھونپڑیاں ہی نظر آتی ہیں۔
وشنو کہتے ہیں، ’’اب گاؤں میں مشکل سے کوئی جھونپڑی نظر آتی ہے۔ کچھ سالوں میں، یہاں ایک بھی روایتی جھونپڑی دیکھنے کو نہیں ملے گی، کیوں کہ کوئی بھی ان کی دیکھ بھال کرنا نہیں چاہتا۔‘‘
*****
وشنو بھوسلے کے دوست اور پڑوسی نارائن گائکواڑ جب بھی کوئی جھونپڑی بنانا چاہتے، تو مدد کے لیے ان کے پاس پہنچ جاتے تھے۔ دونوں کسان ہیں اور ہندوستان بھر میں ہونے والے کسانوں کے کئی مظاہروں میں شامل ہو چکے ہیں۔ (یہ بھی پڑھیں: جامبھڑی کے کسان: ہاتھ ٹوٹا، حوصلہ نہیں )
جامبھڑی میں، وشنو کے پاس ایک ایکڑ اور نارائن کے پاس تقریباً ۲۵ء۳ ایکڑ زمین ہے۔ یہ دونوں اپنے اپنے کھیتوں میں گنّے کے ساتھ جوار، گندم، سویابین، بینس (پھلیاں)، اور پالک، میتھی اور دھنیا جیسی پتے دار سبزیاں اُگاتے ہیں۔
دس سال پہلے نارائن کے من میں جھونپڑی بنانے کا خیال اس وقت آیا، جب وہ اورنگ آباد ضلع میں تھے اور زرعی مزدوروں سے ان کے کام کے حالات کے بارے میں بات کر رہے تھے۔ وہیں پر انہوں نے ایک گول جھونپڑی دیکھی اور سوچا، ’’ اگڈی پریکشنی [انتہائی خوبصورت]۔‘‘ وہ بتاتے ہیں، ’’ تیاچا گروتواکرشن کیندر اگڈی بروبر ہوتا [کشش ثقل کا مرکز بہت اچھی طرح متوازن تھا]۔‘‘
نارائن یاد کرتے ہیں کہ وہ جھونپڑی دھان کی پرالی سے بنائی گئی تھی اور اس کا ہر ایک حصہ صحیح جگہ پر تھا۔ انہوں نے اس کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی۔ انہیں بتایا گیا کہ اس جھونپڑی کو کسی زرعی مزدور نے بنایا ہے، لیکن وہ اس سے مل نہیں پائے۔ پھر، ۷۶ سالہ نارائن نے یہ تمام تفصیلات اپنی کاپی میں لکھ کر رکھ لیں۔ وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے، روزمرہ کی زندگی کی دلچسپ تفصیلات کو اپنی کاپی میں لکھتے آ رہے ہیں۔ ان کے پاس پاکٹ سائز سے لے کر اے ۴ سائز تک کی ۴۰ الگ الگ ڈائریاں ہیں، جن میں مقامی مراٹھی زبان میں ہاتھ سے لکھے ہوئے ایسے ہزاروں صفحات ہیں۔
ایک دہائی کے بعد وہ اپنے ۲۵ء۳ ایکڑ کھیت میں ویسی ہی ایک جھونپڑی بنانا چاہتے تھے، لیکن ان کے ساتھ کئی چیلنج تھے۔ ان میں سب سے بڑا چیلنج جھونپڑی بنانے کے کسی ماہر کو تلاش کرنا تھا۔
تب انہوں نے وشنو بھوسلے سے بات کی، جن کے پاس جھونپڑی بنانے کا کافی تجربہ تھا۔ اس شراکت داری کا نتیجہ اب لکڑی اور پھوس بنی اُس جھونپڑی میں نظر آتا ہے، جو ہاتھ سے تعمیراتی کاریگری کی نشانی ہے۔
نارائن کہتے ہیں، ’’جب تک یہ جھونپڑی موجود ہے، نوجوان نسل کو ہزاروں سال پرانے ہنر کی یاد دلاتی رہے گی۔‘‘ اسے بنانے میں ان کا ساتھ دینے والے وشنو کہتے ہیں، ’’اگر یہ جھونپڑی نہیں ہوگی، تو لوگوں کو میرے کام کے بارے میں پتہ کیسے چلے گا؟‘‘
*****
جھونپڑی بناتے وقت سب سے پہلے یہ سوچا جاتا ہے کہ اس کا استعمال کیا ہونے والا ہے۔ وشنو کہتے ہیں، ’’اسی (استعمال) کی بنیاد پر، جھونپڑی کا سائز اور ڈھانچہ الگ الگ ہوتا ہے۔‘‘ مثال کے طور پر، جانوروں کا چارہ رکھنے کے لیے جو جھونپڑی بنائی جاتی ہے وہ سہ رخی (مثلث) ہوتی ہے، جب کہ چھوٹی فیملی کے لیے ۱۲ بائی ۱۰ فٹ کا ایک کمرہ عام طور سے مستطیل ہوتا ہے۔
نارائن پڑھنے کے شوقین ہیں۔ وہ ایک چھوٹے کمرہ کے سائز کی جھونپڑی بنوانا چاہتے تھے، جسے (کتابیں پڑھنے کے لیے) ریڈنگ روم کے طور پر استعمال کر سکیں۔ انہوں نے وشنو کو بتایا کہ وہ یہاں پر اپنی کتابیں، رسائل اور اخبارات رکھیں گے۔
وشنو کو جب معلوم ہو گیا کہ اس کا کیا استعمال ہونا ہے، تو انہوں نے چند چھڑیوں کی مدد سے ایک چھوٹا سا ماڈل تیار کیا۔ پھر، انہوں نے نارائن کے ساتھ مل کر جھونپڑی کی صورت و شکل کو حتمی شکل دینے میں ۴۵ منٹ سے زیادہ وقت لگایا۔ نارائن کے کھیت کا کئی بار دورہ کرنے کے بعد، انہوں نے اس جگہ کی نشاندہی کی جہاں پر ہوا کا دباؤ سب سے کم ہو۔
نارائن کہتے ہیں، ’’جھونپڑی صرف گرمی یا سردی کے بارے میں سوچ کر نہیں بنائی جاتی۔ یہ کئی دہائیوں تک چلنی چاہیے، اس لیے ہم متعدد عناصر پر غور کرتے ہیں۔‘‘
زمین میں دو فٹ گہرا گڑھا کھود کر ۱۲ بائی ۹ فٹ کی جھونپڑی بنانے کی شروعات ہوئی۔ کل ۱۵ گڑھوں کی ضرورت تھی، جنہیں ڈیڑھ ڈیڑھ فٹ کے فاصلہ پر کھودا گیا۔ ان تمام گڑھوں کو کھودنے میں تقریباً ایک گھنٹہ کا وقت لگا۔ اس کے بعد سبھی گڑھوں کو پالی تھین یا پلاسٹک کی بوریوں سے ڈھانپ دیا گیا۔ ’’ایسا اس لیے کیا گیا، تاکہ گڑھوں میں پانی نہ بھر جائے، ورنہ لکڑی ان میں مضبوطی سے گڑے گی نہیں۔‘‘ لکڑی کو کچھ ہوا، تو پوری جھونپڑی کے سڑنے کا خطرہ پیدا ہو جاتا ہے۔
وشنو اپنے ایک دوست اور پیشہ سے مستری، اشوک بھوسلے کی مدد سے میڈکا (کھمبے) کو دونوں کناروں اور درمیان میں کھودے گئے گڑھوں میں پوری احتیاط سے رکھتے ہیں۔ میڈکا ، دراصل انگریزی کے حرف ’وائی‘ کی شکل کا تقریباً ۱۲ فٹ لمبا ایک کھمبا ہوتا ہے، جسے چندن (سنتالم البم) ، ببول (وچیلیا نیلوٹکا) ، یا کڈو لِمب (ازاڈیراچا انڈیکا) کی لکڑی سے تیار کیا جاتا ہے۔
’وائی‘ کے اوپری سرے کو لکڑی کا تنا افقی طور پر رکھنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ نارائن بتاتے ہیں، ’’بیچ میں گاڑے گئے دو میڈکا کو ’آد‘ کہا جاتا ہے، جو کم از کم ۱۲ فٹ لمبے ہوتے ہیں۔ باقی کھمبے ۱۰-۱۰ فٹ کے ہوتے ہیں۔‘‘
بعد میں، لکڑی کے اس ڈھانچہ کے اوپر چھپر رکھا جائے گا؛ اور دو فٹ لمبے میڈکا کا استعمال یہ یقینی بنانے کے لیے کیا جائے گا کہ بارش کے دوران پانی چھپر سے نیچے زمین پر گرے، نہ کہ گھر کے اندر جائے۔
اس طرح کے آٹھ میڈکا کو سیدھا گاڑنے کے بعد جھونپڑی کی بنیاد تیار ہو جاتی ہے۔ میڈکا کو گاڑنے میں تقریباً دو گھنٹے لگتے ہیں۔ پھر، جھونپڑی کے دونوں سروں کو آپس میں جوڑنے کے لیے، ایک قسم کے مقامی بانس سے تیار کی گئی رسی (جسے ’ویڑو‘ کہتے ہیں) کو ان میڈکا کے نچلے حصے سے باندھ دیا جاتا ہے۔
وشنو کہتے ہیں، ’’چندن اور ببول کے درخت تلاش کرنا اب مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ ان تمام ضروری [دیسی] درختوں کی جگہ اب گنّے اگائے جا رہے ہیں یا عمارتیں کھڑی کر دی گئی ہیں۔‘‘
ڈھانچہ کھڑا ہو جانے کے بعد، اگلا قدم ہوتا ہے شہتیر لگانا، جس سے چھت کی اندرونی شکل تیار ہوتی ہے۔ اس جھونپڑی کے لیے، وشنو نے ۴۴ شہتیریں لگانے کے بارے میں سوچا ہے۔ چھت کو ٹکانے کے لیے دونوں سروں پر ۲۲-۲۲ شہتیریں لگائی جائیں گی۔ انہیں اگیو (کیکٹس کی قسم کا پودا) کے تنے سے تیار کیا جاتا ہے، جسے علاقائی مراٹھی میں ’فڑیاچا واسا‘ کہتے ہیں۔ اگیو کا تنا ۳۰-۲۵ فٹ لمبا اُگ سکتا ہے اور اپنی مضبوطی کے لیے جانا جاتا ہے۔
وشنو بتاتے ہیں، ’’یہ تنا کافی مضبوط ہوتا ہے اور جھونپڑی کو لمبے عرصے تک صحیح سلامت رکھتا ہے۔‘‘ زیادہ شہتیر استعمال کرنے سے مضبوطی بھی اتنی ہی زیادہ ملے گی۔ لیکن، وہ خبردار کرتے ہیں، ’’ فڑیاچا واسا کو کاٹنا بہت مشکل کام ہے۔‘‘
اگیو کے ریشوں کا استعمال میڈکا کے اوپر رکھی گئی لکڑیوں کو باندھنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ یہ رسیاں کافی مضبوط ہوتی ہیں۔ اگیو کی پتیوں سے ریشے نکالنا ایک پیچیدہ کام ہے۔ لیکن نارائن کو اس میں مہارت حاصل ہے، اور درانتی سے ریشہ نکالنے میں انہیں ۲۰ سیکنڈ سے بھی کم وقت لگتا ہے۔ وہ ہنستے ہوئے کہتے ہیں، ’’لوگ یہ بھی نہیں جانتے کہ اگیو کے پتوں کے اندر ریشے ہوتے ہیں۔‘‘
ان ریشوں کا استعمال ماحولیات کے موافق بائیو ڈی گریڈیبل (جو آسانی سے سڑ گل جائیں) رسیاں بنانے کے لیے بھی کیا جاتا ہے۔ (یہ بھی پڑھیں: غائب ہوتی ہندوستانی رسیوں کی کہانی )
لکڑی کا ڈھانچہ تیار ہو جانے کے بعد، دیواروں کو ناریل کے پتّوں اور گنّے کے ڈنٹھل سے تیار کیا جاتا ہے، تاکہ اس میں درانتی بھی آسانی سے ٹک سکے۔
اس کے بعد چھپّر ڈالنے کی باری آتی ہے۔ اسے کچے گنّے کے اوپری سرے کی پتیوں کا استعمال کرکے بنایا جاتا ہے۔ نارائن بتاتے ہیں، ’’گنّے کی پتیاں ہم نے ان کسانوں سے لی ہیں، جن کے پاس مویشی نہیں ہیں۔‘‘ گنّے کے پتّے مویشیوں کے لیے ایک اہم غذا ہیں، اور اس لیے کسان اسے مفت میں نہیں دیتے۔
جوار اور گیہوں کے خشک ڈنٹھلوں کا استعمال چھت کو ڈھانپنے، کھلی جگہوں کو بھرنے اور جھونپڑی کو خوبصورت بنانے میں کیا جاتا ہے۔ نارائن بتاتے ہیں، ’’ہر جھونپڑی کے لیے کم از کم آٹھ بِندا [تقریباً ۲۵۰-۲۰۰ کلوگرام گنّے کے اوپری حصے] کی ضرورت ہوتی ہے۔‘‘
چھپّر بچھانا بہت محنت کا کام ہے، جس میں تقریباً تین دن لگتے ہیں اور تین لوگوں کو روزانہ چھ سے سات گھنٹے کام کرنا پڑتا ہے۔ وشنو کہتے ہیں، ’’ہر ڈنٹھل کو احتیاط سے بچھانا پڑتا ہے، تاکہ بارش کا پانی اندر نے گرے۔‘‘ چھپر زیادہ دن تک چلے، اس کے لیے چھپر کی ہر ۳ سے ۴ سال میں مرمت کی جاتی ہے۔
وشنو کی بیوی انجنا (۶۰ سالہ) بھوسلے بتاتی ہیں، ’’روایتی طور پر، جامبھڑی میں صرف مرد ہی جھونپڑی بناتے ہیں، لیکن عورتیں خام مال کو تلاش کرنے اور زمین کو برابر کرنے میں اہم رول ادا کرتی ہیں۔‘‘
جھونپڑی کا ڈھانچہ پورا ہونے کے بعد، نیچے کی مٹی کو بٹھانے کے لیے اس پر ڈھیر سارا پانی ڈالا جاتا ہے اور اگلے تین دنوں تک خشک ہونے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ نارائن بتاتے ہیں، ’’اس سے مٹی کے چپچپے پن کا پتہ لگتا ہے۔‘‘ یہ کام پورا ہو جانے کے بعد، نارائن اسے اپنے کسان دوستوں سے لائی گئی پانڈھری مٹی (سفید مٹی) سے ڈھانپ دیتے ہیں۔ لوہا اور مینگنیز نکل جانے کی وجہ سے، ’سفید‘ مٹی کا رنگ ہلکا ہوتا ہے۔
سفید مٹی کی طاقت بڑھانے کے لیے اس میں گھوڑے، گائے اور دیگر جانوروں کے گوبر ملائے جاتے ہیں۔ اسے زمین پر پھیلا جاتا ہے اور مرد لکڑی سے بنے ’دُھمُّس‘ نام کے ایک اوزار سے اس کو بٹھاتے ہیں۔ اس اوزار کا وزن تقریباً ۱۰ کلو ہوتا ہے اور اسے تجربہ کار بڑھئی (کارپینٹر) ہی بناتے ہیں۔
مردوں کے ذریعے دُھمُس مارنے کے بعد، عورتیں اسے ’بڈونا‘ سے برابر کرتی ہیں، جس کا وزن تین کلو ہوتا ہے اور اسے ببول کی لکڑی سے بنایا جاتا ہے۔ بڈونا دیکھنے میں کرکٹ کے بلّے جیسے لگتا ہے، لیکن اس کا ہینڈل بہت چھوٹا ہوتا ہے۔ نارائن کا اپنا بڈونا کہیں گم ہو گیا ہے، لیکن خوش قسمتی سے ان کے بڑے بھائی سکھا رام (۸۸ سالہ) کے پاس یہ موجود ہے۔
نارائن کی بیوی، کسم گائکواڑ نے جھونپڑی بنانے میں اہم رول ادا کیا ہے۔ کسم (۶۸ سالہ) کہتی ہیں، ’’جب بھی ہمیں اپنی کھیتی سے وقت ملتا تھا، ہم زمین کو برابر کرنے میں لگ جاتے تھے۔‘‘ وہ بتاتی ہیں کہ یہ بہت مشکل کام ہے، اس لیے فیملی کے تمام ممبران اور دوستوں نے باری باری اس میں مدد کی۔
مٹی برابر ہو جانے کے بعد، عورتیں اس پر گائے کا گوبر لیپتی ہیں۔ یہ مٹی میں دراڑ نہیں پڑنے دیتا ہے، اور مچھر کو بھی دور رکھنے میں مدد کرتا ہے۔
دروازے کے بغیر گھر خالی خالی لگتا ہے۔ عام طور پر، دروازے کو دیسی جوار، گنّا اور یہاں تک کہ ناریل کے خشک پتّوں کے ڈنٹھل سے بنایا جاتا ہے۔ حالانکہ، جامبھڑی میں کوئی بھی کسان چونکہ ان دیسی قسموں کو نہیں اگاتا ہے اور دروازے بنانے والوں کے لیے یہ ایک چیلنج ہے۔
نارائن کہتے ہیں، ’’ہر کوئی ہائبرڈ قسم استعمال کر رہا ہے، جس کا نہ تو چارہ اتنا مقوی ہوتا ہے اور نہ ہی یہ ’دیسی‘ کی طرح لمبے وقت تک ٹکتا ہے۔‘‘
جیسے جیسے کھیتی کے طور طریقوں میں تبدیلی آئی ہے، ویسے ویسے جھونپڑی بنانے کے وقت میں بھی تیزی آئی ہے۔ پہلے جھونپڑیاں گرمیوں میں بنائی جاتی تھیں، جب کھیتوں میں زیادہ کام نہیں ہوتا تھا۔ لیکن وشنو اور نارائن کا کہنا ہے کہ اب شاید ہی کوئی ایسا وقت ہو جب کھیت خالی پڑے ہوں۔ وشنو کہتے ہیں، ’’پہلے ہم سال میں ایک بار ہی کھیتی کرتے تھے۔ اب، بھلے ہی ہم سال میں دو یا تین بار کھیتی کرتے ہیں، لیکن پھر بھی ہمارا گزارہ نہیں ہو پاتا ہے۔‘‘
جھونپڑی بنانے میں نارائن، وشنو، اشوک بھوسلے اور کسم گائکواڑ کو مشترکہ طور پر پانچے مہینے اور ۳۰۰ گھنٹے سے زیادہ وقت لگا ہے۔ ساتھ ہی، وہ کھیتوں میں بھی کام کرتے رہے۔ نارائن بتاتے ہیں، ’’یہ کام ہمیں بہت زیادہ تھکا دیتا ہے اور اس کے علاوہ خام مال ڈھونڈنا بھی ایک چیلنج ہے۔‘‘ نارائن کو جامبھڑی میں کئی جگہوں سے خام مال اکٹھا کرنے میں ایک ہفتہ سے زیادہ کا وقت لگ گیا۔
انہیں جھونپڑی بناتے وقت، خاص کر کانٹوں اور قمچی سے چوٹیں لگیں۔ اپنی زخمی انگلی دکھاتے ہوئے نارائن کہتے ہیں، ’’اگر آپ کو اس درد کی عادت نہیں ہے، تو آپ کہاں سے کسان کہلائیں گے؟‘‘
آخرکار، جھونپڑی بن کر تیار ہے اور اسے بنانے والے سبھی لوگ بری طرح تھک چکے ہیں۔ لیکن جھونپڑی کو کھڑا دیکھ سبھی خوش ہیں۔ وشنو کو لگتا ہے کہ شاید یہ جامبھڑی کی آخری جھونپڑی ہو، کیوں کہ جھونپڑی بننے کے دوران کچھ ہی لوگ تھے جو اسے دیکھنے اور سیکھنے آئے تھے۔ لیکن نارائن نے انہیں تسلی دیتے ہوئے کہا، ’’لوگ آئیں یا نہ آئیں، فرق نہیں پڑتا۔‘‘ ان کا کہنا ہے کہ جس جھونپڑی کو انہوں نے سبھی کے ساتھ مل کر اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے، اس میں انہیں چین کی نیند آتی ہے۔ اسے وہ ایک لائبریری بنانا چاہتے ہیں۔
نارائن گائکواڑ کہتے ہیں، ’’جب بھی کوئی دوست یا مہمان میرے گھر آتا ہے، تو میں فخر سے انہیں یہ جھونپڑی دکھاتا ہوں۔ اور لوگ اس روایتی ہنر کو زندہ رکھنے کے لیے، ہماری تعریف کرتے ہیں۔‘‘
یہ اسٹوری سنکیت جین کے ذریعے دیہی کاریگروں پر لکھی جا رہی سیریز کا حصہ ہے، اور اسے مرنالنی مکھرجی فاؤنڈیشن کا تعاون حاصل ہے۔
مترجم: محمد قمر تبریز