بابولال کوندھر، جو تال گاؤں میں رہتے تھے، یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں، ’’ہم باہر نہیں جانا چاہتے تھے۔ شروع میں ہم نے انہیں نظر انداز کیا۔ جب بھی محکمہ جنگلات کے اہلکار آتے ہم چھپ جاتے تھے۔ ہم نے اس طرح کئی دن گزارے۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں، ’’میرے خیال میں یہ فیصلہ ۲۰۰۸ کے آس پاس کیا گیا تھا۔ جنگلات کے حکام نے ہمیں بتایا کہ جنگل میں باگھوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے اور ہمیں فوری طور پر وہاں سے نکل جانا چاہیے۔‘‘
چار سال تک نقل مکانی سے انکار کے بعد، سال ۲۰۱۲ میں تال گاؤں کے آدیواسیوں کو اپنا آبائی گاؤں چھوڑ کر تقریباً ۱۶ کلومیٹر دور سارتھ پورہ بستی میں آباد ہونے پر مجبور ہونا پڑا تھا۔ اس بستی کو مقامی طور پر تارا ٹیک کہا جاتا ہے۔ یہ بستی اس شاہراہ کے قریب ہے جو پنا ضلع کی امن گنج تحصیل کی طرف جاتی ہے۔
سال ۲۰۰۸-۲۰۰۹ میں جب مدھیہ پردیش میں پنا ٹائیگر ریزرو کے تمام باگھ ختم ہو گئے تھے، تو ۱۲ گاؤوں کو وہاں سے منتقل کر دیا گیا تھا، تاکہ باگھوں کی نازک رہائش گاہوں کو مستحکم بنایا جا سکے۔ تال گاؤں ان میں سے ایک تھا۔ سال ۲۰۱۱ کی ایک رپورٹ کے مطابق، ریزرو کے مرکزی علاقے میں ۱۶ گاؤوں تھے (۱۱ ضلع پنّا میں اور ۵ چھتر پور ضلع میں؛ چار گاؤوں جو اس وقت منتقل نہیں کیے گئے تھے ان کی موجودہ حیثیت کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے)۔
سال ۲۰۱۱ کی مردم شماری میں اس وقت کے تال گاؤں میں ۱۷۱ کنبوں کا اندراج ہے، جن میں سے زیادہ تر کا تعلق راج گونڈ آدیواسی برادری سے ہے۔ ان کنبوں میں سے صرف ۳۷ ہی سارتھ پورہ میں رہ گئے ہیں۔ باقی نے ستنا، کٹنی اور اجے گڑھ جیسے قصبوں میں ہجرت کر لی ہے۔
بہرحال، اس منتقلی میں متعدد ضابطوں اور قانونی شرائط کو نظرانداز کیا گیا ہے۔ پروجیکٹ ٹائیگر کا سیکشن ۹ء۴ وزارت ماحولیات اور جنگلات کے زیر نگرانی نقل مکانی کے پیکیج کے طور پر دو متبادل پیش کرتا ہے: یا تو کنبہ معاوضے کے طور پر ۱۰ لاکھ روپے قبول کرکے منتقلی کا انتظام خود ہی کرے یا محکمہ جنگلات اور کلکٹر بازآباد کاری کا عمل شروع کریں۔
تال گاؤں کے لوگوں کو دوسرا متبادل نہیں دیا گیا تھا، حالانکہ ان کا کہنا ہے کہ ان کے پاس زمین کے مالکانہ حق کے دستاویزات تھے اور وہ کئی نسلوں سے اس گاؤں میں قیام پذیر تھے۔ انہوں نے باز آبادکاری کے لیے ایک الگ مقام کی نشاندہی بھی کی تھی۔ اور اب سارتھ پورہ میں ان کے پاس گھر تو ہیں، لیکن زمین کے مالکانہ حق کے دستاویزات نہیں ہیں اور انہیں بے دخلی کی فکر لاحق ہے۔
بابولال کی ماں شوبھا رانی کوندھر کہتی ہیں، ’’ہم نے اپنے گھروں کی تعمیر پر معاوضے کی آدھی رقم خرچ کر دی تھی۔ چھ ماہ تک ہم عارضی گھروں میں رہے۔ ہمارے پاس اس زمین کے پٹے (مالکانہ حق کے دستاویزات) بھی نہیں ہیں، اگر وہ ہمیں دوبارہ بے دخل کریں گے تو ہم کہاں جائیں گے؟‘‘
تال گاؤں کے کئی کنبوں کو معاوضہ کی پوری رقم بھی نہیں ملی ہے۔ بابو لال کہتے ہیں، ’’شروع میں کچھ نے [۱۰ لاکھ روپے کی] پیشکش قبول کی اور قصبوں اور شہروں کی طرف نکل گئے۔ لیکن زمین کے بغیر، جنگل سے باہر ہماری بقا کے لیے اس پیسے کا کیا مصرف ہے؟ اس لیے ہم میں سے کچھ نے انکار کر دیا۔‘‘ جن کنبوں نے مزاحمت کی (ان میں سے ۳۷ اب سارتھ پورہ میں ہیں) ان کو بالآخر فی کنبہ صرف ۸ لاکھ روپے ملے۔ یہ واضح نہیں ہے کہ معاوضہ کی رقم کیوں کم کی گئی۔ بدلے میں، انہوں نے تال گاؤں میں اپنے پکے مکانات اور فی کنبہ اوسطاً چھ ایکڑ، بشمول زرعی اور گھر کے آس پاس کی زمین چھوڑ دی۔
جنگلی حیات (تحفظ) ایکٹ، ۱۹۷۲ کی دفعہ ۳۸ (وی) کسی بھی بازآباد کاری سے پہلے گاؤں والوں کی باخبر رضامندی کو لازمی قرار دیتی ہے۔ اسے بھی تال گاؤں میں نظر انداز کیا گیا۔ دہاڑی مزدور اور بابو لال کے پڑوسی، دِیلن کوندھر کہتے ہیں، ’’وہ [محکمہ جنگلات کے افسر] ہمیں ہر روز ہراساں کرتے تھے۔ کبھی کبھی وہ باگھوں کی پرانی کھالیں لے کر آتے اور ہمیں دھمکی دیتے کہ باگھوں کے غیر قانونی شکار پر ہمارے خلاف جھوٹا مقدمہ درج کرائیں گے۔ مجھے چند دنوں کے لیے ایک بار قید بھی کیا گیا تھا، کیونکہ انہوں نے کہا تھا کہ میں نے ایک سانبھر ہرن کو مار ڈالا ہے۔ ایک دن، وہ ہمارے گھروں کو توڑنے کے لیے ہاتھیوں کے ساتھ آئے۔ اس کے بعد ہم اور کیا کر سکتے تھے؟‘‘
سارتھ پورہ کے ایک اور رہائشی، بھرت کوندھر، اس وقت کو یاد کرتے ہیں جب باگھوں کے تحفظ کے لیے ان کی مہارتیں بہت اہم تھیں۔ ’’میں بھاگے ہوئے باگھوں کو ریزرو میں واپس لانے اور ان کے ریڈیو کالر لگانے میں محکمہ جنگلات کی مدد کرتا تھا۔ جنگل کے لوگ باگھوں سے نہیں ڈرتے، ہم ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔‘‘
اس ہم خانگی کو جنگلاتی حقوق کے قانون، ۲۰۰۶ کے ذریعے تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔ اس قانون کی دفعہ ۴(۲)(بی) اور ۴(۲)(سی) میں کہا گیا ہے کہ یہ ثابت کرنا ضروری ہے کہ جنگل میں رہنے والوں کی موجودگی جنگلی حیات کی انواع کو خاطر خواہ نقصان پہنچا رہی ہے، اور یہ کہ بقائے باہمی کے دیگر متبادل دستیاب نہیں ہیں۔
یہ واضح نہیں ہے کہ نقل مکانی سے پہلے اس طرح کے کسی بھی متبادل کی تلاش کی گئی تھی یا نہیں۔ جب میں نے محکمہ جنگلات سے رابطہ کیا تو مجھے بتایا گیا کہ تمام معلومات محکمہ کی ویب سائٹ پر موجود ہیں۔ لیکن ویب سائٹ پر تال گاؤں کے لوگوں یا حائلی (بفر) اور مرکزی علاقوں کے دیگر دیہاتوں کی با ز آبادکاری کے طریقہ کار کے بارے میں معلومات دستیاب نہیں ہیں۔
جنگلی حیات (تحفظ) ایکٹ کی دفعہ ۳۸(وی) یہ بھی کہتی ہے کہ ’’ریاستی حکومت باگھوں کے تحفظ کا منصوبہ تیار کرتے وقت، باگھوں والے جنگلات یا ٹائیگر ریزرو میں رہنے والے لوگوں کے زرعی، معاشی، ترقیاتی اور دیگر مفادات کا خیال رکھے گی۔‘‘
اس کو بھی نظر انداز کر دیا گیا۔ جنگل کے ماحولیاتی نظام سے منسلک آدیواسیوں کے سارتھ پورہ جانے سے ان کی روزی روٹی بری طرح متاثر ہوئی تھی۔ تال گاؤں میں، بابو لال کے کنبے نے تقریباً پانچ ایکڑ زمیں پر اُڑد اور مکئی کی کاشت کی تھی۔ گرمیوں میں دوسرے کنبوں کی طرح وہ بھی مہوا کے پھول (مقامی مشروب کے لیے)، تیندو کے پتے (بیڑی بنانے کے لیے) اور چرونجی کے بیج (عام طور پر کھیر میں استعمال ہوتے ہیں) جمع کرکے فروخت کرتے تھے۔ کوندھر برادری کا روایتی پیشہ کَھیر کے درخت کی کھال کو جمع کرنا اور بیچنا تھا۔ یہ پان کے مسالے کا اہم جزو ہے۔
نقل مکانی نے ان روایتی ذریعہ معاش کو ختم کر دیا۔ اب جب بھی کام دستیاب ہوتا ہے بابو لال کوندھر ۲۰۰ سے ۲۵۰ روپے کما لیتے ہیں۔ وہ تارا کے قریبی گاؤں میں زرعی مزدور کے طور پر یا امن گنج تحصیل میں تعمیراتی مقامات پر کام کرتے ہیں، جہاں ٹھیکیدار روزانہ کی اجرت طے کرتے ہیں۔
بابو لال کی ماں شوبھا کہتی ہیں، ’’ہمارے پاس پہلے جنگل میں تیندو، مہوا، چرونجی، سب کچھ تھا۔ گرمیوں میں ہم انہیں اکٹھا کر کے بیچ دیتے تھے۔ لیکن اب رینجرز ہمیں لکڑیاں تک جمع کرنے کے لیے جنگل میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دیتے۔‘‘
تال گاؤں میں اپنی زرعی زمین کھونے کے بعد بھرت کوندھر اور ان کے دو بھائیوں نے بھی سارتھ پورہ میں پانچ ایکڑ زمین لیز (پٹّہ) پر لی ہے، جہاں اب وہ اُڑد، گندم اور مکئی کی کھیتی کرتے ہیں۔ بھرت کھیتوں کی دیکھ بھال کرتے ہیں اور کام دستیاب ہونے پر امن گنج اور پنا کے قصبوں میں تعمیراتی مقامات پر کام کرنے جاتے ہیں۔ ان کے بھائی مہاجر مزدور ہیں۔ وہ زیادہ تر دہلی اور سونی پت جیسے شہروں میں تعمیراتی مقامات پر کام کرتے ہیں۔ انہیں کی طرح ستمبر میں فصل کی کٹائی کے بعد تال گاؤں کے بہت سے لوگ یومیہ اجرت پر کام کی تلاش میں دوسری ریاستوں میں ہجرت کرتے ہیں۔
سارتھ پورہ کے لوگوں کے لیے ایک اور بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہ بستی کسی پنچایت کے تحت نہیں آتی ہے، حالانکہ باز آبادکاری کے فوراً بعد اسے تارا گاؤں کی پنچایت کے ساتھ ضم کر دیا جانا چاہیے تھا۔ لہٰذا یہاں راشن جیسے بنیادی حقوق دستیاب نہیں ہیں۔ شوبھا رانی کے پاس اپنے کنبے کا پرانا راشن کارڈ ہے، جو ۲۰۰۹ میں جاری کیا گیا تھا۔ وہ کہتی ہیں، ’’ہمیں حکومت کی جانب سے نو سالوں سے کبھی کوئی راشن نہیں ملا۔‘‘ انہیں دیگر اشیاء کے ساتھ ہر ماہ فی شخص پانچ کلو گندم اور چاول ملنا چاہیے۔ لیکن یہاں کے لوگ امن گنج کے بازار سے راشن خریدتے ہیں، جس سے ان کی معمولی کمائی پر بہت بڑا بوجھ پڑتا ہے۔ شوبھا رانی مزید کہتی ہیں، ’’میں نے [راشن کارڈ کے لیے] کئی بار فارم بھرا، لیکن اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ اس کا کچھ نہیں ہوتا۔‘‘
کسی پنچایت کا حصّہ نہیں ہونے کا مطلب یہ بھی ہے کہ سارتھ پورہ کو آنگن واڑی سے ملنے والی پنجیری (صفر سے ۵ سال کے بچوں کے لیے اضافی خوراک کے پیکٹ) نہیں ملے گی۔ تارا کی سرپنچ گیتا آدیواسی (وہ اپنی کنیت اسی طرح استعمال کرنا پسند کرتی ہیں) کہتی ہیں۔، ’’تال گاؤں کے بچوں کے لیے ابھی تک کوئی بجٹ مختص نہیں کیا گیا ہے۔ کبھی کبھار جب پنجیری کے پیکٹ زائد تعداد میں دستیاب ہوتے ہیں، تو ہم انہیں دے دیتے ہیں۔ بصورت دیگر ہمارے پاس انہیں دینے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔‘‘
سارتھ پورہ کے زیادہ تر بچے دوری کی وجہ سے آنگن واڑی میں بھی نہیں جاتے ہیں۔ یہ آنگن واڑی تارا گاؤں میں ہے، جو تقریباً ۵ء۱ کلومیٹر دور ہے۔ کچھ بڑے بچے وہاں اسکول جاتے ہیں، لیکن تعلیم کو بڑا نقصان پہنچا ہے۔
بھرت کی ماں پیاری بائی کوندھر ۵۰ سال کی ہیں (اوپر کی تصویر میں، سارتھ پورہ میں اپنے گھر کے باہر اپنے پوتے پوتیوں کے ساتھ)۔ اپنی بستی کے اختتام پر ایک خالی پلاٹ کی طرف اشارہ کرتی ہیں اور کہتی ہیں ’’یہ وہ جگہ ہے جہاں اگر میں سرپنچ بنوں گی تو آنگن واڑی بناؤں گی۔‘‘
دریں اثنا، سارتھ پورہ کے لوگوں کی روزمرہ کی زندگیوں پر بے دخلی کے سائے منڈلاتے رہتے ہیں ، بالکل اسی طرح جیسا کہ جنگل میں ان کے آبائی گاؤں کی یادیں ان کی ذہنوں میں ہیں۔
مترجم: شفیق عالم